بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
(65:1) یایھا النبی اذا طلقتم النسائ : یایھا النبی میں صرف نبی کریم ﷺ کو نداء کی گئی ہے لیکن چونکہ آپ پیشوا، امت ہیں اس لئے آپ کو نداء کرنا ساری امت کو نداء کرنا ہے گویا حکم طلاق کے مخاطب صرف آپ ہی نہیں ہیں بلکہ آپ کے ساتھ ساری امر کو بھی خطاب ہے جیسا کہ طلقتم میں صیغہ جمع مذکر حاضر ظاہر کرتا ہے۔ اذا ظرف زمان ہے شرطیہ آیا ہے :۔ طقلتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تطلیق (تفعیل) مصدر۔ جب طلاق دو ۔ طلاق دینے سے مراد طلاق دینے کا ارادہ کرنا ہے ارادہ فعل کی تعبیر فعل سے کی : جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ واذا قرات القران فاستعذ باللہ (16:98) یعنی جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو تو پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھ لیا کرو۔ النساء میں الف لام عہد کا ہے۔ تمہاری عورتیں، تمہاری اپنی عورتیں۔ طلقتم کا مفعول ہے۔ یہ جملہ شرط ہے : ترجمہ :۔ اے پیغمبر ! (آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو ۔ یا طلاق دینے لگو : (یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔ فطلقوھن لعدتھن یہ جملہ جواب شرط ہےجواب شرط کے لئے۔ طلقوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تطلیق (تفعیل) مصدر ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب اس کا مرجع النساء ہے۔ لعدتھن : میں لام عاقبت کا ہے یعنی عورتوں کو طلاق دو تو اس کے نتیجے میں عدت لازم ہے۔ عدتھن مضاف مضاف الیہ ان کی عدت۔ کہ طلاق کے بعد وہ عدتشروع کریں۔ یعنی ایسے موقعہ پر طلاق دو کہ اس موقعہ سے لے کر وہ اپنی عدت شمار کرسکیں۔ (متفقہ صورت یہ ہے کہ حیض سے پہلے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے) ۔ عدۃ وعد بروزن فعلۃ بمعنی معدود ہے جیسے کہ طحن بمعنی مطحون۔ اور اسی بناء پر انسانوں کی گنی ہوئی جماعت کو عدۃ کہتے ہیں اور عورت کی عدت بھی اسی معنی میں ہے یعنی اس کے گنے ہوئے دن ۔ عورت کی عدت سے مراد وہ ایام کہ جن کے گزر جانے پر اس سے نکاح کرنا حلال ہوجاتا ہے۔ واحصوا العدۃ : واؤ عاطفہ۔ احصوا امر جمع مذکر حاضر ہے۔ احصاء (افعال) مصدر سے بمعنی گننا۔ شمار کرنا۔ العدۃ مفعول ہے فعل احصوا کا۔ اور عدت شمار کرتے رہو (ایسا نہ ہو کہ عدت کے بعد بھی تم رجوع کرلو یا عدت گزرنے سے پہلے عورت کسی اور مرد سے نکاح کرلے کیونکہ یہ دونوں امرنا جائز ہیں) ۔ واتقوا اللہ ربکم ۔ واؤ عاطفہ اتقوا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اتقاء (افتعال) مصدر۔ تم ڈرو۔ تم ڈرتے رہو اللہ، اللہ سے۔ ربکم : ای الذی ربکم : جو کہ تمہارا رب (پروردگار) ہے (یعنی عدت کو طول دینے اور عورتوں کو ضرر پہنچانے کے لئے ایسا نہ کرو) اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے۔ اللہ صفت ربوبیت کو امر کی تاکید میں اور اتقاء کے وجوب میں مبالغہ کے لئے لایا گیا ہے۔ لا تخرجوھن فعل نہی جمع مذکر حاضر اخراج (افعال) مصدر۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ اس کا مرجع مطلقہ عورتیں ہیں۔ مت نکالو ان کو (اپنے گھروں سے) من بیوتھن من حرف جار۔ بیوتھن مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور۔ ان کے (اپنے) گھروں سے۔ گھروں سے مراد وہ گھر ہیں جن میں طلاق کے وقت وہ عورتیں رہتی ہوں۔ ولایخرجن۔ واؤ عاطفہ لایخرجن فعل نہی کا صیغہ جمع مؤنث غائب اور نہ وہ عورتیں (خود) باہر نکلیں۔ الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ۔ الا حرف استثناء ، مستثنیٰ منہ محذوف ہے لہٰذا یہ استثناء مفرغ ہے۔ یعنی ان کو اپنے گھروں سے کسی وقت باہر نہ نکالو ! ہاں اگر وہ کھلی ہوئی بےحیائی کا کام کریں (تو نکال دو ) ۔ ان مصدریہ ہے یاتین مضارع کا صیغیہ جمع مؤنث غائب ہے ایتاب (باب ضرب) مصدر ب حرف جار فاحشۃ مبینۃ موصوف و صفت مل کر مفعول یاتین کا مگر یہ کہ وہ کریں کھلی ہوئی بےحیائی کا کام۔ فاحشۃ بےحیائی۔ زنا۔ بدکاری۔ فحش سے اسم مصدر۔ موصوف مبینۃ اسم فاعل ، واحد مؤنث۔ صفت۔ بمعنی تفصیل کرنے والی۔ بہت زیادہ روشن ظاہر۔ عیاں۔ وتلک : واؤ عاطفہ۔ تلک اسم اشارہ بعید واحد مؤنث۔ بمعنی احکام مذکورہ بالا۔ ومن یتعد حدود اللہ۔ واؤ عاطفہ۔ من شرطیہ، یتعد مضارع واحد مذکر غائب۔ تعدی (تفعل) مصدر عدو مادۃ۔ اور جو حدود الٰہیہ سے تجاوز کرے گا۔ فقد ظلم نفسہ۔ جملہ جواب شرط ۔ تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ لاتدری۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر۔ دری (باب ضرب) مصدر۔ درایۃ بھی مصدر ہے) دری مادہ۔ تو نہیں جانتا۔ یہاں خطاب نبی کریم ﷺ سے بھی ہوسکتا ہے اور ہر مخاطب سے بھی۔ لاتدری صیغہ واحد مؤنث بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں اس کا فاعل نفس (جان) ہوگا۔ لعل : حرف مشبہ بالفعل ہے ترجی (امید یا خوف پر) دلالت کرنے کے لئے اس کی وضع ہے۔ اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے۔ بمعنی امید کہ۔ شاید کہ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو 11:12 متذکرۃ الصدر۔ یحدث مضارع واحد مذکر غائب احداث (افعال) مصدر۔ وہ پیدا کر دے۔ بعد ذلک اس کے بعد ۔ یعنی طلاق دینے کے بعد۔ امرا : اس کی جمع امور آتی ہے ۔ بات۔ نئی بات، امرا۔ لاتدری کا مفعول ہے۔ یعنی اے مخاطب تو اس امر کو نہیں جانتا جو اللہ تعالیٰ اس کے بعد پیدا کرے گا۔ یہ جملہ واحصوا العدۃ ولا تخرجوھن کی علت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرد کے دل میں عورت سے نفرت ہے وہ اس کو اپنے سے جدا کر رہا ہے لیکن ممکن ہے کہ شوہر کے دل میں اللہ تعالیٰ عورت کی محبت پیدا کردے اور وہ ملاپ کا خواستگار ہوجائے (اس لئے عدت کی پوری گنتی محفوظ رکھو)
Top