بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
اس میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ یایھا النبی اذا طلقتم النساء خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے جمع کے لفظ کے ساتھ خطاب تعظیم اور تفحیم کے لئے ہے۔ سنن ابن ماجہ میں سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ کو طلاق دی تو وہ اپنے اہل میں آگئیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ آپ ﷺ سے کہا گیا : اس سے رجوع کرلیں کیونکہ وہ بڑی عبادت گزار اور روزے رکھنے والی ہے جنت میں بھی یہ آپ کی بیویوں میں سے ہے (1) ، ماوردی، قشیری اور ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے (2) ۔ قشیری نے یہ زائد ذکر کیا ہے ان کے اپنے گھر والوں کی طرف جانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : لاتخرجو ھن من بیوتھن نازل ہوا۔ کلبی نے کہا : اس آیت کے نزول کا سبب رسول اللہ ﷺ کا حضرت حفصہ پر ناراض ہونا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان سے راز داری کی بات کی تھی تو حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ ؓ سے بات کی تو رسول اللہ ﷺ نے حصرف حفصہ کو طلاق دے دی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ سدی نے کہا : یہ آیت حضرت عبد اللہ بن عمر کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی، رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ اس سے رجوع کرے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے پھر حائضہ ہو اور پھر پاک ہوجائے جب وہ اسے طلاق دینے کا ارادہ کرے تو جب وہ پاک ہو تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دے یہ وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں کو طلاق دی جائے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : کچھ لوگوں نے اسی طرح کا عمل کیا جیسا عمل حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کیا ان میں سے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص، حضرت عمرو بن سعید بن عاص ؓ اور عتبہ بن غزوان تھے (1) یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابن عربی نے کہا : یہ سب اقوال اگرچہ صحیح نہیں تاہم پہلا ول زیادہ اچھا ہے۔ زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ ایک نیا حکم شرعی بیان کرنے کے لئے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے مراد آپ کی امت ہے یہ کلام دو لفظوں حاضر اور غائب میں تبدیل ہونے والی ہے۔ یہ فصیح لغت ہے جس طرح فرمایا : حتی اذا کنتم فی الغلک وجرین بھم بریح طیبۃ (یونس :22) تقدیر کلام یہ ہے : یایھا النبی قل لھم اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن۔ یہ ان کا قول ہے کہ خطاب تو صرف آپ ﷺ کو ہے اور معنی آپ کو اور مومنین سب کو شامل ہے جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب کیا تو اس قول کے ساتھ ملاطفت فرمائی یایھا النبی جب خطاب لفظ اور معنی دونوں کے اعتبار سے آپ ﷺ کو تھا تو فرمایا : یایھا الرسول (المائدہ : 41) میں کہتا ہوں : اس قول کی صحت پر حضرت اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ کے بارے میں عدت کا حکم بھی دلالت کرتا ہے۔ اس کے متعلق ابو دائود کی کتاب میں ہے (2) کہ انہیں نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں طلاق دی گئی جبکہ مطلقہ کے لئے کوئی عدت نہ تھی جب حضرت اسماء کو طلاق دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا حکم نازل فرمایا۔ یہ وہ پہلی عورت ہیں جن کے بارے میں طلاق کی عدت کا حکم نازل ہوا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی عظمت شان کی خاطر ندا کی گئی پھر نئے سرے سے کلام کی گئی۔ فرمایا : اذا طلقتم النساء جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یایھا الذین امنوا انما الخمرو المیسر والانصاب والازلام (المائدہ : 90) مومنین کا ذکر تکریم کے لئے ہے۔ پھر نئے سرے سے کلام کو شروع کیا : انما الخمرو والمیسر والانصاب والازلام (المائدہ : 90) مسئلہ نمبر 2 ۔ ثعلبی نے حضرت ابن عمر ؓ سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان من ابغض الحلال الی اللہ الطلاق۔ (3) اللہ تعالیٰ کے ہاں حلال چیز میں سب سے مغوض طلاق ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں : تزوجواء لا تطلقوا فان الطلاق یھتزمنہ العرش تم شادیاں کرو، طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرش لرز جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم عورتوں کو طلاق نہ دو مگر تہمت کی وجہ سے بیشک اللہ تعالیٰ مزا چکھنے کے لئے نکاح کرنے والے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں فرمایا “۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” طلاق کی قسم یا اس کا مطالبہ منافق ہی کرتا ہے “ (1) ۔ ثعلبی (رح) نے تمام کی اسناد اپنی کتاب میں ذکر کردی ہیں۔ دارقطنی نے روایت کی ہے ابو عباس، محمد بن موسیٰ بن علی دولابی اور یعقوب بن ابراہیم دونوں حسن بن عرفہ سے وہ اسماعیل بن عیاش سے وہ حمید بن مالک لخمی سے وہ مکحول سے وہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا : ” اے معاذ ! اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر غلام آزاد کرنے سے بہتر کوئی چیز پیدا نہیں کی اور روئے زمین پر طلاق سے بڑھ کر کوئی ناپسندیدہ چیز پیدا نہیں کی۔ جب کوئی آقا اپنے مملوک کو کہے : انت حر انشاء اللہ وہ آزاد ہوگا کوئی استثنا نہ ہوگی جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو کہے انت طالق انشاء اللہ تو استثناء درست ہوگی اور اسے کوئی طلاق نہ ہوگی “۔ محمد بن موسیٰ بن علی، حمید بن رسیع سے وہ یزید بن ہارون سے وہ اسماعیل بن عیاش سے اس کی مثل روایت کرتے ہیں (2) ۔ عثمان بن احمد دقاق، اسحاق بن ابراہیم بن سنین سے وہ عمر بن ابراہیم بن خالد سے وہ حمید بن مالک لخمی سے وہ مکحول سے وہ مالک بن مخامر سے وہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو حلال نہیں فرمایا جو طلاق سے بڑھ کر اس کی بارگاہ میں مبغوض ہو جس نے طلاق دی اور استثنا کی تو استثنا کا اعتبار ہوگا “۔ ابن منذر نے کہا : طلاق اور آزادی میں استثنا ذکر کرنے کی صورت میں علماء نے اختلاف کیا ہے ایک طائفہ نے کہا : یہ جائز ہے۔ ہم نے یہ قول طائوس سے روایت کیا ہے۔ حماد کوفی، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب رائے نے یہی کہا ہے۔ امام مالک اور اوزاعی کے قول میں طلاق میں استثناء جائز نہیں، طلاق میں یہ قتادہ کا قول ہے۔ ابن منذر نے کہا : پہلا قول میں کرتا ہوں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ دارقطنی نے عبدالرزاق کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ طلاق کی چار صورتیں ہیں دو صورتیں حلال ہیں اور دو صورتیں حرام ہیں (3) ۔ جہاں تک حلال کا تعلق ہے کہ خاوند بیوی کو طلاق دے ایسے طہر میں جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو اور اسے طلاق دے جبکہ وہ حاملہ ہو اور اس کا حمل ظاہر ہو۔ جہاں تک حرام کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسے طلاق دے جبکہ وہ حائضہ ہو یا جماع کرنے کے بعد اسے طلاق دے عورت کو یہ علم نہ ہو کہ اس کا رحم بچے پر مشتمل ہے یا نہیں۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ فطلقوھن لعدتھن کتاب ابی دائود میں حضرت اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ سے روایت مروی ہے کہ انہیں نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں طلاق دی گئی جبکہ اس وقت مطلقہ کے لئے کوئی عدت لازم نہ تھی جب حضرت اسماء کو طلاق دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کی عدت کا حکم نازل کیا۔ یہ وہ پہلی عورت تھیں جن کے بارے میں طلاق کی عدت کا حکم نازل ہوا (4) ۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ لعدتھن یہ ارشاد اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن کے ساتھ خاوندوں نے حقوق زوجیت ادا کئے کیونکہ غیر مدخول بھا عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ اس امر سے خارج ہیں : یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا (الاحزاب : 49) مسئلہ نمبر 6 ۔ جس نے ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو اس کی طلاق نافذ ہوجائے گی اور اس نے سنت کو پا لیا۔ اگر اس نے حائضہ عورت کو طلاق دی اس کی طلاق نافذ ہوجائے گی اور اس نے سنت کی خلاف ورزی کی۔ سعید بن مسیب نے کہا : حیض کی حالت میں طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ یہ طلاق سنت کے خلاف ہے۔ شیعہ کا بھی یہ نقطہ نظر ہے۔ صحیحین میں ہے جبکہ الفاظ دارقطنی کے ہیں (1) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہا : میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ حالت حیض میں تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ رسول اللہ ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ فرمایا : ” پس وہ رجوع کرے پھر اسے اپنے پاس روکے رکھے یہاں تک کہ اسے نیا حیض آئے۔ یہ حیض اس حیض کے علاوہ ہو جس میں اس نے پہلے طلاق دی تھی۔ اگر مناسب سمجھے کہ اسے طلاق دے تو حیض سے پاک ہوتے ہی اسے طلاق دے دے جبکہ ابھی اس سے جماع نہ کیا ہو۔ یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا “۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے اسے ایک طلاق دی تھی۔ اس نے اسے طلاق شمار کیا اور حضرت عبد اللہ نے اس سے رجوع کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہ ایک ہے “۔ یہ نص ہے اور شیعہ کے قول کو رد کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ طلاق سنت یہ ہے (2) کہ وہ طہر میں ایک طلاق دے جب اس کا آخر ہو تو یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ دارقطنی نے اعمش سے وہ ابو اسحاق سے وہ ابوا حوص سے وہ حضرت عبد اللہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے علماء نے کہا : طلاق سنت وہ ہے جو سات شرطوں کو جامع ہو (3) ۔ (1) وہ ایک طلاق دے، ایسی عورت ہو جس کو حیض آیا ہو، وہ حالت طہر میں ہو، اس طہر میں خاوند نے اس سے حقوق زوجیت ادا نہ کئے ہوں، اس سے پہلے حیض میں طلاق نہ دی گئی ہو، نہ اس کے پیچھے ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جو اس حیض کے بعد آئے۔ وہ حیض سے خالی ہو۔ یہ سات شرطیں حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث سے ثابت ہیں جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ امام شافعی نے کہا : طلاق سنت یہ ہے کہ ہر طہر میں طلاق دے۔ اگر اس نے ایک طہر میں تین طلاقیں دیں تو وہ بدعت نہ ہوں گی۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : طلاق سنت یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک طلاق دے۔ امام شعبی نے کہا : اس کے لئے جائز ہے کہ وہ ایسے طہر میں طلاق دے جس میں اس نے اس بیوی سے جماع کیا ہوا ہو۔ ہمارے علماء نے کہا : وہ اپنی بیوی کو ایسے طہر میں ایک طلاق دے جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو اور نہ ہی عدت میں بعد میں طلاق ہو اور طہر اس حیض کے بعد نہ ہو جس میں خاوند نے بیوی کو طلاق دی ہو کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے (1): ” اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے۔ پھر اسے حیض آئے پھر اس کا طہر شروع ہو۔ پھر چاہے تو اسے روکے رکھے اور چاہے تو اسے طلاق دے۔ یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے عورتوں کو طلاق دی جائے “۔ امام شافعی نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : فطلقو ھن لعدتھن کے ظاہر سے استدلال کیا ہے۔ یہ ہر طلاق میں عام ہے۔ وہ ایک ہو، دو ہوں یا زیادہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں زمانہ کی رعایت کی ہے اور عدد کا اعتبار نہیں کیا۔ حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں اسی طرح ہے اس میں وقت کی تعلیم دی، عدد کا ذکر نہیں کیا۔ ابن عربی نے کہا : یہ حدیث صحیح سے غفلت ہے۔ فرمایا : اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے۔ یہ تین طلاقوں کے وقوع کا انکار کرتا ہے۔ حدیث طیبہ میں ہے : عرض کی : بتائیے اگر وہ اسے تین طلاقیں دے دے ؟ فرمایا : ” وہ تجھ پر حرام ہوجائے گی اور تجھ سے معصیت کے ساتھ جدا ہوجائے گی “۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : آیت کا ظاہر اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تین طلاقیں اور ایک طلاق برابر ہیں۔ یہی امام شافعی کا مذہب ہے۔ اگر اس کے بعد یہ ارشاد نہ ہوتا : لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا یہ تین طلاقوں کے اس آیت کے ضمن میں داخل ہونے کے مانع ہے، اکثر علماء نے یہی کہا ہے۔ جہاں تک امام مالک کا تعلق ہے آپ پر آیت کا مطلق ہونا مخفی نہیں جس طرح علماء نے کہا لیکن حدیث نے اس کی تفسیر بیان کی جس طرح ہم نے کہا۔ جہاں تک امام شعبی کے قول کا تعلق ہے آپ ایسے طہر میں طلاق کو جائز قرار دیتے ہیں جس میں اس نے جماع کیا ہو۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث اپنی نص اور معنی کے ساتھ اس کا رد کرتی ہے جہاں تک نص کا تعلق ہے ہم اس کا پہلے ذکر کرچکے ہیں جہاں تک معنی کا تعلق ہے کیونکہ جب یہ حیض کی حالت میں طلاق کے مانع ہے کیونکہ اس حیض کو عدت میں شمار نہیں کیا جاتا تو وہ طہر جس میں جماع کیا گیا ہو وہ طلاق کے بدرجہ اولیٰ مانع ہوگا کیونکہ اس کو شمار کرنے کا اعتبار ساقط ہوجاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رحم کے مشغول ہونے کا خوف ہوتا ہے اس طرح وہ حیض جو اس کے بعد آتا ہے۔ میں کہتا ہوں : امام شافعی نے تین طلاقوں کو ایک ہی کلمہ سے واقع کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ اس حدیث سے ہے جسے امام دارقطنی نے سلمہ بن ابی سلمہ بن عبد الرحمان سے اور وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں (2) کہ حضرت عبد الرحمان بن عوف نے اپنی بیوی کو طلاق دی جس کا نام تماضر بنت اصبغ کلبیہ تھا۔ یہی ام ابی سلمہ تھی۔ آپ نے ایک کلمہ کے ساتھ اسے تین طلاقیں دیں ہمیں ایسی خبر نہیں پہنچی جس میں یہ تذکرہ ہو کہ صحابہ نے ان پر عیب لگایا ہو۔ سلمہ بن ابی سلمہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی حضرت فاطمہ بنت قیس کو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے حضرت حفص سے جدا کردیا۔ ہمیں یہ خبر نہیں پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر عیب لگایا ہو۔ اور حضرت عویمر عجلانی کی حدیث سے استدلال کیا جب انہوں نے اپنی بیوی سے لعان کیا۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اسے تین طلاقیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ ہمارے علماء نے اس سے الگ رائے قائم کی ہے اور بہت اچھے انداز میں رائے قائم کی ہے، اس کی وضاحت کسی اور جگہ ہے۔ ہم نے اس کا ذکر المقتبس من شرح موطا مالک بن انس میں کیا ہے۔ سعید بن مسیب اور تابعین کی ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے جس نے طلاق میں سنت کی خلاف ورزی کی اور اسے حیض میں واقع کیا یا تین طلاقیں اکٹھی دیں تو وہ واقع (1) نہ ہوں گی اور انہوں نے اسے اس آدمی کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کو طلاق سنت کا وکیل بنایا گیا اور اس نے مخالفت کی۔ مسئلہ نمبر 8 جرجانی نے کہا : لعدتھن میں لام، نی کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتب من دیارھم لاول الحشر (الحشر :2) لاول الحشر یعنی فی اول الحشر ہے۔ لعدتھن کا قول فی عدتھن کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جو ان کی عدت کے شمار کرنے کے مناسب ہو۔ اس پر اجماع ہے کہ حیض میں طلاق ممنوع ہے اور طہر میں اس کی اجازت ہے اس میں یہ دلیل ہے کہ قرء سے مراد طہر ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے : فطلقوھن لعدتھن کا معنی ہے فی قبل عدتھن یالقبل عدتھن یعنی اس کے ابتدائی حصہ میں اور یہ حالت طہر میں ہوگا۔ یہ نبی کریم ﷺ کی قرأت ہے جس طرح صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے : قبل العدۃ سے مراد طہر کا آخری حصہ ہے یہاں تک کہ قرء سے مراد حیض ہوگا۔ اسے کہا جائے گا : امام مالک کی یہ واضح دلیل ہے اور جس نے بھی آپ جیسا قول کیا کہ اقراء سے مراد طہر ہیں۔ اگر مراد وہ ہوتی جو ائمہ احناف کہتے ہیں اور جو ان کی پیروی کرتے ہیں تو ضروری تھا کہ یہ قول کہا جاتا : جس نے طہر کے شروع میں طلاق دی تو اس عورت کو حیض سے پہلے طلاق نہ ہوگی کیونکہ ابھی حیض کا آغاز ہونے والا نہیں نیز حیض کا آنا حیض کے داخل ہونے کے ساتھ ہوتا ہے اور طہر کے ختم ہونے کے ساتھ حیض کا آنا متحقق نہیں ہوتا۔ اگر کسی شی کا آنا اس کی ضد کے ادبار کے ساتھ ہو تو روزے دار سورج کے غروب ہونے سے پہلے افطار کرنے والا ہو کیونکہ رات دن کے پلٹنے کے ساتھ آنے والی ہوتی ہے ابھی دن ختم نہیں ہوتا پھر جب اس نے طہر کے آخر میں طلاق دی تو باقی ماندہ طہر قرء ہوگا۔ بعض طہر کو بھی قرء کہتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ الحج اشہر معلومت (البقرہ : 197) وہ شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کا کچھ حصہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ (البقرہ : 203) وہ دوسرے دن کے بعض میں کوچ کر آتا ہے۔ یہ بحث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ واحصو العدۃ یہاں مراد مدخول بھا ہے (2) کیونکہ جس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کئے گئے ہوں اس پر عدت لازم نہیں ہوتی۔ اگر اس نے تین طلاقوں سے کم طلاقیں دی ہیں تو عدت کے ختم ہونے سے قبل رجوع کرسکتا ہے بعد میں وہ ایک دعوت نکاح دینے والے کی طرح ہوگا۔ اگر تین طلاقیں دی گئی ہوں تو کسی اور خاوند کے بعد ہی وہ عورت اس سابقہ خاوند پر جلال ہوگی۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ واحصوا العدۃ اس کا معنی ہے اسے یاد رکھو (3) یعنی اس وقت کو یاد رکھ جس میں طلاق واقع ہوئی یہاں تک کہ جب یہ جدا ہوجائے اس شرط کی وجہ سے جس کو ذکر کیا گیا وہ تین قرء ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس نافرمان میں ہے : والمطلقت یتر بصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ : 228) اب وہ ان مردوں کے لئے حلال ہے جو اس سے نکاح کرنا چاہیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ عدت تین طہر ہیں، حیض عدت نہیں اس کی تاکید اور تفسیر نبی کریم ﷺ کی قرأت کرتی ہے : لقبل عدتھن کسی شی کا قبل لغت اور حقیقت کے اعتبار سے اس کا جز ہوتا ہے۔ استقبالہ کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ یہ اس چیز کا غیر ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 11 احصاء کے امر کا مخاطب کون ہے (1) ؟ اس میں تین قول ہیں۔ 1۔ وہ خاوند ہیں۔ 2۔ بیویاں ہیں۔ 3۔ مسلمان ہیں۔ ابن عربی نے کہا : صحیح یہ ہے کہ اس لفظ کے مخاطب ازواج ہیں کیونکہ طلقتم، احصوا اور لاتخرجوھن کی ضمیریں ایک ہی نظم میں ہیں۔ ازواج کی طرف لوٹ رہی ہیں لیکن بیویاں خاوند کے ساتھ لاحق ہو کر اس میں داخل ہیں کیونکہ خاوند ہی شمار کرتا ہے تاکہ وہ رجوع کرے، اس کو نان و نفقہ دے یا اسے ختم کرے، وہ اسے رہائش دے یا گھر سے نکالے، اس کے نسب کو لاحق کرے یا اسے قطع کرے۔ یہ تمام امور اس کے اور بیوی کے درمیان مشترک ہیں ان کے علاوہ میں عورت مرد سے منفرد ہے اسی طرح حاکم بھی عدت کو شمار کرنے کا محتاج ہوتا ہے تاکہ وہ فتویٰ دے اور اس میں جھگڑا واقع ہو تو وہ فیصلہ کرے یہ اس احصاء کے فوائد ہیں جس کا حکم دیا گیا۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ واتقوا اللہ ربکم لاتخرجوھن من بیوتھن اللہ جو تمہارا رب ہے اس سے ڈرو اس کی نافرمانی نہ کرو۔ خاوند کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب تک عورت عدت میں ہو تو اسے اس گھر سے نکالے جس گھر میں وہ حالت نکاح میں رہ رہی تھی۔ وہ خاوند کے حق کی وجہ سے بھی نہیں نکلے گی ہاں ظاہر ضرورت کی بنا پر وہ نکل سکتی ہے۔ اگر وہ اس گھر سے نکلے گی تو وہ گناہگار ہوگی اور عدت ختم نہ ہوگی۔ اس مسئلہ میں وہ عورت جسے طلاق رجعی دی گئی تھی یا جسے طلاق بائنہ دی گئی تھی، برابر ہیں۔ یہ حکم اس لئے دیا جا رہا ہے تاکہ مرد کے پانی کی حفاظت ہو سکے۔ اسی وجہ سے بیوت کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واذا کرن ما یتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ (الاحزاب : 34) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وقرن فی بیوتکن (الاحزاب : 33) یہ رہائش رکھنے کی اضافت ہے، تملیک کی اضافت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : لا تخرجوھن تقاضا کرتا ہے کہ یہ خاوندوں پر لازم ہے اور ولایخرجن یہ بیویوں پر لازم ہے۔ حدیث صحیح میں حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی اس نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی کھجوروں کو کاٹے (2) ۔ ایک آدمی نے اسے باہر نکلنے پر جھڑکا۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیوں نہیں تو اپنے کھجور کے درخت کاٹ ! ممکن ہے تو کوئی صدقہ کرے یا کوئی نیکی کا عمل کرے “۔ اسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور لیث کے اقوال کی دلیل ہے کہ معتدہ عورت دن کے وقت اپنے کام کاج کے لئے باہر نکل سکتی ہے۔ رات کے وقت اسے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ امام مالک کے نزدیک خواہ اسے طلاق رجعی دی گئی ہو یا طلاق بائنہ دی گئی ہو۔ امام شافعی نے اس عورت کے بارے میں کہا : جسے طلاق رجعی دی گئی تھی وہ نہ دن کے وقت نکلے اور نہ رات کے وقت نکلے جسے طلاق بائنہ دی گئی ہو وہ دن کے وقت نکل سکتی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : یہ حکم اس عورت کے لئے ہے جس کا خاوند فوت ہوچکا ہو جہاں تک مطلقہ کا تعلق ہے وہ نہ رات کو اور نہ ہی دن کو نکل سکتی ہے جبکہ حدیث ان کا رد کرتی ہے۔ صحیحین میں ہے کہ حضرت ابوعمر و بن حفص، حضرت علی ؓ کے ساتھ یمن کی طرف نکلے (1) ۔ انہوں نے اپنی بیوی حضرت فاطمہ بنت قیس کو طلاق بھیج دی جو باقی تھی اس کے لئے حضرت حارث بن ہشام اور حضرت عباس بن ربیعہ کو اس کے نفقہ کے بارے میں حکم دیا۔ دونوں نے اس سے کہا : اللہ کی قسم ! تیرے لئے کوئی نفقہ نہیں مگر اس صورت میں کہ تو حاملہ ہو۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کا قول ذکر کیا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تیرے لئے کوئی نفقہ نہیں “۔ اس نے نبی کریم ﷺ سے وہاں سے منتقل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اسے اجازت دے دی۔ عرض کی : یا رسول اللہ کہاں ؟ فرمایا : ” ابن ام مکتوم کے ہاں “۔ وہ نابینا تھے۔ وہ اپنے کپڑے وہاں اتار لیتی اور وہ اسے دیکھ نہ پاتے۔ جب اس کی عدت گزر گئی تو نبی کریم ﷺ نے اس کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کردیا۔ مروان نے قبیصہ بن زویب کو حضرت فاطمہ کی طرف بھیجا کہ اس سے حدیث پوچھے تو حضرت فاطمہ نے اسے حدیث بیان کی۔ مروان نے کہا : ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت سے سنی ہے۔ ہم اسی میں احتیاط و حفاظت پاتے ہیں جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے۔ جب مروان کا قول حضرت فاطمہ کو پہنچا تو اس نے کہا : میرے اور تمہارے درمیان قرآن حکم ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، لاتخرجوھن من بیوتھن کہا : یہ حکم اس عورت کے بارے میں ہے جس کے بارے میں خاوند کو رجوع کا حق ہو۔ تین طلاقوں کے بعد کیا امر وقوع پذیر ہوگا ؟ تم کیسے کہتے ہو : اس کے لئے کوئی نفقہ نہیں ؟ جب وہ حاملہ نہ ہو تو پھر تم اسے کیوں گھروں میں محبوس رکھتے ہو ؟ الفاظ مسلم شریف کے ہیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ آیت گھر سے نکالنے اور گھر سے نکلنے کی حرمت صرف طلاق رجعی کی صورت میں ہے۔ اسی طرح حضرت فاطمہ نے استدلال کیا ہے کہ وہ آیت جو اس کے بعد ہے وہ مطلقہ رجعیہ کی نہی کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے کیونکہ امکان ہے کہ جس نے طلاق دی ہے عدت کے اندر وہ رجوع کے بارے میں رائے بنائے گویا وہ ہر وقت اپنے خاوند کے زیر تصرف ہے جہاں تک اس عورت کا تعلق ہے جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو تو اس کے لئے کوئی امکان موجود نہیں جب اسے کوئی مجبوری ہو کہ وہ اپنے گھر سے باہر نکلے یا اسے اسی گھر میں بےپردگی کا خوف لاحق ہو جس طرح نبی کریم ﷺ نے اسے اجازت دی۔ مسلم شریف میں ہے حضرت فاطمہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں (2) ، مجھے خوف ہے کہ وہ بغیر اجازت مجھ پر داخل ہوجائے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا تو حضرت فاطمہ وہاں سے منتقل ہوگئیں۔ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ ایک الگ تھلگ مکان میں تھیں تو اس کے ایک طرف ہونے کی وجہ سے ان کے بارے میں خوف لاحق تھا اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اسے رخصت دی (3) ۔ یہ تمام روایات احناف کے قول کا رد کرتی ہیں۔ حضرت فاطمہ کی حدیث میں ہے : ان کے خاوند نے انہیں ایک طلاق بھیج دی جو ان کی طلاق باقی ماندہ تھی۔ یہ امام مالک کے حق میں دلیل ہے اور امام شافعی کے خلاف دلیل ہے۔ یہ سلمہ بن ابی سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو انہوں نے اپنے باپ سے نقل کی ہے کہ حضرت حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں دیں جس طرح پہلے گزر چکا ہے (1) ۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری، حضرت شعبی اور مجاہد نے کہا : بفاحشۃ مبینۃ سے مراد بدکاری ہے۔ اسے گھر سے نکالا جائے گا اور اس پر حد جاری کی جائے گی۔ حضرت ابن عباس اور امام شافعی سے مروی ہے : اس سے مراد سسرالی رشتہ داروں پر بدزبانی کرنا ہے۔ پس ان کے لئے حلال ہے کہ اسے گھر سے نکال دیا جائے۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے بارے میں کہا : وہ ایک ایسی عورت تھی جو اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بدکلامی کیا کرتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ گھر سے منتقل ہوجائے۔ ابودائود کی کتاب میں ہے سعید نے کہا : وہ ایسی عورت تھی جس نے لوگوں کو فتنہ میں ڈال دیا وہ بڑی باتونی تھی (2) ۔ اسے حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا جو نابینا تھے۔ عکرمہ نے کہا : حضرت ابی کے مصحف میں ہے الا ان یفحشن علیکم اس کی تائید یہ روایت کرتی ہے کہ محمد بن ابراہیم بن حارث نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے فرمایا : اللہ سے ڈر تو خوب جانتی ہے کہ تجھے کیوں گھر سے نکالا گیا ؟ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ مروی ہے : فاحشہ سے مراد ہر معصیت ہے جس طرح بدکاری، چوری اور گھر والوں کے ساتھ بدکلامی، یہ طبری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ حضرت ابن عمر اور سلامی سے مروی ہے : فاحشہ سے مراد عورت کا گھر سے نکلنا ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ بخروجھن من بیوتھن بغیر حق یعنی اگر وہ نکلے گی تو وہ نافرمانی کرے گی۔ قتادہ نے کہا : فاحشہ سے مراد نشوز و نافرمانی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اس کے نشوز کی وجہ سے خاوند اسے طلاق دے تو وہ اپنے گھر سے نکل جائے۔ ابن عربی نے کہا : جس نے کہا : خروج زنا کی وجہ سے ہے تو اس کی کوئی وجہ و دلیل نہیں کیونکہ اس خروج و نکلنے سے مراد قتل اور اس کو معدوم کرتا ہوتا ہے (3) ۔ یہ حلال و حرام میں مستثنیٰ نہیں۔ جس نے کہا : اس سے مراد بدکلامی ہے تو اس کی وضاحت حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیث میں آچکی ہے۔ جس نے کہا : اس سے مراد معصیت ہے تو یہ وہم ہے کیونکہ غائب ہونا اور اس جیسی معصیت نہ نکالنے کو مباح کرتی ہے اور نہ ہی نکلنے کو مباح کرتی ہے۔ جس نے کہا : مراد بغیر حق کے نکلنا ہے تو یہ صحیح ہے، تقدیر کلام یہ ہے لا تخرجوھن من بیوتھن ولایخرجن شرعاً لا ان یخرجن تعدیا۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ وتلک حدود اللہ یہ احکام جن کو واضح کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر احکام ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سے تجاوز سے منع کیا ہے۔ جس نے تجاوز کیا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاکت کے گھاٹ پر وارد کیا۔ لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔ یعنی وہ امر جو اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے گا۔ اس سے مراد ہے اس کے دل میں بغض کی بجائے محبت، اعراض کی بجائے رغبت اور طلاق کے پختہ عزم کی بجائے شرمندگی پیدا فرماوے گا تو وہ اس سے رجوع کرے گا۔ تمام مفسرین نے کہا : یہاں امر سے مراد رجوع میں رغبت پیدا کرنا ہے۔ پہلے یہ قول گزر چکا ہے۔ ایک طلاق پر برانگیختہ کا اور تین طلاقوں سے نہی کرنا مقصود ہے کیونکہ جب وہ تین طلاقیں دے چکے گا تو فراق پر شرمندگی کے وقت اور رجوع میں رغبت کے وقت اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا اور رجوع کی کوئی صورت نہیں پائے گا۔ مقاتل نے کہا : بعد ذلک یعنی ایک طلاق اور دو طلاقوں کے بعد۔ امرا یعنی رجوع کرنا اس قول میں کوئی اختلاف نہیں۔
Top