Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
اَوْفُوْا
: پورا کرو
بِالْعُقُوْدِ
: عہد۔ قول
اُحِلَّتْ لَكُمْ
: حلال کیے گئے تمہارے لیے
بَهِيْمَةُ
: چوپائے
الْاَنْعَامِ
: مویشی
اِلَّا
: سوائے
مَا
: جو
يُتْلٰى عَلَيْكُمْ
: پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں
غَيْرَ
: مگر
مُحِلِّي الصَّيْدِ
: حلال جانے ہوئے شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: احرام میں ہو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَحْكُمُ
: حکم کرتا ہے
مَا يُرِيْدُ
: جو چاہے
اے ایمان والو ! پورا کرو عہدویمانکو تمہارے لیے حلاقرارد یئے گئے ہیں مویشی وہ جو تم پر پڑھ کر سنائے جائیں گے اس حال میں کہ تم حلال نہ سمجھنے والے ہو شکار کو جب کہ تم کی حالت میں ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔
کوائف اس سورت کا نام سورة المائدۃ ہے ۔ اسکی ایک سو بیس آیات اور سولہ رکوع ہیں ۔ یہ سورة 48425 کلمات اور 12464 حروف پر مشتمل ہے ۔ سورة آل عمران اور سورة نساء کی طرح کی طرح یہ بھی مدنی سورة ہے اس کا اکثر حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا تاہم اس کی تیسری آیت کا حصہ حجہ الوداع کے موقع پر مکہ معظمہ میں نازل ہوا۔ (1) مائدۃ کے علاوہ اس سورة کے اور بھی کئی نام ہیں اسے سورة العقود بھی کہا گیا ہے کیونکہ اس کی پہلی آیت میں عق کا لفظ آیا ہے جس کا معنی عہد پیمان ہے اور جس کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ۔ ا س کا نام بھی ہے کیونکہ انسانوں کو عذاب الہٰی سے بچانے والی سورة ہے ۔ تاہم اس کا زیادہ معروف نام مائدۃ ہی ہے۔ وجہ تسمیہ اس سورة کا نام مائدہ دو وجوہات سے ہے ۔ پہلی وجہ دیہ ہے کہ اس کے پندرھویں رکوع میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہے ، جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی اے اللہ ! ہمارے لیے آسمان سے دستر خوان نازل فرمادے مائدہ اس دستر خوان وکو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو۔ اگر محض دستر خوان ہو اور اس پر اشیائے اکل و شرب موجود نہ ہوں تو اسے عربی زبان میں خوان کہتے ہیں ترمذی شریف میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھانا کبھی چھوٹے یا بڑے میز پر نہیں کھایا ۔ پوچنے والا پوچھتا ہے کہ حضور کس چیز پر کھانا تناول فرماتے تھے ، تو بتایا گیا کہ آپ چٹائی ، کپڑے یا چمڑے کے دستر خوان پر کھانا رکھ کر تناول فرماتے تھے۔ بہر حال سورة مائدہ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے دستر خوان نازل فرمایا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سورة میں کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق حلت و حرمت کے احکام ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی طہارت ، سماحت ، عدالت اور اخبات پر پڑتا ہے ۔ اگر کھانا حلال ہو تو انسان میں یہ اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں ۔ ا سی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اکل حلال کا پابند کیا ہے ۔ ا و ر جو چیزیں اس کے اخلاق کے لیے مضر ہیں انہیں حرام قرار دیکر ان کے استعمال سے منع فرمادیا ہے ۔ چونکہ اس سورة میں حلال و حرام جانوروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے ، لہذا یہ اس سورة کی دوسری وجہ تسمیہ ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ تر بنیادی عقائد کی اصلاح کا پروگرام نازل فرمایا ہے ۔ ا ن میں اخلاق اور عقائد کی درستگی کے اصول بیان کئے گئے ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لہذا وہاں پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اجتماعی احکامات نازل فرمائے ۔ چناچہ مدنی سورتوں میں بنیادی عقائد کے علاوہ معاشرے میں پیش آنے والے روز مرہ کے مسائل اور ان کا حل ہے۔ سورة مائدہ میں بھی عہدو پیمان کے مسائل ، منافقین کی بری خصلتیں ، مسلمہ قسم اور شہادت اور اور شہادت علی وغیرہ کے قوانین بیان ہوئے ہیں ۔ بنیادی عقیدہ توحید کا ذکر آیا ہے اور شرک سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ قیامت اور محاسبے کا تذکرہ ہے۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق تفصیلی بیان ہے۔ ایک مسلمان کی روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل متعلقہ طہارت ، تیمم اور غسل وغیرہ کے مسائل بھی بیان ہوئے ہیں اور پھر جیسا کہ سورة کے نام سے واضح ہے ۔ اس میں ماکو لات و مشروبات کی حلت اور حرست کا قانون بتایا گیا ہے۔ سابقہ سورتوں کے ساتھ ربط مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ سورة بقرہ میں روئے سخن یہودیوں کی طرف تھا ، ان کی خرابیاں بیان فرما کر انکی اصلاح کا پروگرام دیا گیا تھا۔ چناچہ اسے لے کر کئی رکوع تک یہودیوں کا تذکرہ ہے ۔ اس کے بعد سورة آل عمران میں زیادہ تر روئے سخن نصارٰی کی طرف تذکرہ ہے۔ اس میں عیسائیوں کے عقیدہ انبیت کا ہے مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی تعلیمات کا ذکر کرکے نصاریٰ کو قبول حق کی دعوت دی گئی ہے ۔ پھر بحران کی آمد اور ان کے ساتھ مباطہ کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ اہل ایمان کے لیے ضروری احکام بھی نازل فرمائے گئے ہیں۔ اس سے اگلی سورة نساء کا بنیادی موضوع کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ سورة نساء اور مائدہ میں تو عرب کے باشندوں کی اصلاح پیش نظر ہے تاہم دوسرے مذاہب کے ساتھ بحث و مباحثہ کا تذکرہ بھی ہے ۔ اہل کتاب اور منافقین کا تذکرہ حسب سابق اس سورة میں بھی موجود ہے ۔ کفر اور شرک کی برابر مذمت بیان ہورہی ہے ، اس کے علاوہ بہت سے دیگر احکام بھی نازل ہوئے ہیں۔ اس کے اگلی سورة انعام میں عرب سے باہر بسنے والے محسوس کا تذکرہ بھی آئے گا۔ اللہ نے ان کے باطل عقیدہ نور و ظلمت اور نیکی اور بدی کے دو خدائوں ہر من اور یزدان کا رد فرمایا ہے ۔ سورۃ نساء کا ایک خصوصی موضوع مجرمات نکاح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حرم رسوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ان کے علاوہ باقی تمام عورتوں سے نکاح جائز ہے بشر طی کہ ان کا مہر اور دیگر حقوق ادا کرو۔ نکاح انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اور نسل انسانی کی بقا کا انحصار اسی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے علاوہ شہوت رانی کے تمام ذرائع کو حرام قرار دیا ہے ۔ ہاں البتہ لونڈیوں سے استختاع جائز ہے لیکن آج کی دنیا میں یہ ذرایعہ بلکل ختم ہوچکا ہے۔ الغرض ! گذشتہ سورة میں اللہ تعالیٰ نے نکاح اور محرمات نکاح کا قانون بتلا کر بقائے نوع انسانی کا سامان مہیا کیا اور اب اس سورة میں انسانی خوراک کے متعلق حلت و حرمت کا اصول بتا کر بقائے شخصی کا انتظام فرمایا ہے ۔ ان دوصورتوں میں یہ خصوصی ربط پایا جاتا ہے جس طرح انسان کھانے پینے کا محتاج ہے۔ اسی طرح نکا ح بھی اس کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ پہلی سورة میں اللہ نے محرمات نکاح کا ذکر کیا اور اب اس سورة میں محرمات اکل و شرب کا خصوصی بیان ہے ۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایک انسانی جسم میں دو چیزیں بڑی خطرناک ہیں یعنی منہ اور شرمگاہ ۔ سبابقہ سورة میں شرمگاہ کی حفاظت کا قانون تھا اور اب اس سورة میں یعنی اشیائے خورد نوش کی حفاظت کا قانون ہے ۔ ا س طرح ان دو ملحقہ سورتوں میں حفاظت فرج اور حفاظت بطن کے اصول و قوانین بتائے گئے ہیں۔ اس سورة کا ربط اگلی سورة انعام کے ساتھ بھی ہے جیسا کہ اس سورة کے نام سے ظاہر ہے ، وہاں بھی مویشیوں اور ان کی حلت و حرمت کا تذکرہ ہے۔ حرام جانوروں کا گوشت اور دودھ وغیرہ استعمال کرنے سے ان کا منفی اثر انسانی کی روحانیت پر پڑتا ہے ۔ اس لیے شریعت نے ہر ایسی غذا پر پابندی لگائی ہے جو جسمانی ، اخلاقی یا روحانی طور پر مضر ہو۔ اس طرح اس سورة کا ربط اگلی سورة کے ساتھ بھی ہے۔ زمانہ نزول کل عرض کیا تھا کہ یہ سورة مدنی ہے کیونکہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تاہم تیسری آیت کا ایک حصہ الیوم ۔۔۔ دیئنا تک حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں نازل ہوا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورة کی تکمیل کئی سالوں میں ہوئی بعض مفسرین سورة کے بیک وقت نزول کے بھی قائل ہیں مگر یہ درست نہیں ہے حقیقت یہی ہے کہ یہ سورة 6 ء اور 9 ء کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی ۔ تاہم مذکورہ بالا حصہ آیت 10 ھ میں میدان عرفات میں نازل ہوا ۔ کیفیت نزول وحی الہٰی بڑی بوجھل ہوتی ہے اس کا ذکر سورة مزمل میں موجود ہے انا سنلقی علیل قولاثقیلا ہم آپ پر ایک بوجھل بات ڈال ہیں بخاری شریف کی روایت 1 ؎ میں آتا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی وحی نازل ہوتی تو اس کی حرارت سے حضور ﷺ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے گرنے لگتے ۔ امام شافی ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ نزوحی کے وقت انخلاع (یا اسنلاخ ) ہوتا تھا یعنی آپ بشریت سے ملکیت کی طرف ٍ 1 ؎ بخاری 2 و ترمذی 523 منتقل ہوجاتے تھے کیونکہ عام انسان وحی کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ نزول وحی کے وقت حضور ﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوجاتا اور آپ کی سانس تیز چلنے لگتی۔ عام طور پر نزول وحی کی کیفیت ظاہر ہونے کے پر صحابہ کرام ؓ آپ پر چادر تان دیتے جیسا کہ جعرانہ کے مقام پر ہوا تھا۔ بہرحال مذکورہ حصہ آیت کے متعلق آتا ہے کہ نزول وحی کے وقت حضور نبی کریم (علیہ السلام) بڑی طاقتور اونٹنی عصباء پر سوار تھے ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وحی کے بوجھ سے اونٹنی کی ٹانگیں اور گردن ٹوٹی پڑتی ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ اونٹنی کی قوت برداشت جواب دے گئی لہذا حضور ﷺ اونٹنی سے نیچے اتر آئے۔ ایفائے عہد سورة کی ابتدا ایفائے عہد سے ہوتی ہے یا ایھا الذین امونو اوفو بالعقود اے ایمان والو ! عہد و پیمان کو پورا کرو ۔ مفسر قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی ــ (رح) فرماتے ہیں کہ سورة نساء کی آخری آیت میں اللہ نے فرمایا تھا ” یمبین اللہ لکم ان تضلو “ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ تمہارے لیے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ گمراہی سے بچ جائو۔ اب اس کے ساتھ ہی اس سورة میں فرمایا ہے ۔ اے لوگو ! عہد و پیمان کو پورا کرو۔ دونوں آیات آپس میں مربوط ہیں ۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ واضح طور پر بیان کرتا ہے ان کی تفصیلات آرہی ہے اس لیے شروع میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تکمیل کے معاملہ میں اپنے عہد و پیمان کو لازماً پورا کرو۔ اور یہ اہل ایمان سے خطاب خاص ہے۔ کیونکہ احکام الہٰی کی تعمیل کے لیے وہ اولین مکلف ہیں۔ عقود ، عقد کی جمع ہے جس کا معنی عہدو پیمان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ عباس ؓ اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں ۔ کہ عہد و پیمان میں ہر قسم کے عہد شامل ہیں۔ عہد و پیمان خواہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو یا اس کے نبی کے ساتھ ، عبادت کا عہد ہو یا مخلوق کے ساتھ معاملات کا ، اپنی جماعت کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو یا کسی بیرونی جماعت کے ساتھ عہد اپنی ملکی رعایا کے ساتھ ہو یا غیر ممالک کے ساتھ ، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ہر صورت میں پورا کیا جائے ۔ اوفوا بالعقود کا یہی مطلب ہے۔ اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ مختلف معاملات میں اکثر عہدو پیمان ہوتے رہتے ہیں جن کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ عہد سے صرف نظر کرنے والوصرف نظر کرنے والوں کو حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے منافق قرار دیا ہے یعنی منافقوں کی ایک خصلت یہ ہے اذ عا ھد غدر کہ معاہدہ کرکے اس کی وفا نہیں کرتے بلکہ غداری کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ بہرحال ایفائے عہد میں دینی ، دنیادی ، انفرادی ، اجتماعی ، ملکی ، غیر ملکی ہر قسم کے عہد شامل ہیں۔ جن کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ قانون کی پابندی شاہ ولی محدث دہلوی (رح) نے اپنی مختلف کتابوں میں یہ بات سمجھائی ہے کہ انسان کے لیے ترقی کا زینہ قانون کی پابندی ہے۔ اسی کے ذریعے انسان اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے ۔ حظیرۃ القدس کا ممبر بنتا ہے ، اور علیین یا جنت کے مقام پر پہنچتا ہے ۔ قانون کے خلاف کرنا گر یا شیطان کی پیروی کرنا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تتبعو خطوٰت الشیطن یعنی شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ کیونکہ انہ لکم عدو مبین وہ تمہارا کھلا دشمن ہے وہ تمہاری ہلاکت ، ناکامی اور شکست پر خوش ہوتا ہے ۔ لہذا تم شیطان کے اتباع کے بجائے احکام کی تعمیل کرو۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ قانون کی پابندی کے لیے اجتماعیت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ فرد واحد کسی پابندی کا مکلف نہیں ہوتا۔ قوانین اسی وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب اجتماعیت پیدا ہوجائے اور پھر اس اجتماعیت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل مطلوب ہو۔ چناچہ قانون کا ابتدائی درجہ نکاح ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب اکٹھے زندگی گزانے کا عہد و پیمان یعنی نکاح کرتے ہیں تو پھر اس عہد کی تکمیل کے لیے انہیں قانون کی ضرورت ہوتی ہے جس کی پابندی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ حضور نبی کریم (علیہ السلام) کا فرمان بھی ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ آپس میں جو بھی عہد و پیمان کریں ، اسے بہر صورت پورا کریں اس کے بغیر انسان ترقی نہیں کرسکتے۔ اسی لیے اس قانون کو سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے ۔ اس کی باقی جزیات آگے آرہی ہیں۔ بہرحال شریعت مطہرہ نے ایفائے عہد کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ اوفو بالعھد ان العھد کان مسئولا ( سورة بنی اسرائیل ) عہد کو پورا کرو ، کہ اس کے متعلق لازماً باز پر س ہوگی۔ بیمتہ الا انعام ایفائے عہد کی ابتدائی تلقین کے بعد وہ احکام نازل فرمائے گئے ہیں۔ جن پر عمل درآمد ایفائے عہد کا حصہ ہے ۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان کا عہد کرتا ہے تو اس کے لیے اس عہد کو پورا کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ حلال و حرام کا امتیاز بھی عہد پیمان کا ایک حصہ ہے۔ چناچہ بعض جانوروں کی حلت و حرمت کا احکام نازل فرما کر ان کی پابندی کا حکم دیا جارہا ہے ارشاد ہوتا ہے احلت لکم بھیمۃ الانعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ہیں چرنے والے جانور ۔ چو پائے ، مویشی بیہمہ چرنے والے جانور کو کہتے ہیں جو گھاس یا پتے وغیرہ کھاتے ہیں اور انعام وہ جانور ہوتے ہیں جو عام طور پر پالے جاتے ہیں۔ یہ چار قسم کے جانور ہیں اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری ۔ فرمایا ان کو بعض شرائط کے ساتھ ذبح کرو تو ان کا گوشت تمہارے لیے حلال ہوگا۔ جو چیز اللہ نے تمہارے لیے حلال قرار دی ہے اس کھائو پیئو اور جو حرام کی ہے اس سے رک جائو یہی ایفائے عہد ہے۔ امام شعرانی (رح) فرماتے ہیں ۔ کہ ان جانوروں کو بیہمہ اس لیے کہتے ہیں کہ انکی عقل بالکل مبہم ہوتی ہے انسانوں کے مقابلے میں مویشیوں کی عقل بلکل معمولی ہوتی ہے اور پھر ان کا تکلم بھی انسان کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس لیے انہیں مویشی یا جانور کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان جانوروں کے علاوہ بعض دوسرے جانور بھی حلال جانور کی فہرست میں آتے ہیں جو مذکورہ جانوروں کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں ہرن ، گورخر اور شتر مرغ وغیرہ ہیں ، وہ چار پائے ہیں اور گھاس چرتے ہیں ۔ ان کا گوشت بھی انسانی ساخت سے مطابقت رکھتا ہے لہذا یہ بھی حلال جانور ہیں۔ حرام جانور بعض جانور مویشیوں کی طرح چار پائے ہیں مگر ان میں کسی نہ کسی طرح کی خرابی پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کا گوشت انسانوں کے لیے حرام قراد دے دیا ہے ۔ گدھا بھی انہی جانوروں میں سے ہے۔ گھاس چرتا ہے ، چار پائوں بھی رکھتا ہے مگر اس کا گوشت حرام ہے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں بھی سمجھدار لوگ گھریلو گدھے کا گوشت نہیں کھاتے تھے ، اس میں یقینا کوئی ایسی قباحت ہے جو جسمانی یاروحانی لحاظ سے مضر ہے ۔ البتہ اس زمانے میں لوگ جنگلی گدھوں کا گوشت کھالیتے تھے ۔ ا س کے برخلاف گھوڑا پاکیزہ جانور ہے ، اس کا گوشت مباح ہے مگر گدھا اور خچر جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ان جانوروں کا ذکر کیا ہے ، وہاں ان کی خدمات کو بھی سراہا ہے جیسے فرمایا والخیل والبغال والحمیر لستر کبوھا وزینۃ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے ، گدھے ، خچر کو بھی پیدا کیا ہے جو تمہاری سواری کے کام آتے ہیں اور تمہارے لیے زینت کا باعث بھی ہیں برخلاف ان کے جہاں مویشیوں کا ذکر فرمایا ہے وہاں انکے تمام جسم سے مستفید ہونے کا ذکر ہے انکے گوشت اور دودھ کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے اور انکی سواری سے مستفید ہو نیکی اجازت دی گئی ہے ۔ انکی حلت کو بطور احسان ذکر کیا ہے ۔ اب درندے بھی چار پائوں رکھتے ہیں ۔ چونکہ ان میں درندگی کی صفت پائی جاتی ہے اس لیے ان کے گوشت حرام قرار دیئے گئے ہیں۔ شیر ، چیتا ، گیڈر ، لومڑی ، لنگور ، کتا وغیرہ حرامہ ہیں۔ ان کا گوشت کھانے سے روحانیت میں فساد آئیگا ۔ جسم میں خرابی پیدا ہوگی ، اسی طرح خنزیر کا گوشت کھانے سے بےغیرتی جیسی قبیح خصلت پیدا ہوتی ہے اس لیے اسے قطعا ً حرام قرار دیا گیا ہے ۔ غذا کا اثر انسان کے جسم اور ساخت پر براہ راست ہوتا ہے۔ اس لیے حرام جانوروں کا گوشت کھانے سے منع کردیا گیا ہے اور حلال جانوروں کے گوشت ، دودھ ، کھال اور اون تک استعمال کر نیکی اجازت ہے ۔ حشرات الارض یعنی کیڑے مکوڑے بھی کھانے کی قابل نہیں ، ان میں ایک قسم کی نجاست پائی جاتی ہے ۔ انہیں کھانے والوں کے دماغ میں نجاست پیدا ہوتی ہے ۔ گدھا بیوقوف جانور ہے اس کا گوشت کھانے سے انسان پلید ہوجاتا ہے ۔ بعض ایسے پرندے ہیں جو نوچ کر شکار کھاتے ہیں۔ بعض پنجہ مار کر شکار کرتے ہیں۔ ان میں چیل ، شکرا ، گدھ وغیرہ ہیں۔ یہ سب حرام ہیں ، مردار کھانے والے پرندے ہیں ۔ یہ انسان کے لیے قطعی حرام ہیں ان کے کھانے سے انسانی جسم و روح میں خرابی آتی ہے ۔ احرام کی حالت میں شکار فرمایا تمہارے لیے چوپائے حالا کئے گئے الا مسا یتلی علیکم سوائے ان جانوروں کے جن کا ذکر آگے آرہا ہے یعنی اس سورة کی آیت نمبر 3 میں اور اس سے آگے ۔ وہاں پر مختلف قسم کے حرام جانور اور حرام اشیاء کا تفصیل سے ذکر کردیا گیا ہے ۔ فرمایا ان مذکورہ جانوروں کے علاوہ باقی تمام مویشی تم پر حلال ہیں غیر محلی الصید وانتم حرم البتہ احرام کی حالت میں تم خشکی کے شکار حلال سمجھنے والے نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم نے حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیا ہو تو پھر خشکی کا ہر قسم کا حلال شکار بھی حرام ہوجاتا ہے۔ یہ وقتی حرمت ہے ، دائمی نہیں۔ جو نہی کوئی شخص احرام سے باہر آجاتا ہے ، اس سے شکار کی پابندی دور ہوجاتی ہے۔ احرام کی حالت میں نہ خود شکار کرسکتا ہے اور نہ جانور ذبح کرسکتا ہے ۔ ا لبتہ پانی کا شکار احرام میں بھی جائز ہے۔ فرمایا ان اللہ یحکم ما یرید بیشک اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے جو چاہتا ہے ۔ اللہ نے احرام کی حالت میں خشکی کے شکار کی ممانعت کردی ہے اور تری کا شکار حلال قرار دیا ہے ۔ یہ اس کا حکم ہے اور اسمیں کسی چران و چرا کی گنجائش نہیں ، انسان کا کام محض تعمیل حکم ہے۔ س قسم کے احکام میں ضروری کوئی مصلحت ہے جسے مالک الملک ہی جانتا ہے ۔ یہاں پر یہ اشارہ بھی ملتا ہے ۔ کہ مومن کہ یہ شان نہیں ہے کہ وہ ہر وقت علت کی تلاش میں رہے بلکہ اسے ہر حکم الہٰی کے سامنے سرتسلیم خم کردینا چاہئیے۔ اگرچہ بہت سے اہل علم کو اللہ نے یہ بصیرت عطا فرمائی ہے کہ وہ حلت و حرمت کی علت کو بھی سمجھتے ہیں ، تاہم یہ ہر شخص کے لیے ضروری بھی نہیں ہے ۔ عام انسان کے لیے مالک علی الاطلاق کے حکم کی تعمیل ضروری ہے ۔ اسی میں اس کی ترقی اور فلاح کا راز ہے۔
Top