Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو ، ہم عنقریب آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں ان کو خبر بھی نہ ہوگی
ربط آیات گزشتہ درس میں عہدو یمان توڑنے والوں کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کا بیان کیا نیز فرمایا کہ جو لوگ غفلت اختیار کرتے ہیں اس کا نتیجہ بالا نتہا جہنم ہوگا پھر اللہ نے توحید اور ایمان کے سلسلے میں اللہ کے اسمائے پاک اور صفات کے ساتھ اسے پکارنے کا حکم دیا اور اس میں کجی کرنے سے منع فرمایا کیونکہ کجی کرنے والے مجرم ہوں گے اللہ تعالیٰ کے خاص ناموں کو اللہ کے علاوہ کسی غیر پر بولنے ان کا غلط مطلب لینے اور غلط مقام پر استعمال کرنے سے بھی منع فرمایا کہ ایسا کرنا جرم ہے پھر اللہ نے آخری امت کے لوگوں کی توصیف فرمائی کہ اس امت میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو راہ حق کی ہدایت دیتے رہیں گے اور اسی کے مطابق انصاف کریں گے فرمایا یہ امت حق پرست لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوگی۔ مکذبیں کی بتدریج گرفت آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے مکذبیں اور ان کے لیے سزا کا ذکر کیا اور ساتھ ساتھ مسئلہ رسالت بھی بیان فرمایا ہے پھر آگے معاد یعنی قیامت کا ذکر بھی آئے گا اس سورة کے آخر میں اللہ نے تمام مرکزی مضامین کا اعادہ فرمایا ہے مکذبین کے سلسلے میں ارشاد ہوتا ہے والذین کذبو بایتنا وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا آیتا سے مراد احکام بھی ہیں معجزات بھی اور دلائل بھی ، اللہ تعالیٰ نے جو کتاب نازل فرمائی ہے یا جو دین اور شریعت اپنے پیغمبر کو عطا کی ہے جو لوگ ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا سنستدرجھم ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ پکڑیں گے بعض اوقات اللہ کی گرفت یکدم بھی آجاتی ہے مگر اس کا عام قانون یہی ہے کہ وہ یکدم گرفت یکدم بھی آجاتی ہے مگر اس کا عام قانون یہی ہے کہ وہ یکدم گرفت نہیں کرتا بلکہ ابتداء میں مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب یہ مہلت پوری ہوجاتی تو اس کی گرفت آجاتی ہے اور یہ گرفت ایسی جگہ سے آتی ہے من حیث لا یعلمون جہاں سے انہیں علم ہی نہیں ہوتا ان کی توقع کے برخلاف ان کی سرکوبی کے لیے کوئی نامعلوم دروازہ کھل جاتا ہے اور وہ سزا میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ استد راج کے معانی استد راج کا لغوی معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ آگے بڑھانا یا مہلت دے کر گرفت کرنا ہے اور اس آیت میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے تاہم خرق عادت اشیاء کے ظہور کے ضمن میں یہ لفظ اصطلاحی مفہوم بھی رکھتا ہے یہ بیان پہلے گزر چکا ہے کہ اگر کوئی خرق عبادت چیز نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ کہا جاتا ہے اور اگر نبوت سے پہلے کوئی چیز ظاہر ہو تو اسے ارہاص کہتے ہیں نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والا فعل اس کا ذاتی فعل نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے اس کی مشیت اور ارادے سے ایسا واقع ہوتا ہے اور اگر نبی کے علاوہ کسی دیگر اہل ایمان کے ہاتھ پر عادت کے خلاف کوئی چیز ظاہر ہو تو اسے کرامت کہتے ہیں بعض اوقات مجذدبوں یا مجنونوں کے ہاتھ پر بھی کوئی خسرق عادات چیز ظاہر ہوجاتی ہے ایسی چیز کو مونت کہا جاتا ہے۔ صاحب سلک السلوک نے لکھا ہے کہ اگر کافر کے ہاتھ پر کوئی ایسی چیز ظاہر ہوجائے جو عادت کے خلاف ہو تو پھر اگر وہ چیز کافر کے مقصد کے مطابق ہے تو اسے استد راج کہیں گے جیسے قرب قیامت میں دجال کے ہاتھ پر ایسی بہت سی چیزیں ظاہر ہوں گی جنہیں دیکھ کر بڑے بڑے سائنسدان بھی دنگ رہ جائیں گے اور اگر کافر کے ہاتھ پر خرق عادت ظاہر ہونے والی چیز اس کی مرضی کے خلاف ہو جیسے بلعم بن باعور کے واقعہ ہے تو ایسی چیز کو اہانت کہتے ہیں سحر یا جادو بھی اسی قسم کی چیز ہے جو کافر یا غیر شرع لوگ کرتے ہیں سحر کرنے سے بھی بعض غیر معمولی چیزیں پیش آجاتی ہیں بہرحال استد راج اصطلاحی طور پر ایسی خرق عادت چیز کو کہتے ہیں جو کسی کافر کے ہاتھ پر ظاہر ہوتا ہم اس کا لفظ معنی آہستہ آہستہ مہلت دے کر گرفت کرنا ہے اور اس مقام پر یہی مطلب ہے۔ فرمایا واملی لھم میں مہلت یا ڈھیل دیتا ہوں ان لوگوں کو کیونکہ ان کسیدی متین میری تدبیر مضبوط ہے میری تدبیر سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا جب چاہوں گا پکڑیوں گا سورة بروج میں موجود ہے ان بطش ربک لشدید تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے مکر اور کید ہم معنی الفاظ ہیں اور معنی تدبیر ہے تاہم مکر مخفی تدبیر کو کہتے ہیں تو فرمایا میری تدبیر ہر چیز پر حاوی ہے تاہم مجرموں کو بعض اوقات فوری گرفت نہیں کی جاتی بلکہ انہیں دنیا میں عیش و عشرت کا موقع دیا جاتا ہے ان پر ہر قسم کی فراوانی کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور وہ لوگ دلیر ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بہت اچھے ہیں ہم پر اللہ تعالیٰ راضی ہے مگر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر ان کو گرفت میں لاتا ہے کہ مجرموں کو پتہ بھی نہیں چلتا بعض اوقات بعض لوگ دنیا کی زندگی میں گرفت سے بچے رہتے ہیں ایسے لوگ مرنے کے بعد اللہ کی پکڑ میں آتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کو کس وقت اور کس طرح پکڑنا ہے تاہم وہ تکذیب کرنے والے مجرموں کو چھوڑتا نہیں اور کسی نہ کسی وقت انہیں سزا میں ضرور مبتلا کرتا ہے۔ تصدیق رسالت آگے اللہ تعالیٰ نے رسالت کے باب میں مشرکین کا شکوہ بیان کیا ہے ارشاد ہوتا ہے اولم یتفکروا کیا ان لوگوں نے غور وفکر رفیق میں کوئی جنون نہیں ہے یہاں پر صاحب سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مبارکہ ہے آپ کی ذات کے لیے یہ لفظ قرآن پاک کے دوسرے مقامات پر بھی آیا ہے جیسے ” ماضل صاحبکم وما غویٰ “ (النجم) تمہارے رفیق (محمد ) ﷺ نہ راستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں وما صاحبکم بمجنون (التکوی) تمہارے رفیق یعنی محمد ﷺ مجنون نہیں ہیں غرضیکہ ضاحب کا معنی رفیق اور ساتھی ہے اور مکہ والوں کو بار بار یاد دلایا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ﷺ تمہارے خاندان اور برادری کے فرد ہیں تم ان کے حالات سے بخوبی واقف ہو سورة یونس میں خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا ” فقد لبثت فیکم عمواً من قبلہ ، افلا تعقلون “ میں نے تمہارے درمیان چالیس سالہ زندگی کا حصہ گزارا ہے تم میری زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہو پھر تمہیں اتنی بھی عقل نہیں کہ حق اور باطل میں تمیز کرسکو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چالیس سال تک تو میں صادق اور امین رہوں اور پھر یکدم خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنے لگوں۔ تو صاحب کے لفظ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ مشرکین ! تم حضور ﷺ کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہو ، تم آپ کے اخلاق و کردار سے واقف ہو اور خوب جانتے ہو کہ آپ (العیاذ باللہ) مجنون نہیں ہیں مجنون کا دماغ تو خراب ہوتا ہے اور وہ کوئی ٹھیک بات نہیں کرتا مگر حضور خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام تو علم و حکمت کے دریا بہا رہے ہیں بھلا آپ کیسے مجنون ہوسکتے ہیں ؟ فرمایا ان ھوالا نذیر مبین آپ تو اللہ کی گرفت سے واضح طور پر ڈرانے والے ہیں آپ ہمیں اچھی طرح سمجھا رہے ہیں کہ اگر اللہ کی وحدانیت کا انکار کرو گے اس کی آیات کی تکذیب کرو گے تو ضرور پکڑے جائوگے اور عذاب میں مبتلا ہوگے اللہ تعالیٰ نے یہ رسالت کا مسئلہ بھی بیان کردیا۔ غورو فکر کی دعوت آگے اللہ تعالیٰ نے غور وفکر کی دعوت دی ہے کہ دیکھو ! اگر انسان غور و فکر کرے اپنے دماغ ، عقل اور دل کو بروئے کار لائے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بھی سمجھ میں آجاتی ہے اور قیامت کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے ارشاد ہوتا ہے اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض کیا انہوں نے نہیں دیکھا ، آسمان و زمین کی سلطنت میں وما خلق اللہ من شی اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے پیدا کی ہے مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ زمین و آسمان جیسی بڑی بڑی اشیا اور دیگر چھوٹی سے چھوٹی مصنوعات میں غور کرتے تو آیات الٰہی کا انکار کرتے اور نہ ہی نبی (علیہ السلام) کو معاذ اللہ دیوانہ کہتے مگر افسوس کہ لوگ غور و فکر سے کام نہیں لیتے ایسے لوگوں کی حالت پہلے بیان ہوچکی ہے لھم قلوب لا یفقھون بھا ان کے دل ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں کان ہیں مگر سنتے نہیں یہ سب چیزیں غورو فکر کے فقدان پر دلالت کرتی ہیں ؎ ففی کل شئی لہ ایۃ تدل علیٰ انہ واجد ہر چیز میں دلائل قدرت موجود ہیں جن میں غورو فکر کرنے سے اس مالک الملک کی وحدانیت سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے جس کی قدرت تامہ اور حکمت بالغہ کے ذریعے ان تمام چیزوں کا ظہور ہوا ہے اس کے سوا ان اشیاء کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے اسی غوروفکر کے نتیجے میں معاذ یعنی قیامت کی سمجھ بھی آتی ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ لوگ نہ تو عالم بالا کی چیزوں میں غوروفکر کرتے ہیں اور نہ عالم دیریں کی چیزوں میں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ معراج کے موقع پر جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو کچھ عجیب و غریب چیزیں دیکھیں میں نے بادل ، گرج اور چمک دیکھی دوسری روایت میں سمندر کا ذکر بھی ملتا ہے پھر آگے گیا تو کچھ ایسے لوگ دیکھے جن کے پیٹ بہت بڑے بڑے تھے بطور نھم کالبیوت کے لفظ آتے ہیں کہ ان کے پیٹ مکانوں جیتنے بڑے بڑے تھے اور ان پیٹوں میں بڑے بڑے سانپ تھے حضور فرماتے ہیں کہ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں تو بتایا گیا کہ یہ سود خور ہیں سود خود بڑا حریض آدمی ہوتا ہے اس میں پاکیزہ جذبات کے بجائے شیطانی جذبات بڑھتے رہتے ہیں انسانی ہمدردی ختم ہوجاتی ہے بحیثییت قوم یہود اور ہنود دونوں سود خور قومیں ہیں یہ بڑے سنگدل لوگ ہوتے ہیں یہود کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا گیا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا بھی سخت رکھی ہے اسی حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب میں آسمان دنیا پر واپس آیا تو نیچے میں نے بڑا دھواں اور گردوغبار دیکھا جس کی وجہ سے اندھیرا چھایا ہوا تھا میں نے اس کے متعلق جبریل (علیہ السلام) سے دریافت کیا تو اس نے بتایا ھولاء شیطین یہ شیطان ہیں جو انسانوں کے سامنے چھائے ہوئے ہیں تاکہ یہ آسمان و زمین کے دلائل قدرت میں غوروفکر نہ کرسکیں نشانات قدرت اور انسانوں کے درمیان شیاطین حائل ہیں جس کی وجہ سے انسان غورو فکر نہیں کرپاتے اگر انسان غوروفکر کرتے تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معاذ کو جان لیتے۔ موت سے چشم پوشی فرمایا کہ انہوں نے زمین و آسمان کی سلطنت پر غور نہیں کیا وان عسیٰ ان یکون قد اقترب اجلھم اور اس بات پر بھی کہ شاید ان کے وعدے کا وقت قریب ہی ہو وعدے کے وقت سے مراد مجرمین کی گرفت کا وقت بھی ہوسکتا ہے اور زندگی کے اختتام کا وقت بھی مطلب یہ ہے کہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اس حیقیقت کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے کہ ان کی زندگی کسی وقت بھی ختم ہوسکتی ہے روزمرہ کے مشاہدات ہمارے سامنے ہیں کہ کوئی شخص بالکل تندرست ہوتا ہے کھاتا ، پیتا ، کھیلتا کودتا ہے مگر موت کا وقت اچانک آجاتا ہے اور اس کے تمام پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں انسانوں کی انفرادی موت کی طرح اقوام کی مجموعی موت بھی ایسے ہی واقع ہوجاتی ہے اور پھر ان کی گرفت ہوجاتی ہے لوگ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک ہوتے ہیں دنیا بھر کے فیصلے کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ڈھیل دیتے رہتے ہیں مگر جب ان کا مقررہ وقت آجاتا ہے تو پھر ان کی ساری نعمتیں چھن جاتی ہیں وہ ناشکری کی پاداش میں ذلیل و خوار اور مغلوب ہو کر رہ جاتے ہیں اور پوری پوری قوموں کی ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔ اس وقت مسلمان بھی دنیا میں عمومی گرفت میں ہیں چھوٹی چھوٹی پچاس قومی حکومتیں موجود ہیں مگر بحیثیت مجموعی سلطنت عامہ کی نعمت چھن چکی ہے کافر قوموں نے سازش کے ذریعے ترکی خلافت کو ختم کیا اور اب پوری دنیا میں مسلمان روس اور امریکہ کے کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں کسی ملک میں یہ ہمت نہیں کہ ان سپر طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں جب اہل اسلام اپنے مشن سے ہٹ گئے احکام الٰہی سے غفلت اختیار کرلی تو ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے آج کل مسلم ریاستیں اس قدر بےاثر ہوچکی ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے برسر پیکار ملکوں کے درمیان صلح نہیں کرا سکتے ان سے کیا توقع کی جاسکتی ان کا کام کھیل تماشے ، عیاشی اور آرام طلبی کے سوا کچھ نہیں رہا مسلمان معاشی معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے تباہ ہوچکے ہیں اخلاق تباہ ہوچکے ہیں تعلیم کے لحاظ سے پس ماندہ ہیں لوگ کافر اور عیسائی بنتے جا رہے ہیں مگر دعویٰ یہ ہے کہ ہم ترقی کر رے ہیں یہ سب کچھ غوروفکر کے فقدان کا نتیجہ ہے اللہ نے فرمایا شاید کہ ان کے وعدے کا وقت قریب ہو اور یہ غفلت میں پڑے ہوئے ہوں۔ اللہ کا آخری پروگرام فرمایا اللہ نے اپنا آخری دین مکمل کردیا ہے آخری شریعت آچکی ہے آخری نبی آچکا ہے اور قرآن پاک کی صورت میں آخری پروگرام آچکا ہے اگر اب بھی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اللہ کے اس آخری پروگرام کو اپنانے کے لیے تیار نہیں فبای حدیث بعدہ یومنون تو پھر اس کے بعد کس بات پر ایمان لائیں گے اب نہ تو کوئی نبی آئے گا نہ دین ، نہ شریعت اور نہ کتاب اب یہ کس پروگرام کے انتظار میں ہیں جب یہ سلسلہ ہدایت اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے شروع کیا تھا تو اسی وقت فرما دیا تھا کہ میری طرف سے وقتاً فوقتاً تمہارے پاس ہدایت کا پروگرام آئے گا۔ فمن تبع ھدی فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون (بقرہ) جس نے میری ہدایت کا تباع کیا وہ آگے چل کر مامون ہوگا اور اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں انبیاء مبعوث فرمائے ، کتابیں نازل کیں ، شریعتیں دیں اور پھر آخر میں قرآن پاک نازل کرکے اعلان فرما دیا۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتمقت علیکم نعمتی (المائدۃ) آج میں نے تمہارے لیے دین مکمل کردیا اپنی نعمت پوری کردی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے اب اس کے بعد کوئی نئی ہدایت ، کوئی نیا پروگرام نہیں آئے گا اب تو محاسبے کے لیے قیامت ہی آئے گی چناچہ قرآن پاک کا تقریباً تیسرا حصہ قیامت کے واقعات پر مشتمل ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر تم قرآن پاک پر ایمان نہیں لاتے اس کے پروگرام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں تو پھر اس بعد کونسا پروگرام اور کون سی ہدایت آئے گی جس پر ایمان لے آئو گے۔ ہدایت بدست خدا فرمایا حقیقت یہ ہے کہ من یضلل اللہ فلا ھادی لہ جس کو اللہ تعالیٰ اس کی سوء استعداد ، ضد اور عناد کی وجہ سے گمراہ کردے اس کو ہدایت دینے والا کوئی نہیں ہے اللہ کی ہدایت کے سوا ہدایت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے پھر جب لوگ سرکش ہوجاتے ہیں اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے تو پھر اللہ کا قانون بھی ہے ویذرھم کہ وہ ان کو چھوڑ دیتا ہے فی طغیانھم یعمھون وہ اپنی سرکشی میں ہی سرگردان رہتے ہیں اور بالآخر و اپنے انجام کو پہنچ کر گرفتار عذاب ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جہالت کی تاریکیوں میں سرگرداں رہنے کے لیے مہلت دے دیتا ہے وہ وہیں بھٹکتے رہتے ہیں اچھی باتوں کو برا اور بری باتوں کو اچھا سمجھتے رہتے ہیں انبیاء کی تکذیب کرتے رہتے ہیں اور شیطان کا اتباع کرتے ہیں قیامت کے متعلق شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور آخرت کے لیے کوئی تیاری نہیں کرتے بالآخر ان کے وعدے کا وقت آجاتا ہے اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کی تصدیق بھی کردی ہے اور توحید کے بارے میں غوروفکر کی دعوت بھی دے دی ہے آگے مستقل طور پر قیامت کا ذکر فرمایا ہے۔
Top