بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ حلال کردیئے گئے ہیں تم پر مویشی قسم کے جانور ‘ مگر وہ جو (آگے) تمہیں بیان کیے جائیں گے۔ حلال نہ جانو شکار کو اس حالت میں جبکہ تم (حالت) احرام میں ہو۔ بیشک اللہ حکم دیتا ہے جس (چیز) کا وہ ارادہ کرتا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ 5 ط اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ط اِنَّ اللہ َ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ ۔ (المائدہ : 1) ” اے ایمان والو ! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔ حلال کردیئے گئے ہیں تم پر مویشی قسم کے جانور ‘ مگر وہ جو (آگے) تمہیں بیان کیے جائیں گے۔ حلال نہ جانو شکار کو اس حالت میں جبکہ تم (حالت) احرام میں ہو۔ بیشک اللہ حکم دیتا ہے جس (چیز) کا وہ ارادہ کرتا ہے “۔ یہ سورة جیسا کہ تعارف میں واضح کیا جا چکا ہے عہد و میثاق کی سورة ہے۔ ظاہر ہے کہ عہد و میثاق صرف ان لوگوں سے لیا جاسکتا ہے جو عہد و میثاق کی حقیقت کے قائل ‘ اس کے ایفا کی اہمیت کو تسلیم کرنے والے ‘ اس کی شکست و ریخت کے نقصانات کو سمجھنے والے اور اس سے بچنے والے ہوں۔ یہ کیفیت کسی بھی انسان میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونا ایمان کہلاتا ہے اور ایمان لانے والوں کو مومن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس لیے اس سورة میں عہد و میثاق کے ایفا کا حکم دینے سے پہلے خطاب مومنوں سے کیا گیا ہے کیونکہ وہی اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ایمان کی تفصیل کیا ہے اور ایمان لانے سے کن کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے۔ ایمان کا معنی تو صرف ماننا ہے لیکن قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ نے اس کا استعمال صرف ماننے پر نہیں کیا بلکہ سچے دل سے ماننا اور یقین کرنا بھی اس کی حقیقت میں داخل ہے۔ اگر زبان سے صرف اقرار کرلیا جائے لیکن دل اس کی تصدیق نہ کرے اور دماغ اس پر یقین نہ لائے تو یہ لفظی ایمان ہے حقیقی ایمان نہیں۔ بقول اقبال تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہٰ اِلّا لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی اب رہی یہ بات کہ ایمان لانے سے کن کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ایمان سے مراد اولاً اللہ کو ماننا ہے۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے۔ خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ‘ بندگی اور اطاعت بجا لائے۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے۔ بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ‘ وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے۔ ثانیاً ” رسول کو ماننا “ اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مامور کیا ہوا ھادی و رہنما ہے اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ‘ برحق ہے اور واجب التسلیم ہے۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ‘ انبیاء اور کتب الٰہیہ اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں۔ ثالثاً آخرت کو ماننا اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے ‘ بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے ‘ اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں اللہ کو حساب دینا ہے اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انھیں جزا اور جو بدقرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو اس کا حال ایک بےلنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا۔ یہ وہ تین بنیادی اعتقادات ہیں جن کو یقین اور ایقان کے ساتھ ماننا اور دل و دماغ کو ان کے تابع کردینا یہ ایمان کی حقیقت ہے اور یہی ایمان کا مطالبہ بھی ہے۔ جو لوگ اس مطالبہ کو قبول کرلیتے ہیں اور اپنی پوری شخصیت پر اس ایمان کی چھاپ لگا دیتے ہیں وہ لوگ مومن ہیں اور اس سورة میں ایسے ہی لوگوں سے ایفائے عقود کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ عقود عقد کی جمع ہے، عقد کا معنی ہے ” باندھنا “۔ عہد و پیمان کو بھی چونکہ پورا کرنے کے لیے باندھا جاتا ہے اس لیے اسے عقد بھی کہتے ہیں اور عہد بھی۔ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ بندش اور پابندی کیا ہے۔ اس لحاظ سے عقود کا ترجمہ پابندیاں ہوگا۔ یعنی اللہ کی طرف سے جو پابندیاں بندوں پر لگائی گئی ہیں ان کو پورا کرنے کا بندوں سے عہد لیا گیا ہے۔ البتہ ! عقد کا لفظ عہد و میثاق کے الفاظ کے مقابلے میں عام ہے۔ اس میں قول وقرار ‘ قسم اور کسی معاملے میں گواہی کی ذمہ داری سے لے کر اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان عہد و میثاق تک سب کچھ شامل ہے۔ اس تفصیل کو اگر سمیٹا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ عہد یا عقد کی تین قسمیں ہیں : 1 اللہ سے عہد : جس طرح ہم نے اللہ سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ہم آپ ہی کی عبادت کریں گے ‘ آپ ہی سے استعانت کریں گے ‘ حلت و حرمت کے لیے صرف آپ کی ذات کو سند سمجھیں گے ‘ آپ کے احکام کو حرف آخر جانیں گے اور اس کے مقابلے میں کسی بڑی سے بڑی اتھارٹی کے احکام کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیں گے۔ اجتماعی اور انفرادی زندگی میں صرف آپ کی راہنمائی ہماری راہنما ہوگی اور اسی کو دنیا و آخرت میں اپنے لیے سربلندی کا ذریعہ سمجھیں گے۔ 2 اپنے ساتھ عہد : یہ وہ عہد اور معاہدہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس کے ساتھ کرتا ہے۔ مثلاً کسی چیز کی نذر اپنے ذمہ مان لینا یا حلفاً کوئی چیز اپنے ذمہ لازم کرلینا یا کسی وعدے سے اپنے آپ کو پابند کرلینا۔ 3 دوسروں کے ساتھ عہد : جیسے ہم باہمی ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں۔ معاملات کے ایفا کے لیے باہمی وعدے ہوتے ہیں۔ قرض یا امانت میں کبھی زبانی وعدے ہوتے ہیں اور کبھی دستاویزی اور یہ معاملات کبھی افراد کے درمیان ہوتے ہیں کبھی دو گروہوں میں ‘ کبھی دو قوموں یا دو ملکوں میں یہ سب عہود اور عقود ہیں اور اس تیسری قسم میں داخل ہیں۔ مختصر یہ کہ عہد اور عقد کی نوعیت کچھ بھی ہو وہ چاہے اللہ کے ساتھ باندھا ہو ‘ اپنے جسم و جان پر خود لازم کیا ہو یا ایک دوسرے سے اس کا باہمی تعلق ہو پھر چاہے اس میں شریک اپنے ہوں یا بیگانے، مسلمان ہوں یا کافر۔ ہر صورت میں ہر نوعیت کے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور مزید یہ کہ خطاب پوری امت کو ہو رہا ہے اور اس وقت ہو رہا ہے جب کہ وہ ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ چند سالوں میں پورا جزیرہ عرب اس کے زیر نگیں ہوگا اور کفر کی مرکزی طاقتیں سرنگوں ہوجائیں گی اور یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ جزیرہ عرب اس امت کا بیس (Base) بنے جس سے اس انقلاب کے اثرات پوری دنیا میں پھیلیں۔ ایسی صورت حال میں یہ بہت ضروری تھا کہ اس امت کو عہد و پیمان کی پابندیوں کا خوگر بنایا جاتا کیونکہ جب بھی مظلوم و مقہور قومیں طاقت اور قوت سے بہرہ ور ہوتی ہیں اور انقلاب کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہو کر وہ دنیا کو زیر کرنے کے لیے نکلتی ہیں تو پھر اخلاقی قوتیں بالعموم ان کے سامنے سرنگوں ہوجاتی ہیں لیکن امت مسلمہ چونکہ ایک حامل دعوت امت اور شہادتِ حق کا علمبردار گروہ اور عدل اجتماعی کے پیغامبر کی حیثیت سے اٹھائی جا رہی تھی اور یہ نعمتیں پوری دنیا میں اس کے واسطے سے عام کی جانی مقصود تھیں تو بہت ضروری تھا کہ اس کو اس طرح اللہ کے عہد و میثاق سے وابستہ کردیا جاتا کہ وہ طاقت کے نشے میں مبتلا ہو کر کبھی بھی حق سے انحراف کرنے کی جرأت نہ کرے۔ اس لیے پوری شدت کے ساتھ حکم دیا گیا : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ (اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اپنے وعدوں کو پورا کرو) چاہے وہ وعدے اللہ کے ساتھ ہیں یا بندوں کے ساتھ۔ اسی صورت میں تم خلافت علی منہاج النبوت قائم کرسکو گے اور اگر تم نے اللہ سے کیے گئے وعدوں سے پہلو تہی کی تو پھر یہ تمہاری اپنی حکومت ہوگی نیابت الٰہی نہیں ہوگی حالانکہ تمہیں ایک ایسے گروہ کے طور پر اٹھایا گیا ہے جنھوں نے اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے۔ دنیا تمہارے طرز عمل سے یہ محسوس کرے کہ تم حاکم ہو کر بھی حاکم نہیں ہو بلکہ اللہ کے بندے ہو اور تمہارا کام اللہ کے احکام نافذ کرنا ہے اپنی حکومت قائم کرنا نہیں ہے۔ آگے فرمایا : اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الاَْنْعَامِ (حلال کردیئے گئے ہیں تم پر مویشی قسم کے جانور) عجیب بات ہے کہ بات یہاں سے شروع کی گئی ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ ایک بڑی ذمہ داری دینے والا ہے اس نازک ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ تم اللہ سے کیے ہوئے اس عہد و پیمان کی حفاظت کرو جس کو بنی اسرائیل نے بری طرح پامال کیا۔ دیکھنا تم ہرگز ایسا نہ کرنا لیکن اس کے فوراً بعد جو بات شروع کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ” حلال کردیئے گئے ہیں تم پر مویشی قسم کے جانور “۔ اس جملے کا آیت کے پہلے حصے سے بظاہر کوئی ربط نظر نہیں آتا لیکن اگر تھوڑا سا تدبر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کا اقتدار تسلیم کرتے ہیں تو چند علامتیں ہیں جو اس کے اقتدار کی علامات کہلاتی ہیں اور انہی کے حوالے سے پتہ چلتا ہے کہ اس صاحب اقتدار کو تسلیم کیا گیا ہے یا نہیں۔ ان علامات میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ حلت و حرمت کا اختیار آپ کس کو دیتے ہیں یعنی وہ کون سی قوت ہے جس کو یہ اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے حلال کہے جس کو چاہے حرام ‘ جسے چاہے جائز کہہ دے ‘ جسے چاہے ناجائز ٹھہرا دے اور جس چیز کی چاہے اجازت دے اور جس چیز سے چاہے روک دے یعنی جس چیز کا چاہے اثبات کر دے اور جس چیز کی چاہے نفی کر دے۔ جس قوت کے لیے یہ اختیارات تسلیم کیے جاتے ہیں اسی کو صاحب اقتدار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اقتدار انہی اختیارات کے حامل ہونے کا دوسرا نام ہے۔ لیکن اگر رویہ یہ اختیار کیا جائے کہ ایک آدمی کو تخت اقتدار پر بٹھا دیا جائے۔ اسکے احترام میں کوئی کمی نہ ہو۔ باقاعدہ اس کی حکومت کے نعرے بھی لگیں لیکن اسے کسی بات پر بالکل اختیار نہ ہو یعنی اختیار نام کی کوئی چیز اسے تفویض نہ کی جائے۔ آپ خود اندازہ لگایئے کہ کیا ایسے آدمی کو صاحب اقتدار کہا جاسکتا ہے ؟ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے 1857 ء کی جنگ آزادی سے قبل برصغیر پاک و ہند کے دارالحکومت دہلی میں جب بھی کوئی حکم صادر کیا جاتا تو اس کا اعلان اس طرح ہوتا تھا۔ لوگو ! ملک اللہ کا ‘ بادشاہت بہادر شاہ ظفر کی اور حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا۔ یہ وہ مذاق تھا جو بادشاہ کے ساتھ کیا جا رہا تھا اور جسکے رد عمل کے طور پر جنگ آزادی وقوع پذیر ہوئی۔ یہاں یہی تصور دینا مقصود ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں ‘ یہاں ایک ہی حاکم اعلیٰ ہے جسے تم اللہ کے نام سے یاد کرتے ہو۔ اسکے اقتدار کو نہ تو کوئی چیلنج کرسکتا ہے نہ اس میں دخیل ہوسکتا ہے۔ تم اسی پر ایمان لائے ہو ‘ اسی سے غیر مشروط اطاعت کا عہد اور عقد باندھا ہے۔ جانوروں کی حلت و حرمت اسی کے اقتدار اعلیٰ اور تمہاری غیر مشروط اطاعت کی علامت ہے۔ مزید اگر تدبر سے کام لیا جائے تو یہیں سے ایک بہت بڑی حقیقت کا بھی انکشاف ہوتا ہے جس کے سمجھ لینے سے امت مسلمہ میں در آنے والی بہت ساری اجتماعی گمراہیوں کا تدارک بھی ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کا جو عہد و پیماں ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اس کی حاکمیت اعلیٰ اور کبریائی کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے نام کا وظیفہ کرتے ہیں ‘ اسی سے مناجات کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو تنہائی میں اسے پکارتے بھی ہیں لیکن اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی فیصلہ یا عمل کرنے سے پہلے ہم یہ سوچنے کی کبھی زحمت نہیں کرتے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس میں کہیں اس کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی یعنی ہمیں اس کی بڑائی تسلیم ہے لیکن اس کا اقتدار تسلیم نہیں ‘ اس کا احترام سر آنکھوں پر لیکن اس کے احکام کی اطاعت ہمارے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی ذات کے ساتھ یہ طرز عمل کہ اسے مانا جائے لیکن اطاعت نہ کی جائے اسے عقیدہ کہتے ہیں ‘ دین نہیں کہتے۔ مذہب جب تک قوت سے بیگانہ رہتا ہے وہ صرف ایک عقیدہ ہے لیکن جب اسے حاکمیت اور اقتدار مل جاتا ہے اور وہ کسی قوم کا اجتماعی چلن بن جاتا ہے اور جس کے کرنے نہ کرنے پر احتساب حرکت میں آتا ہے اسے دین کہتے ہیں اور پھر عقیدہ اور عمل میں جب مطابقت پیدا ہوجاتی ہے تو انسانی زندگی میں دو عملی ختم ہوجاتی ہے۔ اب وہ قوت جس کے سامنے مسجدوں میں سر جھکتے ہیں اسی کا حکم عدالتوں میں گونجتا ہے ‘ حکومت کے ایوانوں میں اسی کے مطابق پالیسیاں ڈھلتی ہیں ‘ وہی تہذیب اور تمدن کی بنیاد بنتا ہے۔ حلت و حرمت کی بحث چھیڑ کر اسی تصور کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ چناچہ اس سورة کے نزول سے پہلے اسلام ایک عقیدے کے طور پر پہچانا جاتا تھا لیکن اس سورة کے نزول کے زمانہ میں اسلام مسلمانوں کے دلوں کا صرف عقیدہ نہیں رہا تھا بلکہ وہ خود ریاست کا راہنما یا مذہب بلکہ خود ریاست بن چکا تھا۔ چناچہ اسلام جب مذہب سے بڑھ کر ریاست بن جاتا ہے تو پھر یہ قوت کہ کونسی چیز صحیح ہے اور کونسی غلط اور کونسی چیز حلال ہے اور کونسی حرام ‘ یہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور اللہ کے بندے اس کے نائب بن کر زبان سے اس کا حکم دیتے ہیں اور حکومت کی طاقت اسے نافذ کرتی ہے لیکن تخت حکومت پر بیٹھنے والا شخص کبھی اپنے آپ کو حلت و حرمت کی اتھارٹی نہیں سمجھتا۔ چناچہ تمام خلفائے راشدین کو دیکھ لیجئے وہ اپنے خطبات میں برملا اس بات کا اظہار کرتے تھے : لوگو ! جب تک ہم تمہیں اللہ کی اطاعت کی طرف بلائیں تم پر ہماری اطاعت لازم ہے لیکن جب تمہیں ہم اپنی ذات اور اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیں تو تم پر ہماری اطاعت بالکل جائز نہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو قرآن ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے مگر اس ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی یعنی جب بھی اس ملک میں یہ بات اٹھتی ہے کہ یہاں اسلامی نظام آنا چاہیے تو آپ نے کئی نام نہاد دانشوروں سے یہ سنا ہوگا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں ‘ روزہ رکھتے ہیں ‘ ہو سکے تو حج بھی کرلیتے ہیں، اللہ کو مانتے ہیں، اس کے رسول کو مانتے ہیں ‘ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرلیتے ہیں اور اسلام کیا ہے ؟ خرابی وہی ہے جس کا ذکر کیا گیا کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب تو موجود ہے اور اس کتاب کا ایک ایک لفظ ہمارے دلوں کے عقیدے میں شامل ہے لیکن ملک کے نظام میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جب تک اللہ کی کتاب خود ریاست یا مذہب ریاست نہ بن جائے کہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے انسان کو یہ خوف لاحق ہو کہ اگر میں نے اس کی مخالفت کی تو احتسابی ادارے فوراً میری طرف متوجہ ہوں گے۔ ہوسکتا ہے مجھے پس دیوار زنداں جانا پڑے۔ جب تک اس طرح کا خوف اللہ کے بیان کردہ احکامات کے مطابق ہمیں لاحق نہیں ہوتا ‘ مذہب ریاست نہیں بن سکتا اور یہی وہ فرق ہے جو ہمیں سمجھ میں نہیں آتا۔ جیسا کہ ہم تعارف میں واضح کرچکے ہیں کہ یہ سورة حدیبیہ کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی جس میں قریش نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا اور آئندہ سال عمرہ کی اجازت دی تھی، اب چونکہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے کے لیے جانا تھا تو اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے پروردگار نے اس سورة میں کسی حد تک تفصیل سے عمرے اور حج کے احکام بیان فرما دیئے ہیں تاکہ مسلمان مناسکِ عمرہ اور مناسکِ حج کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا شکار نہ ہوں۔ اس لیے ارشاد فرمایا : اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الاَْنْعَامِ اِلاَّ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ (تمھارے لیے انعام کی قسم کے تمام چوپائے حلال ٹھہرائے گئے بجز ان کے جن کا حکم تم کو پڑھ کر سنایا جا رہا ہے ناجائز کرتے ہوئے شکار کو حالت احرام میں) ” اَنعام “ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اونٹ ‘ گائے ‘ بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے اور ” بہیمۃ “ کا اطلاق ہر چرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنھیں عربی میں ” انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے کہ ” مویشی کی قسم کے چرندہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہوجاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کے دائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی نوعیت کے ہوں یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں ‘ حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں اور دوسری حیوانی خصوصیات میں انعام عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے برعکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں ‘ حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی ﷺ نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ نے ان پرندوں کو بھی حرام قرار دیا جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کر کے کھاتے ہیں یا مردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس ( رض) کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ ﷺ عن کل ذی ناب من السباع و کل ذی مخلب من الطیر دوسرے متعدد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں۔ کون سے جانور حرام ہیں ؟ معلوم ہوا کہ مویشی قسم کے تمام جانور حلال ہیں سوائے ان چند کے۔ -1 چیرنے پھاڑنے والے ‘ -2 شکار کرنے والے ‘ -3 مردار خور ‘ -4 حیوانی غذا کھانے والے۔ ان چار طرح کے جانوروں کے علاوہ باقی تمام جانور اللہ نے حلال کردیئے۔ ان میں سے بھی وہ جانور حرام ہیں جن کا آگے بیان آرہا ہے۔ فرمایا : اِلاَّ مَا یُتْلیٰ عَلَیْکُمْ (سوائے ان کے) جو آگے تمہیں بیان کیے جائیں گے 0 حلال جانور کس وقت حرام ہے ؟ یہاں ان حلال جانوروں کی بھی تفصیل بیان کردی گئی ہے جو عام طور پر تو حلال ہیں لیکن بعض خاص عوامل کی وجہ سے وہ بھی حرام ہوجاتے ہیں یعنی جانور حلال تو ہے لیکن وقتی طور پر اس میں حرمت پیدا ہوجاتی ہے۔ غَیْرَ مُحِلِیّ الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ ” حلال نہ جانو شکار کو جب کہ تم احرام میں ہو “ یعنی جب کوئی انسان حالت احرام میں ہو تو اس کے لیے ہر طرح کے حلال جانور کا گوشت تو حلال ہے لیکن وہ اس حلال جانور کا شکار نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں انسان ہرن وغیرہ کا گوشت تو کھا سکتا ہے لیکن خود شکار کرنا اس کے لیے حلال نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو کسی شکار کی طرف متوجہ کرسکتا ہے۔ مثلاً حالت احرام میں کوئی انسان دیکھتا ہے کہ ایک ہرن دوڑا جا رہا ہے ‘ اب وہ کسی ایسے انسان کو جو حالت احرام میں نہیں ہے اس کے متعلق اشارۃً بھی یہ نہیں بتاسکتا کہ تم اس ہرن کو شکار کرلو کیونکہ احرام باندھ لینے کے بعد انسان اللہ کے آگے بالکل بےبس اور معطل محض ہوجاتا ہے اور اللہ کے عشق میں دیوانہ ہوجاتا ہے ‘ اس لیے اس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کوئی فرزانگی کا کام کرے۔ ویسے بھی احرام شعائر اللہ میں سے ہے اور یہ اس کی توہین بھی ہے کہ تم ایسا کام کرو جو اس حالت میں کرنے کی اجازت نہیں۔ احرام حج یا عمرہ کی نیت کرنا اور تلبیہ کہنا احرام کہلاتا ہے۔ لیکن اس کی علامت کے طور پر جو لوگ حج و عمرے کے لیے جاتے ہیں ‘ وہ ایک خاص قسم کا لباس زیب تن کرتے ہیں جس میں نیچے ایک تہبند باندھتے اور اوپر ایک چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ اس لباس کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ یہ رنگ دار نہیں ہوتا بلکہ سفید ہوتا ہے اور سلا ہوا تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں بہت ساری حلال چیزیں حرام ہوجاتی ہیں مثلاً -1 شکار ‘ -2 حجامت ‘ -3 خوشبو ‘ -4 زینت و آرائش اور قضاء شہوت ‘ اس کے علاوہ بھی کچھ پابندیاں ہیں جن کو اہل علم نے بڑی تفصیل سے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ صرف اللہ جس چیز کو چاہے حرام قرار دے سکتا ہے اِنَّ اللہ َ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (بےشک اللہ حکم دیتا ہے جس چیز کا وہ ارادہ کرتا ہے) یہ بہت بڑی بات ہے جس کا یہاں صرف دو لفظوں میں ذکر کیا گیا۔ ایک تو یہ کہ جب آدمی حلال و حرام کی تفصیلات پڑھتا ہے تو لازماً یہ سوال اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ نے بعض جانوروں کو حلال اور بعض جانوروں کو حرام قرار دیا ؟ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اصل بات کو چھوڑ کر اس وجہ کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جس وجہ سے وہ جانور حلال یا حرام قرار دیئے گئے۔ چناچہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے حلال اور حرام جانوروں میں وہ وجوہ تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں جن کی وجہ سے انھیں حلال یا حرام قرار دیا گیا۔ لیکن میرے نزدیک یہ محض اپنا وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ قرآن نے اس آیت میں یہ عقدہ فاش کردیا ہے۔ فرمایا : دیکھو ! کسی چیز کو حلال کرنا یا حرام کرنا اس سبب سے نہیں ہے کہ اس میں کوئی خاص بات ہے بلکہ اصل میں جو بات ہے اور جو ساری حکمتوں سے بڑی حکمت ہے وہ یہ ہے کہ صرف اللہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کا جو چاہے حکم دے۔ وہی مطاع مطلق ہے۔ اس کی شان ہی یہ ہے کہ لاَ یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْن (الانبیاء : 23) (اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا البتہ وہ سب سے پوچھے گا) یعنی اس کی شان یہ ہے کہ وہ سب سے سوال کرے گا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ لیکن اس سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا ؟ یہ کسی کی مجال نہیں کیونکہ اس نے کسی کو یہ حق دیا ہی نہیں۔ یہ حق اس نے صرف اپنے لیے رکھا ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔ جس کام کو چاہے کرنے کا حکم دے اور جس کام سے چاہے روک دے۔ اسی لیے کہا :” اِنَّ اللہ َ یَحْکُمْ مَا یُرِیْدُ “ تم اس کے پیچھے مت پڑو کہ اس نے کس بات کو کیوں حلال کیا اور کس کو کیوں حرام کیا ؟ بلکہ یہ جان لو کہ یہ اس کی شان ہے اور اس کی شان کا ظہور یوں ہی ہوتا ہے کہ وہ جس بات کا چاہے حکم دے۔ یہ الگ بات ہے اور یہ ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ جس بات کے جائز ہونے کا اللہ نے حکم دیا ‘ اس کا جائز ہونا انسانی زندگی کے لیے بہتر تھا اور جن باتوں کے ناجائز ہونے کا حکم دیا ‘ ان کا ناجائز ہونا ہی انسانی زندگی کے لیے بہتر تھا۔ البتہ ! یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حلال و حرام میں حفظان صحت کے اصولوں کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن حلت و حرمت کا مدار صرف اس بات پر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس سے بھی بڑی ایک اور حقیقت ہے۔ وہ یہ ہے کہ بہت ساری چیزوں کو اس لیے حرام قرار دیا ہے کہ اخلاقی نقطہ ٔ نگاہ سے ‘ ضمیر کی زندگی اور توانائی کے اعتبار سے ‘ وہ چیزیں نقصان دہ تھیں۔ یعنی بہت ساری چیزیں ان میں ایسی ہیں جو ضمیر کو مردہ کردیتی ہیں ‘ بہت ساری چیزیں ان میں ایسی ہیں جو انسان کے عمل کو مفلوج کردیتی ہیں ‘ بہت ساری ان میں چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے ذہن کو گندا کردیتی ہیں۔ اب ان سب باتوں کو معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ کس چیز کا اخلاقیات پر ‘ ایمان کی نورانیت اور ضمیر کی بیداری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ان باتوں کو جاننے کے متعلق ہم قیامت تک بھی کوشش کرتے رہیں تو نہیں جان سکتے۔ آپ حرام چیزوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو آپ کو خود معلوم ہوگا کہ بعض چیزیں تو حفظان صحت کی وجہ سے حرام کی گئیں ‘ لیکن بہت سی چیزوں کو شرک کی وجہ سے حرام کیا گیا ‘ جن میں سے چند کی تفصیل آگے بیان ہو رہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جن چیزوں میں شرک کی آمیزش ہوگی وہ انسان کے اخلاق کے لیے تباہ کن ہیں۔ اب یہ جاننا کہ وہ تباہ کن کیوں ہیں یا کتنی تباہ کن ہیں ؟ یہ جاننے کے لیے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہیں۔ اس کا صرف ایک ہی ذریعہ ہمیں عطا ہوا ہے اور وہ ہے ” اِنَّ اللہ َ یَحْکُمْ مَا یُرِیْدُ “ کہ اللہ جانتا ہے کہ ہماری اخلاقیات کے لیے کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری۔ چونکہ وہی جانتا ہے ‘ اس لیے اسے ہی یہ حق ہے کہ جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز کو چاہے روک دے۔
Top