بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Urwatul-Wusqaa - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے نبی کریم ﷺ جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کو مقرر وقت کے مطابق طلاق دو اور (طلاق کے بعد) وقت کا اندازہ رکھو اور اللہ کا جو تمہارا رب ہے تقویٰ اختیار کرو ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں سوائے اس کے کہ وہ ایک کھلے گناہ کی مرتکب ہوں ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو وہ خود اپنے حق میں ظلم کرے گا تجھے کیا معلوم کہ اللہ اس (طلاق) کے بعد کوئی (اصلاح کی) صورت پیدا کر دے (دونوں میں صلح ہوجائے)
طلاق اور عدت کے مسائل بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی مخاطب کرنے کی حکمت 1 ؎ (طلاق) طلاق ، جدائی ، رخصت کرنا ، چھوڑ دینا ، نکاح کی قید سے عورت کے باہر آنے کو طلاق کہتے ہیں ۔ یہ مصدر ہے ، اس کا فعل باب نصر اور کرم دونوں سے آتا ہے ۔ نیز ” طلاق “ بمعنی تطیق ( چھوڑ دینے) کا اسم ہو کر بھی مستعمل ہے۔ طلاق کے معنی لغت میں قید سے رہا کرنے اور چھوڑ دینے کے ہیں اور شرع میں ملک نکاح کے زائل کرنے کو کہتے ہیں ۔ طلاق بدعت یہ ہے کہ عورت کی تین طلاقیں ایک ہی حکم کے ساتھ دی جائیں یا تینوں ایک ہی طہر میں دی جائیں ۔ طلاق سنت یہ ہے کہ مرد عورت کو تین طلاقیں تین طہر میں دے۔ طلاق حسن یہ ہے کہ مرد عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس سے جماع نہ کیا ہو ۔ ایک طلاق دے کر چھوڑ دے اور دوسری طلاق نہ دے یہاں تک کہ وہ اپنی عدت پوری کرلے۔ کتاب التعریفات مطبوعہ خیریہ مصر ( 1306 ء ص 61) کتب فقہ میں اس کی تصریح بھی کی گئی ہے کہ کن الفاظ سے طلاق دی جائے اور پھر ان الفاظ کے اتار چڑھائو سے جو فرق پڑتا ہے ان کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور مزلے لے لے کر مسائل طلاق اور الفاظ طلاق بیان کیے گئے ہیں اور حائر فقہ میں مزے دار کہانیاں طلاق و نکاح میں بیان کی گئی ہیں جن کا ذکر ہم نے ترک کردیا ہے کہ ہم ان میں اپنا شمار نہیں چاہتے کہ یہ کام فقیہان امت کا ہے اور مفتیان شرع متین کا ۔ ان ہی کو بل ڈالنے اور نکالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ طلاق کی مختصر تعریف آپ نے سن لی ۔ زیر نظر آیت میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب فرما کر جمیع مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح واضح الفاظ میں آپ ﷺ کو مخاطب فرما کر جمع کا صیغہ بول کر امت کے لوگوں کو مخاطب کرنا کسی دوسرے کے حکم میں نہیں آیا ۔ اسی لیے مفسرین نے اس جگہ تقدیر کلام کو اس طرح بیان کیا کہ : یایھا النبی قل لا متک اذا طلقتم النساء ” اے نبی کریم ﷺ آپ ﷺ اپنی امت کو حکم دیں کہ جب وہ طلاق دینے کا ارادہ کریں “ اسی طرح قوم کے سردار کو جو حکم دیا جاتا ہے اس کی قوم کے افراد خود بخود اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس سے فعل کی اہمیت کو ظاہر کرنا مقصود اصل ہے یعنی جو حکم دیا جا رہا ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت اہم ہے اور جو بات بیان کی جارہی ہے اس کو رغبت کے ساتھ سننے کے لیے اور سختی کے ساتھ اس پر کاربند کرنے کے لیے ایسا بیان جاری کیا جاتا ہے۔ لاریب طلاق ایک ناپسندیدہ فعل ہے لیکن اس کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ مقصود بیان یہ ہے کہ جب تم طلاق دینے کا ارادہ کرو تو تم پر مندرجہ ہدایات کی پابندی ضروری ہے اور وہ پابندی آگے بیان کی جا رہی ہے۔ وہ پابندی یہ ہے کہ ” جب تم ان کو طلاق دو تو عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو۔ (فطلقو ھن لعدتھن واحصوا العدۃ) دور جاہلیت میں طلاق اس طرح دی جاتی تھی کہ خاوند کو بی بی پر کسی بات کے باعث غصہ آیا تو غصہ کے عالم میں طلاق ، طلاق ، طلاق کی بکواس شروع کردی اور پھر بکتا ہی گیا ، تین بار کہا ، نہیں ! بیسیوں بلکہ سینکڑوں بار ۔ مرزا جی قادیانی کی طرح کہ لعنت کا جال بننے لگے تو بنتے ہی گئے اور لعنت ، لعنت کے لفظ سے کتنے صفحات پر کردیئے اور کاتب صاحب نے ایک ہزار بار جو لعنت لکھی تو لعنت کا لفظ بھی ذرا کشادہ کر کے لکھا تاکہ اس کو ایک صفحہ کی اجرت زائد مل جائے ۔ شاید مرزا صاحب بھی اس وقت کسی غصہ ہی کے عالم میں تھے یا اتنی بار مرزا جی پر لعنت وحی ہوئی ہے اللہ جانے یا مرزا جی کے حواریوں کو کچھ معلوم ہوگا ہم نے تو صرف صفحات کالے ہوتے دیکھے ہیں اس لیے جو دیکھا ہے لکھ دیا ہے۔ بہر حال یہ طلاق طلاق کا مراق ہوا جب تک وہ جاری رہا ، اور اس غصہ کی حالت ہی میں عورت کو دھکے دے کر دروازے سے باہر کردیا۔ اس کی وضاحت کی اس لیے ضرورت نہیں کہ اس وقت ہم مسلمانوں کے ہاں اکثریت کی جو طلاقیں ہوتی ہیں بالکل اسی دورجاہلیت کی طلاق کی یاد تازہ کرتی ہیں ۔ ہمارے مفسرین کو اس بات کا اعتراف ہے کہ دور جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا اور اس کی روک تھام کے لیے یہ سورت اور خصوصاً یہ آیت نازل کی گئی ۔ ہمیں افسوس ہے کہ اس اعتراف کے باوجود دور جاہلیت کی اس طلاق کو طلاق تسلیم کرلیا گیا اور طلاق دینے والوں کو حلالہ کی لعنت میں لگا کر ان کو اس کا حل نکال دیا یعنی طلاق دینے والے نے جو دین اسلام اور قرآن کریم کی اس آیت کو استہزاء اور مذاق کا نشانہ بنایا تھا اس میں شریک ہو کر اس کی مجبوری کے پیش نظر اپنے پیٹ کا دھندا درمیان میں رکھ دیا ۔ اس کی بیوی حرام بھی استعمال کی اور اس سے اس حرام کی اجرت بھی جو دل نے چاہا وصول کرلی اور ایک ہی رات میں اس کی بیوی کو حلال کر کے اس کو واپس کردی اور آیت کا مفہوم یہی بان کیا کہ یہ دراصل دور جاہلیت کی طلاق کا اس میں رد کیا گیا ہے پھر دور جاہلیت کے رد کا جو ردعقل و فکر میں علاج تجویز کیا گیا ہے وہ دور جاہلیت کے علاج سے ہزار بار برا ہے جس میں عورت کی عصمت کا بھی ستیا ناس ہوا ، بیوی والے احمق کی قرم بھی گئی اور اس کا نسب بھی خراب کردیا اور پھر یہ سب کچھ جو کیا دین کی آڑ میں کیا ۔ کھجوریں بھی کھائیں اور گٹھلیوں کے دام بھی وصول کرلیے ۔ مثل ہے کہ ” بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل “ اور اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ” بلی کے بھاگوں چھنکا ٹوٹا “۔ اسلام نے جس چیز کی روک تھام کی ہے وہ کیا ہے ؟ اسلام نے طلاق کا جو قانون پیش کیا ہے اس میں اس امر کا پوری طرح خیال رکھا گیا ہے کہ طلاق دینے والا جلد بازی میں طلاق نہ دے۔ یہ کہ کوئی وقتی رنجش یا عارضی نفرت طلاق کا باعث نہ ہو۔ طلاق دینے والا سوچ سمجھ کر اس کے نتائج و عواقب کو مد نظر رکھتے ہوئے طلاق دے اگر اس کے سوا اس کے پاس کوئی اور چارہ کار نہیں رہا ۔ گویا اس آیت میں حکم دیا جا رہا ہے کہ جب کوئی شخص تم میں سے اپنی بیوی کو طلاق دے تو اس کی عدت کو مد نظر رکھتے ہوئے دے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ طلاق حالت حیض میں نہ دی جائے ۔ نیز ایسے طہر میں بھی طلاق نہ دی جائے جس میں مباشرت ہوچکی ہو کیونکہ ان دونوں طریقوں سے عدت میں طوالت ہونے کا خطرہ موجود ہے اگرچہ پہلے میں کم ہے اور دوسرے میں زیادہ ہے اور اس طرح مطلقہ کو تکلیف برداشت کرنا پڑے گی ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر اس نے حالت حیض میں طلاق دی تو وہ حیض تو عدت میں شمار نہیں ہوگا اور اس کے علاوہ تین مزید حیضوں کا اسے انتظار کرنا پڑے گا ۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی جس میں وہ مباشرت کرچکا ہے تو اس سے مرد و زن دونوں کو خبر نہیں کہ اس مباشرت سے حمل قرار پایا ہے یا نہیں اور پھر دوبارہ حیض نہ آیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حمل رہ گیا ہے جس سے عورت کی عدت مزید بڑھ جائے گی اس طرح ان امکانی صورتوں کو روکنے کے لیے جو پابندیاں اسلام نے لگائیں وہ عین حکمت کے مطابق تھیں ۔ پھر اگر ان کی پابندی نہ کی جائے تو فریقین کے لیے مزید پریشانیاں بڑھنے کا امکان ہے اسی لیے سورة البقرہ میں بیان کیے گئے قانون کی اس جگہ مزید وضاحت کردی گئی اور یہ بات اس سے روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق قطعاً طلاق واقع ہی نہیں ہوتی اور اس طرح طلاق دینے والا قانونا ً مجرم ہے اور اسلامی حکومت اس کے جرم کی سزا وقت کے مطابق متعین کرسکتی ہے بلکہ ضرور مقرر کرنی چاہئے تاکہ اس طرح طلاق طلاق کا ڈنڈا برسانے والوں کا علاج ہو سکے اور اسی طرح یہ بھی کہ حلالہ نکالنے والوں اور نکلوانے والوں کے لیے سخت سے سخت سزا تجویز کی جائے تاکہ اس طرح لعنت کے مستحق ہونے والوں کو اپنے کیے کی سزا دنیا میں مل جائے اور وہ اس طرح کی بری حرکتوں کو دین کی آڑ میں نہ کرسکیں۔ ” اور اللہ کا جو تمہارا رب ہے تقویٰ اختیار کرو “ قانون اسلام کی خلاف ورزی پر جہاں بھی قرآن کریم میں اللہ کا ڈر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے وہاں اس بات کی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اسلامی حکومت اس کا خلاف کرنے والوں کے لیے ضروری سزا تجویز کرکے اس کا اعلان کرے اور قانونا ً اس کی پابندی کرائے تاکہ احکام خداوندی کا لوگ مذاق نہ اڑائیں ۔ قانون میں صرف اشارہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ جو قانون میں ضمنی شقیں ہوتی ہیں ان شقوں کو نافذ کرنے کے لیے وقت اور حالات ، زمانہ اور خلاف ورزی کی نوعیت کے پیش نظر سزا میں کمی بیشی کی جاسکے اور اس طرح جہاں اسلام میں وسعت رکھی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور یہ کہ مسلمانوں کو وقتی ضرورتوں کے لیے کمی بیشی کرنے کی من حثق الحکومت اجازت رہے۔ خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ کے واقعات اور فقہائے اسلام کے اختلافات سے اس میں بہت مدد مل سکتی ہے کیونکہ جہاں جہاں بھی فقہائے امت نے آپس میں اختلاف کیا ہے وہاں کم از کم یہ کہ اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور جس طرح وہ آپس میں اختلاف کر کے دین اسلام کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اب بھی لوگ اس طرح کی باتوں میں اختلاف کر کے جو قانون بنائیں گے ان کو ایسا کرنے کا حق ہے تاکہ وقت کے مطابق حکومت اس وسعت سے فائدہ اٹھاتی رہے جیسا کہ وقتی تبدیلیاں کسی حد تک انسانوں کو مجبور کرتی آئی ہیں ، کر رہی ہیں اور کرتی رہیں گی جس طرح نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے ان کا حل بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا ۔ آیت کے اس ٹکڑے میں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ غصہ کی حالت میں نہیں اگر کوئی رنجش ہوچکی ہے کہ ازدواجی سکون فریقین میں بحال نہیں ہو سکتا تو اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کا بھی کوئی حق نہیں کیونکہ ظلم و زیادتی کرنے والوں کا علاج اللہ نے تیار کر رکھا ہے اگر دنیوی حالات کا چلانا مشکل ہوگیا تو آخرت کو برباد نہ کرو ۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے بنائے ہوئے قانون کی پابندی کے ساتھ عورت کو رخصت کرو ۔ عقل و فکر کے ساتھ سوچ سمجھ کر نہ کہ غصہ کی حالت میں فاتر العقل ہو کر ۔ ” ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکال دو “ اللہ کے حکم کے مطابق تم دونوں کا الحاق ہوا تھا اور تم دونوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی تھیں اگر ان ذمہ داریوں کو کسی وجہ سے نبا ھنا ناگزیر ہے تو اس کا آخری حل طلاق ہے اور طلاق کا لفظ ادا کرنے کے ساتھ ہی عورتوں کو گھروں سے مت نکالو بلکہ سوچ سمجھ کر بیوی کی حالت کو دیکھ کر جب حیض سے پاک ہوجائے تو اس کے قریب گئے بغیر ایک طلاق اس کو دے دو لیکن یہ طلاق دیتے ہی اس کو گھر سے مت نکالو ابھی وہ تمہارے حبالہ عقد کے اندر ہے اور طلاق کا نفاذ عورت کے تین طہروں میں ہوگا اور پھر تین طہر گزر جانے کے بعد نفاذ طلاق ہوجائے گی اگر تم نے رجوع نہیں کیا تھا تو اب اس کو رخصت کرو اور جو مال تم نے اس کو دیا ہے بطور حق مہر وہ تو کسی صورت تم نہیں روک سکتے اور اگر اس کے علاوہ بھی کچھ اس کو دے چکے ہو تو بہتر ہے کہ اس کا مطالبہ نہ کرو ۔ دوسری آیات کو ساتھ ملانے سے اس کا یہی مفہوم نکلتا ہے۔ ” وہ عورتیں جو خود بھی طلاق کے نفاذ تک ان گھروں سے نہ نکلیں “ ( ولا یخرجن) میں یہی حکمت مخفی ہے کہ جب دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے تو عین ممکن ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی اصلاح کی صورت نکل آئے ۔ ویسے بھی ایک عورت کو اس طرح بےسہارا اور بےآسراکر کے گھر سے نکال دینا جب کہ وہ کسی دوسری جگہ ابھی نکاح بھی نہیں کرسکتی ایک بہت بڑی سنگ دلی کی بات ہے اور یہ بھی کہ جب تک وہ عدت گزار رہی ہے اس کا نان و نفقہ اور رہائش کی ذمہ داری طلاق دینے والے مرد پر ہے۔ اس ذمہ داری سے وہ عہدہ برا تب ہی ہو سکتا ہے جب کہ اس کی عدت کے دن گنے جا چکے ہوں ۔ ” ہاں ! اگر وہ کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان کو نکالا جاسکتا ہے “ بات واضح ہے کہ ابھی وہ اپنے پہلے خاوند سے کلی طور پر فارغ نہیں ہوئی اس لے اس کی ذمہ داری میں رہ رہی ہے لیکن اس دوران وہ کسی حرام کاری کی مرتکب ہونے لگے یا کوئی ایسی بےحیائی کی حرکت شروع کر دے جو اس کے لیے نازیبا ہو تو یہ دوسری بات ہے۔ ایس حالت میں اس کو وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی دیا جاسکتا ہے جن باتوں پر ( فاجشۃ مبینۃ) کے الفاظ کا اطلاق ہو سکتا ہے ان سب کے لیے یہی حکم ہے۔ فرمایا اوپر جو باتیں بیان کی گئی ہیں ” یہ سب اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز کرتا ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے “ حدود اللہ اس لیے ہوتی ہیں کہ ان کا نفاذ کیا جائے نہ کہ محض بیان کردینے کے لیے کہ ایک بات کہہ دی کسی کا دل چاہے تو مان لے نہ جی چاہے تو نہ مانے بلکہ ان پر عمل کرنا اور حکومت کا بذریعہ قانون ان پر عمل کروانا نہایت ضروری ہے۔ ان کو لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ یہ حدود جس حکمت کے تحت بیان ہوئی ہیں اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو ان کی پابندی نہ کرے گا اس سے ان کی پابندی کرائی جائے گی ۔ یہ حکومت اسلامی کا فرض ہے کہ ان پر عملدرآمد کرائے ۔ رہا وہ شخص جو اس طرح کا ظلم کرتا ہے تو جب اس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے تو ایسے ظلم کرنے والے ظالموں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں یقینا سزا دے گا اور اگر وہ دنیا کی سزا سے کسی طرح بچ بھی گئے تو آخرت میں یقینا دھر لیے جائیں گے۔ فرمایا یہ حدود اللہ جو مقرر کی گئی ہیں ان کے اندر کیا کیا حکمتیں مخفی ہیں اور ان میں جو رعایت رکھی گئی ہے ان کے نتائج کتنے اچھے نکلنے کا امکان ہے یہ بات آپ پر واضح نہیں ہے جب ان کے مطابق عملدرآمد شروع کیا جائے تو اس کی حکمتیں ظاہر ہوں گی اس وقت تم پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا اور ہم اس کی اصل حقیقت کی طرف پیچھے واضح الفاظ میں اشارہ کر آئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک رشتہ ازدواج بڑا نازک ہے اور مقدس رشتہ ہے۔ اس کے متعلق سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ رشتہ جتنا صحت مند بنیادوں پر مستحکم ہوگا خاندان اور معاشرہ اتنا ہی مسرتوں سے مالا مال ہوگا اور خوشحالی کی فضا میں نشو ونما پائے گا ۔ اسلام اس بات میں بہت حریص ہے کہ اس رشتے کا تقدس مجروح نہ ہونے پائے کیونکہ اس رشتہ پر صرف مرد و زن کی خوشی اور آبادی موقوف نہیں بلکہ ان کی معصوم اولاد ، فریقین کے قریبی رشتہ دار بلکہ پورے خاندان کا مفاد وابستہ ہے۔ اس لیے اسلام پوری کوشش کرتا ہے کہ یہ رشتہ حتی الامکان ٹوٹنے نہ پائے لیکن بعض حالات میں یہ تعلق وبال جان بھی بن جاتا ہے اس وقت دونوں کی بھلائی اسی میں ہوتی ہے کہ انہیں اس قید سے رہائی مل جائے تاکہ دونوں کا سکون بحال ہو کیونکہ یہ رشتہ ہی سکون بحال کرنے کے لیے تھا اگر وہی برباد ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا ۔ ان ناگزیر حالات میں اسلام نے اس کو ختم کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کو ختم کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ۔ اگر یہ مقدس رشتہ چلانا نا گزیر ہوجائے تو اس کو اسی طریقہ کے مطابق ختم کرنا ضروری ہے اور جو لوگ اس کی خلاف ورزی کریں گے وہ قابل سزا ہوں گے۔ ہم نے زیر نظر آیت کو جزء جزء کر کے واضح کیا ہے تاکہ اس آیت میں بیان کیے گئے احکامات واضح ہوجائیں اور قارئین اگر ان کی سوچ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ آیت کا مفہوم بالکل واضح ہوجائے گا لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان ہدایات کے مطابق ہم عمل کر رہے ہیں یا نہیں اور اگر نہیں تو پھر ہم میں اور کفر کے معاشرہ میں فرق کیا ہے ؟ ہم نے جو عائلی قوانین بنائے ہیں اور ان عملدرآمدہورہا ہے کیا وہ اسلامی ہدایات کے مطابق ہے ؟ اگر نہیں تو آخر کون ہے جو اس کو ان ہدایات کے مطابق کرے گا ؟ کیا ہمارے مکاتب فکر کم از کم اس طلاق کے معاملہ میں اسلامی قانون کے ترجمان ہیں یا کفر کے قانون کی ترجمانی کر رہے ہیں ؟ طلاق دینے والے جس طریقہ سے طلاق دے رہے ہیں وہ طریقہ اسلام کا طریقہ ہے ؟ اگر نہیں تو لوگوں کو اسلام کا طریقہ سکھلانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ۔ اگر طلاق دینے والا سوچ سمجھ کر عقل و فکر سے طلاق نہ دے تو اس کا حل کیا ہے ؟ ہمارے خیال میں ہمارے ملک کے اندر اس وقت جو طلاق دینے کا طریقہ ہے وہ مکمل طور پر غیر اسلامی ہے کیونکہ وہ ہدایات قرآنی کے سراسرخلافت ہے۔ اس لیے اس معاملہ میں ہمارے اور کفر کے طریقہ طلاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو عائلی قوانین بنائے گئے ہیں ان میں طلاق دینے والے کے طریقہ طلاق کے متعلق کچھ وضاحت نہیں ہے اور جو کچھ ہے وہ اسلام کے قانون کے سراسر خلاف ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں عرائض نویسوں کو طریقہ طلاق کے متعلق فارم تیار کر کے بھجوائے اور نشرو اشاعت کے اداروں کے ذریعہ عوام تک یہ بات پہنچا دے کہ طلاق دینے کے لیے لازم ہے کہ طلاق دینے والا کسی عرضی نویس سے طلاق نامہ تحریر کروائے جو طلاق دینے والے کی طرف سے حلفیہ بیان تصور کیا جائے اور وہ وہی فارم ہو جو عرائض نویسوں کو مہیا کیا گیا ہے۔ اس وقت ہمارے ہاں جو عائلی قوانین رائج ہیں ان میں زیادہ تر اسلامی روح کے خلاف ہیں اور پھر ان پر عملدرآمد بھی صحیح طریقہ سے نہیں ہو رہا ہے ۔ اس کے واضح ثبوت موجود ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا صحیح حل تلاش کر کے ان کو نافذکرائے۔ لوگوں کو اسلامی طریقہ سکھانے کے لیے نشرو اشاعت کے اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ طریقہ طلاق کا اعلان کریں اور بار بار اس کی وضاحت بیان کریں اور ایک مدت متعین کردیں کہ اس مدت کے اندر اندر یہ فارم عرائض نویسوں سے دستیاب ہوں گے اور اس تاریخ کے بغیران فارموں کی دی گئی طلاق نافذ نہیں ہوگی ۔ بلا شبہ یہ تادیبی کارروائی ہے لیکن اس کی اصلیت اسلام میں موجود ہے۔ حکومت اگر فقہی مکاتب فکر کے ڈر سے اس سلسلہ میں قدم نہ اٹھا سکتی ہو تو پہلے اس کا اعلان اخبارات کے ذریعہ کرائے کہ حکومت اس طرح کا اقدام کرنا چاہتی ہے اور اس کا یہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے اگر کسی مکتب فکر کو اس پر اعتراض ہو تو وہ اپنا اعتراض پیش کریں تاکہ اس پر غور و فکر کرلیا جائے اور اس کی کاپیاں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کو رجسٹری کرائی جائیں اس طرح چار چھ ماہ کے اندر ہر مشکل حل کرائی جاسکتی ہے پھر اس کے بعد بولنے والوں کے لیے کچھ سزائیں لازم کردی جائیں تاکہ اس فتنہ کا فتنہ اٹھنے سے قبل ہی انسداد ہوجائے۔ مختصر یہ کہ اگر حکومت اخلاص کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے اور قرآن کریم کی ان آیات کے پیش نظر ان کے ساتھ مذاق ہوتے نہ دیکھنا چاہئے تو بہت کچھ کرسکتی ہے لیکن اگر حکمران طبقہ نہ چاہے تو عوام یہی کرسکتے ہیں کہ حکومت کو اس کے انسداد پر مجبور اور اسکے لیے جو طریقے ہیں وہ سب کو معلوم ہیں کہ حکومت کونسی زبان سمجھتی ہے۔
Top