Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
ور ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت نامہ بنایا کہ میرے سوا کسی کو معتمد نہ بنائیو
آگے کا مضمون۔ آیات 2 تا 8: یہود کے کبر و غرور پر ضرب : آگے کی آیات میں یہود کے اس غرور پر ضرب لگائی گئی ہے کہ وہ اسرائیل کی اولاد اور خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں اس وجہ سے مذہبی پیشوائی ان کا اجارہ ہے۔ یہود اپنے اس غرور کے سبب سے اول تو اپنے خاندان سے باہر کسی کی نوبت و رسالت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اس وجہ سے آنحضرت ﷺ کے شروع ہی سے شدید مخالف تھے، پھر جب آپ نے شب معراج کے مشاہدات بیان کیے اور وہ ان کے علم میں آئے تو ان کا پارہ اور چڑھ گیا کہ یہ لو، یہ شخص ہمارے نبیوں کی وراثت اور ہماری امامت کا بھی مدعی بن بیٹھا۔ قرآن نے ان کے دماغ سے یہ ہوا نکالنے کے لیے یہ حقیقت واضح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کا استحقاق کسی قوم کو بھی نسل و نسب کی بنا پر حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایمان و عمل صالح کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔ اور اس پر خود انہی کی تاریخ کی شہادت پیش کی ہے کہ خود تمہارے صحیفوں میں ہے کہ تم دو مرتبہ بڑے پیمانہ پر خدا سے بغاوت کرو گے اور زمین میں فساد مچاؤگے اور دونوں مرتبہ خدا تم پر اپنے سخت گیر بندے مسلط کردے گا جو تمہارا کچومر نکال دیں گے۔ چناچہ یہ پیشین گوئیاں حرف بحرف پوری ہوئیں۔ جب تم نے اصلاح کی ہے خدا نے تم پر رحمت کی ہے اور جب تم نے فساد مچایا ہے خدا نے تم پر اپنے عذاب کے کوڑے برسائے ہیں۔ یہی مرحلہ اس وقت بھی تمہارے سامنے ہے۔ ہمارے رسول کی دعوت نے تمہارے لیے صلاح و فلاح کی راہ کھول دی ہے۔ اگر تم نے یہ دعوت قبول کرلی تو اس کی برکتوں میں برابر کے حصہ دار بنوگے اور اگر تم نے یہ دعوت رد کردی تو یاد رکھو کہ ہم کہیں چلے نہیں گئے ہیں۔ ہم پھر تمہاری اسی طرح خبر لیں گے جس طرح اس سے پہلے لے چکے ہیں۔ آیات تلاوت کیجیے : وَاٰتَيْنَا مُوْسَي الْكِتٰبَ وَجَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا۔ " وکیل " کے معنی کارساز اور معتمد : کتاب سے مراد تورات ہے اور وکیل کے معنی کارساز، معتمد اور اس ذات کے ہیں جس پر کامل بھروسہ کرکے اپنے معاملات اس کے حوالہ کردیے جائیں۔ یہود کے بگاڑ کی تاریخ : یہ آیت تمہید ہے یہود کے اس بگاڑ اور فساد کے بیان کی جو آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کو بنی اسرائیل کے صحیفہ ہدایت بنایا جس میں صاف یہ ہدایت درج تھی کہ میرے سوا کسی کو کارساز اور معتمد نہ بنائیو۔ مقصود اس کا حولہ دینے سے یہ واضح کرنا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس اہتمام ہدایت کی کوئی قدر نہیں کی۔ اس کے صحیفہ ہدایت کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور شرک سے بچتے رہنے کی صریح ہدایت کے باوجود شرک کی نجاستوں اور آلودگیوں میں مبتلا ہوئے۔ تورات میں توحید کی تعلیم : کتاب کے ذکر کے بعد توحید کی تعلیم کا حوالہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چیز تمام تعلیمات دین کے لیے مرکز ثقل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی پر تمام شریعت کی بنیاد بھی ہے اور اسی کے ساتھ وابستہ رہنے تک کوئی جماعت دین سے وابستہ بھی رہتی ہے۔ جہاں اس مرکز ثقل سے وابستگی کمزور ہوئی پھر بالتدریج سارا دین غارت ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہ امر محتاج بیان نہیں ہے کہ تورات توحید کی تعلیم سے بھری پڑی ہے۔ حوالے نقل کرنے میں طوالت ہوگی اس وجہ سے ہم صرف ایک حوالہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ خروج 2:2 میں ہے۔ " خداوند تیرا خدا جو تجھے زمین مصر سے غلامی کے گھر سے نکال لایا، میں ہوں۔ میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہو وے۔ تو اپنے لیے کوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے سے مت بنا تو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر کیونکہ میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں " قرآن کے الفاظ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِيْ ‎وَكِيْلًا اور تورات کے الفاظ " میرے حضور تیرے لیے دوسرا خدا نہ ہو وے " میں کتنی مطابقت ہے لیکن ان واضح ہدایات کے باوجود یہود بار بار شرک و بت پرستی میں متبلا ہوئے جس پر ان کے نبیوں نے نہایت درد انگیز الفاظ میں ماتم بھی کیا ہے اور یہود کو ملامت بھی کی ہے۔ سیدنا مسیح نے تو یہود کو مخاطب کر کے یہاں تک فرما دیا کہ تو تو وہ ہے کہ تو نے پہلے شب میں چھنالا کیا۔
Top