Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پس جب ان میں سے پہلی بار کی میعاد آجاتی ہے تو ہم تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کردیتے ہیں تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہو کے رہا
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۔ " اذا " صرف مستقبل ہی کے لیے نہیں آتا بلکہ بیان عادت و سنت اور بعض اوقات تصویر حال کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں تصویر حال ہی کے لیے ہے۔ ہم ترجمے میں اس کو ملحوظ رکھا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ چناچہ دیکھ لو جب پہلی بار کی میعاد آجاتی ہے تو ہم تمہیں اپنے عذاب کا مزا چکھانے کے لیے اپنے زور آور بندوں کو ابھار کر تم پر مسلط کردیتے ہیں تو تمہارے گھروں میں گھس پڑتے ہیں اور خدا کا شدنی وعدہ پورا ہو کے رہتا ہے۔ " بعث " کا صلہ جب " علی " کے ساتھ آئے تو وہ ابھارنے اور اکسانے کے ساتھ ساتھ مسلط کردینے کے مفہوم پر بھی متضمن ہوجاتا ہے۔ یہود کی توہین و تذلیل کی تصویر : فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ، یہ یہود کی انتہائی توہین و تذلیل کی تصویر ہے اس لیے کہ جب دشمن اتنا زور آور ہو کہ گھروں کے اندر گھس پڑے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے عزت و ناموس ہر چیز کو تاراج کرکے رکھ دیا۔ یہاں صرف اتنے ہی کے ذکر پر اکتفا فرمایا ہے اس لیے کہ ذلت کی تصویر کے لیے یہی کافی تھا لیکن آگے اس بات کا حوالہ بھی آئے گا کہ اس دشمن نے صرف گھروں میں گھسنے ہی پر بس نہیں کیا بلکہ مسجد اقصی کی حرمت بھی پوری طرح برباد کی۔ بخت نصر کا حملہ اور یہود کی غلامی : یہ اشارہ بابل و نینوا کے بادشاہ بخت نصر یا بنوکد نضر کے حملہ کی طرف ہے جس نے 586 قبل مسیح میں یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ یرمیاہ نبی نے اس کی پیشین گوئی یوں فرمائی تھی : " رب الافواج یوں کہتا ہے۔ اس لیے کہ تم نے میری باتیں نہ سنیں دیکھ میں اتر کے سارے گھرانوں کو اپنے خدمت گزار شاہ بابل بنوکدنضر کو بلا بھیجوں گا " (یرمیاہ 25، 8-9) ان کے انذار کی مزید تفصیل سنیے : " میں ایسا کروں گا کہ ان کے درمیان خوشی کی آواز اور خرص کی آواز، دل ہے کی آواز دلہن کی آواز، چکی کی آواز اور چراغ کی روشنی باقی نہ رہے اور یہ ساری سرزمین ویرانہ اور حیرانی کا باعث ہوجائے گی اور یہ قومیں ستر برس تک بابل کے بادشاہ کی غلامی کریں گی " (یرمیاہ 25، 9-10) یرمیاہ نبی کا نوحہ سنیے : " خداوند نے صیہوں کی بیٹی کو اپنے قبر تلے چھپا دیا۔ اس نے اسرائیل کے جمال کو آسمان سے زمین پر پٹک دیا اور اپنے قہر کے دن اپنے پاؤں رکھنے کی کرسی کو یاد نہ کیا۔ خداوند نے یعقوب کے سارے مکانوں کا غارت کیا اور رحم نہ کیا۔ اس نے اپنے قہر میں یہوداہ کی بیٹی کے قلعوں کو ڈھا دیا۔ اس نے انہیں خاک کے برابر کردیا۔ اس نے بادشاہت اور امیروں کو ناپاک کیا۔ اس نے اپنے قہر شدید میں اسرائیل کا ہر ایک سینگ بالکل کاٹ ڈالا " (یرمیاہ کا نوح 2، 271)۔ آیت میں بخت نصر (یا بنوکدنضر) اور اس کی فوجوں کے لیے عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ (اپنے زور آور بندے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ان کے دین اور تقوی کے اعتبار سے نہیں استعمال ہوئے ہیں بلکہ صرف اس حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں کہ انہوں نے خدا کے ارادہ کے اجراء و نفاذ کے لیے آلہ و جارحہ کا کام دیا۔ یہ اگرچہ خود گندے تھے لیکن گندگی کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کرنے میں انہوں نے مشیت الٰہی کی تنفیذ کی اس وجہ سے انہیں بھی فی الجملہ خدا سے نسبت حاصل ہوگئی۔ بنی اسرائیل کو غرہ تھا کہ نحن ابناء اللہ و احباءہ۔ ہم خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں خدا نے ان پر واجح کردیا کہ جن جوتوں سے تم پٹے ہو وہ تو خدا کی نظروں میں کچھ وقعت رکھتے ہیں لیکن تم کوئی وقعت نہیں رکھتے۔
Top