Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
حرام ہوا تم پر مردہ جانور11 اور لہو اور گوشت سور کا اور جس جانور پر نام پکارا جائے اللہ کے سوا کسی اور کا اور جو مرگیا ہو گلا گھونٹنے سے12 یا چوٹ سے یا اونچے سے گر کر یا سینگ مارنے سے اور جس کو کھایا ہو درندہ نے مگر جس کو تم نے ذبح کرلیا اور حرام ہے جو ذبح ہوا کسی تھان پر13 اور یہ کہ تقسیم کرو جوئے کے تیروں سے14 یہ گناہ کا کام ہے15 آج ناامید ہوگیے16 کافر تمہارے دین سے سو ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں پورا کرچکا17 تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین پھر جو کوئی لاچار ہوجاوے18 بھوک میں لیکن گناہ پر مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
11 یہ چوتھا دعویٰ ہے اس میں غیر اللہ کی نذر و نیاز اور دیگر محرمات کا ذکر ہے ان کا حکم یہ ہے کہ یہ حرام ہیں ان کی حرمت باقی رکھو اور انہیں مت کھاؤ اَلْمَیْتَۃُ وہ حلال چوپایہ جو شرعی ذبح کے بغیر مرجائے۔ وَالدَّمُ بہتا ہوا خون جو ذبح کے وقت نکلتا ہے۔ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ۔ خنزیر کا گوشت۔ خنزیر نجس العین ہے اور اس کے تمام اجزاء نجس اور ناپاک ہیں اور ان سے انتفاع جائز نہیں۔ گوشت کی تخصیص صرف اس لیے کی گئی ہے کہ جانور کا مقصودی حصہ گوشت ہی ہوتا ہے جب گوشت حرام ہے تو باقی اجزاء بطریق اولیٰ حرام ہوں گے۔ انما خص اللحم بالذکر مع کونہ نجسا بجمیع اجزائہ بالنص والاجماع لانہ معظم المقصود من الحیوان (مظھری ک 3 ص 14) ۔ وَمَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ۔ اُھِلَّ ، اِھْلالٌ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے۔ اہلال کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں۔ واصلہ دفع الصوت۔ چناچہ محاورات میں کہا جاتا ہے اھل الرجل واستھل اذا رفع صوتہ۔ یعنی اس نے آواز بلند کی اسی طرح کہا جاتا ہے۔ اھل المعتمر اذا رفع صوتہ بالتلبیۃ یعنی عمرہ بجا لانے والے نے بلند آواز سے تلبیہ پڑھا (لسان العرب ج 11 ص 70) لِغَیْرِ اللہِ بحذف مضاف ای لتعظیم غیر اللہ اور بِہٖ میں ب بمعنی علیٰ ہے۔ مَا اُھِلَّ الخ مَا سے کیا مراد ہے۔ اس میں تین احتمال ہیں (1) مَا سے وہ چوپایہ مراد ہے جسے غیر اللہ (پیغمبر، ولی، فرشتہ یا جن وغیرہ) کو متصرف و کارساز، غیب دان اور مافوق الاسباب حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر اس کی تعظیم کے پیش نظر اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے نذر و منت کے طور پر متعین اور نامزد کردیا جائے۔ یہ نذر غیر اللہ ہے اور حرام ہے اس طرح وہ جانور حرام ہوجاتا ہے اگر اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا تب بھی وہ حرام ہی رہتا ہے اور حلال نہیں ہوتا اس کا حکم بالکل وہی ہے جو مردار کا ہے۔ نذر غیر اللہ کی حرمت کا مسئلہ قرآن مجید میں مختلف اندازِ بیان کے ساتھ کئی جگہ مذکور ہے۔ مثلاً : 1 ۔ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتۃ وَالدَّمَ وَلَھْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللہِ (بقرہ رکوع 21) ۔ 2 ۔ سورة مائدہ کی زیر بحث آیت میں۔ 3 ۔ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہ (انعام رکوع 18) ۔ 