Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 67
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوْهُ فَلَا یُنَازِعُنَّكَ فِی الْاَمْرِ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ١ؕ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِیْمٍ
لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا مَنْسَكًا : ایک طریق عبادت هُمْ : وہ نَاسِكُوْهُ : اس پر بندگی کرتے ہیں فَلَا يُنَازِعُنَّكَ : سو چاہیے کہ تم سے نہ جھگڑا کریں فِي الْاَمْرِ : اس معاملہ میں وَادْعُ : اور بلاؤ اِلٰى رَبِّكَ : اپنے رب کی طرف اِنَّكَ : بیشک تم لَعَلٰى : پر هُدًى : راہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی
ہر امت کے لئے ہم نے مقرر کردی ایک راہ بندگی کی کہ وہ اس طرح کرتے ہیں بندگی، سو چاہئے تجھ سے جھگڑا نہ کریں اس کام میں اور بلائے جا اپنے رب کی طرف، بیشک تو ہے سیدھی راہ ،
خلاصہ تفسیر
(جتنی امتیں اہل شرائع گزری ہیں ان میں) ہم نے ہر امت کے واسطے ذبح کرنے کا طریق مقرر کیا ہے کہ وہ اسی طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے تو (اعتراض کرنے والے) لوگوں کو چاہئے کہ اس امر (ذبح) میں آپ سے جھگڑا نہ کریں (ان کو تو آپ سے بحث اور جھگڑا کرنے کا حق نہیں مگر آپ کو حق ہے اس لئے) آپ (ان کو) اپنے رب (یعنی اس کے دین) کی طرف بلاتے رہے آپ یقینا صحیح راستہ پر ہیں۔ (صحیح راستہ پر چلنے والے کو حق ہوتا ہے کہ غلط راستے پر چلنے والے کو اپنی طرف بلائے غلط راستہ والے کو یہ حق نہیں ہوتا) اور اگر (اس پر بھی) یہ لوگ آپ سے جھگڑا کرتے رہیں تو آپ یہ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے (وہی تم کو سمجھے گا آگے اسی کی توضیح یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان قیامت کے دن (عملی) فیصلہ فرما دے گا جن چیزوں میں تم اختلاف کرتے تھے (آگے اسی کی تائید ہے کہ) اے مخاطب کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے (اور علم الٰہی میں محفوظ ہونے کے ساتھ یہ بھی) یقینی بات ہے کہ یہ (یعنی ان کے سب اقوال و اعمال) نامہ اعمال میں (بھی محفوظ) ہے (پس) یقینا (ثابت ہوگیا کہ) یہ (فیصلہ کرنا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان ہے۔

معارف و مسائل
لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا، یہی مضمون تقریباً انہیں الفاظ کے ساتھ اسی سورت کی آیت نمبر 34 میں گزر چکا ہے مگر دونوں جگہ لفظ منسک کے معنے اور مراد میں فرق ہے۔ وہاں نسک اور منسک قربانی کے معنے میں بضمن احکام حج آیا تھا اور اس لئے وہاں واؤ کے ساتھ وَلِكُلِّ اُمَّةٍ فرمایا گیا۔ یہاں منسک کے دوسرے معنے (یعنی احکام ذبائح یا علم احکام شرعیہ) اور دوسرا مفہوم مراد ہے اور یہ ایک مستقل حکم ہے اس لئے اس کو عطف کر کے نہیں بیان کیا گیا۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک قول تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ بعض کفار مسلمانوں سے ان کے ذبائح کے متعلق فضول بحث وجدال کرتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارے مذہب کا یہ حکم عجیب ہے کہ جس جانور کو تم خود اپنے ہاتھ سے قتل کرو وہ تو حلال اور جس کو اللہ تعالیٰ براہ راست مار دے یعنی عام مردار جانور وہ حرام۔ ان کے اس جدال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (کما رواہ الحاکم و صححہ و البیہقی فی الشعب عن علی بن حسن و ابن عباس انہا نزلت بسبب قول الخزاعیین، روح المعانی) تو یہاں منسک کے معنی طریقہ ذبح کے ہوں گے اور حاصل جواب کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک امت اور شریعت کے لئے ذبیحہ کے احکام الگ الگ رکھے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی شریعت ایک مستقل شریعت ہے اس کے احکام کا معارضہ کسی پہلی شریعت کے احکام سے کرنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ تم اس کا معارضہ خالص اپنی رائے اور خیال باطل سے کر رہے ہو یعنی مردار جانور کا حلال نہ ہونا تو اس امت و شریعت کے ساتھ مخصوص نہیں سب پچھلی شریعتوں میں بھی حرام رہا ہے تو تمہارا یہ قول تو بالکل ہی بےبنیاد ہے اس بےبنیاد خیال کی بنا پر صاحب شریعت نبی سے مجادلہ اور معارضہ کرنا حماقت ہی حماقت ہے (ہکذا بین فی روح المعانی معنی الایة) اور جمہور مفسرین نے اس جگہ لفظ منسک عام احکام شریعت کے معنے میں لیا ہے کیونکہ اصل لغت میں منسک کے معنی ایک معین جگہ کے ہیں جو کسی خاص عمل خیر یا شر کے لئے مقرر ہو اور اسی لئے احکام حج کو مناسک الحج کہا جاتا ہے کہ ان میں خاص خاص مقامات خاص احکام و اعمال کے لئے مقرر ہیں (ابن کثیر) اور قاموس میں لفظ نسک کے معنی عبادت کے لکھے ہیں قرآن میں اَرِنَا مَنَاسِكَنَا اسی معنے کے لئے آیا ہے مناسک سے مراد عبادت کے احکام شرعیہ ہیں۔ حضرت ابن عباس سے یہ دوسری تفسیر بھی روایت کی گئی ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اسی معنی عام کی تفسیر کو اختیار کیا گیا ہے اور آیت کا سیاق وسباق بھی اسی کا قرینہ ہے کہ منسک سے مراد شریعت اور اس کے احکام عام ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مشرکین اور مخالفین اسلام جو شریعت محمدیہ کے احکام میں جدال اور جھگڑے کرتے ہیں اور بنیاد یہ ہوتی ہے کہ ان کے آبائی مذہب میں وہ احکام نہ تھے تو وہ سن لیں کہ پچھلی کسی شریعت و کتاب سے نئی شریعت و کتاب کا معارضہ مجادلہ کرنا باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو اس کے وقت میں ایک خاص شریعت اور کتاب دی ہے جس کا اتباع اس امت پر اس وقت تک درست تھا جب تک کوئی دوسری امت اور دوسری شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ آگئی۔ اور جب دوسری شریعت آگئی تو اتباع اس جدید شریعت کا کرنا ہے اگر اس کا کوئی حکم پہلی شریعتوں کے مخالف ہے تو پہلے حکم کو منسوخ اور اس کو ناسخ سمجھا جائے گا اس لئے اس صاحب شریعت سے کسی کو مجادلہ اور منازعت کی اجازت نہیں ہو سکتی۔ آیت کے آخری الفاظ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْاَمْرِ کا یہی حاصل ہے کہ موجودہ زمانہ میں جبکہ خاتم الانبیاء ﷺ ایک مستقل شریعت لے کر آگئے تو کسی کو اس کا حق نہیں کہ ان کی شریعت کے احکام میں جدال اور نزاع پیدا کرے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ پہلی تفسیر اور اس دوسری تفسیر میں درحقیقت کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ آیت کا نزول کسی خاص نزاع دربارہ ذبائح کے سبب سے ہوا ہو مگر آیت کے عام الفاظ تمام احکام شرعیہ پر مشتمل ہیں اور اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص مورد کا نہیں ہوتا۔ تو حاصل دونوں تفسیروں کا یہی ہوجائے گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر امت کو الگ الگ شریعت دی ہے جن میں احکام جزئیہ مختلف بھی ہوتے ہیں تو کسی پچھلی شریعت پر عمل کرنے والے کو نئی شریعت سے معارضہ اور نزاع کا کوئی حق نہیں بلکہ اس پر اس نئی شریعت کا اتباع واجب ہے اسی لئے آخر آیت میں فرمایا گیا، وَادْعُ اِلٰى رَبِّكَ ۭ اِنَّكَ لَعَلٰى هُدًى مُّسْتَقِيْمٍ ، یعنی آپ ان لوگوں کی چہ میگوئیوں اور نزاع وجدال سے متاثر نہ ہوں بلکہ برابر اپنے منصبی فریضہ دعوت الی الحق میں مشغول رہیں کیونکہ آپ حق اور صراط مستقیم پر ہیں آپ کے مخالف ہی راستہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
ایک شبہ کا جواب
اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد کسی پہلی شریعت پر ایمان رکھنے والے مثلاً یہودی نصرانی وغیرہ کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ خود قرآن نے ہمارے لئے اس آیت میں یہ کہہ کر گنجائش دی ہے کہ ہر شریعت اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لئے اگر زمانہ اسلام میں بھی ہم شریعت موسویہ یا عیسویہ پر عمل کرتے رہیں تو مسلمانوں کو ہم سے اختلاف نہ کرنا چاہئے کیونکہ آیت میں ہر امت کو شریعت خاصہ دینے کا ذکر کرنے کے بعد پوری دنیا کے لوگوں کو یہ حکم بھی دے دیا گیا ہے کہ شریعت محمدیہ کے قائم ہوجانے کے بعد وہ اس شریعت کی مخالفت نہ کریں۔ یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان ان کی سابقہ شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہ بولیں اور اس آیت کے بعد کی آیات سے یہ مضمون اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے جن میں شریعت اسلام کے خلاف مجادلہ کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ان حرکتوں کو خوب جانتا ہے وہی اس کی سزا دے گا۔ وَاِنْ جٰدَلُوْكَ فَقُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔
Top