Tafseer-e-Saadi - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لئے رہنما مقرر کیا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہرانا
آیت نمبر 2 اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر نبوی محمدی اور نبوت موسوی، قرآن اور تورات اور دونوں کی شریعتوں کو مقرون (ساتھ ساتھ) بیان کیا ہے کیونکہ دونوں کی کتابیں سب سے افضل، دونوں کی شریعتیں سب سے کامل، دونوں کی نبوتیں سب سے اعلیٰ اور دونوں کے پیروکار سب سے زیادہ ہیں۔ اس لئے یہاں فرمایا : (و اتینا موسیٰ الکتب) ، ، اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب ، ، یعنی تورات (وجعلنہ ھدیً لبنیٰ اسرائیل) ، ، اور کیا اس کو ہدایت واسطے نبی اسرائیل کے ، ، یعنی بنی اسرائیل جہالت کی تاریکیوں میں علم حق تک پہنچنے کے لئے تورات سے راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا (الا تتخذو من دونی وکیلا) ، ، تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ بنانا، ، اور ہم نے اس مقصد کے لیے ان کی طرف کتاب نازل کی تاکہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، صرف اسی کی طرف رجوع کریں، اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اکیلے اسی کو اپنا کار ساز اور مدبر بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مخلوق کے ساتھ الوہیت کا کوئی تعلق نہ رکھیں جو کسی چیز کی مالک نہیں اور نہ وہ انہیں کوئی نفع دے سکتی ہے۔ (ذریۃ من حملنا مع نوح) ، ، اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سور کیا۔ ، ، یعنی اے ان لوگوں کی اولاد جن پر ہم نے احسان کیا۔ (انا کان عبداً شکوراً ) ، ، بلا شبہ وہ شکر گزار بندہ تھا، ، اس میں نوح علیہ اسلام کی، ان کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور شکر گزاری کی صفت سے موصوف ہونے کی بنا پر مدح و ثنا ہے اور ان کی ذریت کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ شکر کے بارے میں نوح علیہ اسلام کی پیروی کریں اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کریں جس سے اس نے انہیں نوازا، جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بچا کر باقی رکھا اور ان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو غرق کردیا۔ (وقضینا الی ٰ بنی اسرائیل) ، ، اور صاف کہہ سنایا ہم نے بنی اسرائیل کو، ، یعنی ہم نے ان کے بارے میں فیصلہ کیا اور انہیں ان کی کتاب میں آگاہ کیا کہ وہ نافرمانیوں، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری اور زمین میں تکبر اور اقتدر کی بنا پر زمین میں دو بار فساد پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ جب ان کی طرف سے ایک فساد واقع ہوا تو ہم نے ان پر دشمنوں کو مسلط کردیا جو ان سے انتقام لیتے تھے۔ یہ ان کے لئے تحذیر و انذار تھا شاید کہ وہ لوٹ آئیں اور نصیحت پکڑیں۔ (فاذا جاء وعد اولٰھما) ، ، پس جب پہلے وعدے کا وقت آیا۔ ، ، یعنی جب دو مرتبہ فساد کرنے کے وعدے میں سے پہلے وعدے کا وقت آگیا یعنی ان سے فساد واقع ہوا (بعثنا علیکم) ، ، تو ہم نے تم پر مسلط کردیئے۔ ، ، یعنی ہم نے تکوین، تقدیر اور جزا کے طور پر تم پر مسلط کردیئے (عباداً لنا اولیٰ باس شدید) ، ، اپنے بندے سخت لڑائی والے، ، بہت کثیر تعداد میں بہادر بندے جن کو اللہ نے تم پر فتح و نصرت عطا کی، انہوں نے تمہیں قتل کیا، تمہاری اولاد کو غلام بنایا اور تمہارے مال و متاع کو لوٹا۔ (فجاسو خلل الدیار) ، ، پس وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔ ، ، یعنی وہ تمہارے گھروں میں گھس گئے اور انہیں کو تہس نہس کردیا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر مسجد کو برباد کردیا۔ (وکان وعداً مفعولاً ) ، ، اور وہ وعدہ ہونا ہی تھا، ، چونکہ انہوں نے اس وعدے کے پورے ہونے کے تمام اسباب مہیا کردیئے تھے، لہٰذا اس وعدے کو پورا ہونا ضروری تھا۔ اصحاب تفسیر کا مسلط ہونے والی قوم کے تعین کے بارے میں اختلاف ہے البتہ اس بتا پر سب متفق ہیں کہ وہ کافر تھی۔ اس قوم کا تعلق یا تو عراق سے تھا یا وہ جذیرۃ العرب سے تھی یا ان کے علاوہ کوئی اور قوم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بنی اسرائیل پر مسلط کردیا کیونکہ ان کی نافرمانیاں بڑھ گئی تھیں، انہوں نے شریعت کے اکثر احکام کو پس پشت ڈال دیا اور انہوں نے زمین میں سرکشی اختیار کرلی تھی۔ (ثمہ رددنا لکم الکرۃ علیھم) ، ، پھر ہم نے پھیر دی تمہاری باری ان پر ، ، یعنی پھر ہم نے تمہیں اس متغلب کا فرقوم پر غلبہ عطا کیا اور تم نے انہیں اپنے شہروں سے نکال باہر کیا۔ (و امددنکم باموال وبنین) ، ، اور قوت دی ہم نے تم کو مالوں سے اور بیٹوں سے ، ، یعنی ہم نے نہایت کثرت سے تمہیں رزق عطا کیا، تمہاری تعداد کو زیادہ کردیا اور تمہیں ان کے مقابلے میں طاقتور بنادیا۔ (وجعلنکم اکثرا نفیراً ) ، ، اور تمہاری نفری کو ان کے مقابلے میں بڑھا دیا، ، اور اس کا سبب تمہارے نیک کام اور اللہ کے سامنے تمہارا خشوع و خضوع تھا۔ (ان احسنتم احسنتم لانفسکم) ، ، اگر بھلائی کی تم نے تو بھلائی کی اپنے لئے، ، یعنی تمہاری نیکی کا فائدہ تمہاری ہی طرف لوٹے گا حتیٰ کہ دنیا میں بھی تمہیں ہی فائدہ ہوگا، جیسا کہ تم نے مشاہدہ کرلیا ہے کہ دشمن کے مقابلے میں تم فتح یاب ہوئے۔ (و ان اساتم فلھا) ، ، اور اگر برائی کی تو اپنے لئے، ، یعنی اگر تم برائی کا ارتکاب کرتے ہو تو اس کا نقصان بھی خود تمہاری طرف لوٹے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بد اعمالیوں کی پاداش میں تمہارے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا تھا۔ (فاذا جاء وعد الاخراۃ) ، ، پس جب دوسرے وعدے کا وقت آیا، ، جس میں ذکر تھا کہ تم زمین میں فساد ربپا کرو گے، ہم نے تم پر دشمنوں کو مسلط کردیا۔ (لیسوء وجوھکم) ، ، تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں۔ ، ، یعنی وہ فتح یاب ہو کر تمہیں غلام بنائیں اور چہروں کو بگاڑ دیں۔ (ولید خلو المسجد کما دخلوہ اولا مرۃ) ، ، اور گھس جائیں مسجد میں جیسے گھس گئے تھے وہ پہلی بار، ، یہاں مسجد سے مراد بیت المقدس ہے (ولیتبرو) ، ، اور خراب کردیں، ، یعنی اجاڑ کر پیوند زمین کردیں (ماعلو) ، ، جس جگہ پر وہ غالب آجائیں۔ ، ، (تتبیراً ) ، ، پوری طرح خراب کرنا، ، پس وہ تمہارے گھروں، تمہاری عبادت گاہوں اور تمہارے کھیتوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔ (عسیٰ ربکم ان یرحمکم) ، ، بعید نہیں کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے، ، یعنی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا کرے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کرتے ہوئے انہیں دوبارہ حکومت عطا کی اور انہیں نافرمانیوں پر وعید سناتے ہوئے فرمایا : (وان عدتم) ، ، اور اگر تم پھر وہی کرو گے، ، یعنی اگر تم زمین میں فساد برپا کرنے کا اعادہ کرو گے (عدنا) ، ، تو ہم پھر وہی کریں گے، ، ہم بھی تمہیں دو بارہ سزا دیں گے۔ پس انہوں نے زمین میں دوبارہ فساد برپا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کو مسلط کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے سے ان سے انتقام لیا۔ یہ تو ہے دنیا کی سزا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو آخرت کی سزا ہے وہ اس سے زیادہ بڑی اور رسوا کن ہے، اس نے فرمایا : (وجعلنا جھنمہ للکفرین حصیراً ) ، ، اور کیا ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ، ، جس میں وہ جھونکے جائیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ ان سے کبھی نہ نکلیں گے۔ ان آیات کریمہ میں اس امت کے لئے تحذیرو تخویف ہے کہ وہ معاصی سے بچیں ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی سزا دی جائے جو نبی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ سنت الٰہی ایک ہی ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آتا۔ جو کوئی اس بارے میں غور و فکر کرے کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر مسلط ہوئے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے۔ کیونکہ (اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ) جب مسلمان قرآن اور سنت کو نافذ کریں گے تو وہ انہیں زمین کا اقتدار عطا کرے گا اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرے گا۔
Top