4 ۔ اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیتَۃَ وَالدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بہٖ (نحل رکوع 15) ۔ 5 وَقَال لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا (نساء رکوع 17) ۔ 6 ۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِھِمْ وَ ھٰذَا لِشُرَکَاءِنَا (انعام رکوع 16) ۔ 7 ۔ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْا اَوْلَادَھُمْ سَفَہًا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَحَرَّإُوْا مَا رَزَقَھُمُ اللہُ افْتِرَاءً عَلَی اللہِ (انعام رکوع 16) ۔ 8 ۔ وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰھُمْ (نحل رکوع 7) اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلا کا ارشاد ہے۔ لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ (مظھری ج 3 ص 14) جو شخص غیر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس کی تعظیم بجا لانے کے لیے جانور ذبح کرے وہ ملعون ہے۔ مسند امام احمد میں ہے۔ لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ ای لتعظیم غیر اللہ تفسیر کبیر ج 2 ص 121، تفسیر نیشا پوری ج 2 ص 102 اور فتاوی عزیزی ج 1 ص 56 کی عبارتیں تفسیر جواہر القرآن ص 84 میں منقول ہوچکی ہیں۔ ان عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ جو جانور غیر اللہ کی تعظیم کے لیے نامزد کردیا گیا ہو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ حرمت اور نجاست اس میں اس طرح سرایت کرجاتی ہے کہ اللہ کا نام لیکر ذبح کرنے سے بھی وہ جانور حلال اور پاک نہیں ہوتا اور غیر اللہ کی تعظیم کی نیت سے ذبح کرنے والا شخص بھی مرتد ہوجاتا ہے۔ اب کچھ مزید حوالے ملاحظہ ہوں :۔ مخدوم علی بن احمد مہائمی المتوفی ص 835 ھ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ جو چوپایہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے نامزد کردیا گیا ہو وہ حرام ہے اگرچہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے۔ (وَ مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ) فانہ و ان ذکر معہ اسم اللہ فقد عارض المطھر فیہ المنجس مع نجاستہ بالموت وان لم یذکر فقد زید فی تنجیسہ (تبصیر الرحمن ج 1 ص 178) نذر غیر اللہ کے حرام ہونے کے بارے میں فقہاء کرام کی عبارتیں مقدمہ میں مذکور ہوچکی ہیں انہیں دیکھ لیا جائے (مقدمہ ص 50) نذر غیر اللہ کے بارے میں عہد قریب کے اکابر، علماء اور محققین کا بھی یہی مسلک رہا ہے۔ بعض بزرگوں کے ارشادات ملاحظہ ہوں :۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (رح) فرماتے ہیں :۔ “ جو جانور غیر کے نام کا ہو اس کو اسی نیت سے ذبح کرنا بسم اللہ کہہ کر بھی حرام ہے اور جانور حرام ہی رہتا ہے۔ ایسے جانور کو ذبح نہ کرے اور کسی کا بکرا کہنا بوجہ مالک ہونے کے درست ہے مگر کسی کی تعظیم اور قربت کا کہنا حرام ہے اگر نیت ہو کہ اس کا ثواب لوجہ اللہ کسی کو پہنچے اس میں کچھ حرج نہیں۔ تعظیم غیر پر ذبح سے حرام ہوتا ہے نہ مالک ہونے سے کسی بشر کے، دونوں میں فرق ہے۔ فقط “ بندہ رشید احمد گنگوہی عفی عنہ ” (فتاویٰ رشیدیہ مبوب ص 400) ۔ مولانا عبدالحیی فرنگی محلی (رح) فرماتے ہیں :۔ “ ماہل بہ لغیر اللہ سے مراد وہ جانور ہے جو بقصد تقرب الی غیر اللہ ذبح کیا جاوے اور مقصود اراقۃ الدم سے تعظیم غیر خدا ہو اور جان دینا خاص غیر کے لحاظ سے ہو وے ایسا جانور حرام ہے اگرچہ وقت ذبح کے بسم اللہ اس پر کہی جاوے۔ ذبح لقدوم الامیر و نحوہ کو احد من العظماء یحرم لانہ اھل بہ لغیر اللہ و لو ذکر اسم اللہ علیہ و لو ذبح للضیف لا یحرم۔ انتھی (مجموعہ فتاویٰ ج 2 ص 89) ۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں :۔ “ بزرگوں کی نذر و نیاز کا جانور اگر اس واسطے ذبح کیا جاوے کہ وہ بزرگ ہم سے خوش ہوں اور ہمارا کام کردیں اور ان کو متصرف فی التکوین سمجھے اور ان سے تقرب کے لیے ذبح کرے اور ذبح سے وہی مقصود ہوں چناچہ اس زمانہ میں اکثر جہال کا یہی عقیدہ ہوتا ہے تو یہ عقیدہ رکھنے والا مشرک اور وہ ذبیحہ بالکل حرام ہے، اگرچہ بوقت ذبح اللہ کا نام لیا جاوے۔ و ما اھل بہ لغیر اللہ اور اگر اللہ کے واسطے وہ جانور ذبح کیا اور اللہ کے واسطے دے کر اس کا ثواب کسی بزرگ کی روح کو بخش دیا تو یہ جائز ہے۔ فقط۔ 5 ربیع الثانی 1301 ھ ”(فتاویٰ امدادیہ ج 4 ص 87) مَا کی تفسیر میں دوسرا احتمال یہ ہے جیسا کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے تفسیر عزیزی میں فرمایا ہے کہ مَا عام ہے اور اس کی مراد بھی عام ہے خواہ جانور ہو یا غلہ، مٹھائی ہو یا کوئی اور چیز جو غیر اللہ کے تقرب کے لیے دی جائے سب اس میں شامل ہیں۔ اگر مَا سے صرف ذبیحہ مراد لیا جائے تو پھر اس کے بعد وَمَا ذُبِحَ عَلیَ النُّصُبِ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لہذا جن لوگوں نے مَا سے صرف ذبیحہ مراد لیا ہے انہوں نے مَا اُھِلَّ کی صرف ایک صورت بیان کی ہے جو مشرکین میں اس وقت رائج تھی۔ ورنہ یہ بات وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ جانوروں کے علاوہ غلہ وغیرہ کی نذریں بھی غیر اللہ کے لیے مانتے تھے جیسا کہ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَا مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا الخ سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ سے صرف ذبیحہ مراد ہو اور وَمَا اُھِلَّ سے مراد عام ہو۔ یعنی جانور اور غلہ وغیرہ پہلی اور دوسری دونوں تفسیروں کی صورت میں بِہٖ میں ب کو بمعنی عَلیٰ لینا پڑیگا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مَا عام ہے تو بعض مفسرین نے اس سے صرف ذبیحہ کیوں مراد لیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب کے یہاں لفظ اہلال کا زیادہ تر استعمال مذبوحہ پر ہوتا تھا اس لیے اس کے پیش نظر انہوں نے مَا سے مذبوحہ مراد لیا اس سے ان کا یہ مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مذبوحہ کے علاوہ باقی اشیا سے غیر اللہ کی نیاز جائز ہے بلکہ ان مفسرین کے نزدیک جس طرح جانوروں سے غیر اللہ کی نیاز حرام ہے اسی طرح باقی اشیا غلہ، کپڑا وغیرہ سے بھی حرام ہے۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا کہ آیت کے مفہوم میں ایک تیسرا احتمال بھی ہے۔ وہ یہ کہ مَا سے مراد وہ کلام ہو جس سے غیر اللہ کے تقرب کے لیے جانور نامزد کیا گیا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا کلمہ بھی حرام اور مشرکانہ ہے جسے غیر اللہ کی نذر و منت مانتے وقت بلند کیا جائے۔ حاصل مطلب اس کا بھی وہی ہوگا جو حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) نے لکھا ہے اس صورت میں بِہٖ کی ب اپنے اصل پر رہیگی اور اسے علی کے معنی میں لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے اھللت بالتلبیۃ واھللت بالتسمیۃ علی الذبیحۃ صراح میں اھل ؟ ذا رفع صوتہ بالتلبیۃ و بالتسمیۃ علی الذبیحۃ جیسا کہ پہلے لسان العرب سے منقول ہوچکا ہے فمجرور الباء ھو لفظ یرفع بہ الصوت ای اسم اللہ مثلاً فالمراد من قولہ تعالیٰ وَمَا اُھِلَّ ای لفظ رفع بہ الصوت لتعظیم غیر اللہ والتقرب الیہ۔ حاصل یہ کہ اس کلام سے تکلم اور اس قول کا تلفظ ہی حرام کردیا۔ جس سے غیر اللہ کا تقرب مقصود ہو اور اسی وجہ سے ہر وہ چیز بھی حرام ہوگی جس سے غیر اللہ کا تقرب مطلوب ہو۔ اور بعینہ اِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ (انعام رکوع 18) میں فِسْقًا سے بھی کلمہ تقرب ہی مراد ہے جس کے ذریعے غیر اللہ کی نذر و منت مانی جائے۔ تنبیہ : بعض علماء اسلام نے لکھا ہے کہ اولیائے کرام کی نذریں حلال ہیں، حرام نہیں ہیں۔ اس کا مطلب سمجھنے میں بہت سے لوگوں کو دھوکہ ہوا ہے۔ جن علماء نے یہ لکھا ہے کہ اولیائے کرام کی نذریں حلال ہیں ان کی مراد یہ ہے کہ جو مسلمان اولیاء اللہ کی نذریں مانتے ہیں وہ ان کو نہ غیب داں سمجھتے ہیں، نہ مافوق الاسباب متصرف و مختار اور نہ ان کو حاجات میں غائبانہ پکارتے ہیں اور نہ ان نذروں سے اولیاء اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے بلکہ ان نذروں سے ان کا مقصد اللہ کی عبادت اور اس کی رضاجوئی ہوتا ہے اور اولیاء اللہ کی ارواح کو ایصالِ ثواب مقصود ہوتا ہے اس مسئلہ میں کوئی جھگڑا نہیں یہ بالاتفاق جائز ہے لیکن اس نیت کے باوجود اسے غیر اللہ کی نذر کہنا کراہیت سے خالی نہیں۔ اسی طرح تمام علماء اسلام کے نزدیک یہ مسئلہ بھی متفق علیہ ہے کہ جو نذر ونیاز غیر اللہ کے تقرب کیلئے دی جائے وہ حرام ہے۔ باقی رہا عوام کا فعل تو اس کے بارے میں جب تک کھلے دلائل اور واضح قرائن سے معلوم نہ ہوجائے کہ ان کی نیت تقرب الی غیر اللہ کی ہے اس وقت تک حرام ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ 12 وہ چوپایہ جسے گلا گھونٹ کر مار دیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ چوپائے کو گلا گھونٹ کر مار ڈالتے اور کھالیتے تھے۔ قال ابن عباس ؓ کان اھل الجاھلیۃ یخنقون البھیمۃ و یاکلونھا فحرم ذلک علی المومنین (روح ج 6 ص 57) وَالْمَوْقُوْذَۃُ جو جانور ضرب اور چوٹ سے مرجائے۔ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ جو چوپایہ اونچی جگہ سے گر کر مرجائے۔ وَالنَّطِیْحَۃ جس چوپائے کو دوسرا چوپایہ سینگ مار کر ہلاک کر ڈالے۔ وَ مَا اَکَلَ السَّبُعُ اور جس چوپائے کو درندہ پھاڑ کھائے۔ یہ سب حرام ہیں۔ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ یہ ماقبل سے استثناء ہے بعض کے نزدیک یہ استثناء مَا اَکَلَ السَّبُعُ سے مختص ہے لیکن اجلہ صحابہ وتابعین اور جمہور مفسرین اسے وَالْمُنْخَنِقَۃُ سے لے کر مَا اَکَلَ السَّبُعُ تک سب سے استثناء قرار دیتے ہیں انہ استثناء من جمیع ما تقدم من قولہ وَالْمُنْخَنِقَۃ الی قولہ وَمَا اَکَلَ السَّبُعُ وھو قول علی وابن عباس والحسن وقتادۃ الخ (کبیر ج 3 ص 525) والاستثناء یرجع الی المنخنقۃ وما بعدھا (مدارک ج 1 ص 209) ۔ قال علی وابن عباس والحسن و قتادۃ و ابراہیم و طاؤس و عبید ابن عمیر والضحاک و ابن زید و الجمہور ھو راجع الی المذکورات ای من قولہ وَالْمُنْخَنِقَۃ الخ (بحر ج 3 ص 423) لہذا مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ سے اس استثناء کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے سے بھی حلال نہیں ہوتا۔ مَا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ کی حرمت قرآن مجید میں اس کے علاوہ تین اور جگہوں میں بھی مذکور ہے مگر وہاں کسی جگہ بھی یہ استثناء موجود نہیں کیونکہ وہاں باقی اشیاء کا ذکر نہیں تو معلوم ہوا کہ استثناء کا تعلق پہلی چار چیزوں سے نہیں صرف بعد میں مذکور باقی اشیاء سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان مذکورہ جانوروں میں سے جس میں ابھی زندگی باقی ہو اگر بروقت اسے ذبح کرلیا جائے تو وہ حلال ہے زندگی کی علامت یہ ہے کہ وہ ذبح کیے ہوئے جانور کی طرح پھڑک رہا ہو۔ ای الا ما ادرکتموہ و فیہ بقیۃ حیات یضطرب اضطراب المذبوح و ذکیتموہ (روح ) ۔ 13 اَلنُّصُبِ ۔ نصاب کی جمع ہے اور اس سے وہ اصنام مراد ہیں جن کی تعظیم کے لیے مشرکین ان کے استھانوں پر جانور ذبح کیا کرتے تھے (روح ج 6 ص 58) یعنی وہ چوپائے جو غیر اللہ کے استھانوں ان کی خانقاہوں اور قربان گاہوں پر ان کی تعظیم اور ان کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے ذبح کیے جائیں وہ بھی حرام ہیں۔ ذبح کے وقت خواہ غیر اللہ کا نام لیا جائے جیسا کہ مشرکین اپنے معبودوں کے نام سے ذبح کرتے تھے مثلا باسم اللات والعزی۔ یا ان کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جیسا کہ آجکل بعض جاہل مسلمان کرتے ہیں۔ فوت شدہ بزرگوں کی نذر و منت کے بکرے وغیرہ عرسوں اور میلوں کے ایام میں قبروں پر لیجاتے ہیں اور وہاں ذبح کرتے ہیں جیسا کہ شاہ کوٹ اور بھڑی شاہ رحمن اور دوسرے بزرگوں کے عرسوں اور میلوں کے ایام میں قبروں پر لیجاتے ہیں اور وہاں ذبح کرتے ہیں بعض لوگ جانور مزاروں پر لے جا کر خود ذبح نہیں کرتے بلکہ مجاوروں اور گدی نشینوں کے حوالے کردیتے ہیں دونوں کا ایک ہی حکم ہے اور دونوں حرام ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ اور مَا ذُبِحَ عَلیَ النُّصُبِ دونوں ایک چیز نہیں ہیں بلکہ اول عام ہے اور ثانی اس کا ایک جزو ہے یعنی اول سے ہر وہ چیز مراد ہے جو غیر اللہ کے تقرب کے لیے نامزد کردی گئی ہو خواہ وہ جانور ہو یا غلہ اور نقدی وغیرہ اور ثانی سے مراد صرف وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کی تعظیم کے لیے استھانوں پر ذبح کیے جائیں چونکہ بزرگوں کے استھانوں اور ان کی خانقاہوں کی لوگوں کے دلوں میں بڑی قدر و منزلت تھی اور وہ ان کی عظمت اور تقدس کی وجہ سے وہاں چوپایوں کو لے جا کر ذبح کرتے تھے اس لیے خصوصیت سے ایسے ذبیحوں کی حرمت کا ذکر فرمایا۔ مفسر ابن عطیہ فرماتے ہیں ماذبح علی النصب جزء مما اھل بہ لغیر اللہ لکن خص بالذکر بعد جنسہ لشھرۃ الامر و شرف الموضع و تعظیم النفوس (بحر ج 3 ص 424) ۔ 14 اَنْ مصدریہ ہے اور اَزْلَام، زلم (کجمل اور صرد) کی جمع ہے اور زلم کے معنی تیر کے ہیں یعنی تیروں کے ذریعہ حصہ اور فال معلوم کرنا بھی حرام ہے۔ جیسا کہ مشرکین کیا کرتے تھے انہوں نے تیروں پر کچھ الفاظ لکھ رکھے تھے۔ مثلاً کسی پر اِفْعَلْ (کر) اور کسی پر لَاتَفْعَلْ (نہ کر) کسی پر لَکَ النِّصْفُ (تمہار آدھا ہے) کسی پر لَکَ الرُّبُعُ (تمہارا چوتھا ہے) ۔ اور بعض تیروں پر کچھ نہیں تھا۔ تمام تیروں کو ایک خریطے میں ڈال کر باری باری اس سے تیر نکالتے اور اس پر لکھی ہوئی عبارت کے مطابق عمل کرتے تھے یہ تیر ان کے عبادت خانوں میں رکھے رہتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کے معبود غیب دان اور متصرف ہیں۔ اور وہ اپنے تصرف سے ان تیروں کے ذریعے ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اس سے ان کا مقصد اپنے معبودوں سے صلاح مشورہ اور ان کی منظوری حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اس استقسام کی بنیاد چونکہ غیر اللہ کو متصرف اور غیب دان ماننے پر ہے اس لیے اسے حرام قرار دیا۔ انہ کان استشارۃ مع الاصنام واستعانۃ منھم کما یشیر الی ذلک ما روی عن ابن عباس ؓ من انہم اذا ارادوا ذلک اتوا بیت اصنامھم و فعلوا ما فعلوا فلھذا صار حراماً (روح ج 6 ص 58) استقسام چونکہ حرام ہے اس لیے جو مال اس موقع پر بتوں کی نذر کے طور پر ان کے خادموں اور مجاوروں کو دیا جاتا تھا وہ بھی حرام ہے۔ 15 ذٰلِکَ سے مذکورہ تمام محرمات کا حلال جاننے کی طرف اشارہ ہے اور فسق سے فسق کا کامل درجہ یعنی کفر مراد ہے۔ مطلب یہ کہ مذکورہ محرمات کو حرام نہ سمجھنا اور ان کا تناول کرنا کفر ہے اور ان کو حرام سمجھنا اور ان کے کھانے سے بچنا عین ایمان وا طاعت اور وفاء عقود میں میں داخل ہے جس کا ابتدائے سورت میں حکم دیا گیا ہے۔ وقال الزمخشری اشارۃ الی الاستقسام والی تناول ما حرم علیھم لان المعنی حرم علیھم تناول المیتۃ وکذا وکذا (بحر ج 3 ص 425) وقیل یر جع الی جمیع ما ذکر من الاستحلال لجمیع ھذہ المحرمات و کل شیء منھا فسق وخروج من الحلال الی الحرام والانکفاف عن ھذہ المحرمات من الوفاء بالعقود اذا قال اوفوا بالعقوعد (قرطبی ج 6 ص 60) 16 اَلْیَوْمَ سے وہ دن مراد ہے جس دن مذکورہ تحریمات پر مشتمل یہ آیت نازل ہوئی۔ اور وہ جمعہ کا دن ذی الحجہ 9 ھ کی آٹھ تاریخ کا دن تھا وقیل یوم نزول الایۃ وروی عن ابن جریج و مجاھد و ابن زید و کان کما رواہ الشیخان عن عمر ؓ عصر یوم الجمعۃ عرفۃ حجۃ الوداع (روح ج 6 ص 60 وبحرج 3 ص 425) مطلب یہ کہ ان محرمات کے بیان کے بعد مشرکین کو اب یہ امید باقی نہیں رہی کہ وہ تمہارے دین کو مٹا سکیں گے اور نہ ان کو تم سے یہ توقع باقی رہی ہے کہ تم دوبارہ ان کا دین قبول کرلوگے اور مذکورہ بالا خبائث و محرمات کو کھانے لگو گے انقطع رجاء ھم من ابطال دینکم ور جو عکم عنہ بتحلیل ھذہ الخباء ث وغیرھا (روح و کبیر ج 3 ص 527) فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ اس لیے اب تم اس بات سے مت ڈرو کہ مشرکین تم پر اور تمہارے دین پر غالب آجائیں گے بلکہ مجھ سے ڈرو، میرے احکام کی پیروی کرو اور میری نافرمانی سے بچو تاکہ میری تائید و نصرت ہمیشہ تمہارے شامل حال رہے۔ 