Mualim-ul-Irfan - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
حرام قرار دیا گیا تم پر مردار جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ چیزیں جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ، اور جو گلا گھٹنے سے ہوگیا ہو اور چوٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا ہو ، اور جو اونچی جگہ سے گر کر ہلاک ہوگیا ہو اور جس کو دوسرے جانور نے سینگ مار کر ہلاک کردیا ہو ، اور جس کو درندوں نے کھالیا ہو مگر وہ جسے تم نے ذبح کرلیا ہو ، اور وہ جو ذبح کیا گیا ہو کسی استھان پر۔ اور یہ کہ تم تقسیم کرو جوئے کے تیروں کے ساتھ ، یہ نافرمانی اور گناہ کی بات ہے۔ آج کے دن ناامید ہوگئے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تمہارے دین سے پس ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے کامل کردیا تمہارے لیے تمہارے دین کو اور پوری کردی ہے میں نے تم پر اپنی نعمت اور پسند کیا ہے میں نے تمہارے لیے اسلام دین پس جو شخص مجبور ہوگیا بھوک سے اس حال میں کہ وہ نہیں مائل ہونے والا گناہ کی طرف ۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
ربط آیات ایفائے عہد کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کا قانون بیان فرمایا کہ کہ تمہارے لیے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو آپ کو پڑھ کر سنائے جائینگے اب آج کے درس میں انہی جانوروں اور اشیا کا ذکر ہے جو اللہ نے حرام قراردی ہیں۔ قانون و حرمت کو انسانی زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ انسانی ترقی کے لیے اس قانون پر عمل درآمد نہایت ضروری ہے ، کیونکہ انسان قانون کا پابند ہے اور یہی پابندی اس کے لیے ترقی کا زینہ ہے ۔ قانون کی خلاف ورزی اتباع ہو 2 ، اور شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے اس پہلے سورة بقرہ میں بھی بیان فرمایا ہے۔ اس سورة میں بھی آگیا ہے اور پھر آگے سورة انعام اور سخل اور بعض دوسرے مواقع پر بھی آئے گا۔ جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا۔ سورة نساء میں محرمات نکاح کا ذکر تھا اور اس سورة میں محرمات اکل و شرب کا بیان ہے۔ حرمت مردار امام بن کثیر (رح) اور دوسرے مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ جن جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ، ان میں کوئی نہ کوئی خرابی ضرور موجود ہے ۔ وہ یا تو انسانی جسم کے لیے مضر ہیں یا روح کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اور جو چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں وہ یقیناانسان کے لیے جسمانی یا روحانی لحاظ سے سود مند ہیں ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے حرمت علیکم المیتۃ تم پر مردہ جانور حرام قرار دیا گیا ہے۔ امام بیضادی (رح) فرماتے ہیں کہ شرعی طریقہ سے ذبح کیے بغیر جو جانور ہلاک ہوجائے ، وہ مردار ہے عام طور پر مرنے والے جانور کے جسم میں خون منجمد ہو کر رہ جاتا ہے جسکی وجہ سے جسم میں کئی قسم کے جراثیم اور دیگر خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو انسانی جسم کے لیے حرام قرار دیا ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ پوری دنیا میں تمام لوگ خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو ، مردار کھانا برا سمجھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ عقل و شعور سے عاری نہ ہو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کا انسلاخ ہوجاتا ہے اور وہ انسان فطرت سے باہر نکل جاتے ہیں ، تاہم کوئی بھی صاحب فطرت سلیمہ مردار کھانے کو پسند نہیں کرتا۔ مردار میں موجود جراثیم اور تعفن کی وجہ سے انسانی جسم میں سستی پیدا ہوتی ہے اور اس کی صحت بگڑ جاتی ہے ، طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں ، لہذا مردار کا گوشت کھانے سے منع کردیا گیا ہے ، یہ قطعی حرام ہے۔ حلت مچھلی ٹڈی حضور ﷺ کا ارشادہ مبارک ہے کہ اگرچہ ہمارے لیے مردارکو حرام قرار دیا گیا مگر احلت لنا میتستان دو مردار ہمارے لیے حلال قرار دیئے گئے ہیں السمک والجراد یعنی مچھلی اور ٹڈی ان کو بغیر ذبح کیے کھانا جائز ہے۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ بعض جنگوں کے موقع پر ہم نے ٹڈی کو بطور غذا استعمال کیا ۔ مچھلی پانی کا جانور ہے اور اسے بھی ذبح کر نیکی ضرورت نہیں ۔ دراصل ان دو جانوروں میں کوئی زیادہ خون نہیں ہوتا جو ان کے جسم میں بند ہو کر رہ جائے مچھلی کا خون تو ویسے ہی خشکی کے جانوروں سے مختلف ہوتا ہے جس جسم میں رہ جانے سے بھی تعفن کا باعث نہیں بنتا اور ٹڈی میں بھی اس قسم کی خاصیت موجود ہے ، لہذا ان دو جانوروں کو بغیر ذبح کیے کھانے کی اجازت ہے ۔ حرمت خون فرمایا تم پر مردار حرام قرار دیا گیا ہے والدم اور خون بھی حرام ہے سورة انعام میں اسے دما مسفو حا کہا گیا ہے یعنی بہتا ہوا خون جسے جسم سے نکال دیاجائے۔ ذبح کرتے وقت یا جسم میں زخم کرنے سے جو خون نکلتا ہے وہ مسفوح ہے اور حرام ہے۔ البتہ ذبح کرنے کے بعد جو تھوڑا بہت خون گوشت کے ساتھ رہ جاتا ہے ، وہ حرام نہیں کیونکہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا اسے اگر بغیر صاف کیے پکا لیا جائے تو کھانا درست ہے تاہم نظافت کے تقاضے کے تحت اس خو ن کو بھی صاف کرلیا جائے تو بہتر ہے ۔ جو شخص دمہ مسفوح کو بطورخوراک استعمال کرے گا ، اس میں درندگی کے خواص پیدا ہوجائیں گے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے خون کو حرام قرار دیا ہے ۔ انتقال خون موجودہ زمانے میں انتقال خون عام ہورہا ہے ۔ جب کسی مریض کے جسم میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے تو اس سے مطابقت رکھنے والا دوسرا انسان خون اس کے جسم میں منتقل کردیا جاتا ہے ۔ اس کا عام حکم تو یہی ہے کہ خون حرام ہے ۔ اس کا بیچنا اور دوسرے جسم میں منتقل کرنا اسی حکم میں آتے ہیں ، تاہم اضطراری حالت میں اس کا استعمال جائز ہے۔ یہ ماہر ڈاکٹر پر منحصر ہے کہ وہ مریض کے لیے بیرونی خون کو کس حد تک ضروری سمجھتا ہے ۔ اگر کوئی دوسری دوائی اس کا نعم البدل نہ ہوا اور مریض کی جان خون کی منتقلی سے ہی بچائی جاسکتی ہو تو پھر ایسا کرنا جائز ہوگا۔ تاہم معمولی نوعیت کے امراض جہاں دیگر ادویات بھی کا ر گر ہوں ، وہاں خون کی منتقلی درست نہیں ہوگی کیونکہ یہ بہتا ہوا خون ہے جو حرام ہے۔ لحم الخنزیر تیسری حرام چیز فرمایا ولحم الخنزیر یعنی خنزیر کا گوشت بھی حرام ہے خنزیر کے گوشت کی تحضیص اس کے عام استعمال کی بنا پر کی گئی ہے وگرنہ رجس کہا گیا ہے۔ یہ بالکل نا پاک ہے ، لہذا اسکی ہڈیاں ، بال ، چربی اور لعاب وغیرہ ہر چیز حرام ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی َ (رح) فرماتے ہیں کہ جس جانور میں انسانی فطرت کے منافی خصلتیں پائی جائیں۔ اس جانور کا گوشت کھانے والوں میں بھی وہی قبیح خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ یہ خود گندگی کھانے والا جانور ہے لہذا اس کا گوشت کھانے والے کی طبیعت میں بھی نجاست پیدا ہوگی ۔ اس کے علاوہ یہ جانورسخت بےغیرت بھی ہے ۔ عام نر جانور کسی دوسرے نر کی موجودگی میں جفتی نہیں کرتا مگر خنزیر ایسا بےغیرت جانور ہے کہ بیک وقت کئی کئی نر ایک مادہ سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کا گوشت استعمال کرنے والی قوموں میں یہی بےغیرتی پیدا ہوجانا عین ممکن ہے ۔ سکھ اور انگریزوغیرہ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں اور وہ اس قبیح مرض میں مبتلا ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق آتا ہے کہ قرب قیامت میں جب دوبارہ نزول فرمائیں گے تو یقتل الخنزیر خنذیر کو قتل کریں گے اور عیسائیوں کو ذلیل کرنے کے لیے صلیب کو توڑیں گے کیونکہ یہ باطل عقیدہ کی نشانی ہے امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ کے بعد جتنے نبی مبعوث ہوئے ہیں سب کے شرائع خنزیر حرام رہا ہے مگر عیسائی ایسی بد بخت قوم ہے کہ اسے بھیڑ بکری کی طرح کھا جاتے ہیں لہذا کسر صلیب اور قتل خنزیر سے عیسائیوں کی تذلیل مقصود ہوگی۔ نامزدگی بنام غیر اللہ حرام چیزوں سے چوتھی چیز فرمایا وما اھل لغیر اللہ بہ وہ چیز رفع اس موت یعنی آواز کو بلند کرنا ، چناچہ حاجی کے احرام باندھنے کے بعد لبیک لبیک پکارنے کو اہلال التبلیہ کہتے ہیں ۔ مقصد یہ کہ جس جانور کو غیر اللہ کے نام پر پکارا گیا ہو ، نامزد کیا گیا ہو ، وہ حرام ہے ۔ مثلاً یوں کہا جائے کہ یہ جانور یا چیز فلاں بت ، قبر یا بزرگ نیاز ہے ، تو وہ چیز حرام ہوجائیگی۔ اور غیر اللہ کی نیز دینے سے مقصو د یہ ہوتا ہے کہ وہ بزرگ ہم سے راضی ہو کر ہماری مرادیں پوری کریں گے۔ کم از کم اللہ کے ہاں ہماری سفارش ہی کردیں گے ، یہ شرکیہ عقائد ہیں لہذا غیر اللہ کے نام سے منسوب کی جانے والی چیز کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ بعض لوگوں کو اس مسئلہ میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ بعض تفسیروں میں بھی لکھا ہے کہ وما اھل لغیر اللہ بہ کا مطلب یہ ہے کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اگر اللہ کے علاوہ غیر کا نام لیا جائے تو حرام ہوگا اور بوقت ذبح بسم اللہ کہا جائے تو ذبیح حرام نہیں ہوگا زمانہ جاہلیت میں لوگ لات ، منات عزیٰ وغیرہ کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے اور اللہ کا نام نہ لیتے تھے لہذا وہ حرام ہیں ۔ اس مسئلہ میں حقیقت حال یہ ہے کہ وہ جانور بد عقیدگی کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے ۔ جب وہ غیر اللہ کی طرف سے منسوب ہوگیا کہ یہ فلاں پیر یا بزرگ کا بکرا ہے تو وہ بسم اللہ کہ کر ذبح کرنے سے بھی حرام ہی رہیگا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص خنزیر کو بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے اور پھر اسے حلال سمجھنے لگے۔ جو چیز بنیادی طور پر حرام ہے وہ اللہ کا نام لینے سے حلال نہیں ہوجاتی ہاں اگر متعلقہ شخص اس غلط عقیدے سے تائب ہوجائے تو پھر شرعی طریقہ سے ذبح کرنے پر جانور حلا ل شمارہوگا ۔ جانوروں کے علاوہ دوسری اشیاء کھانا ، دودھ ، مٹھائی وغیرہ بھی اگر غیر اللہ کی نیازی ہے تو وہ حرام ہے۔ اور ان کی حرمت بھی غیر اللہ کے نام پر نامزدگی کی وجہ سے ہے وما اھل کا یہی مطلب ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ تمام انبیائے کرام اور امت ملت حنیفیہ اس بات پر متفق ہیں کہ غیر اللہ کے نام پر کسی چیز کی نامزدگی سے اس چیز میں روحانی نجاست پیدا ہوجاتی ہے ۔ مشرکین جانوروں کے متعلق اہل اسلام پر اعتراض کرتے تھے کہ تمہارا مذہب بھی عجیب ہے جس جانور کو خدا تعالیٰ ماردیتا ہے اسے مردار سمجھ کر حرام قرار دیتے ہو ، اور جے خو د ذبح کرکے ماردیتے ہو وہ تمہارے لیے حلا ل ہے ، فرمایا کہ لوگ اس قسم کی تاویلات سے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، حقیقت میں موت تو ہر حالت میں من جانب اللہ ہی ہوتی ہے خواہ کوئی جانور طبی موت مر جائے یا اسے ذبح کر دیاجائے مگر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے سے اسمیں پاکیزگی آتی ہے جب کہ غیر اللہ کے نام سے اس میں نجاست آتی ہے ۔ اگرچہ وہ نظر نہیں آتی۔ اس کی مثال خود مشرک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انما المشرکون تجس یعنی شرک لو ناپاک ہیں اگرچہ وہ نہاد ھو کر اچھے کپڑے پہن لیں اور خوشبو لگا لیں ۔ وہ بظاہر تو پاک صاف ہیں مگر ان کی بد عقیدگی کی وجہ سے ان میں روحانی نجاست پیدا ہوچکی ہے جو نظر نہیں آتی ۔ اسی طرح غیر اللہ کے نام پر ذبح اور بغیر ذبح کے مرنے والا جانور بہر حال حرام ہوگا اگرچہ اس کی نجاست نظر نہیں آتی ۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی تفسیر میں اور حضرت مولانا محمد قاسم نے اس سلسلہ میں ایک نہایت اہم مکتوب لکھا ہے ۔ فرماتے ہیں جو جانور غیر اللہ کے نام پر اس لیے نامزد کردیا جائے کہ وہ راضی ہو کر ہماری مرادیں پوری کریں گے ، تو وہ جانور حرام ہی رہیگا ۔ خواہ بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو۔ فرمایا تمہارے لیے مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کی نذر حرام قرار دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جانور بھی حرام ہے جو گل گھٹ جانے سے مرگیا ہو۔ نیز وائمو قودۃ جو جانور چوٹ لگنے سے مر جائے وہ بھی حرام ہے۔ اینٹ پتھر یا لکڑی وغیرہ کی ضرب سے ہلاک ہوگیا تو بھی حرام کی فہرست میں آئیگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس جانور کو تیر سیدھا لگے اور وہ ہلاک ہوجائے وہ تو حلال ہوگا کیونکہ تیر کی نوک لگنے سے اس کا خون بہہ گیا ، مگر جس کو چپٹا تیر لگے اور اس کے دبائو سے ہلاک ہوجائے ۔ وہ حلال تصور نہیں ہوگا۔ غلیل اور بندوق کی گولی سے ہلاک ہونے والے جانور کا بھی یہی حکم ہے کسی جانور کو مکہ مار کر یا کسی لکڑی وغیرہ کی ضر ب سے ہلاک کردیا جائے تو وہ بھی حرام ہوگا۔ البتہ اگر مرنے سے قبل شرعی طریقہ سے ذبح کرلیا جائے ، تو وہ حلا ل ہوگا۔ فرمایا اور وہ جانور بھی حرام ہے جو کسی اونچی جگہ ٹیلے ، دیواریا چھت سے گر کر مر جائے اور وہ بھی جو دوسرے جانور کے سینگ مانے سے ہلاک ہوجائے ۔ ا س کے علاوہ وما اکل السبع جسے درندے پھاڑ کھائیں ۔ درندوں کا شکار ہو کر مر گیا تو حرام ہوگا الا ما ذکیتم سوائے اس کے ذبح کرلیا جائے ۔ کسی درندے نے ذخمی کردیا ہو مگر مرنے سے پہلے اسے باقاعدہ ذبح کرلیا جائے تو ہو حلال ہوگا اگرچہ درندہ اس میں سے کچھ کھا گیا ہو۔ استھان پر ذبح شدہ فرما ایا ان محرمات کے علاوہ وہ جانور بھی حرام ہوگا وما ذبح علی النصب جسے کسی استھان پر ذبح کیا گیا ہو ۔ نصب بت کو بھی کہتے ہیں اور یہ لفظ ہر اس کی ت کی کہ ، بیٹھک یامکان وغیرہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو غیر اللہ کی طرف منسوب ہو۔ اگر ا س خاص مقام یا استھان پر ذبح سے مقصود منسوب الیہ کی رضا اور خوشنودی ہو تو ایساذبیحہ بھی حرام ہوگا۔ ایک شخص نے حضور ﷺ سیدریافت کیا کہ فلاں مقام پر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا چاہتا ہوں ، کیا مجھے اجازت ہے ؟ فرمایا ، وہاں کوئی بت یا استھان وغیرہ تو نہیں ؟ عرض کیا ، ایسی کوئی چیز نہیں۔ اس پر آپ نے اجازت دیدی۔ یاد رہے کہ حج وعمرہ کے موقع پر چوہدی یعنی قربانی کے جانور جائے جاتے ہیں ان کی نسبت بیت اللہ یعنی اللہ کے گھر کی طرف ہوتی ہے۔ اور یہ اس لیے جائز ہیں کہ وہاں تقرب الی اللہ مقصود ہوتا ہے ، نہ کہ غیر اللہ کی خوشنودی ۔ جو جانور کسی تکیہ ، درخت ، قبر یا دیگر غیر اللہ کی طرف منسوب جگہ پر ذبح کیا جائے ، اس حکم کی رو سے قطعاً حرام ہوگا۔ تیروں کے ذریعے تقسیم اس آیت کریمہ میں آخر حرام چیز فرمایا وان تستقسمو بالازلاء یہ کہ تم تیروں کے ذریعے تقسیم کرو۔ اس تقسیم سے مراد فال نکالنا یا قسمت کا حال معلوم کرنا ہے۔ زمانہ جاہلیت کے دوران عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کسی اہم کام سفر ، شادی وغیرہ کا ارادہ کرتے تو شگون کے لیے عبادت خانے کے پاس جاتے ، اس تھیلے میں تین تیرہو تے تھے۔ ایک پ ] ر لکھا ہوتا ۔ امرنی ربی ، دوسرے پر نھی ربی اور تیسرا خالی ہوتا۔ مقررہ نذرانہ وصول کرکے مجاور تھیلے سے تیر نکالنتا۔ اگر امرنی ربی والا تیر نکلتا۔ تو اسے نیک شگون خیال کرکے کام کر گزرتے ۔ اگر نھنی ربی والا تیر نکلتا تو اس ارادے سے باز آجاتے اور اگر خالی تیر نکلتا تو کا م کو موخر کردیتے اور کسی دیگر موقع پر قسمت آزمائی کے لیے چھوڑ دیتے ۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف تھی۔ اللہ نے انہیں ایسا کرنے یا نہ کرنے کا بالکل حکم نہیں دیا تھا بلکہ یہ ان کی اپنی اختراع ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی تقسیم کو حرام قرار دے دیا۔ تیروں کے ذریعے تقسیم کا ایک اور طریقہ بھی عربوں میں رائج تھا جسے خالص قما بازی یاجوئے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ یہ عجیب و غریب طریقہ تھا ۔ کہ کوئی دس آدمی مل کر ایک اونٹ خریدتے اور اسے ذبح کرکے اس کا گوشت دس برابر حصوں میں تقسیم کرتے ۔ پھر وہ دس تیر جن سے سا ت پر نمبر لگے ہوئے تھے اور تین خالی ہوتے تھے ۔ ایک ایک حصہ دار ایک ایک تیر نکالتا ، جس حصہ دار کے ہاتھ میں جتنے نمبر کا تیر آجاتا ، وہ اونٹ کے گوشت کے اتنے حصے اٹھا لیتا ۔ مثال کے طور پر اگر کسی آدمی کا سات نمبر تیر نکل آیا ہے تو سات حصے وہ لے جاتا اسی طرح باقی تین حصے وہ شخص لے جاتا جس کا تیر تین نمبر والا نکلا ہے اس طریقہ سے سارا گوشت چند حصہ داروں میں تقسیم ہوجاتا اور باقی بر بر کے حصے دار محروم رہ جاتے تھے۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کو بھی اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ عربوں میں یہ بھی رواج تھا کہ اونٹ ذبح کرتے تو اس کے گوشت میں سے غربا کو بھی کچھ دیتے ۔ اس طرح گوشت کا وافر حصہ وصول کرنے والا سارا گوشت خود نہیں کھاجاتا تھا بلکہ اس میں اپنی برادری اور غرباء کو بھی شریک کرلیتا تھا۔ اس طرح وہ اس قسم کی قمار بازی کو احسن تصور کرتے تھے اور جو شخص اس طرح کا جوا نہیں کھیلتا تھا ۔ اسے برا اور کنجوس خیال کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اسے خالص جواء قرار دیا جو کہ قطعاً حرام ہے ۔ اس قسم کی وبا اس زمانے میں بھی پائی جات ہے ۔ مثلاً نجیب آبا د کے سلطانہ ڈاکو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ امیروں پر ڈاکے ڈالتا تھا ار پھر حاصل شدہ مال غرباء کی بچیوں کی شادی میں اعانت کرتا تھا۔ یہ بھی غلط ہے ۔ ڈاکہ ڈالنا ، کسی کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرنا ویسے ہی حرام ہے ، اس سے غرباء کی امداد کا کیا معنی ؟ اسی طرح عرب بھی قمار بازی کو جائز بلکہ مستحن خیال کرتے تھے اور اس میں حصہ نہ لینے والے کو ناپسند یدہ شخص قرار دیتے تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے لیے جوئے کی تیروں کے ذریعے تقسیم شدہ چیز حرام قرار دیدی گئی ہے فقہائے کر ایم اسی بات سے استدلال کرتے ہیں کہ دست شناسی یا قیمت کا حال معلوم کرنا جائز ہے ۔ یہ بھی جوئے کے تیروں سے تقسیم کے مترادف ہے۔ آج کل زمانے کی لاٹری بھی اسی قبیل سے ہے سب لوگ برابر حصہ دار ہوتے ہیں مگر جس کے نام کی لاٹری نکل آتی ہے وہ سب کچھ لے جاتا ہے اور باقی لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ سب صورتیں ذلکم فسق معصیت اور گناہ ہیں ۔ یہ نافرمانی کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محرمات کا یہ قانون بتلادیا ہے ۔ اگلی آیات بعض دوسری چیزوں کا تذکرہ آئیگا۔ سورۃ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے ایفائے عہد میں اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے ساتھ کیے گئے تمام عہد شامل ہیں۔ جب کوئی انسان کلمہ توحید پڑھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی توحید اور رسالت پر ایمان کا عہد کرتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ تمام قوانین کی پابندی کا عہد کرتا ہے ہر انسان پر قانون کی پابندی لازم ہے ۔ اسی کے ذریعے وہ حظیرۃ القدس کا ممبر بن سکتا ہے اور پھر جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتا ہے دیگر قوانین میں کھانے پینے سے متعلق حلت و حرمت کا ایک اہم قانون ہے۔ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے ان کو استعمال کرنا چاہیے وہ یقینا انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے ، ان میں یقینا کوئی خرابی ہے جو انسانی جسم روح کے لیے مضر ہے ، لہذا ان چیزوں سے اجتناب ہی انسان کیلیے بہتر ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ حرام چیز کے استعمال سے اس کا برا نتیجہ فوراً ظاہر ہوجائے ، بلکہ بعض اشیائے کے اثرات آہستہ آہستہ نمودار ہوتے ہیں۔ البتہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی خباثت بالکل واضح ہوتی ہے ۔ مثلاً مردار اور دم مسفوح کو کوئی سلیم الفطرت انسان کھانے کے لیے تیان نہیں ہوتا۔ جن چیزوں کے اثرات بتدریج ظاہر ہوتے ہیں ان میں خنزیر کا گوشت ہے جس کے استعمال سے انسان بےغیرت ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نذر بغیر اللہ میں روحانی خباثت پائی جاتی ہے اگرچہ وہ نظر نہیں آتی ۔ مگر انسان کا دل ، دماغ اور روح نا پاک ہوجاتی ہے تمام انبیائے کرام اور ملت حنیفہ کے ائمہ نے اسے حرام قرار دیا ہے کھانے کی مایوسی سورۃ کی آیت نمبر 3 میں حلت و حرمت کا احکام بیان ہوئے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ آیت 4 میں بھی جاری رہیگا ۔ البتہ درمیان میں یعنی آیت نمبر 3 کے دوسرے حصے میں اللہ رتعالیٰ نے اہل اسلام اور حضور نبی کریم ﷺ پر کیے گئے احسان کا ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے اس نے اہل ایمان کو کفار پر مکمل غلبہ عطا کیا ، اور کفار دین اسلام سے مکلمل طور پر مایوس ہوگئے ۔ ارشادہ ہوتا ہے ۔ الیوم یئس الذین کفرو من دینکم آج کے دن کفار تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ امام بیضادی (رح) مفسر قرآن فرماتے ہیں کہ یہاں پر الیوم سے مراد کوئی خاص معین دن نہیں بلکہ یہ 9 ذی الحج 10 ھ؁ کا دین ہے جس روز یہ آیت نازل ہوئی اور آنے والا سارا زمانہ مراد ہے۔ اس وقت فتح مکہ ہوچکی تھی اور پورا خطہ عرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا ۔ عربوں کی اکثریت اسلام لا چکی تھی تاہم جو اقلیت باقی رہ گئی تھی اس میں اسلام سے مقابلہ کے لیے دم خم نہیں تھا فتح مکہ سے قبل عربوں نے ہر چند کوشش کی کہ اسلام کے پودے کو پیننے سے روک دیا جائے ۔ اس کے لیے انہوں نے کئی جنگیں بھی لڑیں مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ مسلمان مختلف محاذوں پر کامیابیاں حاصل کرتے رہے حتیٰ کہ 9 ھ؁ میں مکہ بھی فتح ہوگیا جس سے قریش کی رہی سہی قوت بھی ختم ہوگئی ۔ اب صرب حنین والوں میں کچھ سکت باقی تھی ، فتح مکہ کے بعد انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب بھی موقع ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کا راستہ روک دیا جائے ، ورنہ ہم ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے۔ انہوں نے آخری کوشش کی اور درید بن الصمہ نے چوبیس ہزار کے قریب فوج جمع کی دیگر جنگی سازو سامان بھی اکٹھا کیا اور مسلمانوں سے ٹکر ا گئے مگر انہیں بھی شکست فاش ہوئی اور پورے عرب میں مسلمانوں کو کسی طرف سے خطرہ باقی نہ ررہا۔ اس پس منظر میں 19 ھ؁ میں یوم عرفہ کے دن آیت کا یہ حصہ نازل ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو خوشخبری سنائی کہ اب کفار تمہارے دین سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ اب اسلام کے خلاف ان میں کوئی دم خم نہیں رہا۔ اور اسلام غالب آچکا ہے ایک موقع پر حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے بھی فرمایا تھا الشیطن یئس ان یعبدہ المصلون ولکن فی التحریش بینھم یعنی عرب کے خطے میں شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اب اسکی پرستش کرنے لگیں ۔ البتہ شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ نمازی اب اسکی پرستش کرنے لگیں ۔ البتہ شیطان آپس کی لڑائی ٹھرائی میں ضرور کامیاب ہوگا تحریش کے معنی ابھارنا ہے جیسے جانوروں کو لڑانے کے لیے ان کے مالک انہیں مختلف طریقوں سے ابھارتے ہیں مقصد یہ کہ اب اس خط ارض کفر اور شرک کا قلع قمع ہوچکا ہے ۔ البتہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہے گا ۔ بہر حال فرمایا کہ اب کافر لوگ مکلمل طور پر مایوس ہوگئے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دوبارہ کفر کی طرف لاسکیں گے۔ نزول آیت جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ۔ آیت کا یہ حصہ ورضیت لکم الاسلام دینا تک 10 ؁ھ بتاریخ 9 ذی الحج عرفہ کے دن بروز جمعہ نازل ہوئی اس دن حضور ﷺ مسجد نمرہ میں ظہر و عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد جبل رحمت کے سامنے اونٹنی پر سوار وقوف فرما رہے تھے کہ آیت کا یہ ٹکڑا نازل ہوا ۔ مختلف روایات کے مطابق اس دن ایک لاکھ چودہ ہزار ۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار ایک لاکھ تیس ہزار۔ ایک لاکھ چالیس ہزار یا ڈیڑھ لاکھ افراد میدان عرفات میں موجود تھے ۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ قبلہ رہو ہو کر دعائیں کر رہے تھے کہ یہ آیت کا یہ حصہ نازل ہوا ۔ اس کے بعد نبی (علیہ السلام) اکیاسی دن تک اس دنیا میں تشریف فرما رہے ۔ اس دوران فرائض یا احکام کے متعلق مزید کوئی آیت نازل ہوئی ، بلکہ اس لحاظ سے یہ آیت کریمہ تھی۔ البتہ اس آیت کے بعد سورة بقرہ کی صرف یہ آیت نازل ہوئی واتقو یوما تر جعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ماکسبت وھم لا یضلمون اس میں اہل ایمان کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت کے محاسبے والے دن سے ڈر جائو ، اس دن ہر ایک کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ دن منانے کی وبائ حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں ایک یہودی نے آپ سے کہا کہ تکمیل دین کی آیت الیوم اکملت لکم دینکم ۔ اتنی عظیم آیت ہے کہ اگر یہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو یوم عیدمناتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تمہیں کیا پتہ جس دن یہ آیت نازل ہوئی اس دن ہماری دو عیدیں تھیں ، ایک جمعہ تھا اور دوسرے عرفہ کا دن یہ دونوں دن اللہ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے دن ہیں۔ آپ نے ارشاتا ً یہ بات بھی بتا دی کہ اسلام میں دن منانے کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہودی ، عیسائی ، ہندو وغیرہ اپنے اپنے دن مناتے ہیں مگر اسلام نے ایسا حکم نہیں دیا ۔ تکمیل دین کا دن بلا شبہ اہل اسلام کے لیے خوشی و مسرت کا دن ہے۔ جمعہ تو ویسے ہی سید الایام ہے اور عرفہ کا دن سال بھیر میں سب سے زیادہ مقبولیت کا دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح نازل ہوتی ہے اور اسی دن شیطان سب سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے ۔ مگر حضور ﷺ آپ کے صحابہ کرام ؓ ، تابعین اور تبع تابعین اور سلب صالحین میں سے کسی نے کوئی دن نہیں منایا۔ ڈے منانے کی بیماری چھٹی ساتویں ہجری میں شروع ہوئی جب دن کی اصلیت ختم ہوئی ۔ تو فاسق فاجر لوگوں نے میلاد اور دیگر دن منانے شروع کردیے۔ بزرگوں کے عرس تو روز مرہ کا معمول بن گیا ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں جس دن کوئی بزرگ کے عرس تو روزمرہ کے معمول بن گیا ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں جس دن کوئی بزرگ پیدا یا فوت نہ ہوا ہو ۔ تو اب کس کس کا دن منائیں گے ، یہ تو فطرت کے خلاف بات ہے محض دن منا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے دین کا حق ادا کردیا ، حالانکہ یہ تو دین سے گریز سے۔ دین کا کا تقاضا تو ہے کہ قانون کی پابندی کی جائے ، تمام احکام کو بجا لایا جائے مگر فرائض ، واجبات کو تو کوئی پوچھتا نہیں اور یہ کسر دن منا کر پوری کی جاتی ہے۔ دن پر ثابت قدم فرمایا آج کے دن کافر تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں فلا تخشوھم پس ان سے مت ڈرو ، ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے ، وہ اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے لہذا ان سے ڈرنے کی بجائے واخشو ن مجھ سے ڈرو کہ میری نافرمانی نہ ہوجائے ۔ اہل ایمان کو ترغیب دی گئی ہے ۔ کہ اپنے دین پر قائم رہو اور اس کے پروگرام کو بلا خوف و خطر دوسروں تک پہنچائو دیے بھی میں ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے دین پر عمل پیرا ہو اور اس سلسلے میں اغیار کی کسی بات کو خاطر میں نہ لائے۔ وہ لوگ بیشک آپ پر طعن و ملامت کریں گے ، شکوک و شبہات کا اظہار رکریں گے ، طرح طرح کے اعتراضات اٹھائیں گے ، مگر ان کی کچھ پروا نہ کریں اور اپنے دین پر ڈٹے رہو۔ ان کی تو ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ اسلام کو غلبہ حاصل نہ ہو۔ یہودی و نصاری کے متعلق تو واضح طور پر آچکا ہے لن ترضی عنک الیھود والنصری حتی تتبع ملتھم کہ وہ تم پر ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک کہ آپ ان کی ملت کی پیروی نہ کریں ۔ کافر بھی تمہیں پلٹا کر کفر کی طرف لے جانا چاہتے ہیں مگر تمہیں جرات کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرنا ہوگا۔ آپ سنت کی بجائے بدعت کو اختیار نہ کریں ، فضول رسومات محض اغیار کی دیکھا دیکھی اختیار نہ کریں ، یہ نہ سوچیں کہ اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے وہ کیا کہیں گے ، ان کا خوف صل سے نکال دیں ، بلکہ میرے احکام کی عدولی سے ڈریں۔ اہل ایمان میں یہ کمزوری پیدا ہوچکی ہے کہ وہ دنیا کے لوگوں سے ڈرتے ہیں کہ فلاں کام اسلام کے مطابق کردیا تو مستمدن قومیں کیا کہیں گی کہ انہوں نے چودہ صدیاں پرانا نظام اپنا لیا ہے۔ اسلامی قانون کے نفاذ میں یہی چیز حائل ہے ۔ جو ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، وہاں اسلامی قانون اس لیے نافذ نہیں ہو رہا کہ یورپ اور امریکہ والے اسے پسند نہیں کرتے اسلام کے نظام عدل کی بجائے انگریروں کا قانون نافذ ہے۔ کیا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ کوئی حقدار اپنے حق کا دعویٰ کے لیے ہزاروں روپے کے سٹمپ لگائے تو پھر اس کا دعویٰ سماعت کے لیے قبول ہوگا۔ اس قسم کی بیشمار رکاوٹیں انگریزی قانون میں موجود ہیں جو حصول انصاف کے راستے میں حائل ہیں۔ اس کے باوجود تما م مشرقی اسلامی ممالک ہر کام کے لیے مغربی ممالک کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ نتیجہ ظا ہر ہے کہ خدا کے دین پر کیسے عمل درآمد ہوگا۔ ہم تو دین کے دشمنوں کی طعن سے ڈر کر اسلامی قانون کو نافذ کرنے کے لیے تیا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس سے مت ڈرو ، بلکہ مجھ سے ڈرو کہ اسی میں تمہارے لیے دنیا کی کامیابی اور آخرت کی فلاح ہے۔ تکمیل دین فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم آج میں تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے ۔ دین کی تحریک حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوئی تھی۔ تمام انبیا پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی رہی ، مگر کسی نبی پر تکمیل دین کا اعلان نہیں ہوا۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر تمام احکام قطعی طور پر نازل فرما دیے ہیں اور تکمیل دین کا اعلان کردیا ہے۔ دین کے تمام اصول اور فرائض مکمل ہوچکے ہیں ۔ اب قیامت تک کوئی نیا اصول یا فرض نہیں آئیگا۔ تکمیل دین کا یہی معنی ہے ۔ البتہ فروعات میں بعض چیزیں قرآن پاک میں آئی ہیں اور بعض چیزیں پیغمبر (علیہ السلام) کے سپر د کردیں کہ آپ ان کی وضاحت فرما دیں۔ چناچہ حضرت مولانا گنگوہی (رح) فرماتے ہیں کہ جو چیز صحیح حدیث سے صحیح سند کے ساتھ صحیح طریقے سے ثابت ہے ، وہ قرآن پاک کی شرح ہے۔ امام ابن تمیمہ نے اپنے فتائوں میں لکھا ہے والسنۃ تفسیر القران وتعبیر ہ یعنی سنت رسول قرآن پاک کی تفسیر اور تعبیر ہے۔ اور بعض مقامات پر صرف اصول بیان کردیے گئے ہیں جن کی جزئیات غیر محصور ہوتی ہیں۔ نئے نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ جن کے حل محتدین کرام اصولوں کی روشنی میں پیش کرتے ہیں سورة نساء میں یستنبطو نہ کا لفظ آچکا ہے ۔ مسائل کا استباط کرنا مجتدین کا کا م ہے لہذا مجتدین کا اتباع قرآن پا ہی کا اتباع ہے کیونکہ مجہد اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ وہ قرآن و سنت کے احکام کو ظاہر کرتا ہے ، اسی لیے مجتدین کے اجتہاد کو مظہر کہتے ہیں اور یہ چیز بھی تکمیل دین میں شامل ہے۔ تمام نعمت فرمایا ایک تو دین کو مکمل کردیا اور دوسرے واتممت علیکم نعمتی میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی یعنی دین کے تمام احکام ضوابط اور فرائض وغیرہ بیان کردیئے ہیں ۔ اب کسی چیز کی کمی باقی نہیں رہی ۔ اور نعمت کا معنی غلبہ بھی ہے یعنی اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ بھی عطا کردیا ہے۔ لیظھرہ علی الدین کلۃ تا کہ یہ دین تما م ادیان عالم پر غالب آجائے چناچہ نزول قرآن سے لے کر واقعہ صفین تک پچاس سال کے عرصہ میں اسلام آدھی دنیا پر چھا چکا تھا اور باقی نصف دنیا میں کوئی قوم سیاسی طور پر مسلمان کے مد مقابل نہ رہی تھی ۔ یہی تما م نعمت ہے۔ سورة نور میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد موجود ہے۔ یدبعبدو ننی لا یشرکون شینا جب تک لوگ میری خالص عبادت کرتے رہیں گا۔ اور جب اس معاملہ میں کوتاہی آجائیگی تو سارا معاملہ ہی درہم برہم ہوجائیگا۔ چناچہ مسلمانوں کے آپس کے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ گئی اور خلافت اسلامیہ کو ملکوکیت میں تبدیل کردیا گیا ۔ چوہدری افضل حق مرحوم نے اپنی کتاب میں بڑا عجیب فقرہ لکھا ہے کہتے ہیں کہ افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے تخت شاہی کی بجائے ملو کیت کا ٹاٹ بچھا دیا گیا ۔ شوریٰ والی خلافت ختم ہوگئی اور وہی ملو کیت آگئی جسے خود اسلام ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اب بادشاہ اور ڈکٹیٹر بن گئے اور اپنی من مانی کا روائیاں کرنے لگے ۔ بیت المال کو ذاتی جاگیر سمجھ کر بےدریغ خرچ کرنے لگے ۔ کچھ اپنے عیش و راحت پر خرچ کیا ، کچھ دوسروں حواریوں میں تقسیم کردیا ۔ اللہ نے فرمایا ومن کفر بعد ذلک فاولئک ھم الفسقون جس نے کفران نعمت کیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ظالموں کو معاف نہیں کریگا۔ اور پھر ایسا ہوگا۔ دین میں بگاڑ آئیگا ، شکست اور غلامی کا دور دور ہاگا ،۔ چناچہ مسلمانوں کا یہ ابتلا شروع ہوچکا ہے ۔ تا ر تاریوں کے دور سے لے کر جب قدم پھسلا ہے تو پھر سنبل نہیں سکا ۔ اب قرب قیامت میں مسیح (علیہ السلام) کے نزول پر دوبارہ قدم جمنے کی امید کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ فرمایا میں نے تم پر دین مکلمل کیا اور تم اپنی نعمت پوری کردی ورصیت لکم الاسلام دینا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔ دوسرے مقام پر موجود ہے ان الدین عند اللہ الا سلام اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور یہی اس نے تمہارے لیے پسند فرمایا ہے سارے نبیوں کا دین اسلام رہا ہے اضطراری حالت اسی آیت کے پہلے حصے و حرمت کا قانون بیان ہوا تھا اور بعض حرام جانوروں کی تفصیل بتائی گئی تھی۔ اب اسی سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہے فمن اضطر فی مخصصۃ جو کوئی بھوک کی وجہ سے مجبور ہوجائے بشرطیکہ غیر متضائف لاثم گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو۔ اس کو اجازت ہے کہ وہ اللہ کی حرام کردہ اشیاء میں سے بقدر ضرورت کھا پی سکتا ہے ۔ مطلب یہ کہ جان بچانے کے لیے اگر مردار ، خنزیر یا شراب ہی میسر تو پھر اسکی کم از کم مقدار استعمال کرسکتا ہے ۔ یعنی اگر ایک پائو چیز سے جان بچ سکتی ہے تو پھر ایک سیرا استعمال نہیں کرسکتا ، یہ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے۔ برخلاف اس کے اما م مالک (رح) اور امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی گناہ کے کام کی وجہ سے مضطر ہوا ہو اسے کھانے کی بالکل اجازت نہیں۔ ہاں اگر کسی جائز کا م یا سفر پر اضطراری حالت پیدا ہوگئی تو ضرورت کے مطابق کھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری یا ڈاکہ کی نیت سے گیا ہے اور اسے اضطراری حالت پیدا ہوگئی ہے۔ تو امام مالک اور اما م شافعی (رح) کے نزدیک نہ وہ نماز قصر کرسکتا ہے اور نہ حرام چیز کھا پی سکتا ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ بیشک وہ گناہ کے کام پر نکلا ہے ۔ مگر وہ شرعی سفر میں نماز بھی قصر کرے گا اور اضطراری حالت میں یہ رخصت دے دی گئی ہے اور اگر کوئی شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر حرام چیز استعمال کریگافان اللہ غفور رحیم تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے وہ چھوٹی موٹی لغرزش کو معاف فرمادیگا۔ تاہم قانون اور ضابطہ کی وضاحت فرمادی کہ یہ یہ چیزیں حلال ہیں اور فلاں فلاں حرام ہیں۔
Top