بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
احکام طلاق وعدت نفیقہ وسکنی وتاکید تقوی وتنبیہ برتجاوز از حدود خداوندی : قال اللہ تعالیٰ : (آیت) ” یایھا النبی اذا طلقتم النسآء ....... الی ....... لکل شیء قدرا “۔ (ربط) گزشتہ چند سورتوں میں عقائد و ایمانیات کا ذکر تھا، اللہ رب العزت کی عظمت و پاکی بیان کی گئی اور اس کی ذات وصفات کا مختلف اسلوبوں سے تعارف کرایا گیا جس کے ساتھ کچھ احکام عبادات سے بھی متعلق بیان کیئے گئے تو اب اس سورت میں معاملات ومعاشرت کے بعض اہم اصول و احکام ذکر فرمائے جارہے ہیں، اور اس میں شبہ نہیں کہ خاندانی منازعت اور جھگڑے بسا اوقات طلاق کی نوبت تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح کی خصومت اور جھگڑے انسان کے دین اور ایمان کو تباہ وبرباد کردینے والی چیز ہیں اس بناء پر بالخصوص اس سورة مبارکہ میں احکام طلاق وعدت اہمیت سے بیان کئے گئے تاکہ معاشرہ ان برائیوں سے پاک رہے فرمایا۔ اے ہمارے نبی ﷺ ! جب تم اور تمہاری امت کے لوگ طلاق دو اپنی عورتوں کو تو طلاق دیا کرو انکو۔ 1 حاشیہ 1 (عدت طلاق کا عنوان دو معنی پر مشتمل ہے ایک طلاق دینے کا وقت یعنی جس وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے طلاق دینے کی اجازت دی ہے نہ کہ ایسا وقت کہ اس میں طلاق دینے سے منع کیا گیا اور وہ زمانہ حیض ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایام حیض میں طلاق دے، ایام حیض میں طلاق دینا خلاف سنت اور معصیت ہے (جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے ایام طہر میں طلاق دینے کا زمانہ اس وجہ سے متعین کیا گیا کہ یہ ظاہر ہوجائے کہ واقعۃ طلاق مجبوری ہی کی بناء پر دی گئی یہ نہیں کہ کوئی وقتی جذبہ مثلا ایام حیض کا ہونا اس میں دخیل ومؤثر ہے، یہ تو عدت کا مفہوم ہوا طلاق دینے کے لحاظ سے دوسرا مفہوم عدت کا وہ زمانہ عدت ہے جس کو سورة بقرہ میں بیان فرمایا گیا (آیت) ” والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء ٓ “۔ وہ عدت طلاق حضرات حنفیہ کے نزدیک تین حیض ہیں تو اس صورت میں ان تین حیضوں یعنی عدت طلاق کا احصاء (احاطہ و تحفظ) اسی صورت سے ہوسکتا ہے کہ حیض سے پہلے طہر میں طلاق دی جائے تب ہی تو وہ پورا شمار ہوسکتا ہے ورنہ اگر حیض میں طلاق دی گئی تو تین حیض کی تحدید واحصاء ممکن نہ ہوسکے گا، کیونکہ اگر اس حیض کو بھی شمار کیا گیا تو لامحالہ تین مکمل حیض سے کم زمانہ رہ جائے گا اور اگر اس کے علاوہ تین حیض مزید شمار کیے گئے تو یقیناً عدت تین حیض سے زیادہ ہوجائیگی تو اس طرح عدت کی حفاظت صرف اسی صورت سے ہوگی کہ طلاق طہر میں دی جائے اور یہی طلاق سنی ہے تو (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ میں اگر لام کو ظرفیت پر محمول کرو تو ترجمہ یہ ہوگا “ طلاق دو ان عورتوں کو طلاق دینے کے وقت اور اگر لام کو اجلیہ یعنی بیان وجہ کے معنی پر محمول کرو تو ترجمہ اس طرح کیا جائے گا طلاق دو ان عورتوں کو (طہر میں) عدت میں احاطہ اور اس کے شمار کی وجہ سے (تاکہ وہ پورے تین حیض ہوسکیں) شریعت کے نزدیک طلاق انتہائی مبغوض اور قابل نفرت چیز ہے اس وجہ سے اس پر حدود اور قیود ایسی نازل کی گئیں کہ حتے الامکان اس کی نوبت نہ آسکے۔ احادیث میں ہے کہ ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے اور اپنی ذریت کو دنیا کے گمراہ کرنے کے لیے بھیجتا ہے، جب اس کی ذریت دنیا کو مختلف طریقوں سے گمراہ کرکے واپس آتی ہے اور ہر ایک ابلیس اعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرتا ہے تو ہر ایک کی کاروائی سن کر ابلیس کوئی خاص خوشی کا اظہار نہیں کرتا، اخیر میں ایک شطونگڑا جو اپنے بارے میں یہ سمجھ کر ایک کنارہ پر تھا کہ میں نے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا نہ چوری کرائی نہ قتل وبدکاری جب اس نے اخیر میں یہ کہا کہ میں ایک عورت اور مرد کے درمیان پڑگیا ان میں لڑائی کرائی حتے کہ طلاق تک نوبت پہنچا دی تو اس سے فارغ ہو کر اب آیا ہوں تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ابلیس اعظم اس شیطان کو فرط مسرت سے اپنے ساتھ چمٹا لے گا اور کہے گا ” نعم انت “ کہ تو بہت اچھا ہے یا اگر اس لفظ کو ’ نعم انت پڑھیں تو معنی یہ کہ ہاں بس شیطان تو ہی ہے۔ 12) ان کی عدت پر اور اس وقت پر جو طلاق دینے کا وقت متعین کیا گیا ہے اور احاطہ کرو عدت کا، اس کی حفاظت کرتے ہوئے اور اس کو مکمل طور پر گنتی میں پورا کرتے ہوئے۔ اور اسے مسلما نو ! ڈرو اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے طلاق دینے میں اور عدت کے معاملہ میں اس لیے نہ تو حیض میں طلاق دو اور نہ تین طلاقیں بیک وقت دو اللہ سے ڈرتے ہوئے احکام شریعت کی پابندی کرو اور نہ نکالو تم ان مطلقہ عورتوں کو اپنے گھروں سے کہ ان پر زیادتی کرو یا ان کے نان ونفقہ کی تکمیل نہ کرو جس کے باعث وہ گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوں اور ظاہر ہے کہ ان کے گھر خاوند ہی کے گھر ہیں اور عدت چونکہ احکام نکاح سے متعلق ایک حکم ہے اسی وجہ سے زمانہ عدت میں عورت دوسرا نکاح نہیں کرسکتی اور نہیں نکلیں گی یہ عورتیں اپنے گھروں سے مگر یہ کہ یہ ارتکاب کریں گی ایک کھلی بےحیائی کا، کیونکہ ایام عدت میں عورت پر لازم ہے کہ گھر ہی میں رہے لہذا اس کا باہر نکلنا خدا کے صریح حکم کی نافرمانی کرنا ہوگا، جو ایک کھلی ہوئی بےحیائی ہے، اور یہ بھی ہے کہ سکنی محض حق العبد نہیں کہ جس طرح انسان اپنی مرضی سے اپنے حقوق ساقط کرسکتا ہے قرضہ معاف کرسکتا ہے اسی طرح کوئی عورت اپنی مرضی سے یہ سمجھے کہ میرے واسطے گنجائش ہے کہ میں اپنا حق ساقط کردوں نہیں بلکہ یہ حق اللہ ہی کا ہے اور اس کو نظر انداز کردینا بلاشبہ اللہ کی معصیت ونافرمانی بھی ہے۔ 1 حاشیہ (یہ ترجمہ اور توضیح قاضی ابوبکر جصاص (رح) کی تحقیق کی مطابق ہے بعض مفسرین اس لفظ فاحشہ کو بدکاری وغیرہ جیسے معنی پر محمول کرکے یہ تاویل کرتے ہیں کہ باعتبارامکان یہ کہا گیا کہ ممکن ہے کہ باہر کی آمد ورفت اگر آزاد ہو اور ادھر یہ کہ خاوند موجود نہیں مطلقہ ہوچکی ہے تو اس امر کا امکان ہے تو یأتین کا ذکر محض امکان واحتمال کی تقدیر پر ہے لیکن اس معنی پر محمول کرنا تکلف سے خالی نہیں اسی وجہ سے پہلے ہی مفہوم کو ترجمہ کے توضیحی کلمات میں متعین کردیا گیا بعض مفسرین کی رائے ہے کہ (آیت) ” الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ “۔ کا استثناء (آیت) ” ولا یخرجن “۔ کے مضمون سے ہے اور فاحشہ سے عرفی فاحشہ مراد نہیں بلکہ بدزبانی، مزاج کی تیزی اور لڑائی جھگڑا مراد ہے جیسا کہ بعض عورتوں کا مزاج ہوتا ہے تو اس تقدیر پر معنی یہ ہوں گے وہ عورتیں گھروں سے باہر نہ نکلیں بلکہ ان کا یہ استحقاق ہوگا اور ان کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ اپنے خاوند ہی کے گھر میں عدت گزاری ہاں البتہ اگر وہ بدکلامی اور بدمزاجی کا ارتکاب کریں اور لڑائی جھگرا کرنے لگیں تو پھر ان کے واسطے سکنی اور ایام عدت میں رہائش کا مسئلہ زوج کے ذمہ ضروری نہ رے گا یہ تو اسی صورت میں ہے کہ مطلقہ عورت کوئی لڑائی جھگڑا یا بدکلامی اور بداخلاقی کی مرتکب نہ ہوں تو اب، اتیان بفاحشۃ “ کی ہی صورت ہوگی، 12) اور یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں جن کی پابندی لازم ہے اور جو شخص اللہ کی باندھی ہوئی حدوں سے آگے بڑھا تو بیشک اس نے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کیا وہ نہیں جانتا۔ 2 حاشیہ 2 (لاتدری کو صیغہ مخاطب پر محمول کرنا مناسب نہیں بلکہ لاتدری کی ضمیر نفس کی طرف راجع ہے اور مراد یہ ہے کہ کوئی بھی ظالم نفس نہیں جانتا ہے کہ اس کے بعد اس کے واسطے کیا صورت ظاہر ہونے والی ہے یہ تو قضا وقدرت کا طے کردہ نظام ہے، تفسیر معالم التننزیل اور تفسیر خازن میں ”۔ لعل اللہ یحدث بعد ذلک امر ا “۔ کی تفسیر میں یہ بیان کیا۔ ای لووقع فی قلب الزوج مراجع تھا بعد الطلقۃ والطلقتین وھذا یدل علی ان المستحب ان یفرق الطلاق الثلث ولا یوقع الثلث دفعۃ واحدۃ حتی اذا نادم امکنہ المراجعۃ، یعنی اس کے بعد اللہ کی طرف سے کسی امر کے پیدا ہونے کی توقع کی صورت یہ ہے کہ اللہ اس کے دل میں اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کا خیال ڈال دے جب کہ وہ ایک یا دو طلاق دے چکا ہے اور یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ مستحب یہی ہے کہ تین طلاقیں ایک دفعہ نہ دی جائیں بلکہ ان کو متفرق اوقات میں ایک ایک کرکے دیا جائے، تاکہ وقتی جذبات کے دور ہونے پر اگر وہ نادم ہو تو رجوع کرنا ممکن رہے۔ امام بغوی (رح) کی اس تفسیر سے اور قرآن کریم کے الفاظ کی صریح دلالت سے یہ ظاہر ہوا کہ تین طلاقیں دینے سئے تین واقع ہوتی ہیں۔ اگر تین طلاقیں دینے سے ایک ہی واقع ہوتی تو طلاق رجعی کی طرح اس سے بھی رجوع ہوجاتا اور اس صورت میں ندامت اور پچھتانے کا کوئی مسئلہ نہ پیدا ہوتا بہرکیف تین طلاقوں کے بعد کا قطعی طور پر شوہر پر حرام ہوجانا ایک اجماعی مسئلہ ہے جس پر کل صحابہ اور ائمہ تابعین کا اتفاق ہے اور یہ کہ جب تک کسی اور سے نکاح کر کے مطلقہ نہ ہوجائے یا ایسی صورت ہو کہ اس مطلقہ ثلثہ نے جب شخص سے نکاح کیا اس کی وفات ہوجائے تو پھر عدت کے بعد پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح ہے اور اس کی کی تفصیل سورة بقرہ میں گزر چکی۔ 12) جبکہ وہ کسی داعیہ اور تقاضہ کے باعث اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ رہا ہے شاید اللہ اس کے واسطے اس طلاق دے دینے کے بعد کوئی اور صورت پیدا کردے اس لیے یہ بات درست نہیں کہ حدود خداوندی کی خلاف ورزی کرے بلکہ اس کو چاہئے کہ احکام شریعت کی اتباع کرے خواہ اس میں کسی بھی قسم کی تکلیف کا وقتی طور پر سامنا کرنا پڑے اور اس کے ساتھ انتظار کرے اللہ کی طرف سے پیدا ہونے والی کسی اور صورت کا پھر جب وہ عورتیں پہنچ جائیں اپنی مدت کو ایام عدت پورے ہوجانے کی وجہ سے تو رکھ لو ان کو بھلے طریقہ سے اگر طلاق رجعی ہونے کی صورت میں ان سے رجوع کرنا چاہتے ہو۔ یا ان کو چھوڑ دو بہتر طریقہ سے کہ نہ روکنے میں ستانے کی صورت ہو اور نہ چھوڑنے میں ظلم وتعدی ہو اور گواہ بنالیا کرو و عادل شخصوں کو اپنے میں سے تاکہ کسی قسم کی تہمت یازیادتی کا امکان نہ رہے، رجوع کرنا ہو تو اس پر گواہ بنالو جس کے بعد اس مطلقہ رجعیہ کو رکھنے پر کوئی شخص معترج نہ ہو اور اگر بائنہ کردیا تو اس پر گواہ بنالو تاکہ عورت عدت کے بعد جب دوسرا نکاح کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہ پیش آئے۔ اور صحیح قائم رکھو شہادت کو اللہ کے واسطے اس لیے گواہ جب واقعہ کی گواہی دیں تو صداقت اور صفائی سے اصل واقعہ پیش کریں اے مسلمانو ! یہ ہے بات جس کے ذریعے نصیحت کی جارہی ہے ہر اس شخص کو جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ پیدا کردے گا اس کے واسطے مشکلات وشدائد سے نکلنے کا راستہ اور رزق دے گا اس کو ایسے طریقہ سے کہ اس کو گمان بھی نہ ہوگا، اب اس کے سامنے نہ شدائد ومشکلات باقی رہیں گی بلکہ ہر مشققت و دشواری دور ہوتی چلی جائے گی اور اس کے علاوہ انعامات خداوندی کا یہ مقام ہوگا کہ روزی کے دروازے اس پر کھل جائیں گے اور ایسے راستوں سے اس کو رزق ملے گا کہ اس کو خیال بھی نہ ہوسکتا تھا، اور جو بھی کوئی اللہ پر بھروسہ کرے بس اللہ اس کو کافی ہے بیشک اللہ اپنے کام کی انتہاء کو پہنچنے والا ہے اس کا کوئی کام ادھورا اور ناقص نہیں رہ سکتا، جس کام کا وہ ارادہ کرے گا اس کو پورا ہی کرکے چھوڑے گا، اللہ نے ہر کام کے واسطے ایک اندازہ رکھا ہے، چناچہ وہ اسی کے مطابق ہوا کرتا ہے، اس کی حکمت وتقدیر نے اگر کسی کام کی تاخیر مقدر کردی تو وہ اسی تاخیر سے ہوگا اور اگر ناگہاں اور فوری طور پر کس چیز کو اللہ نے مقدر فرمادیا تو وہ ناگہاں رونماہوجائے گی، یہ اللہ کی مصلحتیں اور حکمتیں ہیں بہرکیف جس طرح اس نے فیصلہ کیا، اسی طرح ہر کام کا ہونا ضروری ہے اس لیے یہ روش ٹھیک نہیں کہ ہم اللہ کے فیصلوں میں تاخیر وتعجیل کا شکوہ کرتے رہیں، ایمان وتفویض کا تقاضا ہے کہ اللہ کی تقدیر پر رضاوتسلیم کا مقام حاصل ہو، امام بخاری (رح) و دیگر ائمہ محدثین نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تو عمر فاروق ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ کو غصہ آیا اور فرمایا اس کو کہو کہ اس طلاق سے رجوع کرے پھر روکے رکھے یہاں تک کہ طہر کا زما نہ آجائے پھر ایام حیض آجائیں اور پھر طہر آئے تو اس وقت اگر وہ ضرورت سمجھے تو طلاق دے طہر کی حالت میں قبل اس کے کہ اس سے قربت کرے آپ ﷺ نے فرمایا یہی تو وہ وقت ہے جس پر اللہ نے حکم فرمایا ہے کہ طلاق دی جائے (اگر طلاق دینا ضروری ہی ہے) ایک سند سے اس روایت کے مضمون میں یہ بھی آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی، آجائے (آیت) ” یایھا النبی اذا طلقتم النسآء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدۃ “۔ ابن عباس ؓ سے بھی یہی منقول ہے فرمایا عدت پر طلاق دینے کا مطلب یہی ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے حضرات فقہاء نے اسی آیت سے طلاق بدعی اور طلاق سنی کے احکام مستنبط فرمائے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کی بےبسی اور اسلام و قرآن کے اس کے حقوق کا محافظ ہونا : زمانہ جاہلیت میں عورتوں پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھائے جاتے تھے ان کو جانوروں سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل بلکہ قیدیوں کی طرح مجبور وبے بس رکھا جاتا تھا بعض لوگ عورت کو سو سو مرتبہ طلاق دے دیتے تھے پھر بھی اس کی