بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے نبی ! جب تم طلاق دو عورتوں کو ، پس طلاق دو ان کو عدت پر ، اور شمار کرو عدت کو ، اور ڈرو اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے۔ اور نہ نکالو ان عورتوں کو ان کے گھروں سے ، اور نہ نکالیں وہ خود بھی سوائے اس کے کہ وہ کوئی صریح بےحیائی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں ، اور جو شخص تعدی کرے گا ، اللہ کی حدوں سے ، پس بیشک اس نے ظلم کیا اپنی جان پر۔ وہ نہیں جانتا (وہ طلاق دینے والا) شاید کہ اللہ تعالیٰ پیدا کردے اس کے بعد کوئی معاملہ
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الطلاق ہے کیونکہ اس میں طلاق کے بعض احکام مذکور ہیں۔ یہ سورة مدنی زندگی میں نازل ہوئی ، اس کی بارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں ، اور یہ سورة 147 الفاظ اور 1170 حروف پر مشتمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق اس سورة کو سورة الطلاق القصریٰ یعنی چھوٹی سورة طلاق کہا گیا ہے کیونکہ عاملی قوانین زیادہ تر سورة بقرہ میں نازل ہوئے ہیں اور یہ سورة اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : گزشتہ سورة میں زیادہ تر مسلمانوں کے اجتماعی معاملات بیان ہوئے ۔ بنیادی عقائد میں مسئلہ توحید ، رسالت ، قیامت اور جزائے عمل کا ذکر ہوا اور پھر انفاق فی سبیل اللہ اور خدا خوفی کا مسئلہ بیان ہوا۔ اللہ نے مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا اور یہ بھی کہ تمہاری بعض عورتیں اور بعض اولادیں تمہارے حق میں دشمن ہیں ، لہٰذا ان سے بچتے رہیں۔ فرمایا نہ تو ان کے خلاف انتقامی کاروائی کرنا اور نہ ہی ان کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کی ذکر سے غافل ہوجانا۔ اب اس ضمن میں فرمایا ہے کہ اگر تمہاری عورتوں کی دشمنی حد سے بڑھ جائے تو پھر طلاق کی نوبت آجاتی ہے ، چناچہ اس سورة میں اللہ نے طلاق کے بعض مسائل ہطلقہ عورتوں کی مختلف قسمیں اور عدت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ نبی یا امت سے خطاب : اس سورة کا آغاز نبی سے خطاب کے ساتھ ہوتا ہے یایھا النبی اے نبی ! اذا طلقتم النساء جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔ یہاں پر یہ امر قابل غور ہے کہ خطاب پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات سے کرکے آگے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) سے خطاب کرکے ساری امت کو سمجھانا مقصود ہے ، اس لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ نبی کو خطاب اس لئے کیا گیا ہے کہ نبی پوری امت کا سردار ہوتا ہے ، اور سردار کے حکم میں باقی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ، لہٰذا سب کے لئے جمع کا صیغہ آیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یایھا النبی کے بعد لفظ قل مخذوف ہے اور معنی یہ کہ اے نبی ﷺ ! آپ امت کے لوگوں کو کہہ دیں کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔ فطلقوھن لعدتھن تو ان کی عدت پر طلاق دو ۔ شان نزول : ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ایک بیوی حضرت حفصہ ؓ بنت حضرت عمر ؓ کو ایک طلاق دے دی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور اللہ نے حضور ﷺ کو رجوع کا حکم دیا کیونکہ حضرت حفصہ ؓ صوامۃ قوامہ بکثرت روزے رکھنے والی اور بہت عبادت کرنے والی خاتون تھیں۔ آپ کے لئے بشارت تھی کہ حضرت حفصہ ؓ جنت میں آپ کی بیوی ہوگی ، لہٰذا حضور ﷺ نے رجوع کرلیا۔ البتہ شان نزول کے ضمن میں زیادہ مشہور واقعہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ہے۔ ان ہونے اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدی۔ حضرت عمر ؓ نے یہ معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ عبداللہ ؓ نے غلط کام کیا ہے ، اس کو کہہ کہ رجوع کرے ۔ چونکہ انہوں نے صرف ایک طلاق دی تھی لہٰذا رجوع کرلیا۔ اس سورة میں اللہ نے اس مسئلہ کی بھی وضاحت فرمادی ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں دینی چاہیے ، بلکہ اگر اس کے بغیر بالکل چارہ نہ ہو۔ تو پھر ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں میاں بیوی کا ملاپ نہ ہوا ہو۔ نکاح اور طلاق : طلا کا لغوی معنی بندش کو کھول دینا ، چھوڑ دینا یا آزاد کردینا ہے۔ اللہ نے طلاق کا حق مردوں کو دیا ہے جیسے فرمایا بیدہ عقدۃ النکاح (البقرہ 237) یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھوں میں ہے وہی اس کو بصورت طلاق کھولنے کا مجاز ہے ۔ مطلب یہ کہ نکاح کا اعتبار مرد سے ہے اور طلاق کی صورت میں عدت کا اعتبار عورت سے ہوتا ہے۔ کیونکہ عدت اسے پورا کرنا ہوتی ہے۔ طلاق ایک ناپسندیدہ امر ہے جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں نکاح کرتے ہیں تو وہ اس تعلق کو تازیست قائم رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔ پھر اگر ان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے اور نباہ نہ ہوتا ہو تو قرآن پاک کا حکم یہ ہے کہ سب سے پہلے خود میاں بیوی ایسے تنازعہ کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو عورت اور مرد کے عزیز و اقارب یا سرپرست مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ شریعت کی رو سے نکاح اوامت مقصود ہے۔ اگر کوشش کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو پھر شریعت نے میاں بیوی میں جدائی کی اجازت دی ہے ، اور اسی کا نام طلاق ہے۔ دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل : طلاق کے مسئلہ میں دیگر مذاہب افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ یہودیوں میں طلاق کو ایک معمولی چیز سمجھا جاتا ہے ، جب چاہا بلا قصور طلاق دے دی۔ اور پھر عورت کے لئے بھی کوئی پابندی نہیں ، وہ طلاق کے فوراً بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ میں ازروئے انجیل طلاق کی گنجائش بہت کم ہے۔ عورت کے زانیہ ثابت ہونے کے علاوہ طلاق کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ اگر اس واحد عذر کے بغیر کوئی شخص طلاق دے دیں تو وہ طلاق ہی شمار نہیں ہوتی اور اگر ایسی عورت نکاح ثانی کرلے تو وہ زنا شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہندوئوں میں نکاح تازیست ہوتا ہے ، اور طلاق کی کوئی گنجائش نہیں خواہ حالات کتنے بھی خراب ہوجائیں۔ غرضیکہ دیگر مذاہب میں اس مسئلہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ چناچہ اگرچہ اسلام میں نکاح تازیست ہوتا ہے جس نے نباہ کی صورت میں فی الجملہ آزادی کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ طلاق کے لوازمات : حضور ﷺ کا ارشاد ہے ابغض المباحات الی اللہ الطلاق اللہ کے نزدیک جائز امور میں مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔ اگرچہ طلاق کو پسند نہیں کیا گیا مگر اشد ضرورت کے وقت یہ حق استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب میاں بیوی کا نباہ نہ ہوسکے اور دینی یا معاشرتی لحاظ سے خرابیاں پیدا ہورہی ہوں تو پھر آزادی کا راستہ بھی موجود ہے۔ تاہم طلاق کے معاملہ میں بعض پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ طلاق دیتے وقت مناسب اور موزوں وقت کا لحاظ ضروری ہے اور طلاق کی تعداد کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ پھر اگر طلا دے دی جائے تو نکاح ثانی سے پہلے عورت کے لئے مقررہ عدت گزارنا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مردوزن کے نکاح کا تعلق ایک عظیم تعلق ہے جس کا حق عدت کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے نسب وغیرہ میں کوئی اشتباہ واقع نہ ہوجائے۔ مثال کے طور پر اگر عورت حاملہ ہو تو نکاح ثانی سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کی نسل کا تعین ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے عورت کو عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خلع اور طلاق بالمال : پہلے میں نے عرض کیا ہے کہ اللہ نے طلاق کا تعلق مرد کے ساتھ رکھا ہے۔ اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ جس کا ذکر سورة البقرہ میں موجود ہے۔ ایک خلع ہے اور ایک طلاق بالمال۔ اگر زوجین کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرجائے اور مرد طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو۔ جب کہ عورت اس سے گلو خلاصی چاہتی ہو تو ایسی صورت میں عورت عدالت مجاز کی طرف رجوع کرکے اپنا معاملہ پیش کرسکتی ہے۔ عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد اگر مناسب سمجھے تو میاں بیوی میں تفریق یا علیحدگی کر اسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد کی طرف سے طلاق کی بھی ضرورت نہیں ہے البتہ اگر فریقین رضامند ہوں تو عورت کچھ مال دے کر بھی مرد کو خلع پر راضی کرسکتی ہے اس مقصد کے لئے عورت حق مہر واپس کرسکتی ہے۔ اگرچہ اس سے زیادہ مال بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ خلع کے بعد عورت عدت گزار کر نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ دوسری صورت طلاق بالمال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی طلاق لینا چاہے تو مرد کسی مال کا ماطلبہ کرسکتا ہے۔ جس کے عوض وہ طلاق دینے پر راضی ہوجائے گا۔ اگر بیوی مطلوبہ مال دے کر گلہ خلاصی کرانے پر تیار ہو تو اس مال کے بدلے میں خاوند اپنی بیوی کو باقاعدہ طلاق دے دیگا ، یہ طلاق بالمال ہے۔ اس کے بعد عورت عدت پوری کرکے نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ طلاق کا صحیح طریقہ : طلاق دینے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ اس سے طلاق کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ یعنی تین حیض گزرنے پر عدت پوری ہوجائیگی اور عورت نکاح ثانی کے لئے آزاد ہوگی۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلاق دینے کے بعد میاں بیوی کو سوچنے سمجھنے کے لئے کم وبیش تین ماہ کا وقت مل جائے گا۔ اگر اس دوران میں فریقین کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو مرد رجوع بھی کرسکتا ہے اور اس کے لئے دوبارہ نکاح کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ اور اگر تین حیض گزر جائیں تو پھر بھی مرد وزن باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ یا عورت دوسری جگہ بھی نکاح کرسکتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ ایک طلاق رجعی دی گئی ہو یعنی طلاقت دیتے وقت ڈرانے دہمکانے کی نیت ہو۔ اور اگر طلاق دیتے وقت بالکل جدائی کی نیت تھی۔ تو پھر یہ طلاق بائن ہوگی۔ اور اگر میاں بیوی عدت کے اندر بھی دوبارہ ملنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے ایسا کرسکتے ہیں۔ طلاق کا دوسرا صحیح طریقہ سنت کہلاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ عورت کو کسی صورت میں بھی نہیں رکھنا چاہتا… اور ایک سے زیادہ طلاقیں دینے پر ہی بضد ہے تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے۔ پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے۔ اور اگر اب تک وہ اپنے فیصلے پر قائم ہے تو پھر تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے دے ، اب یہ طلاق مغلظہ ہوگئی اور رجوع نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرلے اور پھر وہاں سے طلاق ہوجائے یا عورت بیوہ ہوجائے تو اس صورت میں اگر وہ پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے ، عدت گزارنے کے بعد۔ طلاق بدعت : تیسری قسم کی طلاق طلاق بدعت کہلاتی ہے ، یہ ایسی طلاق ہوتی ہے جو حیض کی حالت میں دی جائے۔ یا طہر کی حالت میں تین طلاقیں بیک وقت دیدی جائیں۔ ایسی طلاق نافذ تو ہوجائے گی۔ مگر طلاق دینے والا گناہ کا مرتکب ہوگا اور عورت مغلظہ ہو کر جدا ہوجائیگی۔ اب نہ تو رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اس کی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کی روایات میں موجود ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ اگر حیض کے دوران تین طلاقیں دے دی جائیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا طلاق نافذ ہوجائیگی اور ایسا غلط طریقہ اختیار کرنے پر حکم جاری ہوگا اور عورت بھی اس سے جدا ہوجائے گی وعصیت ربک اور رب تعالیٰ کا نافرمان بھی ہوگا۔ اس مسئلہ میں شیعہ ، ظاہر یہ اور غیر مقلد حضرات اختلاف کرتے ہیں۔ وہ اس صورت میں بھی رجوع کے قائل ہیں کیونکہ ان کے مطابق بیک وقت تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ البتہ چاروں امام (امام اعظم ابوحنیفہ (رح) ، امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، امام احمد بن حنبل (رح) اور جمہور صحابہ ؓ ، تابعین (رح) اور محدثین (رح) کہتے ہیں کہ یہ طلاق مغلظہ ہو کر نافذ ہوجاتی ہے۔ عدت کا شمار : فرمایا اے پیغمبر ﷺ ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت پر طلاق دو واحصوا العدۃ اور عد ت کو شمار کرو تاکہ کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ، عورت کو طہر کے دوران طلاق دی جائے اور پھر تین حیض کی گنتی پوری کی جائے۔ سورة بقرہ میں ثلثۃ قروع (آیت 228) کے الفاظ آتے ہیں۔ قرء کا معنی حیض بھی آتا ہے۔ اور طہر بھی۔ تاہم امام ابوحنیفہ (رح) اس سے حیض مراد لیتے ہیں۔ یعنی کس طہر میں طلاق دینے کے بعد تین حیض کی عدت ہوگی۔ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جائے تو پھر عدت کا عرصہ ٹھیک طریقے سے شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جس حیض میں طلاق دی جائے گی اس کو پورا شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے کچھ ایام پہلے گزر چکے ہوں گے۔ اور اگر اس حیض کو بالکل نظر انداز کرکے اس کے علاوہ تین حیض شمار کیے جائیں۔ تو اس حیض کا کچھ حصہ تین سے بڑھ جائے گا۔ لہٰذا سنت طریقہ یہی ہے کہ طہر میں طلاق دی جائے۔ عدت کے دوران سکونت : چونکہ عدت کے شمار کرنے میں حلال و حرام کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ عدت کو شمار کرلیا کرو۔ والقوا اللہ ربکم ، اور اس معاملہ میں اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو کہ کہیں اس کے احکام کی خلاف ورزی کرکے مستوجب سزا نہ بن جائو۔ اور دوران عدت عورت کی رہائش کے متعلق فرمایا لا تخرجوھن من بمیوتھن ان کو دوران عدت ان کے گھروں سے زبردستی نہ نکالو۔ مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں ہی عدت کے ایام پورے کرے۔ طلاق دینے کے فوراً بعد اسے گھر سے نہ نکال دو ۔ ولا یخرجن اور عورتیں خود بھی اس گھر سے نہ نکلیں ، بلکہ صبر کرکے بیٹھی رہیں۔ یہاں تک کہ عدت کے دن پورے ہوجائیں۔ ہاں ایک صورت میں انہیں گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ کہ وہ کھلی بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عورت کا گھر سے خود بخود چلاجانا بھی بےحیائی کی تعریف میں آتا ہے۔ چوری کرنا یا زنا کا مرتکب ہونا بھی بےحیائی کا کام۔ البتہ اگر وہ کسی ایسے جرم میں ملوث ہوجائے تو پھر اس حد جاری کرنے کے لئے گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ بعض دیگر عذر بھی ہوسکتے ہیں ، مثلاً گھر میں بالکل اکیلی ہے اور حفاظت کا معقول انتظام نہیں ہے۔ تو دوسری جگہ جاسکتی ہے۔ یا گھر کا ماحول ایسا ہے کہ لڑائی جھگڑا اور بدزبانی ہوتی رہتی ہے تو پھر بھی مطلقہ دوسری جگہ منتقل ہوسکتی ہے۔ فاطمہ بن قیس ؓ کا یہی مسئلہ تھا۔ وہ اپنے دیور اور نند وغیرہ سے تلخ کلامی کرتی تھی تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنے چچازاد یا خالہ زاد کے گھر میں جاکر عدت گزارے۔ فرمایا وتلک حدود اللہ ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں کہ صحیح وقت پر طلاق دو اور پھر عدت کی گنتی کو پوری کرو۔ ومن یتعد حدود اللہ اور جس نے اللہ کی حدوں سے تجاوز کیا۔ فقد ظلم نفسہ بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ وہ عنداللہ سزا کا مستحق ہوگا۔ فرمایا عورت کا اس گھر میں رہنا اس لئے ضروری ہے لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً ، کیونکہ اس کو علم نہیں شاید کہ اس کے بعد اللہ اس کے لئے کوئی صورت پیدا کردے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقیں ہوئی ہیں تو رجوع کا امکان ہوسکتا ہے ہاں اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت وہاں نہیں رہ سکتی ، تو پھر باہر مجبوری دوسری جگہ جاسکتی ہے۔
Top