Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 3
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ
وَالَّذِينَ : اور جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان رکھتے ہیں بِمَا : اس پر جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا إِلَيْکَ : آپ کی طرف وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا مِنْ قَبْلِکَ : آپ سے پہلے وَبِالْآخِرَةِ : اور آخرت پر هُمْ يُوقِنُونَ : وہ یقین رکھتے ہیں
اور ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں اس چیز پر جو تم پر اتاری گئی ہے اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں
وَبِٱلْاٰخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ: آخرت سے مراد دار آخرت یا حیات آخرت ہے۔ آخرت کے لئے یہاں ایمان کے بجائے ایقان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ایمان اور ایقان کے درمیان تھوڑا سا فرق ہے جس کو سمجھ لینا چاہئے۔ ایمان کے معنی تصدیق کرنے اور مان لینے کے ہیں۔ اس کا ضد کفر و انکار اور تکذیب ہے۔ ایقان کے معنی یقین کرنے کے ہیں۔ اس کا ضد گمان اور شک ہے جس طرح کسی شے پر یقین رکھنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی اس پر ایمان بھی رکھتا ہو، اسی طرح کسی چیز پر ایمان رکھنے کے لئے اس پر یقین کرنا شرط نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آدمی کا ایمان محض گمان غالب پر مبنی ہو اور وہ آہستہ آہستہ گمان کی منزل سے نکل کر یقین کی منزل تک پہنچے اور اس طرح اس کے ایمان کی تکمیل ہوجائے۔ یہاں ایقان کا ذکر ایمان کے چند معروف عملی مظاہر کے بعد ہوا ہے جس سے اس بات کا اشارہ نکلتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ اوصاف کے حامل ہیں درحقیقت وہی لوگ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
Top