Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
اے مسلمانو ! جب تم نماز کے لیے آمادہ ہو تو چاہیے کہ اپنا منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولیا کرو اور سر کا مسح بھی کرلو نیز اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھو لو (اور سنت کے مطابق وضو کرو) اگر نہانے کی حاجت ہو تو چاہیے کہ نہا کر پاک صاف ہوجاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا ایسا ہو کہ تم میں سے کوئی جائے ضرورت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم نے زنا شوئی کا عمل کیا ہو اور پانی میسر نہ ہو تو ایسی حالت میں چاہیے کہ پاک مٹی سے کام لو اور اپنے منہ اور ہاتھوں پر اس سے مسح کرلو (یہ نہیں کہ زمین پر لیٹنے لگو) اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں کسی طرح کی مشقت و تنگی میں ڈالے بلکہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک و صاف رکھے (اور حقیقی پاکیزگی وہ ہے جو دل کی ہے) نیز یہ بھی کہ (اللہ تعالیٰ ) تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار ہو
مسلمانوں کے لئے حکم کہ نماز کے لئے کھڑا ہونا واہو تو پہلے وضو کرلیا کرو : 44: قبل ازیں کھانے پینے اور بیاہ شادی کے احکام بتائے تھے جو حدث اصغر اور حدث اکبر کا باعث ہوتے ہیں اب یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جب تم طبعی تقاضوں کو پورا کرچکے ہو تو عبادت کی طرف آؤ اور عبادات میں سب سے پہلے نمبر نماز ہی کا ہے فرمایا ہے کہ جب تم نماز کے لئے کھڑا ہونا چاہو تو حدیث اصغر کے لئے وضو اور حدث اکبر کے لئے غسل کا حکم دیا رکھو۔ کہا گیا ہے کہ حکم وضو اس وقت ہے جب آدمی نماز ادا کرنا چاہے اور وہ بےوضو ہو اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب تم نیند سے بیدار ہو تو نماز پڑھنا چاہو تو وضو کرلو۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ آیت کا حکم عام ہے لیکن جو بےوضو اس کے لئے وجوب کا حکم رکھتی ہے اور جو باوضو ہے اس کے لئے استجاباً یہ حکم ہے مطلب ہے کہ باوضو آدمی بھی پھر وضو کرلے تو مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی اعظم و آخر ﷺ ہر نماز کے لئے وضو فرمایا کرتے تھے باوضو ہوتے تو بھی وضو فرما لیتے تھے فتح مکہ ک ی بعد آپ (علیہ السلام) نے وضو نہ کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں یہ دیکھ کر عمر فاروق ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! آج آپ (علیہ السلام) نے وہ کام کیا جو آج سے پہلے نہیں کرتے تھے ۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں ! میں نے بھول کر ایسا نہیں کیا بلکہ قصداً کیا ہے ۔ (مسند احمد) یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ لیا کرتے تھے مگر ہاں ! جب پیشاب کرتے یا ویسے حدث ہوجاتے یعنی وضو ٹوٹ جاتا تو اس وقت تازہ وضو کرتے اور وضو ہی کے بچے ہوئے پانی سے جرابوں پر مسح کرلیتے۔ یہ دیکھ کر حضرت فضل بن مبشر نے سوال کیا کہ آپ اس طرح اپنی رائے سے کرتے ہیں ؟ فرمایا نہیں بلکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ (ابن ماجہ) مختصر یہ کہ ہر نماز کے لئے وضو کرلیا جائے تو جائز اور بہتر ہے لیکن لازم اور ضروری نہیں جب کہ کوئی شخص باوضو ہو اور یہ بھی کہ اگر کوئی شخص ہر وقت باوضو رہ سکے تو یہ نور علی نور ہے کہ جب وضو ٹوٹا دوبارہ کرلیا بلاشبہ یہ تقویٰ و پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے لکنک ایسا کرنا اور واجب ضروری نہیں کہ یہ تکلف مالایقاق ہے۔ وضو کے لئے جن اعضاء کا دھونا لازم ہے وہی فرائض وضو ہیں : 45: زیر آیت میں جن اعضا کا دھونا لازم قرار دیا گیا ہے وہ چار ہیں 1۔ منہ ۔ 2۔ ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا۔ 3۔ سرکا مسح کرنا۔ 4۔ ٹخنوں سمیت پاؤں کا دھونا۔ باقی وضو کی نیت کے ساتھ وضو کرنا اور وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ کا پڑھنا اور ترتیب دار اور اعضاء کا دھونا یعیع کا کرنا بیی وضو کی شرائط میں سے ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی رہ جائے تو وضو درست نہیں ہوتا۔ 1۔ حدیث شریف میں ہے کہ ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کے لئے صرف وہی ہے جو وہ نیت کرے۔ (بخاری ومسلم) 2۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس شخص کا وضو نہیں جو اپنے وضو پر بسم اللہ نہ کہے۔ (بخاری) 3۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس اعضاء سے شروع کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے۔ (نسائی) اور آپ (علیہ السلام) نے ہمیشہ ترتیب وار وضو کیا ۔ قرآن کریم کی عبارت بھی اس پر دال ہے کہ ترتیب لازم ہے۔ 4۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص تم میں سے نیند سے بیداد ہو تو چاہئے کہ اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح مل کر تین مرتبہ دھولے وضو کرے برتن میں ہاتھ ڈالے یہ معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ نے کہاں رات گزاری۔ (بخاری ومسلم) وضو کی سنتیں اور آداب بہت ہیں جن کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے مختصر یہ کہ بول وبراز سے فراغت کے بعد استنجاء کرنا ہے مٹی سے ہو یا پانی سے دونوں سے افضل ہے اور کسی ایک سے جائز ہے ۔ مسواک کرنا بھی سنت ہے ۔ نیت کرنا اور بسم اللہ پڑھنا دونوں ہاتھوں کا گٹوں تک دھونا اور خوب مل کر دھونا۔ کلی کرنا کھنکارنا تاکہ گلا صاف ہوجائے۔ ناک میں پانی ڈالنا۔ ناک کو شوں کرکے جھاڑنا۔ پھر منہ کو دھونا پیشانی کے بالوں سے لے کر تھوڑی تک اور دونوں کانوں کے درمیان تک۔ مردوں کے لئے ڈارھی کا خلال کرنا۔ ہر عضو کو تین بار دھونا اور ہر عمل کو تین بار بہانا۔ پھر کہنیوں سیت دونوں ہاتھوں کو ترتیب واردھونا ہے دائیں اور پھر بائیں کو۔ کہنیوں کی طرف سے پانی بہانا۔ ہاتھوں کی انگلیوں کا خلال کرنا۔ پھر سر کا مسح کرنا ۔ سارے سر کا مسح کرنا گردن تک۔ کانوں کے سوراخوں میں انگلی ڈال کر ہلانا اور کانوں کے اندر کی طرف انگلی اور پیچھے کی طرف انگوٹھے کو پھیرنا۔ پھر دایاں پاؤں ٹخنے سمیت مبالغہ کے ساتھ مل کر دھونا پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا اور پھر بایاں پاؤں ٹخنے سمیت مبالغہ کے ساتھ مل کر دھونا مردوں کے لئے رومال پر پانی کا چھڑکنا اور وضو سے فارغ ہو کر اشھد ان لا لہ الا اللہ واشہدان محمد عبدہ ورسولہ پڑھنا تکمیل وضو کے لئے کافی ہے۔ سارے کاموں کو ترتیب وار آرام سے کرنا اور زیادہ دیر بھی نہ لگانا سنن و آثار میں موجود ہے۔ غسل لازم ہوچکا ہو تو غسل کرنا بھی ضروری ہے اور یہی طہارت کریٰ ہے : 46: جنب کا غسل یعنی وظیفہ زوجیت کے فریقین پر غسل فرض ہے اور احتلام سے بھی غسل واجب ہوجاتا ہے مرد کو ہو یا عورت کو۔ عورت کے لئے حالت اذیت کے دونوں سے باہر آنے یا حالت نفاس سے فراغت پانے کے بعد بھی غسل لازم ہوجاتا ہے ۔ قرآن کریم نے وضو کے بعد غسل کا ذکر کیا ہے کیوں ؟ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ ہر غسل کرنے والا غسل فر ض واجب ہو یامسنون ہو یا عادت کا غسل ہو سارے عملوں سے پہلے باقاعدہ وضو کرے جس طرح نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ نماز کے وضو میں لباس میں ملبوس ہوگا اور حالت غسل میں غسل کی جگہ کپڑے اتارنے کے بعد اور باقاعدہ وضو کرچکنے کے بعد فرض غسل میں سارے بدن پر پانی بہانا ہوگا لیکن پہلے سر پر پانی ڈال کر اس کو دسونے کے بعد اور سارے جسم کو خوب مل کر دھونا ہوگا اس طرح کہ جسم کا کوئی حصہ بغیر کسی عذر کے سو کھانہ رہے ہاں عورتوں کے بال اگر گوندھے ہوں تو بالوں پر پانی بہانا کفایت کرے گا اور غسل کی جگہ سے اٹھتے وقت پاؤں کو دھونے کے بعد فراغت حاصل ہوجائے گی اس طرح غسل سے پہلے کا کیا ہوا وضو باقی رہے گا اور اس وضو کو نماز کے لئے کافی سمجھنا ہوگا بس یہی وجہ ہے کہ پہلے وضو کے اعضاء کا ذکر کے بعد میں غسل کا ذکر کیا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص غسل سے پہلے کئے ہوئے وضو کو کافی نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے طریقہ پر نہیں ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ یاد رہے کہ غسل شروع کرنے سے پہلے نجاست حقیقی جو اعضائے خاص کے قرب و جوار میں لگی ہو اس کو صاف کرنا ضروریات غسل سے ہے ۔ لہٰذا اس کو پہلے دور کرلینا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ” جلد کو خوب صاف کرو “ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ” جس نے غسل جنابت میں بال برابر جگہ چھوڑ دی جس پر پانی نہ پہنچایا تو اللہ اس کے ساتھ دوزخ میں ایسا ایسا کرے گا “ یعنی اس طرح عذاب دے گا۔ پھر حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ” اس وجہ سے میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کرلی ہے “ (رواہ ابو داؤد وابن ماجہ) حضرت علی ؓ کے یہ الفاظ کہ ” میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کرلی ہے “ سے بعض لوگوں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ حضرت علی ؓ داڑھی منڈاتے تھے حالانکہ جواز پیدا کرنا ابلیس کا کام ہے کسی نیک سیرت انسان کا کام نہیں۔ ہاں ! حضرت علی ؓ سر کے بال منڈالیتے تھے یہ صحیح ہے۔ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے غسل کا پانی رکھا آپ (علیہ السلام) نے غسل جنابت کیا پہلے پانی کے برتن کو بائیں ہاتھ سے دائیں کی طرف جھکا کر اس پر پانی ڈالا اور اس طرح آپ (علیہ السلام) نے تین بار دونوں ہاتھ مل کر اچھی طرح دھوئے پھر تین بار سر پر پانی ڈالا اور ازیں بعد سارے بدن پر پانی بہایا پھر وہاں سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔ (بخاری و مسلم) اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ آپ (علیہ السلام) نے غسل سے پہلے وضو نہیں کیا بلکہ سیدہ میمونہ ؓ نے اس کا ذکر کرنا ضروری نہیں کیا کو ن کہ وہ غسل کا طریقہ بتا رہی تھیں اس لئے صرف غسل پر اکتفا کیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت کرتے تو ہاتھ دھونے سے ابتداء کرتے پھر اس طرح وضو کرتے جس طرح نماز کے لئے کیا کرتے تھے پھر پانی لے کر سر کے بالوں تک انگلیوں کے ساتھ پہنچاتے جس طرح خلال کیا جاتا ہے پھر باقی بدن پر پانی بہاتے۔ (بخاری و مسلم) زیر نظر آیت سے علمائے اسلام اور فقہائے عظام نے وضو اور غسل کے اتنا مسائل استنباط کئے ہیں کہ ان کی تعداد ہزار سے متجاوز کر دکھائی ہے اور ایسی ایسی بحثیں اور موشگافیاں بیان کی ہیں کہ دیکھ کر حیرانی بھی ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے صرف مٹی سے استنجا کرنے کا طریقہ گرمیوں اور سردیوں کے فرق سے مرد اور عورت کے لحاظ سے بیان کرنے کے لئے ایک سو سے زیادہ مسائل بیان کئے گئے ہیں اور پھر ایک سے ایک بڑھ کر ہے اس طرح وضو اور غسل کی بحث یہ چاروں فقہائے اسلام کے اختلاف ، اختلاف کی وجہ ، اسکی دلیل ۔ سر کے مسح میں اختلاف مسح کا طریقہ اور اس کے اختلافات اس سلسلہ میں استادوں اور شاگردوں کے استدلالات اور ان کے چھان بین کے بعد مفتی بہ حکم ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا کہنیوں سمیت دھونا۔ پانی بہانا تو کتنا بہانا۔ پانی کی مقدار پاؤں دھونے یا پاؤں پر مسح کرنے کی بحث فریقین کے دلائل۔ دلائل پر جرح اور جرح کے بعد فیصلہ کعین سے کیا مراد ہے اور وہ کہاں تک ہیں وضو کی ترتیب وضو کے اعضاء کی الگ الگ دعائیں پھر ان دعاوں کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کی بحث ، جواز اور عدم جواز کے دلائل۔ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا یا نہ پڑھنا۔ بسم اللہ پوری پڑھنا یا صرف بسم اللہ ہی کے الفاظ ادا کرنا وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا یا نہ پڑھنا ، پڑھنا تو کہاں تک ۔ آسمان کی طرف منہ کرکے پڑھنا۔ شہادت کی انگلی کھڑی کر کے پڑھنا یا بغیر انگلی کھڑی کئے پڑھنا۔ ان سارے مسٔلوں کو یہاں عمداً ترک کیا جا رہا ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان خواہ مخواہ کی بحثوں کا مقام کتب فقہ ہے۔ وضو کرنا ضروری ہو یا غسل کرنا فرض ہوجائے لیکن پانی میسر نہ آئے تو کیا کرے ؟ : 47: حدث اصغر یعنی بےوضو ہوجانا حدث اکبر یعنی غسل فرض ہوجانا۔ دونوں صورتوں میں پانی کی ضرورت ہے۔ بےوضو ہونا کیا ہے ؟ آدمی نیند سے بیدار ہو۔ بول و براز سے فارغ ہو یا دبر سے ہوا خارج ہوئی تو وضو والا آدمی بےوضو ہوجاتا ہے اور اسی کو ” حدث اصغر “ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ غسل کا فرض ہونا کیسا ہے ؟ وظیفہ زوجیت ادا کرنے یا احتلام ہوجانے سے غسل فرض ہوجاتا ہے اور اس کو ” حدث اکبر “ کا نام دیا جاتا ہے ۔ پانی موجود نہیں یا پانی موجود ہے لیکن جنبی آدمی یا بےوضو آدمی کسی بیماری کے باعث پانی کو استعمال نہیں کرسکتا تو وہ کیا کرے ؟ زیر نظر آیت میں یہی بات بتائی جا رہی ہے کہ ایسا آدمی مرد ہو یا عورت وہ کیا کرے ۔ فرمایا جا رہا ہے کہ وہ تیمہ کرے اور تیممہ مٹی سے ہوگا جو غسل اور وضو دونوں کا قائم مقام ہے۔ تیمہ سے شرعی طہارت حاصل ہوجائے گی اگرچہ یہ طہارت عارضی ہوگی جس عذر کی وجہ سے تیممہ کیا تھا اگر وہ عذر باقی نہ رہا تو تیمم کی گئی طہارت بھی رخصت ہوجائے گی اور آدمی پھر ناپاک کا ناپاک ہی تصور ہوگا۔ اس کو نئے سرے سے طہارت حاصل کرنا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ” مقیم “ بیمار تھا صحٹ یاب ہوگیا یا پانی نہیں مل رہا تھا لیکن اب مل گیا تو جھبی عذر دور ہوا تیممہ ساقط ہوگیا اب اس کو وضو یا غسل کرنا ہوگا۔ تیمم کیا ہے ؟ اور وہ کس طرح کیا جاتا ہے ؟ : 48: تیمم مسح کرنے کا ہی کا دوسرا نام ہے۔ اصطلاح شرعی میں پانی کو ہاتھ سے بھگو کر سر یا کسی دوسری جگہ پر لگائیں تو ” مسح “ کہلاتا ہے اور مٹی یا جنس مٹی کی کسی چیز کو ہاتھ سے مس کر کے ہاتھ بازوؤں یا منہ پر پھیریں تو اس کو ” تیمم “ کہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت عمار ؓ نے بیان کیا کہ ہم کسی سریہ میں گئے تھے تو میں جنابت کی حالت میں ہوگیا پانی موجود نہ تھا اس لئے میں مٹی میں لوٹ پوت ہوا جیسے دابہ یعنی گھورا یا گدھا زمین پر لوٹتا پوٹتا ہے۔ میں نے واپس آکر نبی ﷺ کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا تو آپ (علیہ السلام) ہنسے یعنی مسکرائے اور فرمایا کہ تمہیں صرف اسی قدر کا فی تھا : وضرب النبی ﷺ بیدہ الارض ثم نفع فیھا ومسح بھا وجھہ وکفیہ ، یعنی نبی کریم ﷺ نے زمین پر ہاتھ مارے پھر ان ہاتھوں پر پھونک ماری تاکہ زائد مٹی اتر جائے پھر آپ (علیہ السلام) نے اپنے منہ اور دونوں کفوں پر مسح کیا۔ (صحیحین) زیر نظر حدیث میں ایک ضرب کا بیان ہے لیکن بعض احادیث میں ضربین یعنی ” دو بار زمین پر ہاتھ مارنے کا ذکر بھی ہے اور مقصد ایک علامت تظہیر قائم کرنا ہے جو دونوں طریقوں سے قائم ہوجاتی ہے۔ ” صعید “ مٹی کو بھی کہتے ہیں اور ازجین مٹی کی اشیاء کو بھی وہ دیوار ہو یا پتھر جس پر گردا جما ہوا ہو اور نبی کریم ﷺ کے عمل سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مقصود میے کا ملنا نہیں بلکہ صرف مٹی کو مس کرنا ہے پھر مٹی کو مس کرنے سے ہاتھوں کے ساتھ زیادہ لگ جائے تو ہاتھوں کو پھونک مار کر گرد کر کو اڑایا بھی گیا جس سے مزید اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ مقصود مٹی کا ملنا نہیں کہ اس کے نشانات چہرہ یا ہاتھوں پر پڑیں۔ مزید دیکھنا مطلوب ہو تو سورة النساء کی آیت 43 کو تفسیر عروۃ الوثقیٰ جلد دوم دیکھ لو۔ اللہ اپنے بندوں کو مشکلات میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ ان کی سہولت کا خیال رکھنا ہے : 49: وضو و غسل سے بلاشبہ طہارت بدنی مطلوب ہے اور وہ سوائے پانی کے میسر نہیں آسکتی ۔ لیکن بعض اوقات پانی میسر نہیں آتا یا کوئی ایسی بیماری لاحق ہوجاتی ہے کہ پانی کا استعمال کرنا ممنوع ہوتا ہے کہ اس سے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اب جب کہ طہارت بھی مطلوب ہو اور پانی بھی میسر نہ آئے یا پانی کا استعمال کرنا ممنوع ہو تو کیا کرے ؟ فرمایا ایسے مشکل وقت میں اللہ نے تمہارے لئے یہ سہولت رکھ دی ہے کہ مٹی پاک سے کام لے کر وقت چلاؤ دل کو ناپاک نہ ہونے دو کہ اسی عذر کی وجہ سے عبادت بجا لانا ترک کردو نہیں اس عارضی طہارت سے کام نکالو اور اپنے فرائض کو ادا کرو اور اس عرصہ میں جو عارضی طہارت سے عبادت تم نے کی تھی اس کی نامقبولیت کا خیال بھی دل میں مت لاؤ اس لئے کہ تم کو یہ سہولت فراہم کرنے والی بھی وہی ذات ہے جس نے پاک پانی سے طہارت کا حکم دیا ہے۔ جس طرح وہ ایک حکم تھا اس طرح تیمم کا بھی ایک حکم ہے۔ تم اس کی نافرمانی کے مرتکب نہیں ہوئے اور تمہاری یہ خوبی بھی بلاشبہ ایک بڑی خوبی ہے۔ اس ایک ہی مسئلہ نے زندگی کے بیشمار مسائل حل کردیئے ہیں بشرطیکہ عقل و فکر سے کام لینے کی اجازت ہو لیکن مذہب کے ٹھیکہ دار ” عقل و فکر “ سے کام نہ لینے دیں تو ان کی اجارہ داری میں خاموشی اختیار کرنا بھی حکمت سے خالی نہیں۔ کسی مشکل کو آسان کر دیناجب کہ وہ رضائے الٰہی سے ہو ایک بہت بڑی نیکی ہے : 50: فقہ قرآنی کا یہ بنیادی اصول ہے جس پر اسلامی کا قصر رفیع تعمیر ہوا ہے۔ زیر نظر آیت ہی کے احکام پر نظر ڈال لو تو یہ بات تم پر واضح ہوجائے گی۔ حدث اصغر یعنی وضو ٹوٹنے سے غسل فرض نہیں کیا کیوں ؟ اس لئے کہ اس کا وقوع عام ہے ایک دن میں بیسیوں دفعہ یہ صورت پیدا ہو سکتی ہے اس میں دشواری تھی تو صرف وضو پر اکتفا کیا اور بول وبزاز کے علاوہ نواقض وضو میں استنجا کو بھی نکال دیا اور مزید سہولت پیدا کردی اس کے مقابلہ میں جنابت جو کبھی کبھی لاحق ہوتی ہے اس کے لئے غسل فرض کیا کیونکہ ظاہری صفائی اور اعصاب کی افسردگی اور طبیعت کی درماندگی کا اس سے بہتر اور آسان علاج اور کوئی نہیں تھا اس پر بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں یا کسی بیماری کے باعث پانی کو استعمال نہ کرنے کی صورت میں تیمم کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی ۔ غور کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ناتواں بندوں کے لئے رعایت پر رعایت اور آسانی پر آسانی کو ہر حکم میں پیش نظر فرماتا ہے۔ ساری احکام اسلامی کی اصل روح عبادت ہے یعنی ہم ان احکام کو اس لئے بجالاتے ہیں کہ یہ احکام خداوندی ہیں اور خداوندعالم کے ہر حکم کی اطاعت ہم پر فرض ہے تاہم قرآن کریم ان کا احکام کے ظاہری فوائد اور روحانی منافع کو بیان فرما کر اس طرف بھی ہماری توجہ مبذول کرادیتا ہے کہ ان احکام میں سراسر تمہاری بہبودی اور بہتری کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔ اس جگہ بھی یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وضو غسل اور تیمم سے مقصود تمہاری پاکیزگی اور طہارت ہے۔ اس کا حکم دے کر اللہ نے اپنی نعمت کو تم پر پورا کی ہے۔ اسلام نے روحانی طہارت کے لئے جسمانی پاکزاگی کو جتنا ضروری قرار دیا ہے وہ ظاہر ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ آج ہمارے صوفی اور امام گندگی میں اپنی مثال آپ ہوں۔ (ضیاء القرآن جلد دوم ص 446)
Top