Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 41
وَ اخْتَارَ مُوْسٰى قَوْمَهٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا١ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ١ؕ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا١ۚ اِنْ هِیَ اِلَّا فِتْنَتُكَ١ؕ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَآءُ وَ تَهْدِیْ مَنْ تَشَآءُ١ؕ اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ
وَاخْتَارَ : اور چن لئے مُوْسٰي : موسیٰ قَوْمَهٗ : اپنی قوم سَبْعِيْنَ : ستر رَجُلًا : مرد لِّمِيْقَاتِنَا : ہمارے وعدہ کے وقت کے لیے فَلَمَّآ : پھر جب اَخَذَتْهُمُ : انہیں پکڑا ( آلیا) الرَّجْفَةُ : زلزلہ قَالَ : اس نے کہا رَبِّ : اے میرے رب لَوْ شِئْتَ : اگر تو چاہتا اَهْلَكْتَهُمْ : انہیں ہلاک کردیتا مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَاِيَّايَ : اور مجھے اَتُهْلِكُنَا : کیا تو ہمیں ہلاک کریگا بِمَا : اس پر جو فَعَلَ : کیا السُّفَهَآءُ : بیوقوف (جمع) مِنَّا : ہم میں سے اِنْ هِىَ : یہ نہیں اِلَّا : مگر فِتْنَتُكَ : تیری آزمائش تُضِلُّ : تو گمراہ کرے بِهَا : اس سے مَنْ : جس تَشَآءُ : تو چاہے وَتَهْدِيْ : اور تو ہدایت دے مَنْ : جو۔ جس تَشَآءُ : تو چاہے اَنْتَ : تو وَلِيُّنَا : ہمارا کارساز فَاغْفِرْ : سو ہمیں بخشدے لَنَا : اور تو وَارْحَمْنَا : ہم پر رحم فرما وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہترین الْغٰفِرِيْنَ : بخشنے والا
اور موسیٰ نے اپنی قوم کے ستر آدمی چے ہمارے وقت مقرر کے لیے تو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا تو موسیٰ نے کہا اے اگر تو چاہتا ان کو ہلاک کر چھوڑتا پہلے ہی اور مجھ کو بھی۔ کیا تو ہمیں ایک ایسے جرم کی پاداش میں ہلاک کردے گا جس کا ارتکاب ہمارے اندر کے بیوقوفوں نے کیا۔ یہ تو بس تیری ایک آزمائش تھی تو اس سے جس کو چاہے گمراہی میں ڈال دے اور جس کو چاہے ہدایت دے تو ہی ہمارا کارساز ہے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین بخشنے والا ہے
وَاخْتَارَ مُوْسٰي قَوْمَهٗ سَبْعِيْنَ رَجُلًا لِّمِيْقَاتِنَا ۚ فَلَمَّآ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ مِّنْ قَبْلُ وَاِيَّايَ ۭاَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ مِنَّا ۚ اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ۭ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاۗءُ وَتَهْدِيْ مَنْ تَشَاۗءُ اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الْغٰفِرِيْن۔ یہ حضرت موسیٰ کے دوبارہ کوہ سینا پر جانے کا ذکر ہے جب وہ گوسالہ پرستی کے واقعہ کے بعد توبہ کے لیے گئے ہیں۔ تورات کے راویوں نے اس واقعہ کو پہلے واقعہ کے ساتھ گڈ مڈ کردیا ہے۔ اس وجہ سے بات گھپلا ہو کر رہ گئی ہے۔ قرآن نے ان دونوں واقعات کو الگ الگ بیان کیا ہے اس لیے کہ یہ واقعہ بجائے خود بنی اسرائیل کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھنے والا واقعہ ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص وقت مقرر کیا اور حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے ستر آدمی منتخب فرمائے تاکہ جس نوعیت کا اجمتاعی جرم صادر ہوا ہے اسی نوعیت کی اجتماعی توبہ بھی ہو۔ نیز جو کچھ پیش آئے وہ قوم کے تمام ممتاز آدمیوں کے سامنے پیش آئے کہ وہ قوم کے سامنے اس کی گواہی دیں۔ فَلَمَّآ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنا جلال ظاہر فرمایا تاکہ بنی اسرائیل کے لیڈروں کو پھر یاد دہانی ہوجائے کہ جس خداوند کے ساتھ ان کا معاملہ ہے اس کے جلال و جبروت کا ادنی کرشمہ یہ ہے۔ تورات میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے۔“ جب تیسرا دن آیا تو صبح ہوتے ہی بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کا نپ گئے۔ اور کوہ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا“ (خروج باب 19: 18۔ 19)۔ اگرچہ تورات میں یہ ذکر اس موقع کا ہے جب بنی اسرائیل کو مشہور احکام عشرہ دی گئے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہی صورت حال اس توبہ کے موقع پر بھی پیش آئی ہے جس کا ذکر قرآن نے اخذتہم الفرجۃ سے کیا ہے۔ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمْ ، اب یہ حضرت موسیٰ ؑ کی گریہ وزاری اور ان کی دعا و فریاد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ جلال تیرے غضب کا مظہر ہے اور تو نے ہمارے ہلاک کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو یہ کام اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی کردیتا لیکن اب جب کہ تو نے ہمیں باریابی کا موقع عنایت فرمایا اور ہم یہاں حاضر ہو بھی گئے تو یہ تیری رحمت سے بعید ہے کہ تو ہمیں ہلاک کرے۔ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاۗءُ۔ مطلب یہ کہ جو کچھ ہوا جماعت کے اندر کے نادانوں کی بدبختی سے ہوا اور یہ تیری رحمت سے بعید ہے کہ تو نادانوں کے کسی جرم کی پاداش میں سب کو ہلاک کردے۔ اِنْ هِىَ اِلَّا فِتْنَتُكَ ، مطلب یہ کہ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی اور تیری آزمائش سے عہدہ برا تو وہی ہوتے ہیں جن کو تیری توفیق حاصل ہو تو ہی جن کو توفیق بخشتا ہے تیرے امتحان میں کامیاب ہوتے اور ہدایت پاتے ہیں، اور جن کو اپنی توفیق سے محروم کردیتا ہے وہ گمراہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ملحوظ رہے کہ یہاں حضرت موسیٰ نے اسی سنت اللہ کا حوالہ دیا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے اور جس کا ذکر بار بار قرآن میں ہوچکا ہے لیکن ساتھ ہی نہایت ہی ادب کے ساتھ اور نہایت ہی لطیف طریقہ پر اس میں معاملے کی نزاکت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ تیرے امتحانوں میں پورا اترنا کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ یہ تیرے فضل اور تیری توفیق بخشی ہی پر منحصر ہے۔ تو ہی ہمارا ولی اور کارساز ہے تو ہمیں بخش، ہم پر رحم فرما تو بہترین بخشنے والا ہے۔
Top