Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں ہم ان کو ٹھہر ٹھہر کر ایسا پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی
ترکیب : والذین الخ مبتداء سنستدرجہم خبر من حیث اس سے متعلق املی مبتداء محذوف کی خبر اے انا املی اور ممکن ہے کہ نستدرج پر معطوف ہو کیدی اسم ان متین خبر مابصاحبھم مانا فیہ اور کلام میں حذف تقدیرہ اولم یتفکروا فی قلوبہم مابہ جنۃ اور ممکن ہے کہ ما استفہام کے لئے ہو اور ممکن ہے کہ بمعنی الذی ہو۔ وان عسٰی جائز ہے کہ ان مخففہ ہو مثقلہ سے اور مصدریہ بھی ہوسکتا ہے اور دونوں صورتوں میں محل جر میں ہے عطفا علی ملکوت ان یکون عسٰی کا فاعل اور یکون کا فاعل ضمیر اور قد اقترب الخ خبر۔ تفسیر : پہلی آیتوں میں یہ کہہ کہ ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جن و انسان پیدا کئے ہیں۔ اخیر میں یہ بھی فرمایا تھا وممن خلقنا امۃ یہدون بالحق وبہ یعدلون کہ ہماری مخلوق میں سے نیک اور حق پسند بھی ہیں یعنی جنت کے لئے مخلوق ہوئی ہے۔ اب یہاں یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ وہ ازلی جہنمی جو ہماری آیتیں جھٹلایا کرتے ہیں۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ ہم دنیا میں فوراً ان سے مؤاخذہ کریں تاکہ جہنمی اور جنتی کی یہ پہچان ہو کہ جس پر دنیا میں سختی ہے وہ جہنمی اور عتاب الٰہی میں گرفتار ہے اور جو مرفہ الحال ہے وہ اس کے نزدیک محبوب ہے۔ سنستدرجہم من حیث لایعلمون ان کو دنیا میں باوجود گناہ اور کفر کے نعمت و عیش ہر قسم کی کامیابی میں رکھ کر دفعۃً پکڑ لیں گے یعنی ایسی حالت ناز و نعیم میں ہوگا کہ موت آجائے گی یا تو یہاں عیش و عزت میں تھا یا دفعۃً وہاں عذاب و ذلت میں جا پڑا یا دنیاوی ناگہانی میں گرفتار کیا جاوے کہ جس کی اس کو خبر بھی نہ ہو۔ یہاں تک ان لوگوں کے قصور فہم کا بیان تھا جو اپنی ازلی گمراہی کی وجہ سے اس کے دلائل میں غور و فکر نہیں کرتے۔ اب یہاں سے ان کے بیہودہ شبہات کا جواب ہے جو وہ معلم روحانی سرور کائنات (علیہ السلام) پر کرتے تھے۔ منجملہ ان کے یہ تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو دیوانہ کہتے تھے۔ اول تو اس وجہ سے کہ آپ کے افعال ان کے افعال کے برخلاف تھے۔ دنیا ومافیہا کو چھوڑ کر طالب مولا ہونا اور لذائذِ دنیا پر لات مارنا اور قوم کی تکالیف پر تحمل کرکے شب و روز ان کی رہنمائی کی فکر میں رہنا البتہ دنیا داروں کی نظروں میں جنوں ہے۔ دوم تمام مرادیں اور کل دلی خواہشوں کی کامیابی دار آخرت پر محمول کرنا اور بھی دیوانگی معلوم ہوتی تھی۔ اس لئے فرماتا ہے اولم یتفکروا ما بصاحبہم من جنۃ الخ حالانکہ آپ کا عاقل ہونا بھی مسلم تھا۔ وہ بات کہ جس سے آنحضرت ﷺ کو دیوانہ کہتے تھے سب سے بڑھ کر تعلیم توحید تھی۔ اس لئے فرماتا ہے اولم ینظروا الخ کہ توحید کے امر میں تم آسمان اور زمین کی بادشاہت کو دیکھو بلکہ ہر چیز میں غور کرو۔ غور کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کائنات اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ایک ذرہ کے حالات میں بھی غور کیجئے گا تو وہ سینکڑوں زبان سے اس کی یکتائی کی گواہی دے گا۔ جب توحید و نبوت برحق ہیں تو اپنی بےثباتی کی طرف بھی دیکھو کہ دفعۃً اجل نہ آجائے۔ پھر سعادت حاصل 1 ؎ لاستدراج استفعال من الدرجۃ بمعنی الاستنزال درجۃ بعد درجۃ الامہال و اطال المدۃ و نقیضہ الاعجال الملی زمان مان طویل من الدہر دمنہ قولہ واہجرنی مل یا ای طویلا و یقال ملوۃ و ملاوۃ من الدھر اے زمان طویل فمعنی واملی لھم ای امھلھم واململ لھم مدۃ عمر ھم لتیمادوا فی المعاصی ولا اعاجلھم بالعقوبۃ۔ 12 ابو محمد عبدالحق ؎ یعنی پیغمبر 12 کرنے کا کونسا زمانہ آئے گا۔ اصل یہ ہے کہ جس کو وہ گمراہ کرے کون ہدایت دے سکے۔
Top