Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 3
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوْذَةُ وَ الْمُتَرَدِّیَةُ وَ النَّطِیْحَةُ وَ مَاۤ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ١۫ وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ١ؕ ذٰلِكُمْ فِسْقٌ١ؕ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِیْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِ١ؕ اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا١ؕ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
حُرِّمَتْ : حرام کردیا گیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةُ : مردار وَالدَّمُ : اور خون وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ : اور سور کا گوشت وَمَآ : اور جو۔ جس اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا بِهٖ : اس پر وَ : اور الْمُنْخَنِقَةُ : گلا گھونٹنے سے مرا ہوا وَالْمَوْقُوْذَةُ : اور چوٹ کھا کر مرا ہوا وَالْمُتَرَدِّيَةُ : اور گر کر مرا ہوا وَالنَّطِيْحَةُ : اور سینگ مارا ہوا وَمَآ : اور جو۔ جس اَ كَلَ : کھایا السَّبُعُ : درندہ اِلَّا مَا : مگر جو ذَكَّيْتُمْ : تم نے ذبح کرلیا وَمَا : اور جو ذُبِحَ : ذبح کیا گیا عَلَي النُّصُبِ : تھانوں پر وَاَنْ : اور یہ کہ تَسْتَقْسِمُوْا : تم تقسیم کرو بِالْاَزْلَامِ : تیروں سے ذٰلِكُمْ : یہ فِسْقٌ : گناہ اَلْيَوْمَ : آج يَئِسَ : مایوس ہوگئے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) سے مِنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین فَلَا تَخْشَوْهُمْ : سو تم ان سے نہ ڈرو وَاخْشَوْنِ : اور مجھ سے ڈرو اَلْيَوْمَ : آج اَكْمَلْتُ : میں نے مکمل کردیا لَكُمْ : تمہارے لیے دِيْنَكُمْ : تمہارا دین وَاَتْمَمْتُ : اور پوری کردی عَلَيْكُمْ : تم پر نِعْمَتِيْ : اپنی نعمت وَرَضِيْتُ : اور میں نے پسند کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاِسْلَامَ : اسلام دِيْنًا : دین فَمَنِ : پھر جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے فِيْ : میں مَخْمَصَةٍ : بھوک غَيْرَ : نہ مُتَجَانِفٍ : مائل ہو لِّاِثْمٍ : گناہ کی طرف فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
تم پر مرا ہوا جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت حرام کردیا گیا ہے وہ وہ جانور بھی (جو تقرب کی نیت سے) اللہ کے سوا کسی دوسرے کے نامز د کیا گیا ہو اور وہ بھی جو گلا گھٹنے سے مرجائے اور جو کسی چوٹ سے مرجائے اور جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جو کسی درندے کے کھانے سے مرجائے مگر یہ کہ تم ان کے مرنے سے پہلے ان کو ذبح کرلو اور وہ جانور بھی جو بتوں کے کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ بھی حرام ہے کہ تم فال کے تیروں سے اپنی قسمت معلوم کرو یہ فال کے تیروں سے فیصلہ کرانا گناہ ہے آج کافر تمہارے دین کی طرف سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو1 آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کر دای ہے اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور میں نے تمہارے لئے پسند کیا اسلام کو دین پھر جو شخ سخت بھوک کی وجہ سے مجبور ہوجائے بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونیوالا نہ ہو تو یقینا اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے2
