Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mualim-ul-Irfan - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ
: اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اِذَا طَلَّقْتُمُ
: جب طلاق دو تم
النِّسَآءَ
: عورتوں کو
فَطَلِّقُوْهُنَّ
: تو طلاق دو ان کو
لِعِدَّتِهِنَّ
: ان کی عدت کے لیے
وَاَحْصُوا
: اور شمار کرو۔ گن لو
الْعِدَّةَ
: عدت کو
وَاتَّقُوا اللّٰهَ
: اور ڈرو اللہ سے
رَبَّكُمْ
: جو رب ہے تمہارا
لَا تُخْرِجُوْهُنَّ
: نہ تم نکالو ان کو
مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ
: ان کے گھروں سے
وَلَا يَخْرُجْنَ
: اور نہ وہ نکلیں
اِلَّآ
: مگر
اَنْ يَّاْتِيْنَ
: یہ کہ وہ آئیں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی کو
مُّبَيِّنَةٍ
: کھلی
وَتِلْكَ
: اور یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود ہیں
وَمَنْ يَّتَعَدَّ
: اور جو تجاوز کرے گا
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود سے
فَقَدْ
: تو تحقیق
ظَلَمَ نَفْسَهٗ
: اس نے ظلم کیا اپنی جان پر
لَا تَدْرِيْ
: نہیں تم جانتے
لَعَلَّ اللّٰهَ
: شاید کہ اللہ تعالیٰ
يُحْدِثُ
: پیدا کردے
بَعْدَ
: بعد
ذٰلِكَ
: اس کے
اَمْرًا
: کوئی صورت
اے نبی ! جب تم طلاق دو عورتوں کو ، پس طلاق دو ان کو عدت پر ، اور شمار کرو عدت کو ، اور ڈرو اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے۔ اور نہ نکالو ان عورتوں کو ان کے گھروں سے ، اور نہ نکالیں وہ خود بھی سوائے اس کے کہ وہ کوئی صریح بےحیائی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں ، اور جو شخص تعدی کرے گا ، اللہ کی حدوں سے ، پس بیشک اس نے ظلم کیا اپنی جان پر۔ وہ نہیں جانتا (وہ طلاق دینے والا) شاید کہ اللہ تعالیٰ پیدا کردے اس کے بعد کوئی معاملہ
نام اور کوائف : اس سورة مبارکہ کا نام سورة الطلاق ہے کیونکہ اس میں طلاق کے بعض احکام مذکور ہیں۔ یہ سورة مدنی زندگی میں نازل ہوئی ، اس کی بارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں ، اور یہ سورة 147 الفاظ اور 1170 حروف پر مشتمل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت کے مطابق اس سورة کو سورة الطلاق القصریٰ یعنی چھوٹی سورة طلاق کہا گیا ہے کیونکہ عاملی قوانین زیادہ تر سورة بقرہ میں نازل ہوئے ہیں اور یہ سورة اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔ سابقہ سورة کے ساتھ ربط : گزشتہ سورة میں زیادہ تر مسلمانوں کے اجتماعی معاملات بیان ہوئے ۔ بنیادی عقائد میں مسئلہ توحید ، رسالت ، قیامت اور جزائے عمل کا ذکر ہوا اور پھر انفاق فی سبیل اللہ اور خدا خوفی کا مسئلہ بیان ہوا۔ اللہ نے مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا اور یہ بھی کہ تمہاری بعض عورتیں اور بعض اولادیں تمہارے حق میں دشمن ہیں ، لہٰذا ان سے بچتے رہیں۔ فرمایا نہ تو ان کے خلاف انتقامی کاروائی کرنا اور نہ ہی ان کی محبت میں مبتلا ہو کر اللہ کی ذکر سے غافل ہوجانا۔ اب اس ضمن میں فرمایا ہے کہ اگر تمہاری عورتوں کی دشمنی حد سے بڑھ جائے تو پھر طلاق کی نوبت آجاتی ہے ، چناچہ اس سورة میں اللہ نے طلاق کے بعض مسائل ہطلقہ عورتوں کی مختلف قسمیں اور عدت کا مسئلہ بیان فرمایا ہے۔ نبی یا امت سے خطاب : اس سورة کا آغاز نبی سے خطاب کے ساتھ ہوتا ہے یایھا النبی اے نبی ! اذا طلقتم النساء جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔ یہاں پر یہ امر قابل غور ہے کہ خطاب پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات سے کرکے آگے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے کہ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ نبی (علیہ السلام) سے خطاب کرکے ساری امت کو سمجھانا مقصود ہے ، اس لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ نبی کو خطاب اس لئے کیا گیا ہے کہ نبی پوری امت کا سردار ہوتا ہے ، اور سردار کے حکم میں باقی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ، لہٰذا سب کے لئے جمع کا صیغہ آیا ہے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ یایھا النبی کے بعد لفظ قل مخذوف ہے اور معنی یہ کہ اے نبی ﷺ ! آپ امت کے لوگوں کو کہہ دیں کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔ فطلقوھن لعدتھن تو ان کی عدت پر طلاق دو ۔ شان نزول : ان آیات کا شان نزول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ایک بیوی حضرت حفصہ ؓ بنت حضرت عمر ؓ کو ایک طلاق دے دی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور اللہ نے حضور ﷺ کو رجوع کا حکم دیا کیونکہ حضرت حفصہ ؓ صوامۃ قوامہ بکثرت روزے رکھنے والی اور بہت عبادت کرنے والی خاتون تھیں۔ آپ کے لئے بشارت تھی کہ حضرت حفصہ ؓ جنت میں آپ کی بیوی ہوگی ، لہٰذا حضور ﷺ نے رجوع کرلیا۔ البتہ شان نزول کے ضمن میں زیادہ مشہور واقعہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا ہے۔ ان ہونے اپنی بیوی کو ایک طلاق دیدی۔ حضرت عمر ؓ نے یہ معاملہ حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ عبداللہ ؓ نے غلط کام کیا ہے ، اس کو کہہ کہ رجوع کرے ۔ چونکہ انہوں نے صرف ایک طلاق دی تھی لہٰذا رجوع کرلیا۔ اس سورة میں اللہ نے اس مسئلہ کی بھی وضاحت فرمادی ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق نہیں دینی چاہیے ، بلکہ اگر اس کے بغیر بالکل چارہ نہ ہو۔ تو پھر ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں میاں بیوی کا ملاپ نہ ہوا ہو۔ نکاح اور طلاق : طلا کا لغوی معنی بندش کو کھول دینا ، چھوڑ دینا یا آزاد کردینا ہے۔ اللہ نے طلاق کا حق مردوں کو دیا ہے جیسے فرمایا بیدہ عقدۃ النکاح (البقرہ 237) یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھوں میں ہے وہی اس کو بصورت طلاق کھولنے کا مجاز ہے ۔ مطلب یہ کہ نکاح کا اعتبار مرد سے ہے اور طلاق کی صورت میں عدت کا اعتبار عورت سے ہوتا ہے۔ کیونکہ عدت اسے پورا کرنا ہوتی ہے۔ طلاق ایک ناپسندیدہ امر ہے جب ایک مرد اور ایک عورت آپس میں نکاح کرتے ہیں تو وہ اس تعلق کو تازیست قائم رکھنے کا عہد کرتے ہیں۔ پھر اگر ان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے اور نباہ نہ ہوتا ہو تو قرآن پاک کا حکم یہ ہے کہ سب سے پہلے خود میاں بیوی ایسے تنازعہ کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو عورت اور مرد کے عزیز و اقارب یا سرپرست مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ طلاق کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ شریعت کی رو سے نکاح اوامت مقصود ہے۔ اگر کوشش کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو پھر شریعت نے میاں بیوی میں جدائی کی اجازت دی ہے ، اور اسی کا نام طلاق ہے۔ دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل : طلاق کے مسئلہ میں دیگر مذاہب افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ یہودیوں میں طلاق کو ایک معمولی چیز سمجھا جاتا ہے ، جب چاہا بلا قصور طلاق دے دی۔ اور پھر عورت کے لئے بھی کوئی پابندی نہیں ، وہ طلاق کے فوراً بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہے۔ اس کے برخلاف نصاریٰ میں ازروئے انجیل طلاق کی گنجائش بہت کم ہے۔ عورت کے زانیہ ثابت ہونے کے علاوہ طلاق کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ اگر اس واحد عذر کے بغیر کوئی شخص طلاق دے دیں تو وہ طلاق ہی شمار نہیں ہوتی اور اگر ایسی عورت نکاح ثانی کرلے تو وہ زنا شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ہندوئوں میں نکاح تازیست ہوتا ہے ، اور طلاق کی کوئی گنجائش نہیں خواہ حالات کتنے بھی خراب ہوجائیں۔ غرضیکہ دیگر مذاہب میں اس مسئلہ میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس نے اعتدال کی تعلیم دی ہے۔ چناچہ اگرچہ اسلام میں نکاح تازیست ہوتا ہے جس نے نباہ کی صورت میں فی الجملہ آزادی کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ طلاق کے لوازمات : حضور ﷺ کا ارشاد ہے ابغض المباحات الی اللہ الطلاق اللہ کے نزدیک جائز امور میں مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔ اگرچہ طلاق کو پسند نہیں کیا گیا مگر اشد ضرورت کے وقت یہ حق استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب میاں بیوی کا نباہ نہ ہوسکے اور دینی یا معاشرتی لحاظ سے خرابیاں پیدا ہورہی ہوں تو پھر آزادی کا راستہ بھی موجود ہے۔ تاہم طلاق کے معاملہ میں بعض پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ طلاق دیتے وقت مناسب اور موزوں وقت کا لحاظ ضروری ہے اور طلاق کی تعداد کا تعین بھی کردیا گیا ہے۔ پھر اگر طلا دے دی جائے تو نکاح ثانی سے پہلے عورت کے لئے مقررہ عدت گزارنا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ مردوزن کے نکاح کا تعلق ایک عظیم تعلق ہے جس کا حق عدت کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے نسب وغیرہ میں کوئی اشتباہ واقع نہ ہوجائے۔ مثال کے طور پر اگر عورت حاملہ ہو تو نکاح ثانی سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کی نسل کا تعین ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے عورت کو عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خلع اور طلاق بالمال : پہلے میں نے عرض کیا ہے کہ اللہ نے طلاق کا تعلق مرد کے ساتھ رکھا ہے۔ اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ جس کا ذکر سورة البقرہ میں موجود ہے۔ ایک خلع ہے اور ایک طلاق بالمال۔ اگر زوجین کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرجائے اور مرد طلاق دینے کے لئے تیار نہ ہو۔ جب کہ عورت اس سے گلو خلاصی چاہتی ہو تو ایسی صورت میں عورت عدالت مجاز کی طرف رجوع کرکے اپنا معاملہ پیش کرسکتی ہے۔ عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد اگر مناسب سمجھے تو میاں بیوی میں تفریق یا علیحدگی کر اسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مرد کی طرف سے طلاق کی بھی ضرورت نہیں ہے البتہ اگر فریقین رضامند ہوں تو عورت کچھ مال دے کر بھی مرد کو خلع پر راضی کرسکتی ہے اس مقصد کے لئے عورت حق مہر واپس کرسکتی ہے۔ اگرچہ اس سے زیادہ مال بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ خلع کے بعد عورت عدت گزار کر نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ دوسری صورت طلاق بالمال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بیوی طلاق لینا چاہے تو مرد کسی مال کا ماطلبہ کرسکتا ہے۔ جس کے عوض وہ طلاق دینے پر راضی ہوجائے گا۔ اگر بیوی مطلوبہ مال دے کر گلہ خلاصی کرانے پر تیار ہو تو اس مال کے بدلے میں خاوند اپنی بیوی کو باقاعدہ طلاق دے دیگا ، یہ طلاق بالمال ہے۔ اس کے بعد عورت عدت پوری کرکے نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی۔ طلاق کا صحیح طریقہ : طلاق دینے کا احسن طریقہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو۔ اس سے طلاق کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ یعنی تین حیض گزرنے پر عدت پوری ہوجائیگی اور عورت نکاح ثانی کے لئے آزاد ہوگی۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلاق دینے کے بعد میاں بیوی کو سوچنے سمجھنے کے لئے کم وبیش تین ماہ کا وقت مل جائے گا۔ اگر اس دوران میں فریقین کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو مرد رجوع بھی کرسکتا ہے اور اس کے لئے دوبارہ نکاح کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ اور اگر تین حیض گزر جائیں تو پھر بھی مرد وزن باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں۔ یا عورت دوسری جگہ بھی نکاح کرسکتی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب کہ ایک طلاق رجعی دی گئی ہو یعنی طلاقت دیتے وقت ڈرانے دہمکانے کی نیت ہو۔ اور اگر طلاق دیتے وقت بالکل جدائی کی نیت تھی۔ تو پھر یہ طلاق بائن ہوگی۔ اور اگر میاں بیوی عدت کے اندر بھی دوبارہ ملنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرکے ایسا کرسکتے ہیں۔ طلاق کا دوسرا صحیح طریقہ سنت کہلاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ عورت کو کسی صورت میں بھی نہیں رکھنا چاہتا… اور ایک سے زیادہ طلاقیں دینے پر ہی بضد ہے تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے۔ پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے۔ اور اگر اب تک وہ اپنے فیصلے پر قائم ہے تو پھر تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے دے ، اب یہ طلاق مغلظہ ہوگئی اور رجوع نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرلے اور پھر وہاں سے طلاق ہوجائے یا عورت بیوہ ہوجائے تو اس صورت میں اگر وہ پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے ، عدت گزارنے کے بعد۔ طلاق بدعت : تیسری قسم کی طلاق طلاق بدعت کہلاتی ہے ، یہ ایسی طلاق ہوتی ہے جو حیض کی حالت میں دی جائے۔ یا طہر کی حالت میں تین طلاقیں بیک وقت دیدی جائیں۔ ایسی طلاق نافذ تو ہوجائے گی۔ مگر طلاق دینے والا گناہ کا مرتکب ہوگا اور عورت مغلظہ ہو کر جدا ہوجائیگی۔ اب نہ تو رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اس کی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور عبداللہ بن عباس ؓ کی روایات میں موجود ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ اگر حیض کے دوران تین طلاقیں دے دی جائیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا طلاق نافذ ہوجائیگی اور ایسا غلط طریقہ اختیار کرنے پر حکم جاری ہوگا اور عورت بھی اس سے جدا ہوجائے گی وعصیت ربک اور رب تعالیٰ کا نافرمان بھی ہوگا۔ اس مسئلہ میں شیعہ ، ظاہر یہ اور غیر مقلد حضرات اختلاف کرتے ہیں۔ وہ اس صورت میں بھی رجوع کے قائل ہیں کیونکہ ان کے مطابق بیک وقت تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ البتہ چاروں امام (امام اعظم ابوحنیفہ (رح) ، امام مالک (رح) ، امام شافعی (رح) ، امام احمد بن حنبل (رح) اور جمہور صحابہ ؓ ، تابعین (رح) اور محدثین (رح) کہتے ہیں کہ یہ طلاق مغلظہ ہو کر نافذ ہوجاتی ہے۔ عدت کا شمار : فرمایا اے پیغمبر ﷺ ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو عدت پر طلاق دو واحصوا العدۃ اور عد ت کو شمار کرو تاکہ کوئی گڑ بڑ نہ ہو۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ، عورت کو طہر کے دوران طلاق دی جائے اور پھر تین حیض کی گنتی پوری کی جائے۔ سورة بقرہ میں ثلثۃ قروع (آیت 228) کے الفاظ آتے ہیں۔ قرء کا معنی حیض بھی آتا ہے۔ اور طہر بھی۔ تاہم امام ابوحنیفہ (رح) اس سے حیض مراد لیتے ہیں۔ یعنی کس طہر میں طلاق دینے کے بعد تین حیض کی عدت ہوگی۔ اگر حیض کی حالت میں طلاق دی جائے تو پھر عدت کا عرصہ ٹھیک طریقے سے شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ جس حیض میں طلاق دی جائے گی اس کو پورا شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے کچھ ایام پہلے گزر چکے ہوں گے۔ اور اگر اس حیض کو بالکل نظر انداز کرکے اس کے علاوہ تین حیض شمار کیے جائیں۔ تو اس حیض کا کچھ حصہ تین سے بڑھ جائے گا۔ لہٰذا سنت طریقہ یہی ہے کہ طہر میں طلاق دی جائے۔ عدت کے دوران سکونت : چونکہ عدت کے شمار کرنے میں حلال و حرام کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ عدت کو شمار کرلیا کرو۔ والقوا اللہ ربکم ، اور اس معاملہ میں اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو کہ کہیں اس کے احکام کی خلاف ورزی کرکے مستوجب سزا نہ بن جائو۔ اور دوران عدت عورت کی رہائش کے متعلق فرمایا لا تخرجوھن من بمیوتھن ان کو دوران عدت ان کے گھروں سے زبردستی نہ نکالو۔ مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے گھر میں ہی عدت کے ایام پورے کرے۔ طلاق دینے کے فوراً بعد اسے گھر سے نہ نکال دو ۔ ولا یخرجن اور عورتیں خود بھی اس گھر سے نہ نکلیں ، بلکہ صبر کرکے بیٹھی رہیں۔ یہاں تک کہ عدت کے دن پورے ہوجائیں۔ ہاں ایک صورت میں انہیں گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ کہ وہ کھلی بےحیائی کا ارتکاب کربیٹھیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عورت کا گھر سے خود بخود چلاجانا بھی بےحیائی کی تعریف میں آتا ہے۔ چوری کرنا یا زنا کا مرتکب ہونا بھی بےحیائی کا کام۔ البتہ اگر وہ کسی ایسے جرم میں ملوث ہوجائے تو پھر اس حد جاری کرنے کے لئے گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ بعض دیگر عذر بھی ہوسکتے ہیں ، مثلاً گھر میں بالکل اکیلی ہے اور حفاظت کا معقول انتظام نہیں ہے۔ تو دوسری جگہ جاسکتی ہے۔ یا گھر کا ماحول ایسا ہے کہ لڑائی جھگڑا اور بدزبانی ہوتی رہتی ہے تو پھر بھی مطلقہ دوسری جگہ منتقل ہوسکتی ہے۔ فاطمہ بن قیس ؓ کا یہی مسئلہ تھا۔ وہ اپنے دیور اور نند وغیرہ سے تلخ کلامی کرتی تھی تو حضور ﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنے چچازاد یا خالہ زاد کے گھر میں جاکر عدت گزارے۔ فرمایا وتلک حدود اللہ ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں کہ صحیح وقت پر طلاق دو اور پھر عدت کی گنتی کو پوری کرو۔ ومن یتعد حدود اللہ اور جس نے اللہ کی حدوں سے تجاوز کیا۔ فقد ظلم نفسہ بیشک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ وہ عنداللہ سزا کا مستحق ہوگا۔ فرمایا عورت کا اس گھر میں رہنا اس لئے ضروری ہے لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امراً ، کیونکہ اس کو علم نہیں شاید کہ اس کے بعد اللہ اس کے لئے کوئی صورت پیدا کردے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقیں ہوئی ہیں تو رجوع کا امکان ہوسکتا ہے ہاں اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت وہاں نہیں رہ سکتی ، تو پھر باہر مجبوری دوسری جگہ جاسکتی ہے۔
Top