Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں۔ بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کو اللہ نے ملعون قراد دے دیا سو بہت کم ایمان لاتے ہیں۔
یہودیوں کا کہنا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں، اور اس کی تردید یہودی اسلام کو قبول نہیں کرتے تھے اور خاتم النبیین ﷺ پر ایمان نہیں لاتے تھے آپ کی سچائی کی علامات اور معجزات دیکھ کر بھی منحرف تھے اور اس گمراہی کو اپنے لیے کمال اور باعث فخر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اور پردے پڑے ہوئے ہیں کسی کی بات ہمارے دلوں میں اثر نہیں کرسکتی اور اپنے دین کے علاوہ ہم کوئی دوسرا دین قبول نہیں کرسکتے، اللہ تعالیٰ شانہ، نے ان کی تردید فرمائی۔ کہ یہ بات کو سنتے اور سمجھتے ہیں اور حق بھی جانتے ہیں لیکن حق سے ان کو تنفر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ملعون قرار دیدیا ہے لعنت اور پھٹکار میں گرفتار ہیں دلوں پر پردے اور غلاف کچھ نہیں کفر کی پھٹکار اور لعنت کے سبب ایمان سے محرومی ہے۔ سورة مائدہ میں فرمایا کہ (بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر مار دی۔ غرض یہ ہے کہ کفر میں ان کی پختگی لعنت اور پھٹکار اور دلوں پر مہر لگ جانے کے سبب سے ہے جس پر وہ فخر کر رہے ہیں قبحھم اللّٰہ۔ یہ جو فرمایا کہ بہت کم ایمان لاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی تھا لیکن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا جو حکم دیا گیا تھا جن میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی بھی ہے اس سے منکر ہوگئے۔ ایک نبی کی تکذیب بھی کفر ہے تھوڑا سا ایمان آخرت میں کام نہیں دے گا۔ بعض مفسرین نے (فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ ) کا یہ معنی بھی بتایا ہے کہ ان میں سے بہت کم لوگ ہوں گے جو ایمان لائیں گے۔
Top