Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَیْنِ١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ مِّنْهُ١ؕ مَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَهِّرَكُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ جو ایمان لائے (ایمان والے) اِذَا : جب قُمْتُمْ : تم اٹھو اِلَى الصَّلٰوةِ : نماز کے لیے فَاغْسِلُوْا : تو دھو لو وُجُوْهَكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيَكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِلَى : تک الْمَرَافِقِ : کہنیاں وَامْسَحُوْا : اور مسح کرو بِرُءُوْسِكُمْ : اپنے سروں کا وَاَرْجُلَكُمْ : اور اپنے پاؤں اِلَى : تک الْكَعْبَيْنِ : ٹخنوں وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو جُنُبًا : ناپاک فَاطَّهَّرُوْا : تو خوب پاک ہوجاؤ وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر (میں) سَفَرٍ : سفر اَوْ : اور جَآءَ : آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں سے مِّنَ الْغَآئِطِ : بیت الخلا سے اَوْ لٰمَسْتُمُ : یا تم ملو (صحبت کی) النِّسَآءَ : عورتوں سے فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر نہ پاؤ مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرلو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : تو مسح کرو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ مِّنْهُ : اس سے مَا يُرِيْدُ : نہیں چاہتا اللّٰهُ : اللہ لِيَجْعَلَ : کہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْ : کوئی حَرَجٍ : تنگی وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّرِيْدُ : چاہتا ہے لِيُطَهِّرَكُمْ : کہ تمہیں پاک کرے وَلِيُتِمَّ : اور یہ کہ پوری کرے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
اے ایمان والو جب تم نماز کو اٹھو،35 ۔ تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھولیا کرو اور اپنے سروں پر مسح کرلیا کرو اور اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت (دھولیا کرو) ،36 ۔ اور اگر تم حالت جنابت میں ہو تو (سارا جسم) پاک صاف کرلو،37 ۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجا سے آئے یا تم نے عورت سے صبحت کی ہو،38 ۔ پھر تم کو پانی نہ ملے،39 ۔ تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کرلیا کرو،40 ۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تمہارے اوپر کوئی تنگی ڈالے،41 ۔ بلکہ وہ (تو یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں خوب پاک صاف رکھے،42 ۔ اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے، تاکہ تم شکر گزاری کرو،43 ۔
