Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ghaafir : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
لہٰذا جہاں تک تمہارے بس میں ہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، اور سنو اور اطاعت کرو ، اور اپنے مال خرچ کرو ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاں پانے والے ہیں
اب اہل ایمان کو ان کی طاقت اور استطاعت کے مطابق ، اللہ سے ڈرنے اور سمع و اطاعت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ فاتقوا .................... واطیعوا (46 : 61) ” لہٰذاجہاں تک تمہارے بس میں ہو ، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور اطاعت کرو “۔ یہ شرط کہ ” جہاں تک تمہارے بس میں ہو “۔ یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر بہت بڑا رحم وکرم ہے۔ اللہ کو علم ہے کہ بندے کے اندر کتنی طاقت ہے۔ کس قدر تقویٰ اور اطاعت وہ کرسکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اس کی تعمیل اس حد تک کرو جس حد تک تمہارے بس میں ہو۔ لیکن میں جس بات سے منع کردوں تو پوری طرح رک جاﺅ“۔ اطاعت امر کی تو حدود نہیں اس لئے اس میں حکم بقدر استطاعت ہے۔ رہی نہی تو اس پر پورا پورا عمل کرنا ہوگا ، بغیر نقصان کے اور بغیر کمی کے۔ اس کے بعدان کو انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ وانفقوا خیر الا نفسکم (46 : 61) ” اور اپنے مال خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے “۔ یہ جو کوئی خرچ کرتا ہے تو یہ دراصل اپنے لئے کرتا ہے۔ یہ حکم دیتا ہے کہ اس کام کو اپنے لئے کرو ، گویا وہ خود اپنے اوپر خرچ کرتے ہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ گویا یہ بھی تم اپنے اوپر خرچ کرتے ہو۔ اب اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو بتاتا ہے کہ انفاق کی راہ میں رکاوٹ بخیلی اور دل کی تنگی ہے اور یہ ایک ایسی مصیبت ہے جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔ سعادت مند وہ ہے جو اس بخل سے نجات پا گیا۔ اور جو اس سے بچا لیا گیا وہ سمجھ جائے کہ اس پر فضل وکرم ہوگیا ہے اور وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ ومن یوق شح نفسہ .................... المفلحون (46 : 61) ” جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاں پانے والے ہیں “۔ اس کے بعدان کو انفاق اور اللہ کی راہ میں مزید خرچ کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے اور ان کے دلوں میں انفاق کو محبوب بنانے کے لئے ، انفاق کو قرض حسن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور قرض حسن بھی ایک غلام سے اس کا آقا مانگ رہا ہے۔ قرض لے کر وہ کئی گنا کرکے دیتا ہے۔ اور قرض دینے والے کا شکر بھی ادا کرتا ہے اور تمہاری کوتاہیوں کو بھی معاف کرتا ہے۔ اور اللہ انسان کو کوتاہیوں کو دیکھ کر بہت ہی حلم سے کام لیتا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ ہی تو ہے۔
Top