بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے نبیؐ ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدّت کے لیے طلاق دیا کرو۔ 1 اور عدّت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، 2 اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے۔ (زمانہ عدّت  میں) نہ تم اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، 3 الّا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی  کی مرتکب ہوں۔ 4 یہ اللہ کی مقرر  کر دہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے اوپر خود ظلم کریگا۔ تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صُورت پیدا کر دے۔ 5
سورة الطَّلَاق 1 1۔ یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو ، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے ان کی عدت شروع ہوتی ہو۔ یہ بات سورة بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہوجاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجائے چار حیض بن جائے۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طہر میں طلاق نہ دی جائے جس میں شوہر اس سے مباشرت کرچکا ہو، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہوگی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جاسکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہوگی۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائے۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو۔ غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بعد پیدا ہوجاتا ہے، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوجائے تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بےبس ہوتے ہیں، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجائے اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کرلیا جائے تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آجائے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مرد اور عورت، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ حمل کا علم ہوجانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بےسوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔ یہ تو ہے " عدت کے لیے " طلاق دینے پہلا مطلب، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو ، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو، بلکہ ایک، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تاکہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جائے تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہوسکتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کرلیں۔ طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ " طلاق حیض کی حالت میں نہ دے، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کرچکا ہو، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہوجائے۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہوگی " (ابن جریر)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں " عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے "۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتِل بن حیان، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے (ابن کثیر) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں " طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کرچکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہوگئی ہے یا نہیں " (ابن کثیر)۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین، دونوں کہتے ہیں " طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہوچکا ہو " (ابن جریر)۔ اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمر نے جا کر حضور ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ " اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کرلے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو، پھر اسے حیض آئے اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہوجائے، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے "۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو " اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضور ﷺ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا " اَیُلْعَبُ بکتاب اللہ وَانَا بَیْنَ اظہرکم ؟ " کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ؟ " اس حرکت پر حضور ﷺ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ ، و بقی تسع مأۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً ، انشاء اللہ عذَّبہ، وان شاء غفر لہ " تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہوگئی، اور 997 ظلم اور عدوان کے طور پر باقی رہ گئے جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے "۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل دار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کرسکتا تھا ؟ حضور ﷺ نے جواب دیا لا، کانت تبین منک و کانت معصیۃً " نہیں، وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا "۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک۔ " اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوجاتی "۔ صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضور ﷺ کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مُؤطّا میں ہے کہا یک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ ابن مسعود ؓ نے پوچھا " پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا ؟ " اس نے عرض کیا " مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہوگئی "۔ آپ نے فرمایا صدقوا، ھو مثل ما یقولون، " لوگوں نے سچ کہا، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں "۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان۔ " تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں، باقی سب زیادتیاں ہیں "۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے۔ حضرت عثمان ؓ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث "۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہوگئی "۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علی ؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا بانت منک بثلاث وا قسم سائرھن علی نسائک۔ " تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہوگئی، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر "۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباس ؓ عنھما کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا " تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس، یا ابن عباس۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی "۔ ایک اور روایت جسے مؤطا اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے، اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا " تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہوگئی، باقی 97 سے تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی اور تو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا " امام طحاوی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً۔ " تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے۔ " ابو داؤد اور مؤطا میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابوہریرہ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل۔ " تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا "۔ زمخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کردیتے تھے۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام رائے، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے، یہ تھی کہ ان الصحابۃ ؓ کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض۔ " صحابہ ؓ عنہیم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آجائیں "۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ۔ " ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے " ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہائے اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔ 1)۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں احسن، حسَن اور بِدْعی۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ،۔ اگرچہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے، یا حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کرچکا ہو۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گناہگار ہوگا۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جاسکتی ہے۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جائے، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، عمدۃ القاری)۔ امام مالک کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ سُنی، بدعی مکروہ، اور بدعی حرام۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں آدمی مباشرت کرچکا ہو، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں۔ اور بدعی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جائے۔ (حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر۔ احکام القرآن لابن العربی)۔ امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جائے، پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے، یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، یا حاملہ ہو، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے۔ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبل)۔ امام شافعی کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق صرف وقت کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مدخول عورت جس کو حیض آتا ہوا سے حیض کی حالت میں طلاق دینا ‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو ‘ بدعت اور حرام ہے۔ رہی طلاقوں کی تعداد، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طْہر میں دی جائیں، یا الگ الگ طہروں میں دی جائیں، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو، یا حیض آیا ہی نہ ہو، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو، اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ (2) کسی طلاق کے بدعت، مکروہ، حرام، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو۔ چاروں مذاہب میں طلاق، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے، بہر حال واقع ہوجاتی ہے، اگرچہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے۔ سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہی رائے امامیہ کی ہے۔ اور اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لئے یہ غیر مؤثر ہے۔ حالانکہ اوپر جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی ؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگرچہ گناہگار قرار دیا ہے، مگر اس کی طلاق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔ طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے، اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے۔ ان کی اس رائے کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا " کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا "؟ انہوں نے جواب دیا ہاں (بخاری و مسلم) اور مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ " رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد، اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیئے سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کردیں ؟ چناچہ انہوں نے اسے نافذ کردیا " لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کرچکے ہیں۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی ﷺ اور اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہوئی ہیں، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہوجاتی ہیں۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کردی ہیں۔ تیسرے، خود ابن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا، لیکن نہ اس وقت، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔ اب کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کرسکتے تھے ؟ اور سارے صحابہ ؓ اس پر سکوت بھی پر اختیار کرسکتے تھے ؟ مزید براں رکانہ بن عبد یزید کے قصے میں ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام شافعی دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکانہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول ﷺ نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی ؟ (یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے ان کی زبان سے نکلی تھیں، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لئے جدا کردینا مقصود نہ تھا) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی، اس لیئے تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے اس کی زبان سے نکلی تھیں۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ امام نووی اور امام سبکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پایا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں۔ مسلم اور ابوداؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا " ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جاتا تھا " اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کردیتا ہے۔ (3) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول ﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا، اس لیئے فقہا کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جائے گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا (عمدۃ القاری)۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیئے مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کرنا مستحب ہے۔ لیکن امام مالک اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازی پولیس ہے۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آئے تو وہ اسے رجوع پر مجبور کرے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈالتا رہے۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ " میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کردی " اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہوگا جس کے بعد مرد کے لیئے اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہوگا، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے (حاشیہ الدسوتی) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کرلیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیئے دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے (حاشیہ الدسوتی)۔ (4) رجوعی طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے ؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر ؟ امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے۔ یہ رائے چاروں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود عبد اللہ بن عباس ابی بن کعب، معاذ بن جبل، ابو الدردا، عبادہ بن صامت اور ابو موسیٰ اشعری ؓ سے منقول ہے۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول ﷺ کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں، اور ان سب کی رائے یہی تھی۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے۔ اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہوجاتی ہے، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہوجاتا ہے۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی (مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہوگا، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہوجائے گا (ہدایہ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کرلے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا (الانصاف) (5) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کرسکتا ہے، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید (سورة بقرہ، آیت 228) میں فرمایا گیا ہے وَبُعُولَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں " اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیئے عورت کی رضا ضروری ہو۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہوسکتا ہے، عمل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو، رجوع قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جائے گی۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے (مغنی المحتاج)۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل، دونوں سے ہوسکتا ہے۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، رجوع ہوجائے گا، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیئے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گئے ہوں۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو، یا مباشرت، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو (حاشیتہ الدسوتی۔ احکام القرآن لابن العربی) حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے۔ ربا رجوع بالفعل، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرلے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے (ہدایہ، فتح القدیر، عمدۃ القاری، الانصاف) (6) طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جائے تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر رجوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔ الّا یہ کہ اس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو، وہ نکاح صحیح نوعیت کا ہو، دوسرا شوہر اس عورت سے مباشرت بھی کرچکا ہو، پھر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جائے۔ اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی، پھر اس نے اسے طلاق دے دی، اب کیا اس عورت کا اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ؟ حضور ﷺ نے جواب دیا لا، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول۔ " نہیں، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہوچکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا "۔ رہا سازشی نکاح، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا، تو امام ابو یوسف کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے، اور امام ابوحنفیہ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہوجائے گی، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ، " اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے " (ترمذی، نسائی)۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے پوچھا الا اخبرکم بالتیس المستعار ؟ " کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ " صحابہ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا ھوالمحلل، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔ " وہ تحلیل کرنے والا ہے۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جائے " (ابن ماجہ۔ دارقطنی)۔ سورة الطَّلَاق 2 اس حکم کا خطاب مردوں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جائے کہ کب طلاق دی گئی ہے، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے، اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے، اور حساب لگا کر دیکھا جائے کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے، کب تک وہ باقی ہے، اور کب وہ ختم ہوگئی۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کو کب تک رجوع کا حق ہے۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے، کب تک وہ عورت کا وارث ہوگا اور عورت اس کی وارث ہوگی، کب عورت اس سے جدا ہوجائے گی اور اسے دوسرا نکاح کرلینے کا حق حاصل ہوجائے گا۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جائے تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہوگی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ، حاملہ اور غیر حاملہ، بےحیض اور باحیض، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کرسکتی۔ سورة الطَّلَاق 3 یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے۔ عدت تک گھر اس کا ہے۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آسکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے، یا عورت ناسمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف)۔ فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہوگا، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہوگی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہوجائے گی۔ سورة الطَّلَاق 4 اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری، عامر شعبی، زید بن اسلم، ضحاک، مجاہد، عکرمہ، ابن زید، حماد اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بدکاری ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آئے، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آئے۔ عبد اللہ بن عمر، سدی، ابن السائب، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے، یعنی ان کی رائے میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجائے خود فاحشۃ مبینۃ (صریح برائی کا ارتکاب) ہے، اور یہ ارشاد کہ " وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں " کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ " تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بدتمیز بنو " ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق " الّا یہ " کا تعلق " ان کو گھروں سے نہ نکالو " کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہوگا۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق " اور نہ وہ خود نکلیں " کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی۔ سورة الطَّلَاق 5 یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی، اور ان لوگوں کی رائے کو بھی غلط ثابت کردیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود، یعنی سنت کے بتائے ہوئے طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پائے، اور جو طلاق بہرحال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس مقام پر ایک مرتبہ پھر سورة بقرہ کی آیات 228 تا 230 اور سورة طلاق کی زیر بحث آیات کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ سورة بقرہ میں طلاق کا نصاب تین کا نصاب تین بتایا گیا ہے، جن میں سے دو کے بعد رجوع کا حق، اور عدت گزر جانے کے بعد بلا تحلیل دوبارہ نکاح کرلینے کا حق باقی رہتا ہے، اور تیسری طلاق دے دینے سے یہ دونوں حق ساقط ہوجاتے ہیں۔ سورة طلاق کی یہ آیات اس حکم میں کسی ترمیم و تنسیخ کے لیے نازل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہیں کہ بیویوں کو طلاق دینے کے جو اختیارات مردوں کو دیے گئے ہیں ان کو استعمال کرنے کی دانشمندانہ صورت کیا ہے جس کی پیروی اگر کی جائے تو گھر بگڑنے سے بچ سکتے ہیں، طلاق دے کر پچھتانے کی نوبت پیش نہیں آسکتی، موافقت پیدا ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع باقی رہتے ہیں، اور اگر بالآخر علیٰحدگی ہو بھی جائے تو یہ آخری چارہ کار کھلا رہتا ہے کہ پھر مل جانا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کے ساتھ اپنے ان اختیارات کو غلط طریقے سے استعمال کر بیٹھے تو وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا اور تلافی کے تمام مواقع کھو بیٹھے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو تین سو روپے دے اور کہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں، ان کو تم اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مختار ہو۔ پھر وہ اسے نصیحت کرے کہ اپنے اس مال کو جو میں نے تمہیں دے دیا ہے، اس طرح احتیاط کے ساتھ بر محل اور بتدریج استعمال کرنا تاکہ تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکو، ورنہ میری نصیحت کے خلاف تم بےاحتیاطی کے ساتھ اسے بےموقع خرچ کرو گے یا ساری رقم بیک وقت خرچ کر بیٹھو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور پھر مزید کوئی رقم میں تمہیں برباد کرنے کے لیے نہیں دوں گا۔ یہ ساری نصیحت ایسی صورت میں بےمعنی ہوجاتی ہے جب کہ باپ نے پوری رقم سرے سے اس کے ہاتھ میں چھوڑی ہی نہ ہو، وہ بےموقع خرچ کرنا چاہے تو رقم اس کی جیب سے نکلے ہی نہیں، یا پورے تین سو خرچ کر ڈالنے پر بھی ایک سو ہی اس کے ہاتھ سے نکلیں اور دو سو بہر حال اس کی جیب میں پڑے رہیں۔ صورت معاملہ اگر یہی ہو تو اس نصیحت کی آخر حاجت کیا ہے ؟
Top