1 اے مسلمانو ! تم پر وہ مرا ہوا جانور جو بغیر ذبح کے اپنی موت سے مرجائے اور بہتا ہوا خون اور سئور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے اور وہ جانور بھی جو تقرب کی نیت سے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نامزد کردیا گیا ہو اور وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرجائے اور نیز وہ جو کسی ضرب اور چوٹ سے مرجائے اور وہ بھی جو بلندی سے گر کر مرجائے اور وہ جانور بھی جو کسی دوسرے جانور کی ٹکر اور سینگ مارنے سے مرجائے اور وہ جانور بھی جس کو کوئی درندہ کھالے اور وہ مرجائے مگر ہاں وہ جانور اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن کو تم ان کے مرنے سے پہلے پہلے شرعی طریقہ پر ذبح کرلو۔ یعنی منخنقہ سے لیکر ما اکل السبع تک جان جانوروں کو مرنے سے پہلے بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرلو تو ان کا کھانا جائز ہے اور وہ جانور بھی تم پر حرام کیا گیا ہے جو بتوں یعنی غیر اللہ کے کسی تھان اور کسی پرستش گاہ پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی حرام ہے کہ تم فال کی تیروں سے اپنی قسمت معلوم کرو اور گوشت کی تقسیم قرعہ اندازی کے تیروں کے ذریعہ کرو یہ فال کے تیروں سے فصلہ اور استسقام گناہ اور حرام کام ہے آج کافر لوگ تمہارے دین کے کمزور اور مغلوب ہونے سے مایوس ہوگئے لہٰذا تم ان کفار سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرتے رہو۔ (تیسیر) میتۃ جو اپنی طبعی موت سے مرجائے یا کسی بیماری کی وجہ سے مرجائے یعنی بغیر ذبح کے جو جانور اپنی موت سے مرجائے خون سے مراد دم سائل ہے جس کو آٹھویں پارے میں دم مسفوح فرمایا ہے یعنی بہنے والا خون سئور کے گوشت سے مراد اس کے تمام اجزاء ہیں چونکہ گوشت کو غذا میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس لئے گوشت کا ذکر فرمایا۔ اھلال کے معنی پر دوسرے پارے میں بحث ہوچکی ہے۔ اھلال کے معنی ہیں رفع الصوت اس معنی کی مناسبت سے ہم نے ترجمہ کیا ہے آواز بلند کرنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے یا اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کسی اور کا نام شریک کیا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جانور کو تقرب کی نیت سے کسی غیر اللہ کے نام زد کردیا اجئے۔ جیسے شیخ سدو کے نام کا مرغا یا بکرا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بلا نیت تقرب محض ملکیت کی وجہ سے کسی شخص کے ساتھ منسوب کردیا جائے مثلاً عبداللہ کی بکری یا حافظ جی کا بکرا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ ایصال ثواب کی غرض سے کسی شخص کے ساتھ منسوب کردیا جائے مثلاً اس جانور کو ذبح کرنے کے بعد اس کا ثواب فلاں شخص کو پہونچائے گا اسی طرح ذبح کرتے وقت یہ کہہ دینا ۔ اللھم تقبل منی یا اللھم تقبل من فلان غرض ! یہ کہ ان تمام صورتوں میں پلہی صورت بالاتفاق حرام ہے کہ ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے اور دوسری صورت یہ کہ تقرب کی نیت سے غیر اللہ کے نامزد کیا جائے خواہ ذبح کرتے وقت بس اللہ اللہ اکبر ہی کہا جائے یہ صورت علمائے محققین کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے اور اس جانور کا گوشت کھانا حرام ہے اور یہی اپنے اکابر کا مسلک ہے ۔ البتہ اس زمانہ کے بعض مبتدعین نے علماء محققین سے اختلاف کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس جانور کا گوشت کھانا حرام نہیں ہے۔ باقی سب صورتیں بالاتفاق جائز ہیں، بشرطیکہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لیکر ذبح کیا اجئے۔ تقرب اور اس کی نیت وغیرہ کی مفصل بحث دوسرے پارے میں دیکھ لی جائے۔ گلا گھونٹنے کا مطلب یہ ہے کہ جانور کا گلا کسی طرح گھٹ جائے یا کوئی گھوٹ دے موقوذہ کسی جانور کو لاٹھی وغیرہ ماری جائے اور وہ اس ضرب سے مرجائے متردیہ کا یہ مطلب ہے کہ پہاڑ پر سے گر کر مرجائے یا کسی اور مقام سے گرپڑے اور مرجائے نطیحہ جانور آپس میں لڑے اور ایک نے دوسرے کے ٹکر مار دی یا سینگ مار دیا اور وہ مرگیا۔ نطح کے معنی سینگ مارنا سبع کچلیوں والا درندہ جو بہائم اور انسان کے پیچھے دوڑتا ہے اور حملہ کر کے پھاڑ ڈالتا ہے اس درندے نے کسی جانور کو پھاڑ ڈالا یا اس میں سے کوئی حصہ نوچ کر کھا گیا اور وہ جانور اس صدمہ سے مرگیا۔ تذکیہ کے معنی ہیں اتمام یہاد مراد ہے۔ اتمام الحیات یعنی کسی کی حرارۃ غریز یہ کو ختم کردینا اور شرعی طریقہ سے ذبح یا نحر کر کے اس کی زندگی کو ختم کردینا۔ صحیح طریقہ ذبح کا یہ ہے کہ گلے کی چار رگیں کٹ جائیں ایک حلقوم جس میں سانس آتا جاتا ہے ایک مری جس میں سے چارہ اور پانی اترتا ہے اور دو دو جان جن میں خون کی آمد و رفت رہتی ہے۔ امام مالک کے نزدیک زکوۃ میں ان چاروں کا کٹنا ضروری ہے۔ امام شافعی کے نزدیک دو کا کٹ جانا کافی ہے یعنی حلقوم اور مری ان دونوں نالیوں کا کٹ جانا زکوۃ کے لئے کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک چار رگوں میں سے تین کا کٹ جانا ضروری ہے خواہ وہ تین کوئی سی ہوں امام ابو یوسف کا قول ہے کہ تین رگوں کا کٹ جانا کافی ہے لیکن وہ تین رگیں یہ ہوں۔ حلقوم مری اور وہ جان میں سے ایک مزید تفصیلات ذبح کی کتب فقہ میں تلاش کیجیے نصب یا تو جمع ہے نصاب کی یا انصاب کا واحد ہے۔ بہرحال یہ وہ پتھر ہیں جہاں زمانہ جاہلیت میں جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے اور اس مقام کی عظمت کا خیال رکھ کر وہاں ذبح ضروری خیال کرتے تھے یہ پتھر کعبہ کے آس پاس گاڑ رکھے تھے اور ہوسکتا ہے کہ بتوں کے آگے ذبح کرنا آج کل بھی بتوں کے تھان اور مڈھی پر کافر جانور ذبح کرتے ہیں اور اسی طرح جاہل مسلمان بعض بزرگوں کے مزار پر یا تو سیتلا کے تھان پر یا بعض بزرگوں کے مکان پر لے جا کر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مقصود ان مقامات پر ذبح کرنے سے مقامات کی تعظیم ہوتی ہے اور اوپر جو ما اھل فرمایا تھا اس میں اور اس شکل میں تھوڑا سا فرق ہے۔ وہاں تو تقریب کی نیت سے غیر اللہ کے نام سے نامزد کرنا تھا اور یہاں اگرچہ غیر اللہ کے نام پر نامزد نہ کیا جائے تب بھی غیر اللہ کے کسی مقام کی عظمت کا لحاظ رکھ کر جانور قربان کرنا موجب حرمت ہے۔ استسقام زمانہ جاہلیت میں تیروں کے فال کھولنے کا ایک طریقہ تھا چند تیر ایک تھیلی میں رکھ چھوڑے تھے ایک پر لکھا تھا کہ اس کام کو کرلو ۔ دوسرے پر لکھا تھا نہ کرو تیسرا خالی تھا جب کوئی اہم کام پیش آتا تھا تو ان تیروں کو استعمال کرتے تھے۔ ہبل جو مکہ والوں کا بڑا بت تھا اس کے آگے بیٹھ جاتے تھے اور ان تیروں کو جن میں دھار وغیرہ نہیں ہوتی تھی تھیلی میں سے ناکل کر استعمال کرتے تھے اور جو بات معلوم ہوجاتی تھی اس پر عمل کرلیا کرتے تھے اور اس کی کچھ فیس بھی مقرر کر رکھی تھی جو اس مجاور کو دیا کرتے تھے جو یہ تیر تھیلی میں سے نکال کر پھینکا کرتا تھا۔ غرض یہ ایک طریقہ فال کا تھا اور ہوسکتا ہے کہ گوشت کی تقسیم کا یہ طریقہ ہو۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے اور ان تیروں کو پانسو کی طرح اس کا استعمال کرتے ہوں جس کے نام پر جو حصہ نکل آیا وہ اس کو دے دیا اور جس کا پانسہ خالی نکلا اس کو کچھ نہیں دیا۔ غرض ! یہ ایک جوئے اور قمار کی صورت تھی جس کو حرام کیا گیا ہم نے دونوں قول تیسیر میں اختیار کر لئے ہیں اگرچہ تفاسیر سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ کفار مکہ کا یہ عام طریقہ تھا کہ وہ اپنے معاملات میں ان لکھے اور بےلکھے تیروں سے فیصلہ کیا کرتے تھے اور اس فیصلہ کو ایک یقینی اور حتمی فیصلہ سمجھ کر اس پر عمل کیا کرتے تھے خواہ سفر میں جانا وہ نکاح کرنا یا کسی چیز کی تقسیم ہو تمام موقعوں پر ان تیروں سے فال لیکر اس کام کو کرتے تھے ۔ زلم سے مراد یہاں وہ تیر ہیں جو اس کام کے لئے رکھے تھے سعید بن جبیر کا قول ہے کہ یہ سفید رنگ کی کنکریاں تھیں مجاہد نے کہا یہ پانسے تھے شعبی نے کہا عجم میں اس کو کعاب کہتے ہیں۔ عرب اس کو از لام کہتے ہیں۔ (واللہ اعلم) بعض حضرات نے ان تیروں کی تعداد سات بتائی ہے اور یہ صورت بہرحال قرعئہ شرعی کی صورت سے بالکل مفائر تھی ذلکم فسق کا ایک مطلب تو وہی ہے جو ہم نے اختیار کیا یعنی یہ استسقام فسق اور حرام ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو باتیں اوپر حرام فرمائی ہیں ان سب کی طرف اشارہ ہو اور یہ مطلب ہو کہ یہ سب مذکورہ چیزیں فسق اور حرام ہیں چونکہ سورة مائدہ سن 9 ھ میں نازل ہوئی ہے اور وہ مسلمانوں کی پوری ترقی کا دور تھا اور عرب میں پوری دھاک بیٹھ چکی تھی اس لئے احکام کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ کافروں کو اب اپنے غلبہ کی کوئی توقع باقی نہیں رہی سو تم ان کا خوف نہ کرو اور میرے خوف سے بےخوف نہ ہو کیونکہ جو نعمت ہم نے عطا فرمائی ہے وہ سب تقویٰ کی برکت سے میسر ہوئی ہے اگر ناشکری کرو گے اور مجھ سے بےخوف ہو جائو گے جو نافرمانی کی دلیل ہے تو میں اپنی نعمت کو سلب کرلوں گا۔ الیوم جس کا ترجمہ ہم نے آج کیا ہے اس سے مراد زمانہ ہے جس میں تم آج گزر رہے ہو ایک ایسا دور ہے۔ آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ مسلمانو ! جن چیزوں کی حرمت کے بیان کا ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا وہ یہ ہیں سن لو ! تم پر اس جانور کا کھانا حرام کردیا گیا ہے جو بغیر ذبح کے اپنی موت سے خود مرجائے اور بہتا خون یعنی تلی اور کلیجی نہیں اور سئور کا گوشت یعنی اس کے تمام اجزا بھی تم پر حرام کردیئے گئے اور وہ جانور بھی حرام کردیا گیا جو غیر اللہ کے نام پر تقرب کی نیت سے ذبح کرو اور وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرجائے اور وہ بھی حرام کردیا جو کسی ضرب سے مرجائے اور وہ بھی جو گر کر مرجائے اور وہ بھی جو کسی کے سینگ مارنے سے مرجائے اور وہ بھی جس کو درندہ پھاڑ ڈالے اور اس کا کچھ حصہ کھالے اور وہ جانور اس صدمہ سے مرجائے مگر ہاں ! ان میں سے جن جانوروں کو تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو اور قواعد شرعیہ کے مطابق تکبیر پڑھ کر گلے پر چھری پھیر دو یا اونٹ ہو تو اس کو نحر کرلو تو وہ اس حرمت سے مستثنیٰ ہے اور اسی طرح غیر اللہ کی پرستش گاہوں پر جو جانور ذبح کیا جائے اس کا کھانا بھی حرام ہے اور تیروں سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنا یہ بھی تم پر حرام کردیا گیا یہ سب چیزیں فسق اور گناہ کے کام ہیں۔ اب کافر تمہارے مغلوب اور کمزور ہونے سے ناامید ہوچکے ہیں لہٰذا تم ان سے بالکل خوف نہ کھائو اور میرے سے ڈرتے رہو جن چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ انسانی صحت کے لئے اور انسانی اخلاق کے لئے اور انسانی عقائد کے لئے سخت مضر اور نقصان دہ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور اس کی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو اپنے بندوں پر حرام فرما دیا جن کا اثر یا تو انسان کی صحت پر پڑتا ہے یا ان کا اثر انسان کے اخلاق پر پڑتا ہے جیسا سئور کھانیوالوں میں انتہائی بےغیرتی اور بےشرمی نمایاں ہے۔ اسی طرح بعض چیزوں کا عقائد پر اثر پڑتا ہے اور غیر اللہ کی تعظیم کا عقیدہ اللہ کی تعظیم سے مل جاتا ہے اس لئے ان سب باتوں کو حرام فرما دیا اور یہ سب وہ چیزیں ہیں جن کو زمانہ جاہلیت میں کفار استعمال کرتے تھے اور آج کل بھی ہمارے بلاد کے کفار اس میں مبتلا ہیں اور یا وہ مسلمان مبتلا ہیں جو علم سے بےبہرہ اور کفار کے ہم صحبت ہیں اور اپنی جہالت کی وجہ سے اسلامی احکام اور کفار کی رسوم میں کوئی فرق نہیں کرتے اب آگے اپنے مزید احسانتا کا اظہار فرماتے ہوئے ان محرمات کی بعض صورتوں میں حسب ضرورت اجازت کا اظہار فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل) 2 آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو ہر اعتبار سے کامل کردیا یعنی باعتبار قوت و شوکت کے بھی اور با عتبار احکام کے بھی اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور تمام ادیان میں سے میں نے تمہارے لئے اسلام کا دین ہونا پسند کیا پھر جو شخص سخت بھوک کی وجہ سے مذکورہ بالا اشیاء محرمہ میں سے کسی چیز کے کھانے پر مجبور ہوجائے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو یعنی نہ ضرورت سے زیادہ کھائے اور نہ طالب لذت ہو تو یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) مخمصہ ، پیٹ کا غذا سے خالی ہونا۔ خمیص البطن ، بھوکا، جنف، میلان، مدعا یہ ہے کہ دین کے احکام و قواعد پوری طرح بیان کردیئے گئے اور اسلام کی قوت و شوکت پوری طرح نمایاں ہوگئی اس حالت کو دیکھ کر کفار عرب اپنے غلبہ سے مایوس ہوگئے اور اب ان کو اپنی حکومت کے واپس ہونے کی کوئی توقع نہیں رہی اور یہی وہ اکمال دین ہے کہ باعتبار غلبہ بھی کمال میسر ہوگیا اور مسائل و احکام کے اعتبار سے بھی دین کو کامل کرایا ، لہٰذا ! ایک طرف دین کی تکمیل ہوگئی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کی تکمیل فرما دی کیوں کہ دین کامل ہو اور دین پر عمل کرنے اور اس کے احکام کے اجرا کی طاقت ہو اس سے بڑھ کر اور کیا انعام ہوسکتا ہے دین ایسا جو کلیات و جزئیات کے اعتبار سے مکمل اور اقتدار ایسا کہ کوئی مخالف اب آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔ اسی کو فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی مفسرین اور محدثین نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حجتہ الوداع کے موقعہ پر عصر کی نماز کے بعد نویں ذی الحجہ س 10 ھ کو نازل ہوئی اس دن جمعہ تھا اور نبی کریم ﷺ اس آیت کے نازل ہونے پر تقریباً اکیاسی دن یعنی کوئی تین مہینے زندہ رہے اور تقریباً تین ماہ کے بعد سکار دو عالم ﷺ کا وصال ہوگیا اور جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا تھا کہ آج سے مراد زمانہ ہے صرف دن نہیں ہے، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر اس آیت کے آگے پیچھے کوئی اور حکم نازل ہوا ہو اور کوئی آیت اتری ہو تو وہ اس اکمال کے منافی نہیں ہے کیونکہ الیوم کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا۔ ورضیت لکم الاسلام دینا کا مطلب یہ ہے کہ تمام ادیان مروجہ میں سے میں نے تمہارے لئے صرف اسلام کا دین ہونا پسند کیا یعنی تمہارے لئے یہ بات پسند کی کہ تمہارا دین اسلام ہی ہو جو صحیح اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ سعید بن جبر اور قتادہ نے کہا اکمال کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے دین کو تمام ادیان پر غالب کردیا اور تم کو دشمنوں سے محفوظ کردیا یہود میں سے کسی شخص نے حضرت عمر سے کہا تھا کہ ایک آیت تمہارے قرآن میں ایسی ہے کہ اگر وہ آیت ہمارے ہاں ہوتی تو ہم اس دن عید منایا کرتے۔ حضرت عمر ؓ نے دریافت کیا وہ کون سی آیت ہے اس نے کہا ، الیوم اکملت لکم حضرت ؓ نے فرمایا مجھے معلوم ہے جس دن یہ آیت نازل ہوئی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ہے جمعہ کے دن عرفہ تھا حضور ﷺ اونٹنی پر سوار تھے عصر کے بعد کا وقت تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی اونٹنی پر اس وقت اتنا بوجھ تھا کہ اس کے بازو ٹوٹے جاتے تھے بعض روایت میں آتا ہے کہ آخر اونٹنی بیٹھ گئی اونٹنی کا نام عضبا تھا۔ غرض ! ہمیں عید منانے کی کیا ضرورت ہے آیت ہی عید کے دن نازل ہوئی ہے بلکہ اس دن دو عیدیں تھیں ایک عرفہ اور ایک جمعہ۔ ہارون بن غزہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر رونے لگے میں نے پوچھا۔ اے عمر ! کیا بات ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا اب تک ہمارے دین میں زیادتی ہو رہی تھی لیکن اب جب کہ وہ دین کامل ہوگیا تو جوشی کامل ہوجاتی ہے وہ گھٹنی شروع ہوجاتی ہے اس بات کو خیال کر کے رو رہاہوں۔ میرے والد نے کہا آپ کا رونا سچا ہے چناچہ اس آیت کے اکیاسی دن بعد نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔ فمن اضطر کا تعلق اوپر کے مضمون سے ہے کہ جن بہائم کی حرمت مذکور ہوئی ہے اگر کسی شخص پر ایسا وقت پڑے کہ سوائے مردار کے اور کچھ میسر نہ آئے اور بھوک کی وجہ سے بیقرار ہوجائے تو اس قدر کھا سکتا ہے کہ اپنی زنگدی کو باقی رکھ سکے اور محض لذت مقصود نہ ہو یعنی دو شرطیں ہیں ایک ضرورت کی مقدار سے زائد نہ ہو اور دوسرے طالب لذت نہ ہو حد رفت سے تجاوز کرنا بھی گناہ کی جانب مائل ہونا ہے اور مزے کو کھانا بھی گناہ کی طرف مائل ہونا ہے اس لئے ہم نے متجانف لاثم میں دونوں باتیں رکھی ہیں یہ مسئلہ دوسرے پارے میں بھی گذر چکا ہے وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ غفور رحیم کا مطلب یہ ہے کہ کھانے میں کچھ کوتاہی ہوجائے گی جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ بھوک میں صحیح اندازہ نہ ہو سکے تو اللہ تعالیٰ صاحب مغفرت اور اس قسم کا حکم دینا اور بھوک کی حالت میں حرام ک و اس قدر کھا لینا کہ زندگی بچ جائے یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور شفقت ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں ۔ مواشی میں یہ چیزیں حرام فرما دیں سئور اور ہر چیز کا لہو اور آپ سے مرا یا کسی طرح بغیر ذبح کے اور جو خدا کے بجائے کسی کے نام پر ذبح کیا اور جو کسی مکان کی تعظیم پر ذبح کیا سوائے خانہ خدا کے مگر یہ چیزیں مضطر کو معاف ہیں اور بانٹا کرنا پانسوں سے یہ کافروں کا ایک جوا تھا کہ شرط بدکر ایک جانور اس شخص نے خریدا اور ذبح کیا اور دس پانسے تھے کسی پر لکھا آدھا کسی پر پائو کم زیادہ کوئی خالی پھر بانٹنے لگے تو ہر ایک کے نام پر جو پانسا آیا وہی حصہ اس کو ملایا خالی نکل گیا۔ شرط بدنی تمام حرام ہے۔ یہ بھی اسی میں داخل ہے۔ (فائدہ) اس سے معلوم ہوا کہ غیر خد ا کے نام پر جانور ذبح ہوا یا غیر خدا کی تعظیم پر وہ مردار ہے ۔ فائدہ ! یہ جو فرمایا آج پورا دین تمہارا دے چکا یہ آیت آخر کو اتری ہے کہ سب احکام اللہ کے نازل ہوچکے تھے اس کے بعد تین مہینے حضرت زندہ رہے ہیں۔ (موضح القرآن) یہ ہوسکتا ہے کہ جوئے کے مختلف طریقے ہوں۔ ابن کثیر نے کئی روایتیں نقل کی ہیں بعض میں یہ بھی ہے کہ ان تیروں پر امرنی ربی اور نھانی ربی لکھا ہوا تھا امرنی کا تیر آیا تو اس کام کو کرلیا اور نھانی کا نکلا تو اس کام کو ترک کردیا۔ ہم نے ترجمہ میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ اور مولانا شاہ رفیع الدین کا قول اختیار ہے۔ حضرت شاہ صاحب کی عبارت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ سوائے خانہ خدا کے کسی مکان کی تعظیم کے خیال سے جو جانور ذبح کیا جائے اس کا کھانا بھی حرام ہے اور جو کسی غیر اللہ کے نام کی تعظیم کے خیال سے ذبح کیا جائے اس کا کھانا بھی حرام ہے۔ عام مفسرین نے جو ذبح کے وقت غیر اللہ کے نام کی قید لگائی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور سے کفار مکہ ذبح کے وقت لات اور عزی کا نام لیا کرتے تھے ، غیر اللہ کا نام دھر کر کسی جانور کو ذبح کرنا اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ ہی کا نام لیا جائے اس کا کھانا بھی حرام ہے۔ نام دھرنے کا مطلب وہی ہے کہ غیر اللہ کے تقرب کی نیت ہو اور یہ تقرب الی غیر اللہ کی بات اس طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے نذر کے طور پر جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اس میں نیت کیا ہوتی ہے۔ بس وہی نیت غیر اللہ کے بارے میں کرنی یہ حرام ہے کیونکہ تقرب الی اللہ کی نیت سے کوئی کام کرنا عبادت ہے اور عبادت غیر اللہ کی حرام ہے اس مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لو۔ جو جانور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے خواہ وہ غیر زندہ ہو یا مردہ ہو۔ یا کوئی بات ہو۔ یا دیوی ہو۔ اس کا کھانا حرام ہے۔ اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ ہی کا نام لیکر اس کو ذبح کیا ہو اور یہ جو فرمایا کہ میں نے تمہارے لئے اسلام کا دین ہو ناپسند کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک تمہارا یہی دین رہے گا کیونکہ اس کے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ کوئی نئی شریعت آئے گی جو اس کو مسنوخ کرسکے۔ اب آگے بعض اور سوالات کا جواب ہے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ نے دریافت کیا تھا کہ ان جانوروں کے شکار کا کیا حکم ہے جن کو سدھا کر ان سے شکار کرایا جائے۔ اوپر کی آیت میں بعض محرمات کا ذکر تھا پھر ان میں اضطراری حالت کو مستثنا فرما دیا تھا باقی اصل بحث محرمات میں تھی اب انہی کی مناسبت سے بعض اشیاء کی حلت کا بیان فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top