Tafseer-e-Usmani - Ar-Rahmaan : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور کیا اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے واسطے5 کہ نہ ٹھہراؤ میرے سوا کسی کو کار ساز6 
5 نبی کریم ﷺ کا فضل و شرف بیان فرما کر سلسلہ کلام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کی طرف منتقل کردیا گیا۔ چونکہ " اسراء " کے ذیل میں ' مسجد اقصیٰ " (بیت المقدس) تک جانا مذکور ہوا تھا، آگے " مسجد اقصیٰ " اور اس کے قدیم متولیوں (بنی اسرائیل) پر جو مختلف دور گزرے، مسلمانوں کی عبرت اور خود بنی اسرائیل کی نصیحت کے لیے ان کا بیان کیا جاتا ہے، یہ آیت اسی کی تمہید ہے۔ واقعہ " اسراء " میں اشارہ تھا کہ حجازی پیغمبر کی امت ہی آئندہ اس امانت الٰہی کی مالک بننے والی ہے جو شام کی مبارک سرزمین میں ودیعت کی گئی تھی۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کو متنبہ کرنا ہے کہ اگر خیریت چاہتے ہیں تو اب پیغمبر عربی ﷺ کی پیروی کرو، حق تعالیٰ ان کے حال پر مہربانی فرمائے گا۔ ورنہ پہلے کی طرح پھر شرارتوں پر سزا ملے گی اور مسجد اقصیٰ کی تولیت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ 6  یعنی تورات میں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ خالص توحید پر قائم رہیں اور خدا کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھیں ہمیشہ اسی پر بھروسہ اور توکل کریں۔
Top