Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ
: حرام کردیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْمَيْتَةُ
: مردار
وَالدَّمُ
: اور خون
وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ
: اور سور کا گوشت
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: اللہ کے سوا
بِهٖ
: اس پر
وَ
: اور
الْمُنْخَنِقَةُ
: گلا گھونٹنے سے مرا ہوا
وَالْمَوْقُوْذَةُ
: اور چوٹ کھا کر مرا ہوا
وَالْمُتَرَدِّيَةُ
: اور گر کر مرا ہوا
وَالنَّطِيْحَةُ
: اور سینگ مارا ہوا
وَمَآ
: اور جو۔ جس
اَ كَلَ
: کھایا
السَّبُعُ
: درندہ
اِلَّا مَا
: مگر جو
ذَكَّيْتُمْ
: تم نے ذبح کرلیا
وَمَا
: اور جو
ذُبِحَ
: ذبح کیا گیا
عَلَي النُّصُبِ
: تھانوں پر
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَسْتَقْسِمُوْا
: تم تقسیم کرو
بِالْاَزْلَامِ
: تیروں سے
ذٰلِكُمْ
: یہ
فِسْقٌ
: گناہ
اَلْيَوْمَ
: آج
يَئِسَ
: مایوس ہوگئے
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے
مِنْ
: سے
دِيْنِكُمْ
: تمہارا دین
فَلَا تَخْشَوْهُمْ
: سو تم ان سے نہ ڈرو
وَاخْشَوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
اَلْيَوْمَ
: آج
اَكْمَلْتُ
: میں نے مکمل کردیا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
دِيْنَكُمْ
: تمہارا دین
وَاَتْمَمْتُ
: اور پوری کردی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
نِعْمَتِيْ
: اپنی نعمت
وَرَضِيْتُ
: اور میں نے پسند کیا
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الْاِسْلَامَ
: اسلام
دِيْنًا
: دین
فَمَنِ
: پھر جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
فِيْ
: میں
مَخْمَصَةٍ
: بھوک
غَيْرَ
: نہ
مُتَجَانِفٍ
: مائل ہو
لِّاِثْمٍ
: گناہ کی طرف
فَاِنَّ اللّٰهَ
: تو بیشک اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: مہربان
تم پر مر ُ دار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا گیا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو ‘ اور جو چوٹ سے مرا ہو اور جو گِر کر مرا ہو اور جو کسی (جانور کے) سینگ سے مرا ہو اور جس کو کسی درندے نے کھایا ہو بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کرلیا ہو اور (حرام کیا گیا) جو کسی تھان (آستانہ) پر ذبح کیا گیا ہو اور (حرام کیا گیا) یہ کہ تقسیم کرو (حصہ ایک دوسرے کو) تیروں کے ذریعے سے۔ یہ سب باتیں فسق (گناہ) ہیں۔ آج یہ کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ‘ سو تم ان سے نہ ڈرو مجھی سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔ تو جو شخص بھوک کی وجہ سے مجبور ہوجائے لیکن گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو بیشک اللہ بخشنے والا ہے ‘ رحم کرنے والا ہے
حُرِّمَتُ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ قف وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْابِالْاَزْلَامِ ط ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْامِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِّثْمٍ لا فَاِنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 3) ” تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا گیا جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو ‘ اور جو چوٹ سے مرا ہو اور جو گِر کر مرا ہو اور جو کسی (جانور کے) سینگ سے مرا ہو اور جس کو کسی درندے نے کھایا ہو بجز اس کے جس کو تم نے ذبح کرلیا ہو اور (حرام کیا گیا) جو کسی تھان (آستانہ) پر ذبح کیا گیا ہو اور (حرام کیا گیا) یہ کہ تقسیم کرو (حصہ ایک دوسرے کو) تیروں کے ذریعے سے۔ یہ سب باتیں فسق (گناہ) ہیں۔ آج یہ کافر تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ‘ سو تم ان سے نہ ڈرو مجھ ہی سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔ تو جو شخص بھوک کی وجہ سے مجبور ہوجائے لیکن گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو بیشک اللہ بخشنے والا ہے ‘ رحم کرنے والا ہے “۔ حرام جانوروں کی تفصیل اب کچھ حرام جانوروں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ 1 ” مَیتۃ “ یہ وہ جانور ہے جو طبعی موت مرجائے۔ 2 ” اَلدَّمَ “ خون۔ اس سے مراد وہ خون ہے جسے قرآن ” دما مسفوحاً “ کہتا ہے۔ یعنی بہتا ہوا خون اور وہ خون جو جما ہوا ہو ‘ جیسے جگر وغیرہ۔ یہ خون حلال ہے۔ حدیث پاک میں ہے ” تمام مردہ جانور تم پر حرام ہیں سوائے مچھلی اور ٹڈی کے (یہ مردہ حالت میں بھی حلال ہیں) ۔ تمام خون تم پر حرام ہیں سوائے تلی ‘ طحال اور جگر کے “۔ 3 ” لَحْمُ الْخِنْزِیْر “ اس کی ہر چیز حرام ہے۔ 4 ” مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ “ ہر وہ جانور حرام ہے جس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام لیا جائے یعنی ذبح کے وقت اللہ کی بجائے کسی دیوتا کا یا اپنے کسی بڑے کا نام لیا جائے۔ آگے کچھ خاص قسم کے مرداروں کا ذکر ہے جو حرام ہیں کیونکہ اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ ایسے ” دانشور “ بھی دنیا میں آئیں گے جو یہ کہیں گے کہ وہ جانور تو حرام ہے جو طبعی موت مرجائے ‘ لیکن جو گلا گھٹ کے مرجائے ‘ یہ تو دوسری قسم کا مردار ہے ‘ اسے تو حلال ہونا چاہیے۔ چناچہ اسی سے انھوں نے کہا کہ جھٹکے کا گوشت حلال ہے حالانکہ جھٹکا گلا گھونٹ کر مارنے کی ایک صورت ہے۔ 5 ” اَلْمُنْخَنِقَۃُ “ جو جانور گلا گھٹ کے مرجائے ‘ حرام ہے۔ 6 ” اَلْمَوْقُوْذَۃُ “ جو چوٹ کھا کے مرجائے یعنی حادثاتی موت سے جیسے کسی چیز سے ٹکرا کے مرگیا۔ 7 ” اَلْمُتَرَدِّیَۃُ “ بلندی سے گر کر مرنے والا جانور بھی حرام ہے۔ 8 ” اَلْنَطِیْحَۃُ “ کوئی جانور کسی جانور کو مار دے ‘ جیسے سینگ لگنے سے مرگیا یا ٹکر لگنے سے زخمی ہو کے مرگیا۔ دونوں طرح سے مرنے والے کو علماء نے حرام قرار دیا ہے۔ 9 ” وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ “ ایسا جانور جسے کوئی درندہ چیر پھاڑ دے۔ یہ جانور بھی حرام ہے۔ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ اگر جان نکلنے سے قبل جانور کو ذبح کردیا گیا ‘ یعنی شہ رگ کاٹ دی ‘ تو مذکورہ بالا تمام جانور حلال ہوسکتے ہیں۔ جب شہ رگ کاٹ دی جاتی ہے تو جسم سے تمام خون نچڑ نچڑ کر نکل جاتا ہے۔ خون کا کوئی قطرہ جسم میں باقی نہیں رہ جاتا۔ لیکن جب وہ اچانک مرجاتا ہے ‘ جیسے مشین پہ پٹے کے ساتھ چھریاں لگی ہوئی ہیں اور مرغیوں کی گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ مغرب سے اکثر اسلامی ملکوں میں اسی طرح کا گوشت درآمد ہوتا ہے ‘ یہ حرام ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گلا کاٹ دیا گیا یا گھونٹ دیا گیا۔ اس طرح خون جسم کے اندر باقی رہتا ہے ‘ جو انسانی صحت کے نقطہ نظر سے درست نہیں ہے۔ 0 ” وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ “ ایسا جانور جسے استھانوں (آستانوں) پر ذبح کیا جائے۔ بعض لوگوں کا خیال باطل یہ ہے کہ اس سے مراد وہ جانور ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے۔ اگر یہ درست ہوتا تو ابھی اسی آیت میں تو گزرا ہے کہ ” وَمَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ “ پھر دوبارہ اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کسی بھی جگہ پر جا کر جانور ذبح کیا جائے ‘ جس کے بارے میں ذبح کرنے والے کا خیال ہو کہ یہ جگہ بہت عزت والے دیوتائوں کی ہے یا یہ جگہ بڑی عظمت والی ہے یا جیسے عام خیال ہے کہ بڑی سخت جگہ ہے کہ وہاں جا کر اگر ہم ذبح نہ کریں تو کوئی بیماری آجائے گی۔ یہ حرام ہے اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔ شراب اور جوا ہرحال میں حرام ہیں وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالاَْزْلاَمْ ” تیروں اور پانسوں کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرنا تم پر حرام ہے “۔ اس آیت کا ایک ترجمہ تو یہ ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ حرام ہے تم پر کہ بانٹو حصہ ایک دوسرے کو تیروں اور پانسوں کے ذریعے۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں لیکن دوسرا ترجمہ میرے نزدیک زیادہ درست ہے اور یہی بات زیادہ قرین قیاس بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہاں یہ بات نہیں ہو رہی کہ کیا چیز حرام ہے اور کیا حرام نہیں ہے بلکہ بات یہ ہو رہی ہے کہ کون کون سی قسم کے گوشت حرام ہیں۔ فسق ” ذٰلِکُمْ فِسْق “ یہ ساری باتیں جو اوپر گزریں یہ فسق ہیں۔ ہمارے ہاں فسق کے عام طور پر دو استعمال ہیں۔ -1 قرآن کا استعمال -2 فقہ کی اصطلاح۔ فقہ کی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ یہ برائی ہے ‘ کفر نہیں ہے۔ یعنی حالت ایمان میں انسان بعض برائیوں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ‘ اس کو فسق کہتے ہیں۔ لیکن قرآن میں فسق حد سے گزر جانے کو کہتے ہیں۔ یہاں آیت میں مراد قرآنی فسق ہے۔ فقہ کا فسق یہاں مراد نہیں ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں فسق بعض دفعہ کفر کے لیے بولا جاتا ہے اور بعض دفعہ بد عملی کے لیے۔ یہاں ” فسق “ کفر کے معنی میں ہے کہ اللہ کی قائم کردہ حدود کو پامال کرنا اور جو جی میں آئے کرتے چلے جانا ‘ یہ کفر ہے۔ اگر لغت کا سہارا لیں تو عربی لغت میں ایک محاورہ ہے ” فسقت الرطبۃ عن القشرۃ “ کہ انگشت شہادت کی پور پر ایک کھجور رکھ کے انگوٹھے سے دبائی اور اس کی گٹھلی پھدک کے دور جا گری۔ ” رطب “ تر کھجور کو کہتے ہیں۔ ” فسق “ کا معنی پھدک کر ‘ اچھل کر نکل جانا ہے یعنی آدمی اللہ کی تمام حدود کو پھلانگتا ہوا نکل جائے ‘ اسے فسق کہتے ہیں۔ یہاں یہی فسق مراد ہے۔ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ط (آج مایوس ہوگئے ہیں کافر تمہارے دین سے ان سے مت ڈرو مجھ ہی سے ڈرو) مایوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئیں یعنی 6 ہجری کے آخر میں یا 7 ہجری کے شروع میں یا بعض روایات کے مطابق حجۃ الوداع کے موقع پر۔ شاید یہ جملہ بھی حصہ ہو آنے والے جملے کا۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہ اسی کا حصہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج ہم نے تمہیں اتنی قوت دے دی ہے کہ تمہارے احوالِ فکرو عمل مرتب ہوگئے۔ تمہاری سیاسی ‘ تمدنی ‘ تہذیبی زندگی ہر طرح سے منظم ہوگئی۔ سیاسی طور پر تمہارے استحکام کا یہ حال ہے کہ دنیا تمہاری قوت کو تسلیم کر رہی ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ تمہیں کسی سے مفاہمت کرنی پڑے یا جیسا کہ کافر پہلے سوچا کرتے تھے کہ انھیں ڈرا دھمکا کے یا بہلا پھسلا کے واپس اپنے دین میں لے آئیں گے۔ وہ زمانہ اب گیا۔ وہ تمہیں واپس آنے کا نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ جانتے ہیں تم ہر لحاظ سے ان سے زیادہ مضبوط ہو۔ تم اور تمہارا دین مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے جو ہر طرح سے مکمل و مرتب ہوگیا ہے اور یہ نافذ ہوچکا اللہ کی زمین پر۔ وہ لوگ اب مایوس ہوگئے ہیں کہ تمہیں کسی طرح بہلا پھسلا سکیں۔ البتہ ! تمہیں ایک بات سوچنی ہے کہ قوموں کی زندگی میں جو بڑا خطرناک لمحہ ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ جب وہ زوال کا شکار ہوتی ہیں تو وہ اپنے نظریات پر مکمل اعتماد کی بجائے دریوزہ گری کرنے لگتی ہیں۔ قوموں کی زندگی کا خطرناک ترین لمحہ اللہ نے ان کو ایک نظریاتی قوت دے رکھی ہوتی ہے اور سینکڑوں سالوں کی تاریخ ان کی پشت پر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جب کوئی نیا فکری انقلاب آتا ہے تو وہ اس سے متاثر ہو کر اپنی فکری بنیادوں کو متزلزل کرنے لگتی ہیں۔ اس کی نمایاں مثال عباسی دور ہے، جب ہمارا یونانیوں سے واسطہ پڑا تو ہمارے یہاں بڑے بڑے دانشور پیدا ہوئے جنھوں نے یونانی فلسفہ پڑھا اور اس سے متاثر ہو کر اسلام کی بہت ساری باتوں کے بارے میں عقیدے کی کمزوری کا شکار ہوئے اور جب تک امام غزالی (رح) جیسے لوگ نہیں اٹھے انھوں نے دریوزہ گری نہیں چھوڑی۔ اخوان الصفاء جیسی تحریکوں کے نام سے نہ جانے کیا کیا فتنے اٹھتے رہے۔ اصل بات یہ تھی کہ ان کی بنیادیں غیر مستحکم ہوگئی تھیں اور انھوں نے یہ رویہ چھوڑ دیا تھا کہ ” فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ “ یعنی صرف اللہ کی پرواہ کریں ‘ کسی اور کو پلے نہ باندھیں۔ اسی زوال کا پھر ایک دوسرا دور آیا جو ہمیں غلامی کے دور میں دیکھنا پڑا کہ مغربی دنیا سے بہت سے افکار ہم پر بارش کی صورت برسنے لگے۔ جو بات گوری چمڑی والے کی زبان سے نکلی ‘ ہم نے یہ سمجھا کہ یہ آسمان سے اتری ہے۔ لندن کا آسمان ہمارے لیے ایسا ہوگیا جیسے خدا کا آسمان ہے۔ اس کی ہر بات وحی الٰہی قرار پائی۔ مثلاً ” ڈارون “ جس نے انسان کے ارتقا کی ایک بےہودہ تھیوری پیش کی۔ آج سے پچاس ‘ ساٹھ برس پہلے ہمارا کوئی دانشور اس کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن آج اسے برسرعام کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ” بیوقوف “ آدمی تھا۔ نجانے کس کس کے اقوال ہیں جو قانونی ‘ تہذیبی اور تمدنی حوالوں سے یہاں منتقل ہوئے اور ہم اس کی دریوزہ گری آج بھی کر رہے ہیں۔ بات صرف دریوزہ گری تک ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس سے تو صرف فکری توانائی متاثر ہوتی ہے۔ یہاں تو اجتماعی زندگی کا ہر شعبہ غیروں کی زد میں ہے۔ فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ مولانا محمد علی جوہر ( رح) کے بارے میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی (رح) فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مولانا سے ملنے گیا تو اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ مولانا زاروقطار رو رہے ہیں۔ میں نے جلدی سے اپنے قدم پیچھے ہٹائے کہ آدمی پر بعض مائوف لمحے ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ اپنے احساسات کی گرفت میں ہوتا ہے۔ میں باہر کھڑا انتظار کرنے لگا۔ جب ان کے آنسوئوں کا سیلاب نہ رکا ‘ حتیٰ کہ ہچکی بندھ گئی ‘ مجھے پریشانی ہونے لگی، آخر میں اندر داخل ہوگیا۔ میرے پائوں کی آہٹ سن کر انھوں نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھ کر اپنے آپ کو سنبھالنے لگے اور بڑی دیر تک اپنے آپ کو سنبھالتے رہے۔ جب وہ نارمل ہوگئے تو میں نے عرض کی کہ حضرت ! ایسی کیا بات ہوگئی تھی کہ آپ نے رو رو کر اپنا حال برا کرلیا ؟ انھوں نے قرآن کی طرف اشارہ کیا جو سامنے کھلا تھا اور اس کے اوراق بھیگ رہے تھے ‘ میں نے دیکھا تو یہی آیت تھی ” فَلاَ تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْن “ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے مجھے بتلائیں ؟ مولانا نے فرمایا کہ یہاں اللہ نے ہمیں کتنے بڑے انعام سے نوازا ہے ‘ تکمیل دین ‘ اتمام نعمت اور ہمارے لیے دین اسلام کو پسند کرنا اور اس ساری نعمت کی شرط صرف یہ ہے کہ ” ان سے نہ ڈرو ‘ مجھ ہی سے ڈرو “ یعنی کسی اور کی فکری ‘ سیاسی ‘ تہذیبی ‘ تمدنی ‘ معاشی اور معاشرتی قوت کو اپنے سے برتر خیال کر کے اپنی تمام سرفرازیوں کو کہیں زہر آلودنہ کرلینا ‘ اپنی تاریخ کو کہیں رسوا نہ کرلینا۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میرے ایمان پر نجانے کیسے کیسے غیروں کے اثرات ہیں۔ میری عبادات ‘ میرے گھر کی زندگی ‘ میری تہذیب و معاشرت تک میں سیاسی اثرات داخل ہوگئے ہیں یعنی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جسے ہم نے مغربی تہذیب کے لیے کھول نہ دیا ہو۔ جب میں اپنی قوم کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ یا اللہ ! تیرا انعام تو مذکورہ بالا شرط کے ساتھ مشروط تھا۔ ہم تو اب تک اس مرحلے تک پہنچے ہی نہیں ‘ ہمارے لیے یہ انعام کس کام کا ؟ یہ وہ چیز ہے جو مجھے خون کے آنسو رلاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس نے ان سے یہ لافانی شعر کہلوایا تھا : توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے تکمیلِ دین اور عرفہ کا دن فرمایا آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔ ” الیوم “ سے مراد کوئی خاص دن نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ دن یا وہ زمانہ یا وہ دور ہے جس سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے۔ مفسرین کہتے ہیں یہ قرآن کی آخری آیت ان معنوں میں مشہور ہوئی کہ اس کے بعد احکام کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی۔ لیکن ترغیب و ترہیب کے حوالے سے بعد میں بھی چند آیات ضرور نازل ہوئی ہیں ‘ لیکن اس آیت کے نزول سے احکام مکمل کرلیے گئے ‘ نظام فکر و عمل مکمل ہوگیا۔ یہ آیت 9 ذی الحجہ حجتہ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی۔ ذی الحجہ کی پہلی دس تاریخیں اللہ کی نظر میں بہت فضیلت والی ہیں اور یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ ان سب سے مکرم اور معزز دن ہے۔ عرفہ یا عرفات حرم کے ایک حصے کے ساتھ متصل ہے بلکہ حرم کا ایک حصہ اس میں شامل ہے۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ‘ یہ عصر کے بعد کا وقت اور جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کا دن بذات خود قبولیت دعا کا دن ہے۔ حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن اور عصر کے بعد خصوصاً قبولیت دعا کے لمحات ہوتے ہیں۔ اس وقت حضور ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار جبل رحمت کے سائے میں تھے ‘ جو کہ بڑی فضیلت کا حامل ایک پہاڑ ہے۔ ان فضیلتوں کے ہجوم میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت نے احکامات کو مکمل کردیا۔ اس آیت کی اہمیت کے پیش نظر چند یہود نے حضرت عمر فاروق ص سے کہا کہ اگر یہ تکمیل دین کی آیت کہیں ہماری کتاب میں نازل ہوتی تو ہم اس کو عید کا دن بنا لیتے۔ حضرت عمر فاروق ( رض) نے فرمایا : میں جانتا ہوں اور ہم سب مسلمان جانتے ہیں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی ہے ‘ یہ جمعہ کا دن ہے ‘ جو ہمارے لیے عید کا ہی دن ہے اور عرفہ کا دن ہے ‘ یہ اس سے بھی بڑھ کر ہمارے لیے عید کا دن ہے ‘ تو ہمارے لیے اس میں دو عیدیں جمع ہوگئیں ‘ لیکن ہم اپنے تہوار اس طرح نہیں بنایا کرتے ‘ ہمارے تہوار اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے مقرر ہوتے ہیں۔ چناچہ جو مقرر کردیئے گئے ہیں تہوار تو وہی رہیں گے لیکن اس دن کا احترام اور خوشی تو پہلے سے ہی ہماری تاریخ میں موجود ہے۔ اس حوالے سے اس آیت کی بڑی اہمیت ہے معنوی لحاظ سے بھی اور ظاہری فضائل کے حوالے سے بھی۔ لفظ دین کا اطلاق دین کا لفظ عربی زبان اور عربوں کے ہاں چار معنوں میں استعمال ہوتا ہے : 1 اس کا پہلا معنی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ ہے۔ مثلاً قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ھُوَ الْحَیُّ لآَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ط (وہی ذات گرامی ہے ‘ جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تم اسے اس طرح پکارو کہ تم اس کے لیے اقتدار کو خالص سمجھتے ہو) (المؤمن 40: 65) اگر تم نے کسی اور کو اس کے اقتدار میں شریک سمجھا تو گویا تم نے اس کی صحیح حقیقت کا یقین نہیں کیا تو جب بھی اسے پکارو یہ سمجھ کر پکارو کہ دین اور اقتدار اعلیٰ کا مالک صرف وہ ہے۔ اس اقتدار اعلیٰ میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ 2 دوسرا معنی اطاعت و تسلیم ہے جو پہلے معنی کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی حاکمیت اور اقتدار کے مقابلے میں جو اطاعت کی جاتی اور تسلیم کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ‘ اسے بھی دین کہتے ہیں۔ مثلاً سورة الزمر میں ہے کہ قُلْ اِنِِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللہ َ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ ہی کی عبادت کروں اس کے لیے اپنے دین اور اطاعت کو سراسر خالص کرتے ہوئے) (الزمر 11: 93) جس طرح اللہ کے اقتدار اعلیٰ میں کوئی شریک نہیں ہے ‘ اسی طرح اللہ کے حضور میری تسلیم و اطاعت اور عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔ میں کسی کو اس (اللہ) کے علاوہ سجدے کے لائق نہیں سمجھتا اور میری پیشانی سوائے اللہ کے کسی کے آگے جھک نہیں سکتی۔ 3 دین کا تیسرا معنی نظام فکر و عمل اور نظام تہذیب و تمدن ہے۔ یعنی آپ جسکی اطاعت کرتے اور جس کے آگے جھکتے ہیں ‘ جس کو آپ سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسکی اطاعت میں جس طرح زندگی گزارتے ہیں اور اس اطاعت کے نتیجے میں جو نظام فکر و عمل وجود میں آتا ہے ‘ اس نظام فکر و عمل اور نظام تہذیب و تمدن کو دین کہتے ہیں۔ ان معنوں میں قرآن مجید نے اسے کئی جگہ اختیار کیا ہے۔ فرمایا : اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِط اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلآَّ اِیَّاہُط ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ (یوسف : 12: 40) یعنی اس کائنات میں حکم صرف اللہ کا ہے۔ ہماری ذات ‘ احساسات اور خیالات و اختیارات پر اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چل سکتا۔ اس نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی مت کرو۔ یہ رویہ کہ اسے مقتدر اعلیٰ جان کر صرف اسی کی بندگی کی جائے اور صرف اسی کا حکم بجا لایا جائے اور صرف اسی کا قانون چلے ‘ اس رویئے کو ” دین قیم “ کہتے ہیں۔ 4 دین کا چوتھا معنی قانون ہے۔ مثلاً سورة النور کے شروع میں فرمایا : (زنا کرنے والی عورت ہو یا زنا کرنے والا مرد جو بھی یہ حرکت کرے اگر وہ کنوارے ہیں تو انھیں سو کوڑے لگائو) اور کوڑے لگاتے وقت تمہیں کوئی خیر خواہی اور ہمدردی نہ آپکڑے کہ اسے کوڑے لگیں گے تو اس کا کیا حال ہوگا ‘ اس کی تو چمڑی اتر جائے گی۔ اللہ کے دین کو نافذ کرتے ہوئے تمہیں ہمدردی ‘ نرمی اور خیر خواہی نہیں دکھانی چاہیے کیونکہ اس وقت اس کے دین کا تقاضہ یہی ہے کہ مجرم کو کوڑے لگیں اگر یہ ضروری نہ ہوتا تو وہ ذات جو ارحم واکرم ہے ‘ کبھی اس کا حکم نہ دیتی ‘ تمہیں تو اس کے قانون کی اطاعت کرنی ہے ‘ ہمدرد و غمگسار بن کر اس کے قانون کو توڑنا نہیں ہے۔ اسی طرح سورة یوسف میں ہے : کَذٰلِکَ کِدْنَا لِیُوْسُفَ ط مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلآَّ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ ط (یوسف : 12: 76) جب یوسف (علیہ السلام) نے یہ چاہا کہ ان کا چھوٹا بھائی بن یامین جو اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ آیا ہے ‘ وہ اس کو اپنے پاس روک لیں ‘ لیکن اس وقت بادشاہ کا جو قانون چل رہا تھا اس میں کوئی گنجائش نہ تھی کہ وہ اسے روک لیتے۔ لہٰذا انھوں نے ایک تدبیر کے ذریعے اس کو روکا جو قرآن میں ذکر کی گئی ہے۔ فرمایا کہ ہم نے یوسف کو ایک تدبیر سکھائی ‘ ایک طریقہ بتایا کیونکہ وہ بادشاہ کے دین کی پابندی کرتے ہوئے ‘ اسے (اپنے بھائی کو) کبھی نہیں روک سکتے تھے۔ غور کیجئے ! یہاں دین الملک بادشاہ اور ریاست کے قانون کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ 5 اسی طرح دین کا پانچواں معنی مکافات عمل ہے یعنی اگر آپ اس قانون کی پیروی کر کے اس ذات کو راضی کرلیں تو آپ کو جزا میں کیا ملے گا ؟ اور اگر آپ اس کی معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں تو سزا کے طور پر آپ کے ساتھ کیا ہوگا ؟ یہ ہے مکافاتِ عمل۔ اس مکافاتِ عمل کو بھی دین کہتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنتو اس کا مطلب ہے کہ وہ یوم جزا کا مالک ہے ‘ قیامت کا مالک ہے۔ ان معنوں میں بھی یہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے : اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ۔ وَّ اِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعُٗ ۔ (الذاریات : 51: 6۔ 5) (جس سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ قیامت آکر رہے گی ‘ دیکھو ! یہ بالکل سچی بات ہے اور یاد رکھو ! دین واقع ہونے والا ہے) دین سے مراد قیامت ‘ روز جزا اور سزا ہے۔ تو یہ پانچ معنی ہیں جن کے لیے دین کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ دین کا پہلا معنی ہے : حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ ‘ دوسرا معنی ہے : حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم و اطاعت ‘ تیسرا معنی ہے : وہ نظام فکر و عمل جو اس حاکمیت کے زیر سایہ وجود میں آتا ہے ‘ چوتھا معنی ہے : وہ قانون جو حاکم کی طرف سے اپنی رعایا کو دیا جاتا ہے اور پانچواں مفہوم مکافات عمل ہے۔ دین کے لفظ کو سمجھنے کے لیے ان پانچوں معانی کو جمع کرلیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک معنی بھی دین کے اس مفہوم کو پوری طرح ادا نہیں کرتا جو مفہوم قرآن کریم اسے دینا چاہتا ہے اور مشکل یہ ہے کہ دین کا ترجمہ و مفہوم بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہ اردو میں ‘ نہ فارسی میں ‘ نہ انگریزی میں اور نہ کسی اور زبان میں ایسا موجود نہیں جو دین کا مفہوم پوری طرح ادا کرسکے۔ دین کا صحیح مفہوم اس لیے جب ہم ان پانچوں معنوں کو جمع کرتے ہیں تو دین کا صحیح مفہوم ادا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ جل جلالہٗ وہ ذات ہے جو اقتدارِ اعلیٰ کی مالک ہے ‘ اس کے اقتدار کو کوئی دوسرا اقتدار ہرگز چیلنج نہیں کرسکتا۔ وہ اقتدار کسی ایک پہلو سے نہیں ہے بلکہ وہ ہمہ جہت ‘ ہمہ پہلو اور ہمہ گیر ہے ‘ جتنا بھی ہمارا علم اور ہماری دانش اس کا ادراک کرسکتے ہیں ہر حوالے سے اقتدارِ اعلیٰ کا مالک وہی اللہ ہے۔ اس کی خوبصورت توجیہ مولانا حالی کے اشعار میں ہے جن میں انھوں نے خوبصورت انداز میں ایک حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے بات کو سمجھایا ہے۔ ہے ذات واحد عبادت کے لائق اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم مبرّا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی یہ ہے وہ اقتدار اعلیٰ جو صرف اللہ کی ذات کو زیب دیتا ہے جسے اقبال کی زبان میں سروری کہتے ہیں سروری زیبا فقط اسی ذات بےہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری معلوم ہوا کہ اقتداراعلیٰ کا مالک وہی ہے، اسی کے سامنے سر جھکانا ہے۔ ہمارا سر ‘ ہماری پوری ذات ‘ ہمارے احساسات ‘ ہمارا تمام اثر و رسوخ کسی کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے ‘ سوائے اللہ کے۔ جب ہم اس کو سب کچھ مانتے ہیں تو لازمی ہے کہ ہم اس کے احکامات کی اطاعت کریں اور اپنی مرضیات کو اسی کی مرضی کے تابع کردیں، اپنی خواہشات سے اس کی رضا کے لیے دستبردار ہوجائیں۔ یہاں ایک اور بات سمجھ لینا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ دین صرف شریعت کا نام نہیں کیونکہ شریعت احکامات ‘ اوامرو نواہی اور پسند و ناپسند کا نام ہے ‘ لیکن جب ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک تہذیب وجود میں آتی ہے اور اس تہذیب میں شریعت کے اجتماعی عوامل پر عمل کرتے ہوئے جہاں ایک تمدن وجود میں آتا ہے وہیں ایک ثقافت بھی جنم لیتی ہے جو قوموں کے مزاج کے خاص انداز میں ڈھلنے کی وجہ سے خودبخود رونما ہوتی ہے جسے آپ کلچر بھی کہہ دیتے ہیں۔ یہ سب چیزیں ظاہر ہے احکامات کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن یہ تینوں چیزیں شریعت پر عمل ہی سے وجود میں آتی ہیں۔ ان چیزوں کے وجود میں آنے کے بعد جو قومی تشخص بنتا اور قوم کی ایک خاص ہیئت وجود میں آتی ہے ‘ اس ہیئت پر جب اللہ کے نام کی مہر لگ جائے تو اس کو دین کہتے ہیں۔ شریعت اللہ کے احکامات پر عمل کا ایک طریقہ ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن مجموعی طرز فکر ‘ مجموعی نظام فکر و عمل اور مجموعی تہذیب و تمدن جو قوموں کے تشخص میں دیکھا جاتا ہے ‘ اس کا سب سے اہم آئینہ ‘ جس میں اسے دیکھ کر سمجھا بھی جاسکتا ہے وہ ذات رسالت مآب ﷺ کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے کتابیں اتاریں تو کتابوں کے ساتھ رسول بھی مبعوث کیے۔ اس لیے کہ کتاب کے ذریعے دین اور قانون تو دیا جاسکتا ہے لیکن دین بہ ہمہ جہت نہیں کیونکہ وسعت ِ دین تو اس پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چیز ہے۔ پہلے ایک شخصیت بنتی ہے ‘ پھر یہ شخصیت ڈھل کر ایک امت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس لیے جب ان تمام چیزوں کو ہم سمجھ لیتے ہیں تو دین کا تصور واضح ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ دیکھو ! ہم نے دین کو بھی مکمل کیا ہے اور اپنی نعمت کو بھی تم پر تمام کیا ہے۔ دین کو مکمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہم جو شریعت اور احکام دیتے رہے اور تمام انبیاء شریعت پر عمل کی شکل میں ایک تہذیب پیدا کرتے اور آداب زندگی کی تعلیم دیتے رہے۔ مگر زمانہ بہت تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا۔ حضور ﷺ ٹھیک اس موقع پر تشریف لائے ہیں جبکہ قدامت پیچھے رہ گئی تھی اور جدت حضور ﷺ کے انتظار میں تھی۔ اب حضور اکرم ایک دو را ہے پر کھڑے ہیں۔ گذشتہ سارے سرمائے کو آنے والے لوگوں کے لیے جدت کا لباس پہنا کر اور اجتہادی طرز فکر کا نور دے کر آپ انسانی فکری متاع کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ شریعت بھی ہے اور دین بھی۔ دین تو حضرت آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوا تھا اور اس کی مجموعی شکل حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں آکر مرتب ہوئی اور شریعت کا بھی اتمام ہوگیا کیونکہ ہر نئے رسول کے ساتھ نئی شریعت آتی رہی اور پہلی شریعتیں منسوخ ہوتی رہیں اور آخری شریعت جب اترنا شروع ہوئی تو اس کا آغاز غار حرا کی تنہائی سے ہوا۔ جب پہلی وحی آئی : اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (العلق) 1 ور اس کا اتمام ہو رہا ہے اس آیت سے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاِْسْلاَمَ دِیْنًا (المائدۃ 5: 3) یا سورة النصر سے ‘ 23 سال میں جب یہ وحی مکمل ہوگئی تو اللہ کی سب سے بڑی نعمت (شریعت) کا بھی اتمام ہوگیا اور اس کی مجموعی ساخت جس کا نام دین ہے ‘ وہ بھی حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ اس لیے دونوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ جو چیز اللہ نے کسی کو مکمل شکل میں عطا نہیں فرمائی تھی ‘ وہ تمہیں دی گئی ہے۔ قدیم الہامی کتابوں میں حضور ﷺ کی بشارت پہلی آسمانی کتابیں آج بھی ہمارے پاس کسی حد تک عہد نامہ قدیم و عہد نامہ جدید کے نام سے موجود ہیں۔ عہد نامہ قدیم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یہ کہلوایا گیا کہ (خداوند تیرا خدا ! تیرے درمیان تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا ‘ تم اس کی طرف کان دھرنا) یعنی میں تکمیلی شان میں نہیں آیا ‘ میرے ساتھ تکمیلی ہدایت نہیں آئی ‘ ہدایت کسی اور کے ساتھ مکمل ہوگی۔ وہ میری طرح ایک پیغمبر بن کر آئے گا اور آئے گا بھی تیرے بھائیوں میں سے۔ بھائی کون ہیں ؟ وہ ہیں ” بنی اسماعیل “ کہ تم حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد ہو اور وہ تمہارے بھائی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوگا ‘ تم ان کی طرف کان دھرنا۔ میں یہ دعویٰ لے کر نہیں آیا کہ میرے بعد کوئی نہیں آئے گا ‘ بلکہ میں تمہیں یہ بتانے کے لیے آیا ہوں کہ میرے بعد اور نبی آئے گا۔ یعنی جتنے پیغمبر آئے ‘ ہر ایک نے یہ کہا کہ میرے بعد آنے والا آئے گا ‘ ایک حضور اکرم ﷺ ہی ہیں جب آپ تشریف لائے تو فرمایا کہ قصر نبوت جو اللہ نے مکمل کردیا تھا ‘ اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی ‘ جو آدمی اسے دیکھتا تھا حیرت میں ڈوب جاتا تھا کہ اتنے خوبصورت محل کو ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ کر بدنما کیوں بنادیا گیا ہے فرمایا کہ وہ آخری اینٹ میں ہوں ‘ آج وہ قصرنبوت مکمل ہوگیا : انا خاتم النبیین لا نبیَّ بعدی (میں آخری نبی ہوں ‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا) لیکن آپ ﷺ سے پہلے پیغمبر یہ بات نہیں کہتے تھے۔ ہر پیغمبر اور ہر رسول خاص طور پر یہ کہتا رہا کہ ” میرے بعد آنے والا آئے گا “۔ کتاب استثناء کی آیات 15 تا 18 میں مزید فرمایا کہ میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبی برپا کروں گا (یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا جا رہا ہے) ‘ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور اس سے میں جو کچھ کہوں گا وہ سب کچھ وہ ان لوگوں سے کہے گا۔ اپنے کلام کو اس کے منہ میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر تو لکھی ہوئی تورات تختیوں کی شکل میں نازل ہوئی تھی چونکہ موسیٰ (علیہ السلام) ایک شاہانہ گھر میں پلے بڑھے تھے ‘ شہزادوں کے ساتھ ان کی باقاعدہ تعلیم بھی ہوئی تھی ‘ وہ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اس لیے انھیں لکھے ہوئے ” احکام عشرہ “ دیئے گئے۔ ان کے منہ میں اللہ کا کلام نہیں ڈالا گیا بلکہ لکھا ہوا دیا گیا کہ اسے پڑھو اور لوگوں تک پہنچائو۔ یہ صرف آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اللہ کا کلام آپ کے منہ میں ڈالا گیا اور آپ نے اسے اپنے منہ سے ادا فرمایا اور جب حضور اکرم ﷺ پر وحی اترتی تو آپ اسے جلدی جلدی پڑھنے کی کوشش کرتے تھے کہ میں کہیں بھول نہ جاؤں تو اس ضمن میں آیات نازل ہوئیں : لاَ تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ ۔ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ ۔ (القیامۃ : 17: 16) (اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں کہ کہیں آپ بھول نہ جائیں ‘ قرآن کریم کا جمع کرنا اور اسے پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے) پھر آگے فرمایا کہ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (القیامۃ : 19) (پھر اس کا بیان کرنا بھی ہمارے ذمے ہے) اور قرآن کریم کا بیان حدیث اور سنت ہے۔ تو جس طرح قرآن کا پڑھانا اور جمع کرنا اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے ‘ اسی طرح اسے کھول کر بیان کرنا بھی اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے۔ اسی سے ثابت ہوا کہ حضور اکرم ﷺ کی حدیث اور سنت بھی قرآن کی طرح محفوظ ہے کیونکہ اللہ نے اسے بھی اپنے ذمے لیا ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میں اپنے رب سے درخواست کروں گا کہ وہ تمہیں دوسرا ” فارقلیط “ بخشے ‘ اس کے لفظی معنی ” احمد “ ہیں۔ یہ حضور ﷺ کا نام ہے جو انجیل میں آیا ہے اور قرآن کریم نے اسے دہرایا بلکہ اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیوں نے اپنی کتاب میں تحریف کی ہے ورنہ ہوسکتا ہے کہ ہوبہو وہی الفاظ جو قرآن نے بیان کیے ہیں ‘ وہی انجیل میں بھی ہوں مگر وہ الفاظ بدل دیئے گئے ہوں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَّأْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط (الصف : 6) (اور میں تمہیں بشارت دینے کے لیے آیا ہوں کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ تمہیں دوسرا فارقلیط بخشے جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔ وہ میرے اور دوسرے انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کی طرح واپس نہیں جائے گا یعنی اس کی شریعت منسوخ نہیں ہوگی اور وہ قیامت تک بنی نوع انسانی کے ساتھ چلے گی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس بشارت کو دیکھنا چاہیں تو یوحنا کی انجیل میں آیات 14 تا 16 دیکھ لیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اگر میں تم سے کہوں تو تم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ یعنی آج اگر میں تمہیں جہاد کی باتیں کہنے لوگوں تو وہ تم برداشت نہیں کرسکو گے کیونکہ وہ دور رومی حکومت کا تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو برداشت نہیں کر رہی تھی چہ جائیکہ کہ آپ کی شریعت کو برداشت کرتی۔ انھوں نے کہا کہ اصلی شریعت تم برداشت نہیں کرسکتے ‘ وہ جب سچائی کی روح آئے گی تو تمہیں سچائی کی ساری باتیں بتائے گی کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں کہے گی ‘ وہ جو کچھ کہے گی اللہ کی طرف سے کہے گی۔ یہ ہوبہو ترجمہ ہے سورة النجم کی آیت کا وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی۔ (النجم : 4۔ 3) (ہمارا رسول اپنی خواہش نفس سے کبھی نہیں بولتا۔ جب بھی وہ بولتا ہے تو وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قرآن کریم کا یہ کہنا ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ) یہ فی الواقع کتنا بڑا اعزاز ہے اس امت کے لیے کہ جو باتیں کسی رسول یا پیغمبر نے نہیں کہیں بلکہ جو یہ خبر دینے کے لیے آیا کہ میرے بعد آنے والا آرہا ہے۔ جب حضور اکرم ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ایک مرتبہ بھی نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی آئے گا بلکہ یہ فرمایا کہ میں آچکا ہوں اب میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا یہ دو انگلیوں کے درمیان ہے یعنی میرے بعد اب قیامت ہی آئے گی اور کوئی نہیں آئے گا اور عیسیٰ (علیہ السلام) آئیں گے تو وہ بھی حضور ﷺ کے امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر ( رض) نے تورات پڑھ کر سنانا چاہی تو حضور ﷺ نے برہم ہو کر فرمایا کہ (کیا تمہیں آج بھی تورات کی ہدایت کی ضرورت ہے ؟ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھ پر قرآن اتارا ہے ! آج اگر موسیٰ بھی آجائیں تو انھیں بھی میری اتباع کے بغیر چارا نہیں ہوگا ) اسلام قیامت تک ہر دور کا دین ہے یہ باتیں ہمارے لیے بڑے اعزاز اور فخر کی ہیں ‘ لیکن ساتھ ہی بڑی ندامت کی بھی ہیں کہ جس قوم کا دین اور نظام فکر و عمل مکمل ہوگیا جس کا تہذیب و تمدن مکمل ہوگیا ‘ جس کی شریعت مکمل ہوگئی ‘ کیا اسے ضرورت ہے کسی اور کی طرف دیکھنے کی یا کیا اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ کبھی اس کے دانشور اور پڑھے لکھے اور ماہرین قانون اس طرح کی باتیں کہنے لگیں کہ آج کے دور میں یہ قانون نہیں چل سکتا ؟ دنیا کے سارے ماہرین مل کر جو قانون بھی بنائیں گے وہ چند سال تک چلے گا ‘ پھر اس میں ترمیم کرنا پڑے گی ‘ ورنہ وہ چل نہیں سکتا۔ 1925 ء میں امریکہ اگر حرمت شراب کا قانون پاس کرتا ہے تو آٹھ سال کے بعد اسے واپس لینا پڑتا ہے کیونکہ دنیا کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون کبھی دیرپا اور مستحکم نہیں ہوتا۔ یہ صرف اللہ کا قانون ہی ہے جو تکمیلی شان لے کر آیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسان میں لمحہ بہ لمحہ اور صدیاں بہ صدیاں کیا تبدیلیاں آئیں گی ‘ اللہ نے اس میں اتنی لچک رکھی ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو اجتہاد کی اجازت دی ہے کہ جب نئے مسائل پیدا ہوں تو قرآن اور سنت نے تمہیں جو اصول دے دیئے ہیں اور تمہیں دین کا جو ایک مزاج سمجھا دیا ہے ‘ اس مزاج آشنائی کو سامنے رکھتے ہوئے ماہرین قانون جو صاحب فتویٰ بھی ہوں اور صاحب تقویٰ بھی ‘ جدید مسائل میں اجتہاد کریں۔ جس معاملے پر علماء اجتہاد کر کے اجماع کرلیں تو وہ قوانین بالکل قرآن و سنت کی طرح سمجھے جائیں۔ اگر اسے اکثریتی رائے مل جائے ‘ تب بھی وہ قانون کا حصہ بننے کے لیے کافی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قیامت تک ہمیں دین میں تشنگی محسوس نہیں ہوگی ‘ اس لیے کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے کہ قرآن و سنت میں اس کا جواب موجود نہ ہو یا اس کے نظائر موجود نہ ہوں یا اس کے لیے قیاس یا استنباط کے وسائط موجود نہ ہوں۔ یہ چیزیں موجود ہیں اس لیے قیامت تک کسی تشنگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری نیتوں میں کھوٹ پیدا ہوجائے اور ہم اس کا نیا ایڈیشن تیار کرنا شروع کردیں۔ اسلام کیا ہے ؟ مزید فرمایا : میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔ اس کے کئی مفہوم ممکن ہیں۔ لیکن ان میں جو نہایت واضح اور دل کو لگتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کا معنی ہے ” خود سپردگی “ جو عمل کی اصل روح ہے۔ جو آدمی اپنے آپ کو اللہ کے دین کے سپرد نہیں کرتا وہ اس پر عمل کیا کرے گا ؟ تو اپنے آپ کو دین کے سپرد کردینا ہی اسلام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے پوری طرح اسلام کو اپنا طریقہ اور پسند و ناپسند کا معیار بنایا ہے ‘ اور ہر معاملہ میں اسلام کو ہی ہمیشہ سامنے رکھا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ ( رض) اس کو سن کر بےساختہ روئے۔ عام مسلمان تو بہت خوش ہوئے کہ اللہ نے دین کو مکمل کردیا ہے۔ جب ان اصحاب کو روتے ہوئے دیکھا تو حضور ﷺ نے پوچھا : تم کیوں رو رہے ہو ؟ انھوں نے کہا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ آپ تو ہمیں دین دینے کے لیے تشریف لائے تھے ‘ آپ چونکہ اللہ کے رسول تھے اس لیے آپ کی ذمہ داری اللہ کا دین اس دنیا تک پہنچانا تھی۔ جب یہ ذمہ داری پوری ہوگئی ‘ تکمیل دین کا کام مکمل ہوگیا تو ہمیں اندیشہ ہے کہ اب آپ کو واپس بلا لیا جائے گا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : تم نے ٹھیک سمجھا۔ اس کے ٹھیک اکیاسی دن کے بعد حضور ﷺ کا وصال ہوگیا۔ ان 23 سالوں میں جیسے جیسے مسلمان اسلام کی آغوش میں آتے گئے ‘ انھوں نے فی الواقع اپنی زندگیاں اس طرح گزاریں کہ از اول تا آخر اپنے آپ کو مسلم ثابت کیا۔ چاہے ان کے سروں پر تلواریں کیوں نہ کو ندی ہوں ‘ مگر انھوں نے کبھی دین سے منہ نہیں موڑا ‘ نہ کبھی بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی۔ چاہے کتنی ہی بڑی مصیبت کیوں نہ ان پر آئی لیکن انھوں نے اپنے آپ کو مسلم یعنی اللہ کا فرمانبردار بندہ ثابت کیا۔ اللہ فرماتا ہے کہ چونکہ تم اپنے آپ کو مسلم ثابت کرچکے ہو اور یہ ثابت کرچکے ہو کہ تمہاری زندگی کا اگر کوئی عنوان (Title) ہوسکتا ہے تو وہ اسلام ہے ‘ اس لیے میں نے تمہارے لیے وہ دین پسند کیا ہے جس کا نام ہی اسلام ہے۔ گویا تمہیں سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے کہ تم سے بہتر فداکار ‘ تم سے زیادہ سرفروش ‘ تم سے زیادہ اس دین پر جان دینے والے اور تم سے زیادہ اس دین کی علمبردار کوئی اور امت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے تم وہ امت ہو جسے یہ دین دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اللہ نے یہ دین تمہارے سپرد کیا ہے۔ یہ دین اللہ کی امانت ہے ‘ اب تم جانو اور تمہاری نسلیں جانیں کہ تم آئندہ اس کے ساتھ کیا کرتے ہو۔ حاصل کلام یہ کہ اس آیت کریمہ کے آغاز میں متعدد محرمات شرعیہ کو بیان کیا گیا ہے۔ مزید تاکید اور تکمیلی بحث کے طور پر بعض محرمات کا اعادہ کیا گیا اور پھر میتہ کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ وضاحت فرمائی کہ جس طرح طبعی موت سے مرا ہوا جانور مردار ہے اسی طرح ناگہانی اور اتفاقی حوادث سے مرے ہوئے جانور بھی حرام ہیں۔ مزید فرمایا کہ کسی درندے کا پھاڑا ہوا جانور اگر تم زندہ حالت میں اسے ذبح نہ کرسکو جس طرح یہ حرام ہے اس طرح کسی استھان پر پیش کی ہوئی قربانی اور جوئے کے ذریعے سے تقسیم کیا ہوا گوشت بھی حرام ہے۔ آیت کے آغاز میں ان حرمتوں کی تفصیل اس لیے بیان کی گئی کہ انہی حرمتوں سے کفار سے کامل معاشرتی انقطاع ممکن تھا اور جب تک یہ انقطاع مکمل نہ ہوتا مسلمانوں کا قومی تشخص اجاگر نہیں ہوسکتا تھا یہ بات اگرچہ دشمنوں کے درمیان رہتے ہوئے ایسے ہی مشکل تھی جیسے دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیر مشکل ہوتا ہے اس لیے ان حرمتوں کے بیان کے درمیان سلسلہ کلام کو روک کردو باتیں کہنا بہت ضروری تھا چناچہ پروردگار نے دہ باتیں ارشاد فرمائیں ایک تو یہ بات کہ اب کفار تم سے اور تمہارے دین سے مایوس ہوچکے ہیں اب ان کے اندر یہ دم خم باقی نہیں رہا ہے کہ تمہارے دین کو مغلوب کرنے یا اس کو کچھ نرم بنانے کا حوصلہ کریں اب اگر کچھ کریں گے بھی تو وہ بجھتے دیئے کی آخری لو ہوگی۔ اس لیے ان کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں صرف میری ہی پرواہ کرنا اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اب اللہ کا دین تکمیل کی حد کو پہنچ گیا اور تمہاری شریعت اتمام کی منزل کو پہنچ گئی اور اسلام کو خدا نے تمہارے لیے دین کی حیثیت سے پسند فرمایا۔ ان درمیانی اور ضروری باتوں کو ارشاد فرمانے کے بعد پھر ان محرمات شرعیہ کے ذکر کے حوالے سے ایک آخری بات کہی جا رہی ہے جس کی کسی وقت بھی ضرورت پیش آسکتی تھی اگرچہ اس کا وقوع کم کم ہوتا ہے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : فَمَنِ اضْطُرَّ فِی مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لاِِّ ثْمٍ فَاِنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ ۔ (بس جو بھوک میں مضطر ہو کر بغیر گناہ کی طرف مائل ہوئے کوئی حرام چیز کھالے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے) مخمصہ کے معنی ” بھوک “ کے ہیں ‘ بھوک سے مضطر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی بھوک کی ایسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے کہ موت یا حرام میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے سوا کوئی اور راہ بظاہرباقی ہی نہ رہ جائے ‘ ظاہر ہے زندگی میں یہ کیفیت بہت کم پیدا ہوتی ہے لیکن اس کے بارے میں معلوم تو ہونا چاہیے کہ شریعت کا حکم کیا ہے۔ اس لیے اس کے بارے میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر ایسی حالت سے کبھی واسطہ پڑ ہی جائے تو حرام چیزوں میں سے کسی سے بھی فائدہ اٹھا کر جان بچانے کی اجازت ہے۔ البتہ ! اس کے ساتھ غَیْرَ مُتَجَانِفٍکی قید اسی مضمون کو ظاہر کر رہی ہے جس کا ذکر سورة البقرہ میں غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ کے الفاظ سے کیا گیا ہے یعنی اس اضطرار میں حرام سے فائدہ اٹھانے والا نہ تو دل سے چاہنے والا بنے اور نہ سدِّرمق کی حد سے آگے بڑھے۔ امریکہ اور بعض یورپی ملکوں میں شرعی ذبیحہ کا گوشت بعض دفعہ میسر نہیں آتا وہاں کے بعض ایسے دانشوروں نے جو پیٹ سے سوچنے کے عادی ہیں انھوں نے اس اجازت کا مفہوم یہ سمجھا کہ اگر شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں تو چونکہ گوشت کے بغیر زندگی گزرنا مشکل ہے اس لیے جو بھی حرام گوشت میسر آئے اس کا کھا لیناجائز ہے حالانکہ اس آیت کریمہ میں مَخْمَصَۃٍ کا لفظ صاف صاف یہ بات بتارہا ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہیں یعنی مچھلی، سبزی اور دال وغیرہ وہاں محض اس عذر کی بنا پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا ناجائز کو جائز بنا دینے کا حق کسی کو نہیں دیتا۔ گوشت زندگی کی بقاء کے لیے ناگزیر نہیں ‘ دوسری غذائوں سے نہ صرف زندگی بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم رکھی جاسکتی ہے۔ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ ِلاِِّثْمٍ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے نہ کوئی حرام چیز شیر مادر بن سکتی ہے اور نہ رخصت کوئی ابدی پروانہ ہے اس لیے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ رفع اضطرار کی حد سے آگے بڑھے اگر ان پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچا لے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ لیکن اگر اس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنے حظ نفس کی راہیں کھولے گا تو اس کی ذمہ داری خود اس پر ہے۔ یہ اجازت اس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔
Top