Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 5
فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا
فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آیا وَعْدُ : وعدہ اُوْلٰىهُمَا : دو میں سے پہلا بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے عَلَيْكُمْ : تم پر عِبَادًا لَّنَآ : اپنے بندے اُولِيْ بَاْسٍ : لڑائی والے شَدِيْدٍ : سخت فَجَاسُوْا : تو وہ گھس پڑے خِلٰلَ الدِّيَارِ : شہروں کے اندر وَكَانَ : اور تھا وَعْدًا : ایک وعدہ مَّفْعُوْلًا : پورا ہونے والا
پھر جب دوبارہ میں سے پہلی کی میعاد آئے گی،8۔ تو ہم تمہارے اوپر اپنے (ایسے) بندوں کو مسلط کردیں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے سو وہ گھروں میں گھس پڑیں گے،9۔ اور یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا،10۔
8۔ (اور تمہارے جرائم تمہیں عقوبت شدید کا مستحق بنادیں گے) یرمیاہ نبی کی کتاب جو آج بھی صحائف عہد عتیق کا ایک جزو ہے، دیکھی جاسکتی ہے، یہود کی شرارتوں، بدکاریوں کی داستان سے لبریز ہے، احبار اور ربیون کے نزدیک بھی انتقام الہی کی محرک یہود کی تباہ کاریاں ہی ہوئی تھیں، ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن۔ 9۔ (اور تمہیں کہیں پناہ نہ مل سکے گی) (آیت) ” بعثنا علیکم عبادالنا “۔ اس عالم اسباب میں سزا اور غضب الہی کا نفاذ ہمیشہ کسی نہ کسی مخلوق ہی کے ذریعہ اور واسطہ سے ہوگا، بعث سے یہاں مراد بعثت تشریعی نہیں، محض بعثت تکوینی ہے اور عباد سے مراد وہ انسان جو عذاب الہی کے کارندوں کی حیثیت سے ان پر مسلط کئے گئے تھے اور ان کے لئے یہ ہرگز ضروری نہ تھا کہ وہ خود بھی مومنین صالحیں میں سے ہوں۔ اس لیے (آیت) ” عبادالنا “ پر یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ بخت نصر کا ایک کافر تاجدار تھا پھر قرآن نے اس کے لشکر کا انتساب اپنی جانب کیسے کرلیا، یہی مضمون یہود کے مقدس صحیفہ یرمیاہ میں بھی ہے اور اس میں بخت نصر کو خدا کو خدمت گذار کہا گیا ہے :۔” رب الافواج یوں کہتا ہے۔ اس لئے کہ تم نے میری باتیں نہ سنیں، دیکھ میں اتر کے سارے گھرانوں کو اور اپنے خدمت گزار شاہ بابل بنو کہ نضر کو بلا بھیجوں گا “۔ (یرمیاہ۔ 25: 8، 9) (آیت) ” اولی باس شدید “۔ بابل والے عموما بڑے جنگجو اور نبرد پیشہ تھے، اور بخت نصر کی خون آشامی کے ذکر سے تو تاریخ کے صفات رنگین ہیں۔ (آیت) ” فجاسوا خلل الدیار “۔ بخت نصر کے لشکر نے جس جس طرح سرزمین شام کو تاخت و تاراج کیا، ہیکل سلیمانی کو شہید کیا، شہر میں آگ لگائی، ایک ایک گھر میں گھس گھس کر جان، مال، عزت سب کو برباد کیا، یہ سب اسی مختصر جامع فقرہ قرآنی کی تفصیلات ہیں۔ 10۔ یرمیاہ نبی کے صحیفہ میں خود یہ وعید اور پھر اس کے ظہور محل دونوں کی تفصیلات درج ہیں۔” میں ایسا کروں گا کہ ان کے درمیان خوشی کی آواز اور خرمی کی آواز، دل ہے کی آواز، دلہن کی آواز، چکی کی آواز اور چراغ کی روشنی باقی نہ رہے اور یہ ساری سرزمین ویرانہ اور حیرانی کا باعث ہوجائے گی اور یہ قومیں ستر برس تک بابل کے بادشاہ کی غلامی کریں گی اور ایسا ہوگا خداوند کہتا ہے کہ جب ستربرس پورے ہوں گے، میں بابل کے بادشاہ کو اور اس کی قوم کو اور کسدیوں کی سرزمین کو ان کی بدکاری کے سبب سزادوں گا اور میں اسے ایسا اجاڑوں گا کہ ہمیشہ تک ویرانہ رہے “ (یرمیاہ۔ 25: 9۔ 12) ” خداوند نے صہیون کی بیٹی کو اپنے قہر کے ابرتلے چھپادیا۔ اس نے اسرائیل کے جمال کو آسمان سے زمین پر پٹک دیا اور اپنے قہر کے دن اپنے پاؤں رکھنے کی کرسی کو نہ یاد کیا۔ خداوند نے یعقوب کے سارے مکانوں کو غارت کیا اور رحم نہ کیا۔ اس نے اپنے قہر میں یہوداہ کی بیٹی کے قلعوں کو ڈھادیا، اس نے انہیں خاک کے برابر کردیا اس نے بادشاہت اور امیروں کو ناپاک کیا اس نے اپنے قہرشدید میں اسرائیل کا ایک سینگ بالکل کاٹ ڈالا “ (یرمیاہ کا نوحہ۔ 2: 1۔ 3)
Top