مصیبت کا خاتمہ نہ ہوتا تھا اسلام اور حضور اکرم ﷺ نے ان وحشیانہ مظالم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا، قرآن کریم نے ان کے حقوق متعین کردیئے اور احکام نکاح و طلاق وخلع نازل کرکے ان کے حقوق کا پورا پورا تحفظ کیا اور حدود متعین کردی گئیں اور ان کی خلاف ورزی پر وعید وتنبیہ فرمائی گئی، جہاں اور حکیمانہ ہدایات ونصیحتیں فرمائیں ان میں ایک جامع راہنما اصول یہ بھی فرمادیا گیا (آیت) ” فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف “۔ کہ اگر رکھو تو معقول طریقہ سے رکھو اور اگر چھوڑنا ہی ہے تو معقول طریقہ اور حسن اسلوب سے چھوڑو، گویا کسی بھی حالت میں ظلم وتعدی ہرگز نہ ہو خدا پر ایمان اور آخرت کا یقین ہی انسان کو ظلم وعدوان سے بچاسکتا ہے اس لیے فرما دیا کہ یہ زریں نصیحتیں ان لوگوں کے لئے کارآمد ہیں جو خوف خدا اور آخرت کا یقین رکھتے ہوں پھر ساتھ تقوی کے بہترین ثمرات اور برکتوں سے آگاہ فرما دیا (آیت) ” ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجہ ویرزقہ من حیث لایحتسب “۔ کی اللہ کا ڈر دارین کی سعادت اور خزانوں کی کنجی اور تمام کامیابیوں کا ذریعہ ہے اسی سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں، بےقیاس وبے گمان روزی بھی ملتی ہے اور ایک عجیب قلبی سکون نصیب ہوتی ہے جس کے بعد نہ سختی سختی رہتی ہے اور نہ پریشانی، پریشانی رہتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک آیت معلوم ہے جو سارے عالم (یعنی سارے عالم کی مشکلات) کے لئے کافی ہے دریافت کیا گیا اے عبداللہ وہ کون سی آیت ہے تو آپ نے یہی تلاوت فرمائی (آیت) ” ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجہ ویرزقہ من حیث لایحتسب “۔ امام احمد بن حنبل (رح) نے عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کیا کہ وہ ایک روز آنحضرت ﷺ کی سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے جارہے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ یا غلام انی معلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک واذا سالت فاسال اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ واعلم ان لامۃ لواجتمعواعلی ان ینفعوک لم ینفعوک الا بشیء کتبہ اللہ لک ولو اجتمعوا علی ان یضروک لم یضروک الا بشیء قد کتبہ اللہ علیک۔ رفعت الاقلام وجفت الصحف۔ اے بچے میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں (وہ یہ ہیں) تو اللہ کی (حدود کی) حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا اللہ کا لحاظ کر تو اللہ کو (اور اس کی رحمتوں اور عنایتوں کو) اپنے سامنے پائے گا اور جب تجھے کوئی چیز مانگنی ہو تو اللہ سے مانگ اور جب تو مدد طلب کرے تو اللہ ہی سے مدد طلب کر اور یہ بات خوب سمجھ لے کہ اگر ساری دنیا جمع ہوجائے اس چیز پر کہ تجھے کچھ نفع پہنچائے تو دنیا کے تمام انسان تجھے نفع نہیں پہنچا سکتے مگر صرف وہی جو اللہ نے تیرئے واسطے لکھ دیا ہے اور اگر دنیا کے سب لوگ جمع ہوجائیں اس پر کہ تجھے کچھ نقصان پہنچا دین تو ہرگز کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تجھ پر لکھ دیا ہے (اے لڑکے) تقدیر کے قلم (انسان تقادیر لکھ کر) فارغ ہوگئے اور صحیفے قضاء وقدر کے جو طے کردیئے گئے ہیں وہ خشک ہوچکے اس لیے جو بھی کچھ ہوگا وہ اللہ کی تقدیر اور اسی کی مشیت کے مطابق ہوگا۔
Top