Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 88
وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا قُلُوْبُنَا : ہمارے دل غُلْفٌ : پردہ میں بَلْ : بلکہ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ : اللہ کی لعنت بِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب فَقَلِیْلًا : سو تھوڑے ہیں مَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان لاتے ہیں
اور کہتے ہیں ہمارے دل پردے میں ہیں (نہیں) بلکہ خدا نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے پس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں
شناعت چہار دہم (14) قال تعالیٰ وقالوا قلوبنا غلف۔۔۔ الی۔۔۔ فقلیلا ما یؤمنون اور ان کے غرور اور تکبر کا یہ عالم ہے کہ خدا کے پیغمبروں سے بطور فخریہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں سوائے اپنے دین کے کسی نئی بات کا اثر ہمارے دلوں تک نہیں پہنچتا یعنی ہہم اپنے دین پر نہایت پختہ اور مضبوط ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یہ وجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار اور تکذیب کی وجہ سے ان پر لعنت فرمائی ہے اور اپنی رحمت اور عنایت سے دور ڈال دیا ہے اس لیے حق بات ان پر اثر نہیں کرتی اور ان کے دل حق اور نصیحت کو قبول نہیں کرتے۔ اور حق سے متنفر اور بیزار ہیں یہ غلاف نہیں بلکہ اللہ کی لعنت کی نشانی اور علامت ہے۔ کفر اور لعنت کے زنگ نے ان کے دلوں کو اس قدر سیاہ اور زنگ آلود کردیا ہے کہ آئینہ دل میں شاید ہی کوئی جز ایسا باقی رہا ہو کہ ایمان اور ہدایت کی روشنی کو قبول کرسکے۔ اس لیے یہ لوگ بہت ہی قلیل ایمان لاتے ہیں یعنی شریعت کے کسی حکم کو کبھی مان بھی لیتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ ایمان قلیل قابل قبول نہیں مثلاً اگر توحید و رسالت کا اقرار بھی کرلیا۔ اور اجمالی طور پر جنت و جہنم پر بھی ایمان لے آیا اور شریعت کے دوسرے احکام کا انکار کردیا تو ایسے ایمان سے کوئی فائدہ نہیں ایمان قلیل تو کیا معتبر ہوتا۔ نجات کے لیے تو ایمان کثیر بلکہ ایمان اکثر بھی کافی نہیں کہ دین کی کثیر اور اکثر باتوں کو مانے اور بعض کا انکار کردے ایمان اللہ کے تمام احکام کے ماننے کا نام ہے محض قلیل وکثیر کے ماننے سے شریعت میں مومن نہیں کہلاتا۔ فائدہ : حضرات مفسرین نے غلف کے دو معنی بیان کیے ہیں اول یہ کہ غلف اغلف کی جمع ہے جیسے احمر اور اصفر کی جمع حمر اور صفر آتی ہے اور اغلف اسی شے کو کہتے ہیں جو کسی غلاف اور پردہ میں محفوظ اور مستور ہو۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہونگے کہ ہمارے دلوں پر غلاف اور پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے آپ کی بات ہمارے دلوں تک پہنچتی نہیں۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے وقالوا قلوبنا فی اکنۃ (اور کہا کافروں نے ہمارے دل پردوں میں ہیں) مجاہد اور قتادہ سے یہی معنی منقول ہیں۔ دوم یہ کہ غلف غلاف کی جمع ہے در اصل غلف بضم اللام تھا جیسے کتاب کی جمع کتب آتی ہے مگر تخفیف کی وجہ سے لام کو ساکن کردیا گیا اور ابن عباس غلف بضم لام پڑھتے تھے۔ اس صورت میں آیت کے یہ معنی ہونگے کہ ہمارے دل علم کے غلاف اور برتن ہیں جن میں ہر قسم کا علم بھرا ہوا ہے تمہارے علم کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے ان کے اس قول کا رد فرمایا کہ جھوٹ بولتے ہیں۔ نہ ان کے دلوں پر پردہ ہے اور نہ ان کے دل علم کے غلاف اور ظرف ہیں بلکہ ان کے کفر اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہے اور ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد کو سلب کرلیا ہے اس لیے ان کے دل حق کو قبول نہیں کرتے فاصمھم واعمی ابصارھم اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرا اور اندھا بنا دیا ہے اور وہ مالک مطلق ہے جس کو چاہے ظاہر کا اندھا بنائے اور جس کو چاہے باطن کا اندھا بنائے کسی کی مجال کیا ہے جو یہ پوچھ سکے کہ اس کی ظاہر یا باطن کی آنکھ کیوں پھوڑی ؟ اخرج احمد بسند جید عن ابی سعید قال قال رسول اللہ ﷺ القلوب اربعۃ قلب اجرد فیہ مثل السراج یزھر وقلب اغلف مربوط علی غلافہ وقلب منکوس وقلب مصفح۔ فاما القلب الا جرد فقلب ال مومن سراجہ فیہ نورہ واما القلب الا غلف فقلب الکافر واما القلب المنکوس فقلب المنافق عرف ثم انکروا ما القلب المصفح فقلب فیہ ایمان ونفاق فمثل الایمان فیہ کمثل البقلۃ یمدھا الماء الطیب ومثل النفاق فیہ کمث القرحۃ یمدھا القیح۔ فای المادتین غلب علی الاخری غلبت علی الاخری غلبت علیہ (در منثور ص 87 ج 1) امام احمد (رح) نے سند جید کے ساتھ ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دل چار قسم کے ہیں ایک دل تو وہ ہے جو آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہے اور اس میں کوئی چراغ روشن ہے اور ایک دل وہ ہے جو غلاف میں بند ہے اور غلاف کا منہ تاگے یا رسی سے بندھا ہوا ہے اور ایک دل الٹا اور اندھا اور ایک دل وہ ہے جس کے دو صفحے یعنی دو جانبیں ہیں ایک سفید ہے اور ایک صفحہ سیاہ۔ پس صاف و شفاف دل تو مومن کا دل ہے جس میں ایمان کا چراغ روشن ہے اور غلاف میں بند کافر کا دل ہے اور الٹا اور اوندھا دل منافق کا ہے کہ جس نے حق کو پہچانا اور پھر اس کا انکار کیا اور دو رویہ دل وہ ہے کہ جس میں ایمان اور نفاق دونوں جمع ہیں پس ایمان اس دل میں مثل سبزہ کے ہے کہ پاکیزہ پانی اس کو بڑھاتا ہے اور اس کے دل میں نفاق مثل ناسور کے ہے کہ جو دم بدم پیپ اور خون کو بڑھاتا ہے پس ان دو مادوں میں سے جونسا مادہ غالب آجائے اسی کا اعتبار ہے۔ اللہم نور قلوبنا بانوار طاعتک معرفتک امین یا ارحم الراحمین
Top