Maarif-ul-Quran - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب کہئے ان کو بچو اس سے جو تمہارے سامنے آتا ہے اور جو پیچھے چھوڑتے ہو شاید کہ تم پر رحم ہو
خلاصہ تفسیر
اور جب ان لوگوں سے (دلائل توحید اور اس کے نہ ماننے پر عذاب کی وعید سنا کر) کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اس عذاب سے ڈرو جو تمہارے سامنے (یعنی دنیا میں آسکتا) ہے (جیسے اوپر کی (آیت) وان نشاء نغرقہم میں بیان فرمایا کہ کشتی کا صحیح سالم منزل پر پہنچانا اللہ کی قدرت و مشیت سے ہے، وہ چاہے تو غرق کرسکتا ہے۔ غرض دنیا میں غرق کا عذاب بھی آسکتا ہے اور دوسرے عذاب بھی) اور جو تمہارے (مرے) پیچھے (یعنی آخرت میں یقینی آنے والا) ہے، (مطلب یہ ہے کہ انکار توحید کی وجہ سے جو عذاب تم پر آنے والا ہے، خواہ صرف آخرت میں یا دنیا میں بھی، تم اس عذاب سے ڈرو اور ایمان لے آؤ) تاکہ تم پر رحمت کی جائے (تو وہ اس ترہیب اور عذاب سے ڈرانے کی ذرہ پرواہ نہیں کرتے) اور (اسی بات کے نہ ماننے کی کیا تخصیص ہے وہ تو ایسے سنگدل ہوگئے ہیں کہ) ان کے رب کی آیتوں میں سے کوئی آیت بھی ان کے پاس ایسی نہیں آتی جس سے یہ سرتابی نہ کرتے ہوں اور (جس طرح وعید عذاب سے وہ متاثر نہیں ہوتے اسی طرح ثواب اور جنت کی ترغیب بھی ان کو نافع نہیں ہوتی چنانچہ) جب (ان کو نعم الہیہ یاد دلا کر) ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں فقیروں مسکینوں پر) خرچ کرو تو (شرارت اور استہزاء کے طور پر) یہ کفار ان مسلمانوں سے (جنہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے کہا تھا) یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو کھانے کو دیں جن کو اگر خدا چاہے تو (بہت کچھ) کھانے کو دے دے، تم صریح غلطی میں (پڑے) ہو۔

معارف و مسائل
سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے مظاہر قدرت و حکمت، زمین، آسمان وغیرہ میں بیان کر کے خدا شناسی اور توحید کی دعوت دی گئی تھی، اور اس کے قبول کرنے پر جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کا وعدہ تھا، اور نہ ماننے پر عذاب شدید کی وعید۔ آیات مذکورہ اور ان کے بعد آنے والی آیات میں کفار مکہ جو اس کے بلاواسطہ مخاطب تھے ان کی کج روی کا بیان ہے، کہ نہ ان پر ترغیب ثواب کا اثر ہوتا ہے، نہ ترہیب عذاب کا۔
اس سلسلے میں کفار کے ساتھ مسلمانوں کے دو مکالمے ذکر کئے گئے ہیں کہ جب مسلمان ان سے یہ کہتے ہیں کہ تم اللہ کے عذاب سے ڈرو جو تمہارے سامنے دنیا میں آسکتا ہے، اور تمہارے مرنے کے بعد آخرت میں تو آنا ہی ہے، اگر تم نے اس عذاب سے ڈر کر ایمان قبول کرلیا، تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ مگر یہ سن کر بھی اعراض کرتے ہیں۔ الفاظ قرآن میں اس جگہ ان کے اعراض کا ذکر صراحةً اس آیت میں نہیں کیا، کیونکہ اگلی آیت میں جو اعراض کا ذکر ہے اس سے خودبخود یہاں پر بھی اعراض کرنا ثابت ہوجاتا ہے۔ اور نحوی قاعدہ سے اذا قیل لہم کی شرط کی جزاء اعرضوا محذوف ہے، جس کے محذوف ہونے پر اگلی آیت کے الفاظ شاہد ہیں کہ ان کے پاس ان کے رب کی جو بھی آیت آتی ہے وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔
اللہ کا رزق بعض کو بالواسطہ ملنے کی حکمت
دوسرا مکالمہ یہ ہے کہ جب مسلمان کفار کو غریبوں فقیروں کی امداد کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لئے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے تم اس میں سے محتاجوں کو دیا کرو، تو یہ لوگ بطور استہزاء کے کہتے ہیں کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ رازق سب مخلوق کا اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے ان کو نہیں دیا، تو ہم کیوں دیں تم جو ہمیں نصیحت کرتے ہو کہ ہم ان کو رزق دیا کریں یہ تو تمہاری گمراہی ہے کہ ہمیں رازق بنانا چاہتے ہو۔ یہ کفار بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا اقرار کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ولئن سالتہم من نزل من السماء ماء فاحیا بہ الارض من بعد موتہا لیقولن اللہ ”یعنی اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا، جس سے زمین میں حیات نباتی پیدا ہوئی، اور طرح طرح کے پھل پھول نکلے ؟ تو وہ اقرار کریں گے کہ یہ پانی اللہ ہی نے نازل کیا ہے“
اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی رازق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے، مگر مسلمانوں کے جواب میں بطور استہزاء کے یہ کہا کہ جب خدا تعالیٰ رازق ہے تو وہی غریبوں کو بھی دے گا ہم کیوں دیں۔ گویا ان احمقوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور غریبوں کو دینے کو اللہ کی رزاقیت کے منافی سمجھا۔ اور یہ نہ سمجھا کہ رازق مطلق کا قانون حکیمانہ یہ ہے کہ ایک انسان کو دے کر اس کو دوسروں کے لئے واسطہ بناتا ہے، اور بالواسطہ دوسروں کو دیتا ہے، اگرچہ وہ اس پر بھی یقینا قادر ہے کہ سب کو خود ہی بلاواسطہ رزق پہنچا دے، جیسا کہ حیوانات میں عموماً اس طرح ہر کیڑے مکوڑے اور درندے پرندے کو بلاواسطہ رزق ملتا ہے۔ ان میں کوئی مالدار کوئی غریب نہیں، کوئی کسی کو نہیں دیتا، سب کے سب قدرتی دستر خوان سے کھاتے ہیں۔ مگر انسانوں میں نظام معیشت اور باہمی تعاون و تناصر کی روح پیدا کرنے کے لئے رزق پہنچانے میں بعض کو بعض کے لئے واسطہ بناتا ہے، تاکہ خرچ کرنے والے کو ثواب ملے اور جس کو دیا جائے وہ اس کا احسان مند ہو۔ کیونکہ انسانوں کا باہمی تعاون و تناصر جس پر سارا نظام عالم قائم ہے، یہ جبھی باقی رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک کو دوسرے کی حاجت ہو، غریب کو مالدار کے پیسے کی حاجت ہے اور مالدار کو غریب کی محنت کی ضرورت، ان میں سے کوئی کسی سے بےنیاز نہیں۔ اور غور کریں تو کسی کا کسی پر احسان بھی نہیں، ہر شخص جو کچھ کسی کو دیتا ہے وہ اپنے مطلب کے لئے دیتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ مسلمانوں نے کفار کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم کس بنا پر دیا جبکہ ان کا ایمان ہی اللہ پر نہیں اور بتصریح فقہاء وہ احکام فرعیہ کے مخاطب بھی نہیں۔ سو اس کا جواب واضح ہے کہ مسلمانوں کا یہ کہنا کسی تشریعی حکم کی تعمیل کرانے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی اور شرافت کے مروجہ اصول کی بنا پر تھا۔
Top