Al-Quran-al-Kareem - Yaseen : 45
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ وَ مَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اتَّقُوْا : تم ڈرو مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : تمہارے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَكُمْ : تمہارے پیچھے لَعَلَّكُمْ : شاید تم تُرْحَمُوْنَ : پر رحم کیا جائے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے بچو اس (عذاب) سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : کائنات میں پھیلی ہوئی توحید اور آخرت کی نشانیوں اور دلیلوں کے ذکر کے بعد، جن سے مشرکین نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اب نصیحت کرنے والوں کے ساتھ ان کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے خیر خواہی کی ہر بات سے بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ ”مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ“ سے مراد پہلے گناہ اور ”وَمَا خَلْفَكُمْ“ سے مراد بعد کے گناہ ہیں، یا ”مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ“ سے مراد دنیا کا عذاب اور ”وَمَا خَلْفَكُمْ“ سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ یعنی جب ان سے ان گناہوں سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے جو وہ کرچکے ہیں کہ ان پر نادم ہوجاؤ، ان سے توبہ کرلو اور آئندہ کے لیے ان سے بچ جاؤ، یا جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے بچ جاؤ جو تمہارے گناہوں کی پاداش میں تم پر دنیا میں آسکتا ہے اور اس سے بھی جو آخرت میں آ رہا ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس جملے کا جواب یہ ہے ”أَعْرَضُوْا عَنْہُ“ یعنی وہ اس نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں، مگر یہاں یہ جواب حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ یہ اگلی آیت سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔
Top