Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔
وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰـہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ۔ ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ط اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 2۔ 3) (ہم نے اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنھیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا اور نوح (علیہ السلام) ایک شکرگزار بندہ تھے۔ ( آیت کا ربط گزشتہ آیت کریمہ میں واقعہ اسراء کو ایک آیت میں بیان کرنے اور اس کے اہداف کا ذکر کرنے کے بعد اچانک اس آیت میں بنی اسرائیل کا ذکر شروع کردیا گیا ہے جو بظاہر عجیب سا معلوم ہوتا ہے اور آدمی حیران ہوتا ہے کہ ان دونوں آیتوں کا آپس میں کیا ربط ہے، لیکن اگر سورة بنی اسرائیل کا مرکزی مضمون اور اس کا مدعا پیش نظر رہے تو پھر یہ غلط فہمی نہیں ہوتی۔ ہم اس سے پہلے یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ یہ عظیم واقعہ 12 سن نبوی میں پیش آیا ہے اور یہ زمانہ وہ ہے جسے آنحضرت ﷺ نے عام الحزن قرار دیا تھا کیونکہ یکے بعد دیگرے چند دنوں کے فاصلے سے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( رض) نے اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوچکے تھے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ حضرت ابوطالب تو بنی ہاشم کے سردار اور آنحضرت ﷺ کے حقیقی چچا تھے اور آپ ﷺ کے لیے بہت بڑا سہارا تھے۔ انھوں نے آپ ﷺ کی خاطر بڑی سے بڑی مخالفت کا سامنا کیا تھا۔ اسی طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ ( رض) اپنے خاندان کی ایک معزز اور موثر خاتون ہونے کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے لیے بےحد تسلی کا باعث تھیں۔ بہت دفعہ مشکل حالات میں ان کے خاندان کے بعض افراد نے نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کا ساتھ دیا، لیکن اب دونوں کے اٹھ جانے سے قریش مکہ کے سامنے ایسی کوئی رکاوٹ نہ تھی جو ان کے ارادوں کے راستے میں حائل ہوسکتی۔ چناچہ اب وہ آزادی سے آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے باندھ رہے تھے اور مکہ میں تبلیغ و دعوت کا کام انھوں نے یکسر بند کردیا تھا۔ ایسے حالات میں نبی کریم ﷺ کو اس سفر پر بلانا اور پھر واپسی پر آپ ﷺ کا اہل مکہ کے سامنے اس کی تفصیلات بیان کرنا یہ بتانے کے لیے تھا کہ جو شخص بطور رسول تمہارے سامنے دعوت دین پیش کررہا ہے اور تم اس کی اذیت رسانی پر دلیر ہوتے جارہے ہو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس مقام و مرتبے کا حامل ہے، وہ ابھی ابھی بیت المقدس اور پھر اس کے بعد آسمانوں تک اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیاں دیکھ کر آیا ہے۔ وہ جس طرح تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی کتاب لے کر آیا ہے اسی طرح بنی اسرائیل کی طرف بھی موسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے اور آپ ( علیہ السلام) نے اپنی امت کو کتاب سے وابستگی کے ساتھ ساتھ توحید کی دعوت دی تھی اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں خاص احکام دیے تھے لیکن جب انھوں نے اسے نظرانداز کیا تو تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ان پر پھر کیسی قیامت یں گزریں۔ اس لیے اے مشرکینِ مکہ تم اگر یہ نہیں چاہتے ہو کہ تمہارا انجام بھی بنی اسرائیل جیسا ہو تو تم بنی اسرائیل کے طوراطوار سے پرہیز کرو۔ آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ پر ایمان لائو اور اس کی کتاب کو وظیفہ عمل بنالو۔ چناچہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی تھی، تو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کو حکم دیا گیا تھا کہ تم اگر یہ چاہتے ہو کہ دنیا کی امامت و قیادت کے منصب پر فائز رہو اور تمہیں دنیا میں بھی عزت ملے اور آخرت میں بھی سرخرو ٹھہرو ‘ تو اس کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ تمہیں اس کتاب کو کتاب ہدایت سمجھنا ہوگا اور زندگی کی راہنمائی اس کتاب سے حاصل کرنا ہوگی ‘ اس کا دیا ہوا ضابطہ حیات تمہاری اجتماعی زندگی کا آئین اور دستور اور تمہاری انفرادی زندگی کا راہنما ہو۔ اس کا ایک ایک حکم تمہارے لیے واجب الاطاعت اور اس کی ایک ایک ہدایت تمہارے لیے واجب الاتباع ہونی چاہیے۔ انفرادی زندگی بھی اسی کے نور سے روشن ہو اور اجتماعی زندگی پر بھی اسی کی حکمرانی ہو۔ اور دوسری بات یہ فرمائی کہ دیکھنا اللہ کے سوا کسی کو وکیل نہ بنانا ‘ وکیل اسے کہتے ہیں جس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے ‘ جس پر توکل کیا جائے ‘ اپنی زندگی کے سارے معاملات جس کے سپرد کردیے جائیں اور جس کی طرف ہدایت و استمداد کے لیے رجوع کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت اور بندگی تمہیں صرف اللہ کی کرنا ہوگی ‘ مشکلات میں اسی پر بھروسہ ‘ اعتماد اور توکل کرنا ہوگا ‘ بےبسی اور بےکسی میں اسی سے مددمانگنی ہوگی۔ تمہارا سر اس کے سوا کسی اور کے سامنے نہ جھکے اور تمہارا دست سوال اس کے سوا کسی اور کے سامنے نہ پھیلے۔ اسی کے نام کی سربلندی اور اسی کی کتاب ہدایت کے نفاذ کے لیے تمہیں جہاد کرنا ہوگا۔ قرآن کریم نے بار بار بنی اسرائیل سے کیے گئے عہدوں کا ذکر کیا ہے جس میں ایسی ہی باتوں کو دہرایا گیا ہے ‘ اور اس سے اگلی آیت میں اس پر دلیل قائم کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جو طوفانِ نوح میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی پر سوار ہونے کی وجہ سے بچ گئے تھے۔ ذرا غور کرو ان بچنے والوں کو عذاب سے بچ جانے کا سبب کیا تھا ؟ اور عذاب سے ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت کی وجہ کیا تھی۔ غور کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے اللہ کو اپنا وکیل بنایا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیروی کی وہ اس عذاب سے بچ گئے اور جنھوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور نہ جانے کس کس کو وکیل اور کارساز بنایا اور نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کردیا وہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے اور پانی میں ڈبو کے مار دیے گئے۔ تم بھی اگر یہ چاہتے ہو کہ دنیا میں اس کے عذاب سے بچے رہو اور آخرت میں اللہ کی نعمتوں کے مستحق ٹھہرو تو پھر اللہ کے نبی اور اس پر نازل ہونے والی کتاب کی اطاعت و اتباع سے منحرف نہ ہونا اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہرانا۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان میں سے ایک ایک بات سے انحراف کیا اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نہ صرف معصیت کے راستے پر چلے بلکہ اللہ کی ذات وصفات میں بالکل مشرکوں کی طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔ مشرکین مکہ کو یہ باتیں سنا کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ تم نے جو شرک کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اللہ کے رسول پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو تاریخ کے اس آئینہ میں دیکھو کیا تمہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا تم بھی یقینا اسی انجام کو پہنچو گے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے اور مسلمانوں کو تاریخ کے اس سبق سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ آج تمہیں جس منصب پر فائز کیا جا رہا ہے کل تک اسی منصب پر بنی اسرائیل فائز تھے ‘ لیکن وہ اپنی نا اہلی کے باعث اس سے محروم ہوگئے۔ دیکھنا تم ان راہوں پر چلنے کی کوشش نہ کرنا اور زندگی کا وہ رویہ نہ اپنانا جس نے بنی اسرائیل کو تباہ کیا۔ اس کے بعد کی چند آیات میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ان ادوار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کے باعث اللہ کے عذاب کا شکار ہوئے۔ انھیں سنبھلنے کا موقع دیا گیا ‘ دوبارہ ان پر نعمتوں کی بارش کی گئی لیکن وہ پھر بگڑ گئے۔ دوبارہ پھر اللہ کا عذاب آیا اور وہ بدترین مظالم کا شکار ہوگئے۔ اب آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری ان کے لیے ایک آخری موقع ہے وہ اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی قسمت بنا سکتے ہیں ‘ لیکن اگر انھوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو وہ ذلت و نکبت کی دلدل میں ہمیشہ کے لیے اتار دیے جائیں گے۔
Top