Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو تمہارے آگے اور جو تمہارے پیچھے ہے اس سو ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
45 تا 47۔ مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو جب پہلی قوموں کے حال ڈرنے کو کہا جاتا اور ان کی گمراہی کے آئندہ کے نتیجہ کو انہیں یاد دلایا جاتا تھا تو بجائے راہ راست پر آنے کے یہ لوگ قرآن کی ان نصیحتوں کو ٹال دیتے تھے اسی طرح جب ان لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو خوشحال جو کیا ہے اس کے شکریہ میں غریب محتاج لوگوں کے ساتھ کچھ سلوک کیا کرو تو اس کے جواب میں یہ لوگ کہتے تھے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ غریب و محتاج رکھنا چاہتا ہے ان کے ساتھ سلوک کرنے کا تقاضا نادانی سے خالی نہیں ‘ صحیح قول یہی ہے کہ ان انتم الافی ضلال مبین مشرکین مکہ کا قول ہے اور مطلب اس کا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ غریب محتاجوں کے ساتھ سلوک کرنے کی نصیحت کو یہ لوگ نادانی ٹھہراتے تھے۔ ظاہر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیتوں میں واذاقیل لھم اتقوا کا کچھ جواب مشرکین کہ طرف سے نہیں ہے لیکن حقیقت میں واذاقیل لھم اتقوا اور ماتا تیھم من آیہ دونوں کے جواب کی جگہ الا کانو اعنھا معرضین کو رکھ کر یہ جتلایا گیا ہے کہ مشرکین کی حالت ہی گویا اس بات کا جواب ہے کہ جب ان کو کچھ نصیحت کی جاتی یا نصیحت کی کوئی نئی آیت اترتی تو وہ اس کو ٹال دیتے تھے اور کسی بات کا جواب دیتے تو الٹا دیتے تھے مثلا دنیا عالم اسباب میں خود تو تجارت کرتے تھے بیمار ہوتے تو علاج کرتے تھے اور مسلمانوں کو مسخر اپنے سے انہوں نے یہ جواب دیا کہ جن بھوکوں کی قسمت میں کھانا لکھا ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان کو کھانا کھلاے گا جس کو اللہ نے بھوکا رکھا ہم ان کو اپنا کھانا نہیں کھلا سکتے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے آدمی دوزخ میں جانے کے قابل کام کریں گے حدیث کے اس ٹکڑے کو آیتوں کی تفسیر میں دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کا ظہور ایسے لوگوں کی حالت سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جیسے لوگوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔
Top