Maarif-ul-Quran - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو تمہارے آگے اور جو تمہارے پیچھے ہے اس سو ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
کفار کی سرکشی اور سنگدلی کا بیان قال اللہ تعالیٰ واذا قیل لہم اتقوا ما بین ایدیکم وما خلفکم۔۔۔ الی۔۔۔ ان انتم الا فی ضلل مبین۔ (ربط) گذشتہ آیات میں دلائل قدرت کو اور اپنی نعمتوں کو ذکر کیا کہ کفر اور شرک سے باز آجائیں اور منعم حقیقی کی طرف متوجہ ہوں اب آئندہ آیات میں کفار کے عناد اور ان کی سنگدلی کو بیان کرتے ہیں کہ بڑے ہی سرکش ہیں کتنے ہی دلائل بیان کرو مگر ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا اپنی جہالت اور ضلالت پر سختی سے جمے ہوئے ہیں نہ آگے کی فکر ہے نہ پیچھے کی فکر ہے نہ پچھلے گناہوں کا خیال ہے اور نہ آئندہ گناہوں کی بد انجامی سے خطرہ ہے نوبت بایں جا رسید کہ ضد اور عناد میں ان چیزوں سے بھی اعراض کرتے ہیں کہ جو عقلا عالم کے نزدیک بلکہ ان کے نزدیک بھی مسلم اور مستحسن اور قابل فخر ہیں مثلا جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں کچھ خرچ کرو (جو ان کے نزدیک بھی کارخیر ہے) تو بطور تمسخر یہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں خرچ کریں خدا خود قادر ہے وہ صاحب احتیاج کی حاجت کو پورا کرسکتا ہے تو جب خدا ہی نے ہمیں دیا تو ہم کیوں دیں مگر یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ بلا واسطہ کسی کو رزق نہیں دیتے یہ سارا عالم، عالم اسباب ہے سارا عالم اسباب ووسائل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اسباب وسائل کو خدا تعالیٰ نے اپنی داد ودہش کا روپوش اور واسطہ اور ذریعہ بنایا ہے اللہ کی تقدیر اور اس کی مشیت کا کسی کا علم نہیں اسباب کے پردہ میں اس کی مشیت کا ظہور ہوتا ہے زمین سے غلہ پیدا ہوتا ہے دراصل اگانے والا خدا تعالیٰ ہے مگر زمین اس کی نعمت رزق کا واسطہ ہے اسی طرح سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ فقرا کو دیا کریں اصل دینے والا اللہ تعالیٰ ہے اور اغنیا کے ہاتھ اللہ کی عطا کا واسطہ اور ذریعہ ہیں ان کے واسطہ سے فقرا کو رزق پہنچتا ہے آخر ان دولت مندوں کو جو رزق مل رہا ہے وہ بھی اسباب ووسائل کے واسطہ سے مل رہا ہے بلا واسطہ خدا تعالیٰ ان کو رزق نہیں دے رہا ہے اور آسمان سے کوئی خوان ان کے گھر میں نہیں اتر رہا ہے بادشاہ بعض دفعہ خزانچی سے دلواتا ہے دونوں صورتوں میں وہ بادشاہ ہی کی عطا ہے خزانچی عطا شاہی کا ایک واسطہ ہے یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو مختلف قسم پر پیدا کیا ہے کسی کو امیر اور کسی فقیر اور امیر کو یہ حکم دیا کہ ہماری عطا کردہ دولت میں سے کچھ حصہ فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کرے مختلف قسم کی مخلوق پیدا کرنے سے اللہ کا مقصود بندوں کا امتحان ہے کہ کون بخل کرتا ہے اور کون اس کی دی ہوئی نعمت اور دولت کو اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے پس تعجب ہے کہ ان لوگوں میں نہ کوئی تقویٰ ہے اور نہ خوف خدا ہے کہ حکم خداوندی پر چلیں اور نہ مخلوق پر رحم ہے بڑے ہی سنگدل ہیں اور اپنے بخل کے لئے خدا کی مشیت کو بہانہ بناتے ہیں تاکہ فقیروں کو دے کر اپنے مزوں اور چٹخاروں اور گلچھروں میں فرق نہ آئے۔ خدا نے جو امیروں کو فقیروں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے سو اس کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے بندو ! میں نے تم کو جو مال و دولت دیا ہے اس کا اصل مالک میں ہوں تم کو حکم دیتا ہوں کہ تم میری اسی دی ہوئی دولت کا کچھ حصہ میرے غریب بندوں کی مدد میں خرچ کرو جس طرح میں تمہاری ذات کا مالک ہوں اسی طرح تمہارے پاس جو دولت ہے اس کا مالک بھی میں ہی ہوں اور یہ تمام مال و دولت جو تمہارے ہاتھ میں ہے وہ سب میری امانت ہے جب چاہوں واپس لے سکتا ہوں میں نے ہی تو دیا ہے میرے حکم کے مطابق خرچ کرو میری مشیت کو بہانہ نہ بناؤ میں نے اپنی حکمت سے کسی کو امیر بنایا اور کسی کو فقیر بنایا تم کون ہو جو ہماری مشیت میں دخل دو ہم نے جو حکم دیا اس کی تعمیل کرو تم ہمارے بندے ہو اور ہم تمہاری جان ومال کے مالک ہیں ہمارا حکم ہے کہ ہماری دی ہوئی دولت میں سے تم فقیروں کی امداد کرو ہماری مشیت یہ ہے کہ ہم کسی حکمت اور مصلحت سے بعض بندوں کو بعض بندوں کے ہاتھ سے رزق پہنچانا چاہتے ہیں۔ اب آئندہ آیات میں ان کی سنگدلی کو بیان کرتے ہیں کہ کیسے ہی خطروں سے ان کو ڈرایا جائے تو ڈرنا تو کیا ان باتوں کو سنتے تک نہیں چناچہ فرماتے ہیں اور جب ان سنگدلوں سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے ڈرو جو تمہارے ہاتھوں کے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے یعنی دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرو یا اس عذاب سے ڈرو جو تم سے پہلے تکذیب کرنے والے گروہوں پر آچکا ہے اور اس عذاب سے جو تمہارے پیچھے یعنی آخرت میں آنے والا ہے یعنی ایمان لے آؤ شاید تم پر رحم ہو تو ڈرنا (ف 1) تو کیسا ان باتوں کو سنتے تک نہیں اعراض کرتے ہیں اور التفات بھی نہیں کرتے اور اس نصیحت کی کوئی تخصیص نہیں وہ تو ایسے سنگدل ہیں کہ کوئی نشانی اللہ کی نشانیوں میں سے ان کے پاس نہیں آئی مگر وہ اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس کی طرف التفات نہیں کرتے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تم کو جو روزی دی ہے اس میں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں اس کے محتاج بندوں پر خرچ کردو تو یہ کافر اہل ایمان سے بطور طعن و استہزا کہتے ہیں ہم کیوں ایسے شخص کو کھانا دیں کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ خود اس کو کھانا دے دیتا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان کافروں کو کچھ خیروخیرات کرنے کو کہنے جو ان کے نزدیک بھی امر مستحسن ہے اور وہ خود اس پر فخر کرتے ہیں تو بطور طعن مسلمانوں سے یہ کہتے کہ تم یہ کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ ہی سب کو روزی دیتا ہے۔ پس جب خدا نے ان کو روزی نہیں دی تو ہم کیوں دیں اگر خدا کو دینا ہوتا تو وہ خود دے دیتا ہم تو خدا کی مشیت پر چلتے ہیں جسے خدا نے کھانے کو نہیں دیا ہم بھی اس کو نہیں دیتے اے گروہ مومنین ! تم صریح گمراہی میں کہ تم ہم کو مشیت الٰہی کے خلاف کرنے کا حکم دیتے ہو۔ 1 اشارہ اس طرف ہے کہ واذا قیل کی جزا محذوف ہے کما قال القرطبی والجواب محذوف والتقدیر اذا قیل لہم ذلک اعرضوا ولیلۃ قولہ بعد (وما تاتیہم من ایۃ من ایت ربہم الا کانوا عنھا معرضین) فاکتفی بھذا عن ذالک (تفسیر قرطبی ص 36 ج 15) اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ان انتم الا فی ضلل مبین کافروں کے قول کا تتمہ نہیں بلکہ اللہ عزوجل کا قول ہے جس سے کافروں کے شبہ اور وسوسہ کا رد ہے اور اللہ کی طرف سے کفار کو خطاب ہے کہ تم کیسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو کسی کو یہ علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ فلانے کے حق میں کیا چاہتا ہے۔ اپنے بخل اور خست کے لئے اور نیک کام نہ کرنے کے لئے خدا کی تقدیر اور مشیت کو بہانہ بنانا یہ صریح گمراہی ہے مثلاً اگر ان کا کوئی بچہ بھوکا ہو تو اسے بھی کھانا نہ دینا چاہئے اور یہی کہہ دینا چاہئے کہ اگر خدا اسے کھانا دینا چاہتا تو خود کھلا دیتا سب کو معلوم ہے کہ اللہ نے ساری مخلوق کو یکساں نہیں بنایا بعضوں کو مالدار اور بعضوں کو فقیر بنایا تاکہ فقیر صبر کریں اور امیر شکر کریں اور امیروں کو حکم دیا کہ ہماری دی ہوئی دولت میں سے محتاجوں کی مدد کریں پس خدا کی مشیت اور تقدیر کو بہانہ بنانا اور خیروخیرات کے بارے میں خدا نے جو حکم دیا ہے اس کو چھوڑدینا یہ محض خطا اور صریح ظلم وجفا ہے اور کھلی گمراہی ہے۔ (نظم) درویش راخدا بتوانگر حوالہ کرو تاکار او بساز دوفارغ کند دلش ازروئے بخل گر نشود ملتفت بدو فردا بود ندامت واندوہ حاصلش قیل ان ابابکر الصدیق ؓ کان یطعم مساکین المسلمین فلقیہ ابو جھل فقال یا ابا بکر اتزعم ان اللہ قادر علی اطعام ھؤلاء قال نعم قال فما بالہ لم یطعمہم قال ابتلی قوما بالفقر وقوما بالغنی وامر الفقراء بالصبر وامر الاغنیاء بالاعطاء فقال واللہ یا ابا بکر ما انت الا فی ضلال اتزعم ان اللہ قادر علی اطعام ھولاء وھو لا یطعمہم ثم تطعمہم انت فنزلت ھذہ الایۃ ونزل قولہ تعالیٰ فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی الایات (تفسیر قرطبی ص 37 ج 15 ) ۔ روایت کیا گیا کہ صدیق اکبر ؓ مسلمان مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اتفاق سے ابوجہل آپ کو مل گیا اور کہنے لگا کہ اے ابوبکر صدیق ؓ کیا تمہارا یہ زعم ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کھانا کھلانے پر قادر ہے۔ ابوبکر ؓ نے کہا ہاں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے کھلانے پر قادر ہے ابو جہل نے کہا پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ نے ان کو بھوکا رکھا اور کھانے کو نہیں دیا ابوبکر صدیق ؓ نے کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے امتحان اور آزمائش ہے کسی قوم کو اللہ نے فقر سے آزمایا اور کسی قوم کو اللہ نے مالداری سے آزمایا اور فقرا کو صبر کو حکم دیا اور دولت مندوں کو شکر اور جو دو کرم کا حکم دیا ابو جہل نے کہا اے ابوبکر ؓ خدا کی قسم تو خالص گمراہی میں ہے کیا تیرا یہ گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان فقیروں کے کھانا کھلانے پر قادر ہے اور باوجود قدرت کے پھر ان کو کھانا نہیں دیتا اور پھر تو ان کو کھانا کھلاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ واذا قیل لہم انفقوا۔۔۔ الی قولہ۔۔۔۔ ان انتم الا فی ضلال مبین اور یہ آیت نازل ہوئی فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی الی اخر الایات۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو تندرستی اور توانائی عطا کی اور کسی کو بیماری اور لاچاری اور اسی طرح امیری دی اور کسی کو فقیری اور کسی کو حسن و جمال عطا کیا اور کسی کو سیام فام بنایا یہ اختلاف اور تفاوت اور تنوع معاذ اللہ کسی بخل اور خست پر مبنی نہیں بلکہ حکمت اور مصلحت پر ہے خداوند ذوالجلالین کے خزانہ میں کسی چیز کی کمی نہیں اور اس کے جو دو کرم کی انتہا نہیں اس نے جس کسی کو فقیر اور نادار بنایا وہ حکمت اور مصلحت پر مبنی ہے بخلاف ان لوگوں کے جو فقرا اور مساکین کے نہ دینے کے لئے خدا کی مشیت کا حوالہ دیتے ہیں یہ سراسر بخل اور خست پر مبنی ہے اور صریح جہالت اور ضلالت اور حماقت ہے اور فقرا اور مساکین کی امداد کے بارے میں ان لوگوں کا یہ کہنا کہ اگر اللہ چاہتا تو خود ان کو کھلا دیتا یہ سب ان کی سنگدلی اور بےرحمی کی دلیل ہے یہ تمام عالم خیرو شر کا اور پاک اور ناپاک کا مجموعہ ہے جس میں عطر اور گلاب بھی ہے اور پاخانہ اور پیشاب بھی ہے سب خدا ہی کی مشیت سے ہے اس نے پاک اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال کا حکم اور ناپاک اور گندی چیزوں کے استعمال کو منع فرمایا بندہ کا کام یہ ہے کہ خدا کے حکم پر چلے نہ کہ اس کی قدرت اور مشیت کو اپنے برے فعل کے لئے بہانہ بنائے۔
Top