Kashf-ur-Rahman - Al-A'raaf : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جب کہ ایک قوم تم پر دست درازی کرنے کا ارادہ کرچکی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔2
2 اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر اس وقت ہوا جب کہ کفار کے ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کرلیا تھا اور وہ اس فکر میں تھے کہ تم کو بالکل ختم کردیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور ان کو اتنا موقع نہ دیا کہ وہ تم کو ختم کرسکیں اور دیکھو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کے حقوق نعمت کی رعایت رکھو اور مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہمیشہ بھروسہ کیا کریں۔ (تیسیر) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کی بعض جماعت نے نبی کریم ﷺ کو یا مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس سے آپ کو اور آپ کی جماعت کو محفوظ رکھا اس احسان کی جانب اشارہ ہے اور یہ بھیہو سکتا ہے کہ کفار کی عام دشمنی کے باعث جو کافروں کے جذبات تھے اور کفار مکہ ہر وقت مسلمانوں کی بیخ کنی کی فکر میں رہتے تھے اس کی جانب اشارہ ہو کہ کفار کی پیہم اور مسلسل کوششوں کے باوجود کفار کی یہ خواہش پوری نہ ہو کسی اگرچہ مختلف عنوان سے اذیتیں پہنچاتے رہے لیکن یہ حوصلہ نہ ہوا کہ تمام مسلمانوں کو ختم کردیتے جن لوگوں نے پہلی صورت اختیار کی ہے انہوں نے اس واقعہ کی مختلف تفصیل بیان کی ہے۔ کسی نے کہا نبی کریم ﷺ سفر میں ایک مقام پر قیام پذیر تھے آپ نے اپنے ہتھیار ایک درخت میں لٹکا دیئے ساتھی بھی حضرت کے مختف درختوں کے سائے میں جا بیٹھے آپ ﷺ لیٹ گئے۔ قریب کے ایک کافر نے چپکے سے درخت میں سے تلوار اتار لی اور آپ کو پکار کر کہا اے محمد ! کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں آپ ﷺ نے فرمایا نہیں اس نے کہا اچھا تم کو مجھ سے اب کون بچا سکتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل بچائے گا ا س کافر کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو آواز دی اور صحابہ کو یہ قصہ سنایا وہ کافر بھی موجود تھا مگر اس سے کوئی بدلہ نہیں لیاقتادہ نے کہا کچھ لوگوں نے آپ کو دھوکہ سے قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس دیہاتی کافر کو اس پر آمادہ کیا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اس کافر کا نام غورث بن حارث تھا۔ اب عباس سے مروی ہے کہ یہود نے آپ ﷺ کو اور آپ کے اصحاب کو کھانے میں زہر ملا کر کھلانا چاہا تھا لیکن بروقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو معلوم کرا دیا بعض نے کہا کعب بن اشرف نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہلا کر کوئی صدمہ پہنچانا چاہا تھا اس سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا بنی نضیر نے ایک موقعہ پر یہ چاہا تھا کہ آپ کو باتوں میں لگا کرچکی کا پاٹ آپ پر گرا دیں اس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ مجاہد اور عکرمہ وغیرہ نے مندر بن عمرو الساعدی اور عامر بن الطفیس کے واقعہ سے جو بیر معونہ پر پیش آیا تھا اس آیت کا تعلق بتایا تھا اور دوسری صورت میں کسی خاص واقعہ کی ضرورت نہیں۔ ہم نے تیسیر میں دونوں روایتوں کی بنا پر اپنے ترجمہ کا خلاصہ کیا ہے بہرحال ! ایک خاص نعمت کی طرف اشارہ ہے جس میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھ سے بچایا ہے اور ان کا یہ ارادہ کہ مسلمانوں کا بالکل یہ استحصال کردیا پورا نہیں ہوسکا اور یہاں جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اس کا مطلب یہ ہے کہ باوجود ان کے اس عناد اور دشمنی کے پھر بھی تمہاری جانب سے کوئی ایسی بات نہ ہوئی چاہئے جو انصاف اور تقویٰ کے خلاف ہو۔ پھر آخر میں اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ رکھنے کا حکم دیا گیا جس کا ماحصل یہ ہوا کہ تم لوگ تقویٰ کے پابند رہو اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھو تو وہ تمہاری اسی طرح مدد کرتا رہے گا اور تم کو تمہارے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا چونکہ اوپر کی آیتوں میں اس عہد کا ذکر تھا جو مسلمانوں سے لیا گیا تھا اور سمع و اطاعت اور عہد کے پورا کرنے کا حکم تھا۔ اب آگے ان فرقوں کی مذمت ہے جنہوں نے عہد شکنیاں کیں اور اللہ تعالیٰ سے پیغمبروں کی معرفت عہد کر کے توڑے اور اس نقض عہد کی وجہ سے مختلف قسم کے عذابوں اور مختلف قسم کی سزائوں میں مبتلا ہوئے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top