Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں (نہیں) بلکہ ان پر ان کے کفر کے سبب اللہ نے لعنت کردی جو بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں
ترکیب : قالوا فعل ھم ضمیر فاعل قلوبنا مبتداء غلف بضم لام جمع غلاف اور لام کا سکون بھی ہوسکتا ہے کیونکہ مضموم کو ساکن بعض مواقع میں عرب کردیتے ہیں (جیسا کہ کُتَبْ اور کُتُبْ ) خبر جملہ مقولہ ہے۔ بل اضراب کے لیے۔ بکفرھم کی ب لعن سے متعلق ہے فقلیلاً منسوب ہے، اس لیے کہ صفت ہے مصدر محذوف کی اور ما زائدہ ہے۔ ایایمانا قلیلا یؤمنون لما حرف شرط جاء فعل ھم مفعول کتب موصوف من عند اللہ مصدق صفت دوم اور بعض نے مصدقاً بھی پڑھا ہے۔ اس تقدیر پر یہ حال ہے پس یہ مجموعہ فاعل جواب شرط انکروہ محذوف ہے وکانوا فعل ضمیر فاعل من قبل متعلق ہے فعل سے۔ یستفتحون الخ جملہ خبر کانوا یہ سب جملہ حال ہے ضمیر ھم سے یا جملہ معترضہ ہے فلما جاء الخ شرط کفروا جواب شرط ہے۔ تفسیر : اس سے پہلے تک تو بنی اسرائیل کا وہ معاملہ جو اسرائیلی انبیاء اور ان پر منزل کتابوں کے ساتھ تھا بیان ہوا، اب یہاں سے جو کچھ ان بدبختوں کا معاملہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) اور قرآن کے ساتھ تھا اس کو بیان فرمایا جاتا ہے۔ وقالوا قلوبنا غلف آنحضرت ﷺ کے عہد کے یہود قرآن مجید اور نبوت نبی (علیہ السلام) قبول نہ کرنے کا یہ سبب بیان کرتے تھے کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں یعنی وہ جو کچھ ہم کو اپنے بزرگوں سے پہنچا ہے اسی پر ہم مستحکم ہیں۔ نئی بات قبول نہیں کرسکتے۔ یہ ایک محاورہ ہے نئی بات قبول نہ کرنے کی بابت یعنی ہم جس بات پر ہیں بڑے پکے ہیں۔ اپنی خوبی بیان کرتے ہیں حالانکہ حق کی روشنی قبول نہ کرنا کوئی خوبی اور استحکام نہیں۔ بلکہ دلوں میں زنگ اور آلودگی اس قدر ہے کہ ان پر انوار ہدایت کا اثر نمایاں نہیں ہوتا جس طرح زنگ آلود آئینہ پرنور آفتاب نہیں نمایاں ہوتا۔ اسی بات کو بطور استعارہ کے خدا تعالیٰ اس جملہ میں بیان فرماتا ہے۔ بل لعنہم اللہ بکفرھم فقلیلاً ما یؤمنون کہ ان کے کفر اور ضلالت کے سبب جو ان کے انبیاء اور کتابوں سے سرکشی و انکار سے پیدا ہوئی ہے خدا نے ان پر لعنت کردی ہے اس قدیم لعنت کا زنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس لیے بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں جس طرح زنگ آلود آئینہ میں بہت کم نور تاباں ہوتا ہے ہاں کبھی کچھ دھندلی سی روشنی کا عکس دکھائی دے جاتا ہے اور جو کچھ انکار اور سرکشی ہے تو عمداً ہے اور جان بوجھ کر ہے کس لیے کہ قرآن اور نبی آخر الزمان کے ظاہر ہونے سے پہلے ان بشارات کی وجہ سے جو ایک آنے والے اولوالعزم نبی اور ایک نئے قانون آسمانی کی بابت تھیں ان کو اشد انتظار تھا اپنے مقاصد دینی و دنیاوی اسی پر منحصر سمجھے بیٹھے تھے۔ کس لیے کہ بموجب بشارت تورات سفر استثناء باب 18 و دیگر کتب انبیاء مثل سموئیل و حزقیل و دانیال کے ان کو ایک نبی آخر الزمان کا انتظار تھا جس پر مخالفوں کے مقابلہ میں اپنی ترقی اور فتح مندی کو منحصر جانتے تھے اور مدینہ کے یہود بنی اسد اور بنی غطفان وغیرہ قبائلِ عرب سے جب شکست کھا کر عاجز ہوتے تو اپنے علماء کی تعلیم سے یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اللہم ربنا انا نسئلک بحق احمدن النبی الامی الذی و عدتنا ان تخرجہ لنا فی آخر الزمان و کتابک الذی تنزل علیہ آخر ما ینزل ان تنصرنا علیٰ اعدائنا کہ الٰہی ہم کو ببرکت نبی آخر الزماں احمد ﷺ کے اور ببرکت قرآن مجید کے ہمارے دشمنوں پر فتح یاب کر (رواہ الحاکم والبیہقی) امام احمد اور طبرانی نے سلمہ بن قیس سے روایت کی ہے کہ ہمارے محلہ بنی عبدالاشہل میں ایک یہودی رہتا تھا اس نے ہم سے عالم آخرت کے عذاب اور ثواب کا ذکر کیا تو ہم نے اس سے دلیل پوچھی۔ اس نے کہا عنقریب مکہ کی طرف سے ایک نبی مبعوث ہوگا وہ اس بات کو ثابت کر دے گا۔ ہم نے پوچھا وہ کب ظاہر ہوگا ؟ اس نے میری طرف نظر کرکے کہا اگر یہ لڑکا عمر طبعی تک جیتا رہے گا تو دیکھ لے گا۔ سلمہ کہتے ہیں چند روز بعد آنحضرت ﷺ کی خبر مشہور ہوئی پھر جب ہم مدینہ میں آئے تو ہم نے اس یہودی سے کہا اب تو ان پر کیوں ایمان نہیں لاتا ؟ اس نے خجل ہو کر کہا یہ وہ شخص نہیں فلما جائھم کتاب من عند اللہ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کتاب آئی یعنی قرآن مجید اور کتاب بھی وہ کہ جو مصدقا لما معہم ان کے اصول مذہب کی تصدیق کرتی ہوئی تھی کیونکہ جو کچھ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے واقعات ‘ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا ماجرا ‘ بعد کے واقعات اور اسی طرح احکام اخلاقی و روحانی اور دیگر عقائد کے بابت ذات وصفات اور دوزخ و جنت و انبیاء و ملائکہ بیان کئے اب وہی تو ہیں کہ جن کو مانتے اور ان کے معتقد تھے۔ بجز حذف زوائد و اتمام بعض نقصانات ہو بہو وہی ہیں اور ان کے آنے کے بعد یہود نے جان بھی لیا کہ یہ وہی کتاب اور وہی نبی تھے کہ جس کے ہم منتظر تھے مگر بجائے ایمان لانے کے کیا کیا کفروا بہ منکر ہوگئے۔ فلعنۃ اللہ علی الکافرین ان منکروں پر خدا کی لعنت ہے۔
Top