بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
2 اے ایمان والو3 پورا کرو عہدوں کو حلال ہوئے تمہارے لئے چوپائے4 مویشی سوائے ان کے جو تم کو آگے سنائے جاویں گے5 مگر6 حلال نہ جانو شکار کو احرام کی حالت میں7 اللہ حکم کرتا ہے جو چاہے
2 حصہ اول۔ 1 ۔ شرک فعلی کی نفی۔ 2 ۔ شرک اعتقادی (شرک فی التصرف) کی نفی سورت کی ابتداء سے سورت کے پہلے حصے کی ابتداء ہوتی ہے یہ حصہ رکوع 6 میں وَاللہُ عَلیٰ کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ پر ختم ہوتا ہے اس حصے میں شرک کی دو قسموں یعنی شرک فعلی اور شرک اعتقادی کا رد ہے۔ شروع سے لیکر رکوع 3 میں وَ سَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ تک میں نفی شرک فعلی کا مضمون مذکور ہے اور اس کے متصل بعد یَا اَھْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاء کُمْ رَسُوْلُنَا الخ سے لیکر حصہ اول کے آخر تک شرک فی التصرف کی نفی کا بیان ہے۔ 3 العقود، عقد کی جمع ہے جس کے معنی اصل لغت میں مضبوطی سے گرہ باندھنے کے ہیں لیکن بطور استعارہ یہ لفظ پختہ اور مضبوط عہد و پیمان باندھنے اور خریدو فروخت وغیرہ معاملات کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ اس آیت میں عقود سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں۔ بعض نے اسلام سے پہلے کے عہد و پیمان اور قسمیں مراد لی ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس سے بیع و شراء اور نکاح وغیرہ کے عقود مراد ہیں۔ بعض نے اس کے ساتھ آپس میں کیے گئے وعدے بھی شامل کیے ہیں۔ پھر بعض مفسرین نے اس آیت کو مومنین اہل کتاب کے ساتھ مختص کیا ہے اور عقود سے وہ میثاق مراد لیا ہے جو تورات اور انجیل میں آنحضرت ﷺ کی تصدیق اور آپ کی تائید کرنے کے بارے میں ان سے لیا گیا تھا۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر ج 6 ص 28 و قرطبی ج 6 ص 32 اور روح المعانی ج 6 ص 48 وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مگر ان تمام صورتوں میں اس جملے کا مابعد سے کوئی واضح تعلق اور ربط سمجھ میں نہیں آتا اور یہ جملہ ما بعد سے بےجوڑ سا معلوم ہوتا ہے لیکن محققین کے نزدیک اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عام ہے اور اس سے تمام مومنین مراد ہیں خواہ وہ اہل کتاب سے ایمان لائے ہوں یا مشرکین عرب سے۔ قال ابن جریج ھو خاص باھل الکتٰب و فیھم نزلت و قیلھی عامۃ و ھو الصحیح (قرطبی) اسی طرح محقق مفسرین جن کے سرخیل حضرت عبداللہ بن عباس ہیں، کی رائے یہ ہے کہ عقود سے وہ تمام فرائض و واجبات حلال و حرام کی تمام حدود، اسلام کے باقی تمام احکام اور معاملات کے عقود مراد ہیں، جن کی پابندی اور جن کو پورا کرنے کا ہر شخص قبول اسلام یا حد بلوغ کو پہنچتے وقت اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے علامہ خازن یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللہِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاق (بقرہ رکوع 3) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ای عھدا ابرمہ اللہ تعالیٰ واحکم بما انزل اللہ فی کتابہ من ایاتہ الدالۃ علی توحیدہ (خازن ج 1 ص 37) حضرت شیخ (رح) اسی کو ترجیح دیتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیتوں سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ مثلاً اسی سورت میں رکوع 2 میں ارشاد ہے۔ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ اِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر مسلمانوں کو وہ عہد یاد دلایا جو انہوں نے سَمِعْنَا (ہم نے سن لیا) اور اَطَعْنَا (ہم نے قبول کیا) کہہ کر باندھا تھا۔ نیز یہ مفہوم اجلّہ صحابہ وتابعین سے منقول ہے۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں۔ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ معناہ بما اجل و بما احل و بما حرم و بما فرض و بما حد فی جمیع الاشیاء (قرطبی) اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ یعنی یا ایہا الذین التزمتم بایمانکم انوع العقود والعھود فی اظھار طاعۃ اللہ اوفوا بتکلک العقود (کبیر ج 3 ص 517، نیشا پوری، ج 6 ص 42) المراد بھا ما یعم جمیع ما الزمہ اللہ تعالیٰ عبادہ و عقد علیھم من التکالیف والاحکام الدینیۃ و ما یعقدونہ فیما بینھم من عقود الامانات و المعاملات و نحوھما الخ (روح ج 6 ص 48) شاہ ولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں “ اے مومنان وفا کنید بعہدہا یعنی عہدی کہ با خدا بستہ اید در التزام احکام او ” اس مفہوم کی بنا پر اس کا تعلق اور بط ما بعد سے بالکل واضح ہے اور اس آیت کا یہ حصہ پوری سورت کے لیے بمنزلہ تمہید ہے۔ اس میں فرمایا اے ایمان والو تم نے جو فرائض و واجبات اور حلال و حرام وغیرہ کے احکام کی بجا آوری اور ان کے التزام کا اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے اسے پورا کرو۔ پھر اس کے بعد اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمۃُ الْاَنْعَامِ سے حلال و حرام کے احکام بیان کرنے شروع کردئیے۔ اس سے مقصود شرک فعلی کی نفی ہے۔ 4 ایفائے عقود اور التزامِ احکام کا عام حکم دینے کے بعد چوپایوں کی حلت و حرمت کا ذکر فرمایا جس سے اصل مقصد شرک فعلی کا رد ہے۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب نے بعض حلال چیزوں کو اپنے معبودوں کی تعظیم اور خوشنودی کے لیے محض اپنے ظن اور تخمین سے حرام کر رکھا تھا۔ مشرکین نے اس نوع کے جو چوپائے حرام کر رکھے تھے وہ ان کے یہاں بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام سے مشہور و معروف تھے۔ جن کا تفصیلی ذکر سورة مائدہ کے رکوع 14 میں آرہا ہے۔ ان کے پاس ان کی حرمت پر کوئی دلیل نہیں تھی ان حلال چیزوں کی تحریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر افترا قرار دیا ہے۔ وَ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَھُمُ اللہُ افْتِرَاءً عَلَی اللہِ (انعام رکوع 16) یہود نے اونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔ علی ہذا اسی قسم کی کئی تحریمات نصاریٰ نے تراش رکھی تھیں۔ ان تحریمات کا حکم یہ ہے کہ وہ باطل ہیں، انہیں اٹھانا چاہیے اور ان سے کوئی حلال چیز حرام نہیں ہوتی۔ مذکورہ اشیاء جس طرح مشرکین کی تحریم سے پہلے حلال تھیں اسی طرح اب بھی حلال ہیں۔ چناچہ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمۃ الْاَنْعَامِ میں انہی تحریمات مشرکین یا تحریمات لغیر اللہ کا حکم بیان فرمایا کہ یہ چوپائے تمہارے لیے حلال ہیں ان کو کھاؤ اور انہیں حرام مت سمجھو۔ کانت للعرب سنن فی الانعام من البحیرۃ والسائبۃ والوصیلۃ والحام یاتی بیانھا فنزلت ھذہ الایۃ رافعۃ لتلک الاوھام الخیالیۃ ولآراء الفاسدۃ الباطلۃ (قرطبی ج 6 ص 34) و مقتضی ھذین التاویلین انہ تعالیٰ اراد تحلیل ما حرم اھل الجاھلیۃ علی انفسھم من الانعام کالبحیرۃ والسائبۃ (مظھری ج 3 ص 7) شرک فعلی کے ساتھ شرک اعتقادی بھی ضرور ہوتا ہے کیونکہ جب کسی کے دل میں غیر اللہ کے متعلق یہ اعتقاد پیدا ہوجائے کہ وہ مختار و متصرف اور غیب دان ہے تو پھر اس کی خوشنودی کیلئے وہ حلال چوپایوں کو حرام کردیتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وہ چوپائے حلال ہیں ان کو حلال سمجھو بھی اور ان کو کھاؤ بھی تاکہ شرک اعتقادی اور شرک فعلی دونوں کی جڑ کٹ جائے۔ یہ مضمون قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں مذکور ہے۔ مثلاً ۔ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّباً (بقرہ رکوع 21) ۔ 2 ۔ لَاتُحَرِّإُوْا طَیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللہُ لَکُمْ (مائدۃ رکوع 12) ۔ 3 ۔ مَا جَعَلَ اللہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّ لَا سَائِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّ لَا حَامٍ (مائدۃ رکوع 14) ۔ 4 ۔ قَالُوْا ھٰذِہٖ اَنْعَامٌ وَّ حَرْثٌ حِجْرٌ لَّا یَطْعَمُہٗ اِلَّا مَنْ نَّشَاءُ الخ (انعام رکوع 16) ۔ 5 ۔ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ (اعراف رکوع 4) ۔ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ میں اضافت بیانی ہے۔ و اضاف تھا الی الانعام للبیان کثوب خز ای احل لکم اکل البھیمۃ من الانعام (روح ج 6 ص 49) یعنی تمہارے لیے انعام چوپائے حلال ہیں انہیں کھاؤ کسی کے حرام کرنے سے وہ حرام نہیں ہوسکتے۔ اس سے مراد ابل، بقر اور غنم ہیں جیسا کہ سورة انعام کے رکوع 17 میں تفصیل سے مذکور ہے۔ غیر اللہ کی تحریمات کے مقابلے میں اللہ کی تحریمات ہیں ان کا حکم آیت کے اگلے حصے میں مذکور ہے۔ 5 یہ ماقبل سے استثنا ہے اور اس میں اللہ کی تحریمات کے حکم کی طرف اشارہ ہے کہ ان کو حرام سمجھو اور ان کو مت کھاؤ یعنی تمہارے لیے تمام انعام چوپائے حلال ہیں البتہ ان میں سے جن کا ذکر آگے آرہا ہے وہ حرام ہیں انہیں مت کھاؤ مَایُتْلیٰ سے آیت تحریم مراد ہے جو اسی رکوع میں آگے آرہی ہے۔ ایۃ تحریمہ وھو قولہ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃ الایۃ (مدارک ج 1 ص 208) ۔ 6 یہ دوسرا دعویٰ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی تحریمات کا بیان ہے ان کا حکم یہ ہے ان کو قائم رکھو اور ان کو حلال مت جانو۔ عام مفسرین نے اس کو لَکُمْ کی ضمیر خطاب سے حال قرار دیا ہے اور مقصود احسان جتلانا بیان کیا ہے کہ حالت احرام میں صرف شکار حرام کیا ہے باقی چوپائے حرام نہیں کیے کما فی الکشاف ج 1 ص 412 ۔ اس طرح تحریمات اللہ کا مسئلہ محض طبعی بن کر رہ جائیگا حالانکہ وہ مقصودی مسئلہ ہے اس لیے اسے کُمْ سے حال بنانے کی بجائے کان محذوف کی خبر قرار دیا جائے ای کونوا غیر محلی الصید اور کان کا مع اسم حذف کرنا اور خبر کو باقی رکھنا کلام عرب میں شائع ہے جیسا کہ امام ابن مالک الفیہ میں رقمطراز ہیں یحذفونھا ویبقون الخبر۔ بعدلووان کثیرا اشتھر۔ اس سے معلوم ہوا کہ لَوْ اور اِنْ کے بعد کان کا حذف بکثرت ہوتا ہے اور ان کے علاوہ بھی حذف جائز ہے۔ 7 یہ مُحِلِّی الصَّیْدَ میں ضمیر مستتر سے حال ہے۔ حُرُمٌ، حَرَامٌ کی جمع ہے جس کے معنی محرم یعنی احرام والے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کو حلال مت سمجھو۔ اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ یہ پہلے دونوں دعو وں کی اجمالی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا مالک ہے وہ جو چاہے حکم صادر فرمائے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
Top