Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
آخرِ کار جب اُن میں سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل، ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اُٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھُس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پُورا ہو کر ہی رہنا تھا۔7
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 7 اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صحف انبیاء سے نقل کرچکے ہیں، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تاکہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آجائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامت اقوام کے منصب سے گر اکر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوٹے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتِّی اَمَّوری کنعانی، فِرِزِّی، حَوِی، یبوسی، فِلستی وغیرہ سان قوموں میں بد تیرن قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموما سانڈ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد 70 تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔ شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائش نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کردار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔ توراة میں حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پر ہیز کرنا۔ لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہوسکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کردیتا۔ آخرکار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کے ساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کرسکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے 6 کے آغاز میں نقل کیا ہے۔ اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چناچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قضاة میں یوں کی گئی ہے ”اور بنی اسرائیل نے خداوند کے آگے بدی کی تعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جا کر انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا اور دوسرے معبودوں کی جو ان کے گردا گرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خدا وند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔ (باب 2۔ آیت 11۔ 13) اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستینوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلستین کے بڑے حصے سے ان کو بےدخل کردیا، حتٰی کہ ان سے خدا وند کے عہد کا صندوق (تابوت سکینہ) تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن 1020 قبل مسیح میں طالوت کا ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورة بقرہ رکوع 32 میں گزر چکی ہے)۔ اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت (سن 1020 تا 1004 ق م) ، حضرت داؤد ؑ (سن 1004 تا 965 ق م) اور حضرت سلیمان ؑ (سب 965 تا 926 ق م)۔ ان فرمانرواؤں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اور جنوبی ساحل پر فلستیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جاسکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا۔ حضرت سلیمان ؑ کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کرلیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل، جس کا پایہ تخت آخرکار سامریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہود یہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اور روز سے شروع ہوگئی اور آخر تک رہی۔ ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صیدا کی مشرک شہزادی ایزیبل سے شادی کرلی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سے شرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیسع (علیہما السلام) نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخرکار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہوگئے۔ اس دور میں عاموس نبی (سن 787 تا 747 قبل مسیح) اور پھر ہوسیع نبی (سن 747 تا 735 قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سر شار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہوگیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت کردیا، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گیے، 27 ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کردیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسا یا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہود یہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان ؑ کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہوگئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولت اسرائیل کی بہ نسبت سست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی۔ اگرچہ دولت اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہوسکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہود یہ کہ لوگ بت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن 598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کرلیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کردیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کو دی گئی۔
Top