17 تحریمات اللہ، تحریمات غیر اللہ اور اللہ کی نذروں اور غیر اللہ کی نذروں کے بیان سے دین اسلام کے تمام فرائض و حدود اور حلال و حرام کے احکام کی تکمیل ہوگئی اور آج کے دن سے ہم نے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔ عن ابن عباس والسدی ان المعنی الیوم اکملت لکم حدودی وفرائضی وحلالی وحرامی بتنزیل ما انزلت (روح) اکملت لکم ما تحتاجون الیہ من تعلیم الحلال والحرام والتوقیف علی الشرائع وقوانین القیاس و اصول الاجتھاد (بحر) اتمام نعمت سے اسلام کا غلبہ، کفر وشرک کی مغلوبیت، دین کی تکمیل علم و حکمت کا اعطاء امن اور وسعت مال وغیرہ مراد ہے (روح، بحر، قرطبی وغیرہ) وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً اور دنیا کے تمام ادیان میں سے دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کیا کیونکہ یہی وہ دین ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور جس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) کار بند تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا پسندیدہ دین صرف اسلام ہے اور نجات صرف اسلام کی پیروی سے حاصل ہوگی۔ جو شخص اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین کی پیروی کرتا ہے اس کی نجات نہیں ہوگی اور آخرت میں وہ خسارے میں رہیگا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (ال عمران رکوع 9) اور اسلام سے نجات صرف اسی مسلمان کو نصیب ہوگی جو ضروریات دین کا معتقد ہوگا۔ صرف نام کا مسلمان ہونا کافی نہیں اگر کوئی مسلمان کہلانے کے باوجود دین کے ضروری عقائد میں سے کسی ایک عقیدے کا انکار کردے تو وہ مسلمان نہیں رہتا اور اس کی نجات نہیں ہوگی۔ مثلا ختم نبوت کا انکار، آنحضرت ﷺ کی سنت کے دین میں حجت ہونے کا انکار۔ اللہ کی صفات مختصہ میں غیر اللہ کو شریک ماننا وغیرہ۔ 18 محرمات کا ذکر کرنے کے بعد اضطراری حالت کا حکم بیان فرمایا کہ مذکورہ بالا اشیاء ہیں تو قطعی حرام لیکن اگر کوئی شخص بھوک سے بےبس ہوجائے اور کوئی حلال چیز میسر نہ آسکے اور اس بات کا اندیشہ ہو کہ حلال چیز کے میسر ہونے تک وہ زندہ نہیں رہ سکے گا یا ایسے عوارض میں مبتلا ہوجائیگا جو موت پر منتج ہوں گے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ مذکورہ محرمات میں سے بقدرسدِ رمق یعنی اس قدر کھالے جس سے اس کی جان بچ جائے۔ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۔ متجانف کے معنی ہیں مائل یعنی اس شرط پر اسے کھانے کی اجازت ہے کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونیوالا نہ ہو۔ مطلب یہ کہ سد رمق سے زیادہ حرام چیز کا تناول نہ کرے۔ کیونکہ حرام چیز کھانے کی اجازت اضطرار سے مشروط ہے جب اس نے بقدر سد رمق کھالیا تو اضطراری حالت ختم ہوگئی اب اس سے زیادہ کھائیگا تو سخت گنہگار ہوگا۔ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْ رٌرَّحِیْمٌ بحالت اضطرار حرام چیز حلال تو نہیں ہوجاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنی شان رحمت سے اس حالت میں ان محرمات کے تناول کی اجازت دیدی اور اس حالت میں حرام کھانے کا گناہ معاف فرمادیا۔
Top