Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اِذَا طَلَّقْتُمُ
: جب طلاق دو تم
النِّسَآءَ
: عورتوں کو
فَطَلِّقُوْهُنَّ
: تو طلاق دو ان کو
لِعِدَّتِهِنَّ
: ان کی عدت کے لیے
وَاَحْصُوا
: اور شمار کرو۔ گن لو
الْعِدَّةَ
: عدت کو
وَاتَّقُوا اللّٰهَ
: اور ڈرو اللہ سے
رَبَّكُمْ
: جو رب ہے تمہارا
لَا تُخْرِجُوْهُنَّ
: نہ تم نکالو ان کو
مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ
: ان کے گھروں سے
وَلَا يَخْرُجْنَ
: اور نہ وہ نکلیں
اِلَّآ
: مگر
اَنْ يَّاْتِيْنَ
: یہ کہ وہ آئیں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی کو
مُّبَيِّنَةٍ
: کھلی
وَتِلْكَ
: اور یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود ہیں
وَمَنْ يَّتَعَدَّ
: اور جو تجاوز کرے گا
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود سے
فَقَدْ
: تو تحقیق
ظَلَمَ نَفْسَهٗ
: اس نے ظلم کیا اپنی جان پر
لَا تَدْرِيْ
: نہیں تم جانتے
لَعَلَّ اللّٰهَ
: شاید کہ اللہ تعالیٰ
يُحْدِثُ
: پیدا کردے
بَعْدَ
: بعد
ذٰلِكَ
: اس کے
اَمْرًا
: کوئی صورت
اے نبی ﷺ (آپ اہل ایمان سے کہہ دیجئے) کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے کا ارادہ کرلو تو ان کی عدت کا خیال اور لحاظ رکھتے ہوئے طلاق دو ۔ (اور طلاق دینے کے بعد) تم (عدت کی) مدت شمار کرتے رہو۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے۔ اور تم (ان مطلقہ) عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ عورتیں خود بھی نہ نکلیں۔ سوائے اس کے کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بےحیائی کر بیٹھیں۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔ اور جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھتا ہے تو یقینا وہ اپنے وجود پر ظلم کرتا ہے۔ تمہیں یہ نہیں معلوم کہ شاید (اس طلاق کے بعد) اللہ کوئی نئی صورت حال پیدا کردے۔
لغات القرآن۔ طلقوا۔ تم طلاق دے دو ۔ احصوا۔ شمار کرو۔ گنو۔ فاحشۃ۔ بےحیائی کرنے والی۔ یتعد۔ حد سے بڑھنا ہے۔ لا تدری۔ تجھے معلوم نہیں۔ لعل۔ شاید کہ۔ امید کہ۔ یحدث۔ وہ پیدا کردے گا۔ بلغن۔ وہ پہنچ گئیں۔ امسکوا۔ روک لو۔ فارقوا۔ تم چھوڑدو۔ جدا کردو۔ اشھدوا۔ تم گواہ کرو۔ ذوی عدل۔ دو معتبر آدمی۔ یوعظ۔ نصیحت کی گئی ہے۔ مخرجا۔ نکلنے کی جگہ۔ لا یحتسب۔ گمان نہ جائے گا۔ التی۔ وہ عورتیں ۔ وہ مونث۔ یئسن۔ مایوس ہوچکیں۔ المحیض۔ حیض۔ ماہوار۔ ارتبتم۔ تم شک میں پڑگئے۔ ثلثۃ الشھر۔ تین مہینے۔ لم یحضن۔ حیض (خون) نہیں آیا۔ اولات الاحمال۔ حمل والی عورتیں۔ ان یضعن۔ کہ کہ وہ جن دیں۔ یسرا۔ آسانی۔ یعظم۔ وہ بڑا کردے گا۔ اسکنوھن۔ تم ان عورتوں کو گھر دو ۔ سکونت دو ۔ لا تضار وھن۔ ان عورتوں کو نہ ستائو۔ لتضیقوا۔ تاکہ ان کی (زندگی) تنگ کردو۔ تعاسرتم۔ تم نے آپس میں اختلاف کیا۔ تنگی پیدا کی۔ ترضع۔ دودھ پلائے گی۔ ذوسعۃ۔ وسعت والا۔ قدر۔ تنگ کردی گئی۔ لا یکلف۔ وہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ تشریح : قرآن کریم قیامت تک اساری انسانیت کی فلاح و ترقی اور آخرت کی نجات کے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عبادات، معاملات، معاشرت، معیشت، تہذیب، و تمدن، کے اصولی احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ عام طور پر زندگی سے متعلق احکامات کو مختصر بیان کیا گیا ہے لیکن نکاح، طلاق، عدت، عدت کے دوران مطلقہ یا بیوہ کا نان نفقہ، رہائش اور اگر اولاد ہو تو اس کو دودھ پلانے اور پرورش وغیرہ کے احکامات کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ زندگی کے یہ اہم ترین اور بنیادی مسائل ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ خاندانوں سے مل کر بنتا ہے۔ اگر ہر ایک خاندان پر سکون ہے تو سارا معاشرہ خوش حال ہوگا لیکن خاندانوں اور گھریلو زندگی کی ابتری سارے معاشرہ کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہے۔ شریعت اسلامی میں اس اصول کو ابنیاد بنایا گیا ہے کہ نکاح کے ذریعہ شہوانی جذبات کی تسکین کے ساتھ نسل انسانی کی بقاو ترقی کا سامان کیا جائے۔ لیکن اگر وقتی شہوانی جذبات کی تسکین تک بات محدود رہے تو اس سے نسل انسانی کی بقا کے لے شدید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں اور خاندانی زندگی کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے نکاح کے زریعہ جو تعلق قائم ہوا ہے اس کو باقی رہنا چاہیے۔ اس کو کھیل تماشا نہ بنایا جائے کیونکہ یہ زندگی کا ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ ہے جس میں مرد کو سب سے زیادہ ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ عورت اور مردو دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حوصلے اور برداشت سے اپنے گھر کو سنبھال کر چلائیں اور کوئی ایسی صورت نہ پیدا ہونے دیں جس سے یہ تعلق کمزور ہوجائے یا ٹوٹ جائے لیکن اگر آپس کی رنجشیں اور تلخیاں بڑھ جائیں اور بات طلاق تک پہنچ جائے تو اس میں بھی عورتوں کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی گئی ہے۔ وہ چاہے تو اس گرہ کو بندھا رکھے یا طلاق کے ذریعہ اس بندھن کو کھول دے۔ لیکن اسے اس بات کا دھیان رہنا چاہیے کہ طلاق حلال ہونے کے باوجود اللہ و رسول کو سخت ناپسند ہے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” نکاح کرو، طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے اللہ کا عرش بھی کانپ اٹھتا ہے “۔ (قرطبی) ۔ حضرت معاذ ابن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” زمین پر اللہ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز یہ ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔ اور اللہ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان سب میں اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ (قرطبی) ۔ ان احادیث سے یہ اصول سامنے آتا ہے کہ شریعت نے طلاق دینے کی اجازت دی ہے لیکن اس سے روکا بھی ہے کیونکہ طلاق انتہائی نازل مسئلہ ہے جس سے صرف ایک مرد عورت ہی متاثر نہیں ہوتے بلکہ اولاد اور خاندان کے بیشمار اخلاقی اور قانونی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اس قانونی حق کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔ نادانی اور بےوقوفی میں زندگی کے اس بندھن کو کاٹ کر پھینک دینا سخت ناپسندیدہ بات ہے۔ اس کے لئے شریعت نے ایسے اصول مقرر فرمائے ہیں جن پر عمل کرنے سے زندگی کی اس خطرناک صورتحال سے بچا جاسکتا ہے۔ (1) نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے دور جہالت میں عورت مردوں کے ہاتھوں کا کھلونا تھی وہ جس طرح اور جتنا چاہتے عورت کی فطری کمزوریوں سے فائدے اٹھاتے رہتے اور عورت کی زندگی بھر ظلم کی چکی میں پیسے چلے جاتے تھے جس پر اسے اف تک کرنے کی اجازت نہیں تھی ایک حیوان اور انسان میں کوئی فرق نہیں رکھتے تھے لیکن دین اسلام نے نکاح، طلاق اور عدت کے ایسے حکیمانہ اصول بیان فرمائے ہیں جن سے عورت پر ظلم و جبر کا دور ختم ہوگیا اور اس کو آبرو مندانہ زندگی گزارنے کا حق مل گیا۔ مثلاً عرب کے لوگ عورتوں کو طلاق دیتے اور جب جیسے رجوع کرلیتے۔ دین اسلام نے ایک نکاح میں مرد کو صرف تین طلاقوں تک کی اجازت دی ہے وہ اس حق کو ایک وقت میں تین طلاقیں دے کر ختم کردے یا ایک ایک کرکے طلاق دے۔ دو طلاقوں تک رجوع کرنے کا حق باقی رہتا ہے لیکن تین طلاقوں میں رجوع کرنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ تین طلاقوں کے بعد بغیر حلالہ شرعی کے اس عورت سے نکاح نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم میں طلاق دینے کے اصول بھی مقرر فرما دئیے تاکہ کوئی شخص جلد بازی میں کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھے جس سے اس کو زندگی بھر پچھتانا پڑے۔ (2) چونکہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں دی ہے اور اس کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لہٰذا جب وہ اس بات کو محسوس کرلے کہ اس کی بیوی مسلسل نافرمانی کر رہی ہے اور آپس میں اختلافات بڑھ رہے ہیں تو گھر کی بات گھر میں رکھتے ہوئے اپنی بیوی کو سمجھائے اور نصیحت کرے کہ اگر ہمارے اختلافات اسی طرح بڑھتے گئے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے ؟ (3) اگر اس کی بیوی شوہر کے سمجھانے کے باوجود پھر بھی اپنی روش زندگی کو تبدیل کرنے پر تیار نہ ہو تو پھر کچھ نفسیاتی طریقے اختیار کئے جائیں مثلاً شوہر اپنا بستر الگ کرلے یا دوسرے کمرے میں سونا شروع کردے۔ اس سے دونوں کو سوچنے کا موقع ملے گا کہ آج تعلقا ت میں ایک دیوار آڑے آئی ہے ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد زندگی کی دیوار آڑے آجائے اور جدائی ہوجائے۔ (4) اگر اس کی بیوی اس نفسیاتی حربے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتی تو پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس پر سختی کی جائے۔ اگر مارنے کی ضرورت ہو تو شریفانہ طریقے سے مارا جائے تاکہ اس کو کچھ تو ہوش آجائے لیکن اس طرح نہ مارا جائے جیسا کہ آج کل لوگوں نے اسلام کے اصولوں سے ناواقفیت کی وجہ سے اپنی عورتوں کو مارنا شروع کردیا ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم ایسا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ اس کی ہمیں اسلام نے اجازت دی ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کا انداز جاہلانہ ہے۔ جس کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ حکم یہ ہے کہ بیوی کے سر، منہ، سینہ اور نازک جگہوں پر نہ مارا جائے۔ اتنی زور سے نہ مارا جائے جس سے ہاتھ یا کسی چیز کا نشان بن جائے۔ فقہا نے جب ان شرائط پر غور کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت تو ساری انتہائی نازک ہے اگر کوئی مارتا ہے تو کہاں مارے۔ فرمایا کہ صرف ایک جگہ رہ جاتی ہے اور وہ پیٹھ کے اوپر کا حصہ جو کاندھے کے پاس ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد مار پیٹ نہیں ہے بلکہ ہلکے سے کاندھے کے پاس مارنے کا حکم ہے جو ایک شریفانہ مار ہے۔ اس میں جاہلانہ انداز نہیں ہونا چاہیے۔ (5) قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیوی نصیحت کرنے، نفسیاتی حربوں اور سختی سے بھی باز نہیں آتی تو پھر گھر کی بات کو خاندان کے بزرگوں تک پہنچایا جائے۔ چناچہ حکم ہے کہ لڑکے اور لر کی کے خاندان کے ایک ایک معتبر بزرگ کو بلا کر اس معاملہ کو سامنے رکھا جائے۔ یقینا جو خاندان کے بزرگ ہیں وہ دونوں کو سمجھائیں گے۔ اگر پھر بھی اختلافات اپنی جگہ رہتے ہیں تو پھر ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ طلاق دے دی جائے۔ لیکن قرآن کریم اور احادیث میں طلاق دینے کا طریقہ متعین کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ (6) اپنی بیوی کو ایسے طہر (پاکی کی حالت) میں صرف ایک طلاق دی جائے جس میں اس سے صحبت نہ کی گئی ہو اور حاملہ بھی ہو۔ کیونکہ اگر حیض ( ناپاکی کے ایام) میں طلاق دی جائے گی تو وہ طلاق پڑجائے گی لیکن اس سے اس کی بیوی کو سخت تکلیف پہنچے گی۔ وجہ یہ ہے کہ جس حیض کی حالت میں اس کو طلاق دی گئی ہے نہ تو وہ مدت شمار ہوگی۔ اور حیض کے بعد پاکی کی حالت میں بھی اس کی مدت شمار نہ ہوگی جب اس کو حیض آئے گا تو اس کی عدت کی مدت شروع ہوگی۔ اس طرح تین حیض کے بجائے اس کی عدت چار حیض تک پہنچ جائے گی۔ دوسرے یہ کہ اگر پاکی کی حالت میں صحبت کی جائے گی تو اس کو یہ نہیں معلوم ہوگا کہ اس صحبت میں کوئی حمل ٹھہرا ہے یا نہیں۔ اگر حمل ٹھہر گیا تو پھر عدت اس وقت تک طویل ہوجائے گی جب تک اس عورت کے ہاں ولادت نہ ہوجائے۔ اگرچہ حیض اور حمل کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق پڑجاتی ہے لیکن عورت کو اس تکلیف سے پچایا گیا ہے کہ اس کو ناحق اتنی تکلیف کیوں پہنچے۔ ایک یا دو طلاقیں دئیے جانے کے بعد یہ عورت عدت شروع کردے گی، اسی گھر میں رہے گی اور اس کا نان نفقہ بھی شوہر کے ذمے ہوگا۔ اگر شوہر چاہے تو اس عدت کے دورابن یا بعد میں اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ رجوع کرنے کے لئے اتنا کہنا کافی ہے کہ ” میں نے رجوع کرلیا ہے “ یہ کہتے ہی رجوع ہوجائے گا۔ اگر اس موقع پر دو معتبر گواہ بھی بنا لئے جائیں تو بہتر ہے تاکہ فریقین میں سے کوئی انکار نہ کرسکے اور اگر کسی وقت یہ معاملہ کسی عدالت میں پہنچ جائے تو گواہی دونوں کو فائدہ دے گی۔ ایک طلاق دینے میں میاں بیوی دونوں کا فائدہ ہے۔ مثلاً شوہر عدت میں یا عدت گزر جانے کے باوجود جب چاہے اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے اور بغیر کسی نکاح اور حلالہ کے دونوں پھر سے گھر آباد کرسکتے ہیں۔ عورت کو یہ فائدہ ہے کہ وہ عدت گزارنے کے بعد اگر کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے تو وہ اس معاملہ میں بالکل آزاد ہے لیکن اگر پہلا شوہر رجوع کرنا چاہتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ زندگی تجربات کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ سنجیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ عورت پہلے شوہر کی طرف آجائے لیکن اگر آنا نہ چاہے تو کوئی اس کو مجبور نہیں کرسکتا۔ (7) جس طرح ایک طلاق دینے کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے اسی طرح دو طلاقیں دینے کے بعد بھی مرد کا یہ حق باقی رہتا ہے کہ وہ رجوع کرلے۔ لیکن دو طلاقوں کی عدت گزرنے کے بعد دونوں کی رضا مندی ضروری ہے۔ (8) اگر کسی نے تیسری طلاق بھی دیدی تو یہ دونوں غیر بن جائیں گے۔ اب اس وقت تک رجوع نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ عورت پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی اور مرد سے شادی نہ کرلے اور اگر وہ کسی وجہ سے طلاقی دیدے یا دوسرا شوہر مر جائے تو دوسرے شوہر کی عدت گزار کر یہ پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اسی کو ” حلالہ شرعی “ کہا جاتا ہے اس حلالہ شرعی کے علاوہ پہلے شوہر کی طرف لوٹنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ (9) اس موقع پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیجئے کہ مذکورہ طریقہ جو شریعت نے بتایا ہے وہی احسن طریقہ ہے لیکن سب سے بد ترین طریقہ وہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیدی جائیں اور معاملہ ایک لمحے میں ختم کردیا جائے۔ اس کو نبی کریم ﷺ نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔ مسئلہ کی رو سے اگرچہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں پڑجاتی ہیں لیکن امت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ایک ناجائز فعل ہے اس کو ایسا نہیں کرنا چاہتے تھا لیکن اس بات پر بھی اجماع امت ہے کہ اگر ایک وقت میں تین طلاقیں دی دی جائیں تو تینوں طلاقیں پڑجاتی ہیں اس کی بیوی اس کی غیر بن جاتی ہے اور اس کی عدت شروع ہوجاتی ہے۔ بعض حضرات غلط فہمی پر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ایک وقت میں تین طلاقیں دیدی جائیں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے یعنی عورت پر کوئی بھی طلاق نہیں پڑتی اور بعض یہ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی ہے۔ اس کے لئے وہ حضرت رکانہ بن عبد یزید کا واقعہ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت رکانہ نے ایک ہی مجلس میں پانی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ کیا ان کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی۔ جب انہوں نے حلفیہ بیان دیا تو آپ ﷺ نے ان کو رجوع کرنے کا حق دیدیا۔ (ابو دائود۔ ترمذی۔ ابن ماجہ۔ دارمی۔ حاکم) ۔ دوسری روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو اس حالت میں طلاق دیدی کہ جب ان کی بیوی کو حیض (خون ) آرہا تھا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے اس کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کو حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے اور اسے اپنی زوجیت میں رکھے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے۔ پھر اس کے بعد حیض آئے۔ اس حیض سے بھی پاک ہوجائے۔ اس وقت اگر طلاق دینا ہی ہے تو اس پاکی کے زمانہ میں جب کہ اس سے صحبت نہ کی گئی ہو طلاق دیدے۔ یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آیت ہی حکم دیا ہے۔ (بخاری و مسلم) ۔ حضرت رکانہ کی روایت کے متعلق تو عرض ہے کہ درحقیقت انہوں نے ایک ہی طلاق دی تھی۔ بقیہ دو الفاظ تو انہوں نے تاکید کے طور پر کہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سنتے ہی یہ نہیں فرمایا کہ جائو یہ تین طلاقیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی ہے جیسا کہ آجکل لوگ سنتے ہی کہہ دیتے ہیں بلکہ آپ نے پہلے ان سے اچھی طرح پوچھا چونکہ یہ بھرپور اعتماد کا دور تھا جس میں صحابہ کرام ؓ خود بھی احتیاط کرتے تھے جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا یقین دلا دیا تو آپ نے ان کی بات مان کر تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمرو ؓ والی روایت کے متعلق عرض ہے کہ انہوں نے بھی درحقیقت حیض کی حالت میں ایک ہی طلاقی دی تھی۔ دارقطنی اور ابن ابی شیبہ نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے بیان کیا ہے کہ جب حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ کو اپنی بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر میں تین طلاقیں دیدیتا تو کیا پھر بھی رجوع کرسکتا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوجاتی۔ (معارف) نبی کریم ﷺ کے دور میں اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے مختصر دور خلافت میں بھی اسی پر عمل ہوتا رہا کہ جب کوئی کہہ دیتا کہ میں نے درحقیقت ایک ہی طلاقی دی ہے تو اس کا مان لیا جاتا تھا۔ حضرت عمر فاروق کے ابتدائی دوسالوں تک اسی پر عمل ہوتا رہا لیکن جب حضرت عمر ؓ نے محسوس کیا کہ لوگ اب احتیاط نہیں کرتے اور تین طلاقیں دے کر اس کو ایک بیان کرتے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا کہ اب اگر کوئی شخص تین طلاقیں دے گا تو اس میں نیت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ظاہری الفاظ پر عمل کیا جائے گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں اکثر صحابہ کرام ؓ حیات تھے۔ اگر حضرت عمر ؓ کا فیصلہ غلط ہوتا تو صحابہ کرام ؓ اس کو نہ مانتے چونکہ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تو گویا اسی پر اجماع امت ہوگیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ حیض اور حمل کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق پڑجائے گی لیکن یہ گناہ ہے کیونکہ اس میں عورت کی مدت بہت طویل ہوجاتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صریح اور واضح الفاط میں طلاق دے گا تو جتنی طلاقیں دے گا وہ پڑجائیں گی اس میں نیت کا کوئی دخل نہیں ہے لیکن اگر الفاط طلاق نہ ہوں تو اس میں شوہر کی نیت پوچھی جائے گی مثلاً اگر ایک شخص نے سخت غصے کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا کہ تیرا میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس موقع پر شوہر سے پوچھا جائے گا کہ تمہاری بات کا کیا مطلب ہے ؟ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاقی دیدی ہے۔ اگر وہ کہتا ہے کہ وہ تو میں نے غ سے میں اپنی بیوی کو دھکمانے اور ڈرانے کے لئے کہہ دیا تھا میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو پھر اس کی بیوی پر کوئی طلاق نہیں پڑے گی او اگر وہاں کہتا ہے تو اس کی بیوی پر طلاق بائن (جدائی کی طلاق) پڑجائے گی۔ ّ (10) چونکہ طلاق کا معاملہ انتہائی نازک ہے جس سے خاندانی اور کئی قانونی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اس لئے طلاق کے الفاظ کہنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ دور جہالت میں عربوں کا یہ حال تھا کہ وہ جتنی مرتبہ چاہتے طلاق دیدیتے اور عدت ہی میں رجوع کرلیتے۔ اس طرح وہ عورتوں کو ستایا کرتے تھے۔ دین اسلام نے طلاق کے حق کو تین الفاظ تک محدود کردیا ہے تاکہ سوچ سمجھ کر اس حق کو استعمال کیا جائے۔ (11) ایک وقت میں تین طلاقیں جائز نہیں ہے لیکن اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو وہ اس پر پڑجائیں گی اور وہ عورت مرد ایک دوسرے کے لئے غیر ہوجائیں گے۔ چونکہ آدمی غصے میں تین طلاقیں دے کر پچھتاتا ہے اور اپنے فعل پر شرمندہ ہوتا ہے تو پھر وہ فتوے پوچھتا پھرتا ہے تاکہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔ میرے نزدیک طلاق دینے سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی ایک حرام کام کو جائز کرنے کی فکر میں لگ جائے اور اس پر عمل بھی شروع کردے۔ حالانکہ تین طلاقیں دینے کے بعد اب اس بیوی کی واپسی کا طریقہ ایک ہی ہے کہ پہلے یہ عورت عدت پوری کرے۔ عدت کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرکے اس سے صحبت کرے پھر کسی وجہ سے اس کا دوسرا شوہر اس کو طلاق دے یا مر جائے تو دوسرے شوہر کی عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ یہ درحقیقت میاں بیوی کے لئے ایک سزا ہے۔ شوہر کے لئے تو یہ کہ اس کی بیوی کسی دوسرے سے نکاح اور صحبت کرے اور بیوی کو سزا اس لئے مل رہی ہے کہ اس نے ایسے حالات کیوں پیدا کئے جس سے بات طلاق تک پہنچ گئی اور اس کا گھر ٹوٹ گیا۔ میاں اور بیوی دونوں کے لئے یہ سزا برابر ہے۔ (12) مدخولہ ( جس سے صحبت کرلی گئی ہو) اگر اس کو حیض (ماہانہ خون) آتا ہو اور طلاق دی گئی ہو تو تین حیض گزرنے کے بعد اس کی عدت پوری ہوجائے گی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت اپنے بارے میں اپنی مرضی سے معروف طریقے پر کوئی بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ (13) وہ خواتین جن کو زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے خون نہ آتا ہو یا ابھی خون آنا شروع نہ ہوا ہو تو ان کی عدت کی مدت (چاند کے حساب سے) تین مہینے ہے۔ (14) اگر کسی لڑکی کا نکاح ہوا اور ابھی تک مرد نے اس کو ہاتھ نہیں لگایا اور اس کو طلاق ہوجائے تو اس کی عدت نہیں ہے۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد اسی وقت دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ (15) جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت (چاند کے حساب سے) چار مہینے اور دس دن ہے۔ ہر مہینہ تیس دن کا شمار ہوگا۔ (16) ایک یا دو طلاقوں کے بعد اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس موقع پر دو معتبر مسلمانوں کو گواہ بنا لے۔ گواہ بنانا لازمی اور ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر گواہ بنا لے گا تو اس سے دونوں میاں بیوی کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ اس طرح نہ تو شکوک و شبہات پید اہوں گے اور نہ وہ دونوں انکار کریں گے۔ فرمایا کہ سچے مومنوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے مفاد کے لئے جھوٹ بولیں گے کیونکہ ان کو اس بات کا یقین کامل ہوتا ہے کہ ان کے کسی فعل کو کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں دیکھ رہا ہے لیکن اللہ تو ان کے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ (17) یہ ہر مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدت کے ایام کو شمار کرنے کا اہتمام کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عدت ختم ہونے سے پہلے ہی عدت ختم کرلی جائے۔ یہ ذمہ داری مرد اور عورت دونوں کی ہے۔ { عورت کا نان نفقہ اور سکونت } (18) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس عورت کو تین طلاقیں دیدی گئی ہوں اس کے زمانہ عدت میں نان و نفقہ اور رہائش دینا یہ شوہر کی ذمہ داری ہے۔ (19) طلاق ایک ہو یا دو یا تین ہر حالت میں مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مطلقہ کو اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کے اخراجات اور رہائش کی سہولتیں بہم پہنچائے۔ جس گھر میں شوہر رہتا ہے اسی میں اس کی مطلقہ بیوی بھی رہے گی۔ اس عدت کے دوران شوہر کو یا شوہر کے عزیزوں کو اس بات کا قطعاً اختیار نہیں ہے کہ وہ اس کو اس گھر سے نکالیں۔ البتہ اگر وہ عورت کوئی کھلا ہوا گناہ یا بدکاری کرے یاس قدر زبان دراز ہو کہ اس کی زبان سے سب عاجز ہوں تو اس کو اس گھر سے نکل جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے لیکن نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر ہی کی ہوگی۔ { بچے کی دودھ پلانا } (20) اگر طلاق دینے کے بعد کوئی بچہ موجود ہو تو اس بچے کی کفالت اور دودھ پلوانے کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ اگر وہ مطلقہ عورت اپنے بچے کو دودھ نہ پلانا چاہے تو مناسب اجرت پر دوسری کسی عورت کے ذریعے دودھ پلوانا جائز اور ضروری ہے۔ مطلقہ بیوی کے نان نفقہ، سکونت اور بچے کے دودھ پلوانے میں مرد کی آمدنی اور حیثیت کا لحاظ رکھا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی آدمی پر اس کی ہمت اور طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ سورۃ الطلاق کی ان آیات میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک معاملہ میں اللہ کا خوف غالب رہنا چاہیے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کا تقویٰ ، خوف اور ڈر رکھیں گے اللہ تعالیٰ ان سب کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیں گے اور ان پر ایسے مقام سے کرم ہوں گے جہاں کا گمان بھی نہیں پہنچ سکتا۔ انسانی تعلقات میں خوف الٰہی بنیاد ہے۔ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ اور اعتماد کاموں میں برکت نازل کئے جانے کا سبب ہے۔
Top