35 ۔ یعنی نماز کا ارادہ کرو اور حالت وضو میں نہ ہو، ای اذا اردتم (قرطبی) ای اذا ارتم القیام عبرعن ارادۃ الفعل بالفعل المسبب عنھا للایجاز (بیضاوی) اتنا فقرہ کہ حالت وضو میں نہ ہو، یا محدث ہو، محذوف مانا گیا ہے، اجمالا، اسی لیے وضو پر وضو نماز کے نماز کے لیے ضروری نہیں، وظاہر الایۃ یوجب الوضوء علی کل قائم الی الصلوۃ وان لم یکن محدثا والاجماع علی خلافہ (بیضاوی) مطلق ارید بہ التقیید والمعنی اذا قمتم الی الصلوۃ محدثین (بیضاوی) وقدروی نفی ایجاب الوضوء بکل صلاۃ من غیر حدث عن ابن عمر وابی موسیٰ و جابر بن عبداللہ وعبیدۃ السلمانی وابی العالیۃ و سعید بن المسیب و ابراہیم والحسن ولا خلاف بین الفقہاء فی ذلک (جصاص) گو تازہ وضو کی فضیلت بہت زائدوارد ہوئی ہے، اور رسول اللہ ﷺ اور خلفائے ؓ کا عام تعامل بھی یہی تھا، چانچہ وضو پر وضو کرنے کے استحباب کے سب قائل ہیں، وقدروی عن النبی ﷺ اخبار فی تجدید الوضوء (جصاص) وقدروی عن ابی بکر وعمر وعثمان وعلی انھم کانوا یتوضؤن لکل صلاۃ وھذا محمول علی ان فعلوہ استحبابا (جصاص) قال ابن سیرین کان الخلفاء یتوضؤن لکل صلاۃ (قرطبی) حملوا الامر علی الندب وکان کثیر من الصحابۃ منھم ابن عمر یتوضؤن لکل صلاۃ طلبا للفضل وکان (علیہ السلام) یفعل ذلک (قرطبی) 36 ۔ اب تعلیم ارکان وضو کی ہورہی ہے اسلام بخلاف دوسرے مذہبوں کے، باطنی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ظاہری وجسمانی صفائی کا بھی بہت قائل ہے۔ اور اس نے اپنی مرکزی عبادت نماز سے قبل وضو کو لازمی ٹھیرایا ہے کہ بغیر اس کے نماز درست ہی نہیں۔ آیت احکام قرآنی کی اہم ترین آیتوں میں سے ہے۔ (آیت) ” ذکر العلماء ان ھذہ الایۃ من اعظم ایات القران مسائل واکثرھا احکاما فی العبادات ویحق ذلک (ابن العربی) یہاں تک کہ اس ایک آیت کے اندر سے بعض بعض علماء وفقہاء نے آٹھ آٹھ سو اور ہزار ہزار مسئلے مستخرج اور مستنبط کیے ہیں۔ ولقد قال بعض العلماء ان فیھا الف مسئلۃ واجتمع اصحابنا بمدینۃ السلام فتتبعوھافبلغوھا ثمان ماءۃ مسئلۃ ولم یقدروا ان یبلغوھا الالف (ابن العربی) وضو میں فرض صرف چار چیزیں ہیں، اور انہی کا آیت میں بیان ہے۔ ( 1) (آیت) ” فاغسلوا وجوھکم “۔ چہرہ کا دھونا۔ (2) (آیت) ” وایدیکم الی المرافق “۔ ہاتھوں کا کہنیوں سمیت دھونا۔ (3) (آیت) ” وامسحوا برء وسکم “۔ سر کا مسح کرنا، یا پانی میں تر کیا ہوا ہاتھ اس پر پھیرنا۔ (4) (واغسلوا) (آیت) ” ارجلکم الی الکعبین “۔ پیروں کا ٹخنوں سمیت دھونا۔ ان کے علاوہ اور جو چیزیں ہیں، کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی، لینا، غرغرہ کرنا، وقس علی ھذا، ان میں سے بعض امور مسنون ہیں، اور بعض مستحب۔ تفصیل فقہ کی کتابوں میں ملے گی، تفسیر سے اس کا تعلق نہیں اعضائے وضو پر پانی بہانا، انہیں دھونا، ملنا صاف کرنا، اپنے اندر جتنی بھی حکمتیں اور جسمانی مصلحتیں رکھتا ہے اور حضور قلب میں جس حد تک معین ہوسکتا ہے ان پہلوؤں پر تفصیل سے لکھنے کے لیے ایک مستقل مقالہ کی ضرورت ہوگی، (آیت) ’ ’ فاغسلوا وجوھکم “۔ مالکیہ کے ہاں چہرہ دھونے کے معنی یہ ہیں کہ پانی اس پر بہایا جائے اور ہاتھ اس پر پھیرا جائے، لیکن حنفیہ کے ہاں محض پانی کا اس پر بہہ جانا کافی ہے، ہاتھ سے ملنا اور رگڑنا لازمی نہیں۔ ولا بد فی غسل الوجہ من نقل الماء الیہ وامرار الیدعلیہ وھذہ حقیقۃ الغسل عندنا (قرطبی) قال اخرون وھو قول اصحابنا وعامۃ الفقھاء علیہ اجراء الماء علیہ ولیس علیہ تل کہ بیدہ (جصاص) (آیت) ” وایدیکم الی الفرافق “۔ الی اظہار غایت و انتہاء کے لیے آتا ہے اور اس فیصلہ کا تعلق سیاق سے ہے کہ (آیت) ” الی “۔ کا مابعد بھی الی کے ماقبل کے ساتھ شامل رکھا جائے گا یا اس سے الگ سمجھا جائے بعض ماہرین نحو نے یہ بھی کہا ہے کہ مابعد اگر ہم جنس ہے تو ماقبل کے ساتھ شامل سمجھا جائے گا، اور اگر غیر جنس ہے تو اس سے خارج رہے گا۔ لان ما بعد الی اذا کان من نوع ما قبلھا دخل فیہ قالہ سیبویہ وغیرہ (قرطبی) قال الخلیل فی قولہ تعالیٰ الی المرافق ان المرافق فیما یغسل (تاج) القول الثانی ان الی حد والحد اذا کان من جنس المحدود دخل فیہ (ابن العربی) (آیت) ” الی “۔ کبھی معیت کے معنی کے بھی دیتا ہے اور مع کا مرادف ہوتا ہے۔ وتاتی للمعیۃ (تاج) چناچہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں اس معنی میں آیا ہے۔ (آیت) ” واذا خلوا الی شیطینھم۔ من انصاری الی اللہ “۔ ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم “۔ وغیرھا۔ اور بہت سے نحویین نے یہاں بھی الی اسی معنی میں لیا ہے۔ فان جماعۃ النحویین جعلوا الی بمعنی مع ھھنا واوجبوا غسل المرافق والکعبین (تاج) رسول اللہ ﷺ نے اسے دفع کردیا ہے۔ روی جابر ؓ بن عبد اللہ ان النبی ﷺ کان اذا بلغ المرفقین فی الوضوء ادا رالماء علیھما وفعلہ ذلک عندنا علی الوجوب لورودہ موردالبیان (جصاص) عن النبی ﷺ انہ کان یدیر الماء علی مرفقیہ (مدارک) حنفیہ کے ہاں تو کہنی کا اعضاء وضو میں داخل ہونا ایک متفقہ مسئلہ ہے ہی (اختلاف صرف امام زفر سے منقول ہے) والذی ذکرنا من دخول المرافق فی الوضوء ھو قول اصحابنا جمع یا الازفر (جصاص) باقی دوسرے مذاہب فقہ نے بھی کہنی کا دھونا لازم قراردیا ہے۔ وجمھور الفقھاء علی دخولھا وحکی عن الشافعی (رح) انہ قال لا اعلم خلافا فی ان المرافق یجب غسلھا (روح) فقد نقل ابن ھبیرۃ اجماع الائمۃ الاربعۃ علی فرضیۃ غسل الیدین مع المرفقین (روح) قال الجمہور غسل الیدین الی المرفقین واجب معھما (کبیر) (آیت) ” وامسحوا برء و سکم “۔ مسح سے مراد بھیگے ہوئے ہاتھ کے پھیر لینے سے ہے۔ جملہ کی ترکیب (آیت) ” برء و سکم “ اس کی مقتضی ہے کہ مراد پورے سر کا مسح نہیں، بلکہ اس کے کسی حصہ کا ہے، چناچہ حنفیہ کے ہاں سر کے چوتھائی حصہ کا مسح کافی ہے اور ب تبعیض کے لیے ہے۔ یقتضی مسح بعضہ (جصاص) روی عن اصحابنا فیہ روایتان احدھما ربع الرأس والاخری مقدار ثلاثۃ اصابع (جصاص) اخبر ابراھیم ان الباء مزیدۃ وقیل للتبعیض وکونھا للتبعیض ینکرہ اکثر النحاۃ حتی قال بعض وقال من لاخبرۃ لہ بالعربیۃ الباء فی مثل ھذا للتبعیض ولیس بشیء یعرفہ اھل العلم (بحر) تاہم ربع سر کے لیے حنفیہ کے ہاں دلیل سنت رسول سے ہے۔ آپ ﷺ کا تعامل پیشانی پر مسح کا تھا اور پیشانی کی مقدار ربع سر کے برابر ہوتی ہے۔ واخذنا ببیان نبی ﷺ وھو ماروی انہ مسح علی ناصیتہ وقدرت الناصیۃ بربع العرأس (مدارک) (آیت) ” وارجلکم “۔ شامی وعلی وحفص سب سے اس کی قرأت نصب کے ساتھ ارجل مروی ہے، جس سے (آیت) ” ارجلکم “۔ فاغسلوا کا مفعول ٹھہرتا ہے۔ اور وجوھکم اور ایدکم پر عطف ہوتا ہے اور معنی یہ ہوتے ہیں کہ اپنے چہروں اور ہاتھوں اور پیروں کو دھوؤ بالنصب شامی ونافع وعلی وحفص والمعنی فاغسلوا وجوھکم وایدکم وارجلکم (مدارک) قرأ نافع ابن عامر والکسائی ارجلکم بالنصب (قرطبی) عن ابی عبدالرحمن قال قرأ علی الحسن والحسین ؓ فقرار وارجلکم الی کعبین تسمع علی ؓ ذلک وکان یقضی بین الناس فقال وارجلکم وھذا من المقدم والمؤخر من الکلام (ابن جریر) قرأ علی وعبداللہ بن مسعود وابن عباس فی روایۃ و ابراہیم والضحاک ونافع وابن عامر والکسائی وحفص عن عاصم بالنصب وکانوا یرون غسلھا واجبا (جصاص) دونوں پیروں کا دھونا ہی نہ کہ ان پر مسح کرنا، سنت رسول ﷺ سے بھی ثابت ہے اور تعامل صحابہ سے بھی۔ اور عطاء تابعی کا قول ہے کہ صحابہ کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ ھذا مذھب الجمھور والکافۃ من العلماء وھو الثابت من فعل النبی ﷺ (قرطبی) عن علی ؓ قالا اغسلوا الاقدام الی الکعبین (ابن جریر) وعن عطاء قال واللہ ما علمت ان احدا من اصحب رسول اللہ ﷺ مسح علی القدمین وانما امر بغسل ھذہ الاعضاء (مدارک) ولنا ان النبی ﷺ واظب علی غسل الرجلین وبہ امر من علمہ الوضوء ورأی رجلا یلوح عقبہ فقال ویل للاعقاب من النار (مبسوط) النبی ﷺ غسل وما مسح قط (ابن العربی) یؤیدہ السنۃ الشائعۃ وعمل الصحابۃ وقول اکثر الائمۃ (بیضاوی) قال جمھور الفقھاء والمفسرین فرضھما الغسل (کبیر) والجواب بان وجوب واحدۃ بالعبارۃ واخری بالدلالۃ لا طائل تحتہ بعد انعقاد الاجماع القطعی علی افتراضھما۔۔۔ فان الاجماع انعقد علی غسلھما (بحر الرائق) (آیت) ” الی الکعبین “۔ یعنی تخنوں کو شامل کرکے۔ وحکم الکعبین کالمرفقین (بحرالرائق) الی کے مفہوم سے متعلق یہاں بھی وہی مبحثیں ہوئی ہیں، جو الی المرافق کے تحت میں گزر چکی ہیں۔ ؛ وضو ہی کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان ایک طویل بحث نیت کی آجاتی ہے۔ حنفیہ کے ہاں نیت واجب نہیں، دوسرے ائمہ کی بابت روایتیں مختلف آئی ہیں۔ وقال کثیر من الشافعیۃ لا حاجۃ الی نیۃ وھو قول الحنفیۃ (قرطبی) النیۃ فی الطھارۃ واجبۃ فیہ وبہ قال مالک والشافعی و اکثر العلماء وروی الولیدبن مسلم عن مالک انھا غیر واجبۃ فیہ وبھا قال ابو حنفیۃ والاوزاعی۔ سواء قارنتہ النیۃ اولم تقارنہ (جصاص) قال ابوحنیفۃ وابو یوسف ومحمد کل طھارۃ بماء تجوز بغیرنیۃ وھو قول الثوری وقال الاوزاعی یجزی الوضوء بغیرنیۃ (جصاص) قال الشافعی (رح) النیۃ شرط لصحۃ الوضوء والغسل وقال ابو حنیفۃ (رح) لیس کذلک (کبیر) اختلف علماء الامصار ھل النیۃ شرط صحۃ الوضوء ام لا فذھب فریق منھم الی انھا شرط وھو مذھب الشافعی ومالک واحمد وذھب فریق اخرالی انھا لیست بشرط وھو مذھب ابی حنیفۃ والثوری (ہدایۃ المجتہد) 37 ۔ یعنی غسل کرلو، یا سارے جسم کو پانی سے دھوڈالو۔ ای فاغتسلوا (معالم۔ بیضاوی) امربالاغتسال بالمآء (قرطبی) (آیت) ” جنبا “۔ جنابت پر حاشیہ سورة النساء میں گزر چکا۔ (آیت) ” فاطھروا “۔ تطھیر باب تفعیل سے ہے یہیں سے نکتہ سنج فقہاء نے سارے جسم کے دھونے کا حکم نکالا ہے، اور محض بعض اعضاء کے دھو ڈالنے کو کافی نہیں سمجھا ہے، اور غسل واجب میں کلی، غرغرہ اور ناک میں پانی لینے کا حکم بھی یہیں سے پیدا ہوا ہے۔ عموم سائر البدن فلایجوز الاختصار علی بعض (جصاص) یقتضی تطھیر داخل الفم والانف (جصاص) 38 ۔ (یا کسی اور طریقہ سے غسل ٹوٹ چکا ہو اور اب غسل کی ضرورت ہو) (آیت) ” لمستم “۔ ملامست سے کنایہ جماع سے ہے، صحابہ تابعین، لغت سب سے یہی ثابت ہے۔ الملامسۃ ھنا الجماع (قرطبی) یکنی بالملامسۃ عن الجماع (راغب) قال علی وابن عباس اوبو موسیٰ ؓ والحسن وعبیدہ والشعبیھی کنایۃ عن الجماع (جصاص) فمن قرأ اولمستم فظاہرہ الجماع لاغیر لان المفاعلۃ لاتکون الا من اثنین الا فی اشیاء نادرۃ (جصاص) 39 ۔ اس کا تعلق ضرورت وضو وغسل کی سب شکلوں سے ہے، یعنی پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو، خواہ یہ بسبب مرض کے، خواہ بہ سبب فاصلہ کے، یا کسی اور سبب سے معناہ فلم تقدروا علی الماء (راغب) سردی لگ جانے کا خوف، بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ، پانی لانئے میں بہت زیادہ دشواریاں، یہ ساری چیزیں پانی نہ ملنے ہی کے حکم میں داخل ہیں، حدیث میں تصریح موجود ہے کہ عمرو بن العاص ؓ نے پانی ہوتے ہوئے تمیم کرلیا، اس لیے کہ پانی سے انہیں سردی لگ جانے کا اندیشہ تھا، اور رسول اللہ ﷺ نے اسے جائز رکھا۔ قدروی فی حدیث عمر وبن العاص انہ تیمم مع وجود الماء لخوف البرد فاجازہ النبی ﷺ ولم ینکرہ (جصاص) حنفیہ کے ہاں سردی کے عذر پر بجائے غسل کے تیمیم کرلینا بالکل جائز ہے، قال ابوحنیفۃ (رح) ومحمد (رح) ومن خاف برد الماء ان اغتسل جازلہ التیمم لما یخاف من الضرر (جصاص) تیمم کے ساتھ نماز جماعت میں بھی شرکت کی پوری اجازت حدیث میں موجود ہے۔ و حدیث عمران بن حصین نص فی ذلک وھو ان رسول اللہ ﷺ رای رجلا معتزلا لم فی القوم فقال یافلاں مامنعک ان تصلی فی القوم فقال یارسول اللہ یارسول اللہ اصابتنی جنابۃ ولا ماء قال علیک بالصعید فانہ یکفیک، اخرجہ البخاری (قرطبی) فقہاء امت نے جنہیں حقیقۃ حکمائے امت کہنا چاہیے اسے خوب صاف کردیا ہے، کہ پانی مل سکتا تو ہو لیکن بہت گراں قیمت پر، یا موجود تو ہو لیکن اتنی کم مقدار میں کہ پینے کے لیے نہ بچ سکے گا، تو ایسے ہر موقع پر پانی کا وجود اس کے عدم ہی کے برابر ہے اور تیمم بالکل درست ہوگا، والجملۃ التی اتفق اصحابنا علیھا ان الوجود امکانالماء الذی یکفیہ لطھارتہ من غیرضرر فلو کان معہ ماء وھو یخاف العطش اولم یجدہ الابثمن کثیرتیمم ولیس علیہ ان یغالی فیہ (جصاص) 40 ۔ تیمم کا بیان اور اس کا طریقہ سب سورة نساء کی آیت متعلقہ کے ماتحت گزر چکا ہے۔ (آیت) ” صعیدا طیبا “۔ صعید سے مراد مٹی کی جنس ہے، جس چیز میں بھی اجزاء ارضی شامل ہوں، اس حکم میں آجائے گی، وکان الصعید اسما للارض اقتضی ذلک جواز التیمم بکل ماکان من الارض (جصاص) قال ابوحنیفۃ (رح) یجزی التیمم بکل ماکان من الارض التراب والرمل والحجارۃ والزرنیخ والنورۃ والطین الاحمر والمراد اسنج واما اشبہہ وھو قول محمد وزفر۔ 41 ۔ (احکام شریعت کے ذریعہ سے۔ بلکہ وہ تو تنگی رفع کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ احکام تیمم سے ابھی ابھی ظاہر ہوگا) آیت میں ایک بہت بڑی اصل کا بیان آگیا۔ یعنی یہ کہ اللہ نے شریعت میں مشقت وتعب نہیں رکھی ہے۔ اور اس ایک اصل سے بیسیوں مسائل نکل سکتے ہیں۔ اور محقق رازی (رح) کی نظر اس نکتہ تک خوب پہنچی ہے۔ اعلم ان ھذہ الایۃ اصل کبیر معتبر فی الشرع وھو ان الاصل فی المضار ان لا تکون مشروعۃ (کبیر) احکام کا وہ مجموعہ جس پر شریعت کا اطلاق ہوتا ہے، وہ تو نام ہی بہترین نقشہ زندگی کا ہے۔ اور اس کا مقصود بھی یہ ہے کہ جو کوئی اس ہدایت نامہ پر عمل کرے، وہ زندگی کی دشواریوں کو بہترین اور سہل ترین طریقہ پر عبور کرسکے۔ احکام شریعت کو سخت سمجھ لینا ایسا ہے جیسے کوئی بچہ اپنے شفیق اور تجربہ کار باپ کی ہدایتوں کو، یا کوئی مریض اپنے دلسوز اور حاذق طبیب کے احکام کو ظالم وجبر سے تعبیر کرنے لگے، بلکہ ان دونوں مثالوں سے بھی کہیں بڑھ کر احمقانہ۔ 42 ۔ (معنوی وظاہری ہر اعتبار سے) طہارت کا لفظ صفائے قلب اور جسمانی پاکیزگی دونوں کے لیے عام ووسیع ہے۔ چناچہ شریعت کے احکام دونوں اقسام کے جامع ہیں۔ مایرید۔ یرید، متکلمین نے آیت کے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب ارادہ ہے۔ دلت الایۃ علی انہ تعالیٰ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب ارادہ ہے، دلت الایۃ علی انہ تعالیٰ مریدوھذا متفق علیہ بین الائمۃ (کبیر) یہی الفاظ ان نیم مشرک نیم ملحد قوموں کی تردید کے بھی کافی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو صفت ارادہ سے محروم محض مشین کی طرح چندقاعدوں کا پابندومحکوم سمجھے ہوئے ہیں، تطھیر، باب تفعیل سے ہے۔ یعنی خوب اچھی طرح تمہیں پاک وصاف کردے۔ یہاں یہ نکتہ بھی خوب سمجھ لینا چاہیے، کہ ایک طرف صوفیہ محققین اور دوسری طرف فقہاء امت نے کتاب وسنت ہی سے جو جزئیات اعمال نکال نکال کر پیش کیے ہیں، ان سے مقصود بھی تمامتر اسی تطہیر ظاہری وباطنی کی راہ میں سہولتیں پیدا کرنا ہے نہ کہ اور مشقتیں بڑھانا۔ 43 ۔ (اور ادائے شکر کی اعلی ترین فرد ان احکام کی تعمیل ہے) (آیت) ” لیتم نعمتہ “۔ اور وہ اتمام نعمت یہی ہے کہ وہ اپنے قرب اور رضا کے راستے سہل ترین اور کامل ترین صورت میں تمہیں بتا دے، نعمتہ بالاسلام وببیان شرائع الدین (جلالین) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ شرعی رخصتوں سے تنگدل اور ان پر نفس کا شبہ کرنا جیسا کہ عمل میں غلو رکھنے والے کرتے رہتے ہیں، مزاحمت حق ہے۔
Top