بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - At-Talaaq : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَ اَحْصُوا الْعِدَّةَ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمْ١ۚ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ١ؕ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ اَمْرًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا طَلَّقْتُمُ : جب طلاق دو تم النِّسَآءَ : عورتوں کو فَطَلِّقُوْهُنَّ : تو طلاق دو ان کو لِعِدَّتِهِنَّ : ان کی عدت کے لیے وَاَحْصُوا : اور شمار کرو۔ گن لو الْعِدَّةَ : عدت کو وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے رَبَّكُمْ : جو رب ہے تمہارا لَا تُخْرِجُوْهُنَّ : نہ تم نکالو ان کو مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ : ان کے گھروں سے وَلَا يَخْرُجْنَ : اور نہ وہ نکلیں اِلَّآ : مگر اَنْ يَّاْتِيْنَ : یہ کہ وہ آئیں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی کو مُّبَيِّنَةٍ : کھلی وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود ہیں وَمَنْ يَّتَعَدَّ : اور جو تجاوز کرے گا حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود سے فَقَدْ : تو تحقیق ظَلَمَ نَفْسَهٗ : اس نے ظلم کیا اپنی جان پر لَا تَدْرِيْ : نہیں تم جانتے لَعَلَّ اللّٰهَ : شاید کہ اللہ تعالیٰ يُحْدِثُ : پیدا کردے بَعْدَ : بعد ذٰلِكَ : اس کے اَمْرًا : کوئی صورت
اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو۔ (نہ تو تم ہی) انکو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلاق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے
ترجمہ : شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے، اے نبی ! ما بعد کے قرینہ سے مراد آپ کی امت ہے، یا اس کے بعد قل لھم محذف ہے (اے نبی ! آپ ﷺ مسلمانوں سے کہئے) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے لگو یعنی طلاق دینا چاہو تو تم ان کو طلاق عدت کے شروع وقت میں دو اس طریقہ سے کہ طلاق ایسے طہر میں ہو کہ جس میں قربت (وطی) نہ کی ہو، آنحضرت ﷺ کے یہ تفسیر کرنے کی وجہ سے، (رواہ الشیخان) اور تم عدت کو یاد رکھو تاکہ عدت پوری ہونے سے پہلے تم رجوع کرسکو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے اس کے امر و نہی میں اس کی اطاعت کرو ان عورتوں کو ان کے مسکن سے نہ نکالو اور نہ وہ خود اس سے نکلیں یہاں تک کہ ان کی عدت پوری ہوجائے، الایہ کہ وہ کوئی کھلی بےحیائی کریں (زنا وغیرہ) یاء کے فتح اور کسرہ کے ساتھ یعنی ظاہر یا ظاہر کرنے والی ہوں تو ان پر حدود قائم کرنے کے لئے ان کو نکالا جائے، یہ مذکورہ سب اللہ کے مقرر کردہ احکام ہیں، جو شخص احکام خداوندی سے تجاوز کرے گا اس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تجھے کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ اس طلاق کے بعد مراجعت کی صورت نکال دے اس صورت میں جب کہ طلاق ایک یا دو ہوں پھر جب وہ (مطلقہ) عورتیں اپنی عدت گزارنے کے قریب پہنچ جائیں یعنی ان کی عدت گزرنے کے قریب ہوجائے تو ان کو قاعدہ کے مطابق بغیر ضرر پہنچائے (رجعت کر کے) نکاح میں رہنے دو یا قاعدہ کے مطابق ان کو رہائی دو یعنی ان کو چھوڑ دو کہ ان کی عدت پوری ہوجائے، اور (بار بار) رجعت کر کے ان کو ضرر نہ پہنچائو، رجعت یا فرقت پر آپس میں سے دو معتبر شخصوں کو گواہ بنا لو اور تم ٹھیک ٹھیک بلارورعایت کے اللہ کے لئے گواہی دو اور تمہارا ارادہ کسی کو نہ فائدہ پہنچانے کا ہو اور نہ نقصان پہنچانے کا، اس مضمون سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور روز قیامت پر یقین رکھتا ہو اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے نجات کی شکل نکال دیتا ہے یعنی دنیا و آخرت کی تکلیف سے، اور اس کو ایسی جگہ سے رزق پہنچا دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا یعنی اس کے دل میں خیال بھی نہیں آتا، جو شخص اپنے کاموں میں اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اس کے لئے کافی ہے اللہ تعالیٰ اپنا کام یعنی مراد پوری کر کے رہتا ہے اور ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ نے ہر شئے مثلاً فراخی اور شدت (تنگی) کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اور تمہاری وہ بیویاں جو حیض سے ناامید ہوگئی ہیں (واللآئی) میں ہمزہ اور یاء اور بلایاء کے دونوں جگہ، اگر تم کو ان کی عدت کے بارے میں شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے (اور اسی طرح) وہ عورتیں کہ جن کو صغر سنی کی وجہ سے حیض نہیں آیا تو ان کی عدت بھی تین ماہ ہے مذکورہ دونوں مسئلے ان عورتوں کے ہیں کہ جن عورتوں کے شوہروں کی وفات نہ ہوئی ہو، اب رہی وہ عورتیں کہ جن کے شوہروں کی وفات ہوئی ہے تو ان عورتوں کی عدت وہ ہے جس کا ذکر ” یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا “ میں ہے اور حاملہ عورتوں کی عدت خواہ مطلقات ہوں یا ” متوفی عنھن ازواجھن “ ہوں ان کے اس حمل کا پیدا ہوجانا ہے اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں دنیا و آخرت میں آسانی فرما دے گا عدت کے بارے میں جو مذکور ہوا یہ اللہ کا حکم ہے جو تمہاریپ اس بھیجا ہے جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو دور فرما دے گا اور اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا تم ان مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو یعنی اپنی گنجائش کے مطابق نہ کہ اس سے کم اور گھر میں ان پر تنگی کر کے ان کو تکلیف مت پہنچائو کہ وہ نکلنے یا نفقہ پر مجبور ہوجائیں کہ وہ تمہارے پاس سے چلی جائیں اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حاملہ ہوں تو بچہ کی ولادت ہونے تک ان کو خرچ دو پھر وہ عورتیں (مدت کے بعد) ان سے تمہاری اولاد کو دودھ پلائیں تو تم ان کو دودھ پلائی کی اجرت دو اور آپس میں اولاد کے حق میں مناسب طور پر مشورہ کرلیا کرو دودھ پلائی کی اجرت معروفہ پر اتفاق کر کے اور اگر تم دودھ پلانے کے معاملہ میں باہم کشمکش (تنگی) کرو گے تو باپ اجرت دینے سے اور ماں دودھ پلانے سے رک جائیں گے تو باپ کے لئے کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی اور مطلقات اور مرضعات پر وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق خرچ کرنا چاہیے، اور جس کو (اللہ نے) تنگ روزی بنایا ہو تو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ تعالیٰ کسی کو اس سے زیادہ مکلف نہیں بناتا جتنا اس کو دیا ہے خدا تعالیٰ جلدی ہی تنگی کے بعد فراغت عطا فرمائے گا، اور بلاشبہ فتوحات کے بعد اس نے ایسا کردیا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : بقرینۃ ما بعدہ۔ ما بعد سے مراد اذا طلقتم النساء ہے اس لئے کہ اس میں صیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس سے مراد امت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خطاب آپ ﷺ ہی کو ہو اور طلقتم جمع کا صیغہ بطور تعظیم لایا گیا ہو، اوقل لھم سے احتمال ثانی کا بیان ہے۔ قولہ : اردتم الطلاق اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک شبہ کا ازالہ ہے، شبہ ہوتا ہے کہ اذا طلقتم النساء فطلقوھن میں ترتب شیء علی نفسہ لازم آرہا ہے اور یہ تحصیل حاصل ہے جو محال ہے اس لئے کہ شیء کا حمل خود اپنے اوپر درست نہیں ہوتا، اس شبہ کو دفع کرنے کے لئے مفسر علام نے اردتم الطلاق کا اضافہ فرمایا، تاکہ ترتب شیء علی نفسہ کا شبہ ختم ہوجائے۔ قولہ : لاولھا، ای فی اول العدۃ یعنی عدت کے اول وقت میں اور عدت کا وقت امام شافعی (رح) تعالیٰ اور امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک طہر کا وقت ہے مطلب یہ ہے کہ اول طہر میں جس میں قربت نہ کی ہو طلاق دو ، یہ تفسیر امام شافعی (رح) تعالیٰ کے مسلک کے مطابق ہے۔ قولہ : بینت او بینۃ یہ مبینہ بفتح الیاء اور بکسر الیاء کی قرأت کی تشریح ہے بینت فتحہ کی صورت میں اور بینۃ کسرہ کی صورت میں۔ قولہ : احفظوھا، ای احفظوا وقت عدتھا یعنی اس وقت کو یاد رکھو جس میں طلاق واقع ہوئی ہے۔ قولہ : ذلکم یوعظ بہ، ای المذکور من اول السورۃ الی ھنا۔ قولہ : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا یہ احکام نساء کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : وفی قراء ۃ بالاضافۃ، ای بالغ امرہ۔ قولہ : واللائی مبتداء ہے اور فعدتھن اس کی خبر ہے۔ قولہ : ان ارتبتم شرط ہے اور اس کا جواب محذوف ہے ای فاعلموا انھا ثلثۃ اشھر شرط اور جواب شرط جملہ معترضہ ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فعدتھن جواب شرط ہو۔ قولہ : اولات الاحمال مبتداء ہے اجلھن مبتداء ثانی ہے۔ قولہ : ان یضعن ثانی مبتداء کی خبر ہے اور مبتداء ثانی اپنی خبر سے مل کر مبتداء اول کی خبر ہے۔ تفسیر و تشریح نام اس سورت کا نام الطلاق ہے، بلکہ یہ اس سورت کے مضمون کا عنوان بھی ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے اس کا دوسرا نام، سورة النساء القصریٰ ، چھوٹی سورة نساء بھی منقول ہے، مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کا نزول سورة بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق کے احکام پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے۔ اس سورت کے احکام کو سمجھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو ذہن نشین کرلیا جائے جو طلاق اور عدت سے متعلق اس سے پہلے قرآن میں بیان ہوچکی ہیں۔ (1) طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا پھر بھلے طریقے سے رخصت کردیا جائے۔ (البقرہ، 229) (2) اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد) اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں) واپس لے لینے کے حقدار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں۔ (البقرہ، 228) پھر اگر وہ (تیسری بار) ان کو طلاق دیدیں تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوں گی جب تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے نہ ہوجائے۔ (البقرہ : 23) (3) جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورا کرنے کا تم مطالبہ کرو۔ (الاحزاب، 49) (4) اور تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار ماہ دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ (البقرہ، 234) ان آیات میں جو قواعد مقرر کئے گئے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ (1) مرد اپنی بیوی کو زیادہ سے زیادہ تین طلاق دے سکتا ہے۔ (2) ایک یا دو طلاق کی صورت میں مرد کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد اگر وہی شوہر اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اس کے لئے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے۔ (3) مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین حیض آجانے تک چھوڑے رکھے، ایک یا دو صریح طلاق کی صورت میں شوہر کو مدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہوگا، تین طلاق کی بعد رجعت کا حق باقی نہیں رہتا۔ (4) غیر مدخولہ عورت جسے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دیدی جائے اس کے لئے کوئی عدت نہیں وہ چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کرسکتی ہے۔ (5) جس عورت کا شوہر مرجائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ سورة طلاق کے نزول کا مقصد : سورة طلاق کے نزول کے دو مقاصد ہیں : (1) ایک یہ کہ مرد کو جو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے اس کو استعمال کرنے کے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں، جن سے حتی الامکان جدائی کی نوبت ہی نہ آنے پائے اور اگر جدائی ناگزیر ہو تو ایسی صورت میں ہو کہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہوں، کیونکہ خدائی شریعت میں طلاق ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے، نبی ﷺ کا ارشاد ہے ” ما احل اللہ شیئا ابغض الیہ من الطلاق “ تمام حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ (ابودائود) (2) دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورة بقرہ کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دیکر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کردی جائے، اس سلسلہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہوگیا ہو یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہوگی، اور جو عورت حامل ہو اسے اگر طلاق دیدی جائے یا اس کا شوہر مرجائے تو اس کی عدت کیا ہے ؟ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کی نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح ہوگا، اور جس بچے کے والدین طلاق کے ذریعہ الگ ہوگئے ہوں ان کی رضاعت کا انتظام کس طرح کیا جائے ؟ یایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن یہاں خطاب اگرچہ بظاہر آپ ﷺ ہی کو معلوم ہوتا ہے مگر مراد امت ہے، اس کی تائید طلقتم کے جمع کے صیغہ سے بھی ہوتی ہے اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ طلقتم جمع کا صیغہ آپ ﷺ ہی کے لئے تعظیم کے طور پر بولا گیا ہو، امت کے مراد ہونے کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ جہاں خاص طور پر آپ ﷺ ہی کو خطاب مقصود ہوتا ہے تو وہاں اکثر یایھا الرسول فرمایا جاتا ہے اور جہاں امت کو خطاب مقصود ہوتا ہے وہاں یا ایھا النبی فرمایا جاتا ہے۔ اسلامی عائلی قانون کی روح : اسلامی عائلی قانون کی روح یہ ہے کہ جن مردوں اور عورتوں میں ازدواجی تعلق قائم ہو وہ پائیدار اور عمر بھر کا رشتہ ہو جس سے ان دونوں کی دنیا اور آخرت دونوں درست ہوں، اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد کے اعمال و اخلاق بھی درست ہوں، اسی لئے نکاح کے معاملہ میں شروع سے آخر تک اسلام کی ہدایات یہ ہیں کہ اس تعلق کو تلخیوں اور رنجشوں سے پاک و صاف رکھنے کی اور اگر کبھی پیدا ہوجائے تو ان کے ازالہ کی پوری کوشش کی گئی ہے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بعض اوقات طرفین کی زندگی کی فلاح اسی میں منحصر ہوجاتی ہے کہ یہ تعلق ختم کردیا جائے، جن مذاہب میں طلاق کا اصول نہیں ہے ان میں ایسے واقعات میں سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بعض اوقات انتہائی برے نتائج سامنے آتے ہیں، اس لئے اسلام نے نکاح کی طرح طلاق کے بھی قواعد و ضوابط مقرر فرما دیئے مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیدی کہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مبغوض و مکروہ کام ہے جہاں تک ممکن ہو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ” حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض اللہ کے نزدیک طلاق ہے “ (ابودائود) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” تزوجوا ولا تطلقوا فان الطلاق یھتز منہ عرش الرحمٰن “ یعنی نکاح کرو طلاق نہ دو کیونکہ طلاق سے عرش رحمٰن ہل جاتا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” اللہ نے زمین پر جو کچھ پیدا فرمایا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کے نزدیک غلاموں کا آزاد کرنا ہے اور سب سے زیادہ مبغوض و مکروہ طلاق ہے “۔ (معارف، قرطبی) بہرحال اسلام نے اگرچہ طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ حتی الامکان اس کو روکنے کی کوشش کی ہے لیکن بعض ناگزیر موقعوں پر شرائط کے ساتھ اجازت دی تو اس کے لئے کچھ اصول اور قواعد بنا کر اجازت دی جن کا حاصل یہ ہے کہ اگر اس رشتہ ازدواج کو ختم کرنا ہی ضروری ہوجائے تو وہ بھی خوبصورتی اور حسن معاملہ کے ساتھ انجام پائے، محض غصہ اتارنے اور انتقام لینے کی صورت نہ بنے۔ پہلا حکم : فطلقوھن لعدتھن ” عدت “ کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں اس عدت کو کہا جاتا ہے جس میں عورت ایک شوہر کے نکاح سے نکلنے کے بعد دوسرے سے ممنوع ہوجاتی ہے، اس مدت انتظار کو عدت کہتے ہیں، اور نکاح سے نکلنے کی دو صورتیں ہیں، (1) ایک یہ کہ شوہر کا انتقال ہوجائے اس عدت کو عدت وفات کہا جاتا ہے جو غیر حاملہ کے لئے چار ماہ دس دن مقرر ہے۔ (2) دوسری صورت طلاق ہے، عدت طلاق غیر حاملہ کے لئے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض دیگر ائمہ رحمھم اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین حیض مکمل ہیں اور امام شافعی (رح) تعالیٰ اور دوسرے بعض ائمہ رحمھم اللہ تعالیٰ کے نزدیک طہر عدت طلاق ہے یعنی کچھ ایام یا مہینے مقرر نہیں، جتنے مہینوں میں تین حیض اور تین طہر پورے ہوجائیں وہی عدت طلاق ہوگی، اور جن عورتوں کو ابھی کم عمری کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو یا عمر زیادہ ہوجانے کی وجہ سے حیض منقطع ہوچکا ہے ان کا حکم آئندہ مستقلا آرہا ہے، اور اسی طرح حمل والی عورتوں کا حکم بھی آگے آرہا ہے اس میں عدت وفات اور عدت طلاق دونوں یکساں ہیں، فطلقوھن لعدتھن اور صحیح مسلم کی حدیث ہے آپ ﷺ نے فطلقوا لقبل عدتھن تلاوت فرمایا : آیت مذکورہ کی دونوں قرأتوں اور ایک روایت سے آیت مذکورہ کا یہ مفہوم متعین ہوگیا کہ جب کسی عورت کو طلاق دینا ہو تو عدت شروع ہونے سے قبل طلاق دی جائے اور امام شافعی (رح) تعالیٰ وغیرہ کے نزدیک چونکہ عدت طہر سے شروع ہوتی ہے اس لئے لقبل عدتھن کا مفہوم یہ قرار دیا کہ بالکل شروع طہر میں طلاق دے دی جائے۔ طلقوھن لعدتھن حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے اور نہ اس طہر میں دے جس میں شوہر مباشرت کرچکا ہو، جب عورت حیض سے فارغ ہوجائے تو اس کو ایک طلاق دیدے، اس صورت میں اگر شوہر رجوع نہ کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہوجائے گی۔ (ابن جریر) حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں عدت کے لئے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کئے بغیر طلاق دی جائے، یہی تفسیر عبد اللہ بن عمر، عطاء، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتل وغیرہم سے مروی ہے۔ (ابن کثیر) اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عد اللہ بن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی تھی، اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی ہر کتاب میں نقل ہوئی ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دیدی تو حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، آپ ﷺ سن کر سخت ناراض ہوئے، اور فرمایا کہ اس سے کہو کہ بیوی سے رجوع کرے یہاں تک کہ وہ طاہر ہوجائے پھر اسے حیض آئے اور اس سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہوجائے اس کے بعد اگر وہ طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کئے بغیر طلاق دے۔ اس حدیث سے چند باتیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے، دوسری یہ کہ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس طلاق سے رجعت کرلینا واجب ہے (بشرطیکہ طلاق قابل رجعت ہو جیسا کہ ابن عمر ؓ کے واقعہ میں تھی) تیسری یہ کہ جس طہر میں طلاق دینی ہو اس میں مباشرت نہ ہو، چوتھی یہ کہ یہ آیت فطلقوھن لعدتھن کی یہی تفسیر ہے۔ دوسرا حکم : واحصوا العدۃ ہے مطلق یہ کہ عدت کے ایام کو اہتمام سے یاد رکھنا چاہیے، یاد رکھنے کی ذمہ داری اگرچہ دونوں کی ہے مگر چونکہ ایسے معاملات میں جن کی ذمہ داری مرد اور عورت دونوں کی ہوتی ہے اکثر خطاب مرد کو ہوتا ہے۔ تیسرا حکم : لاتخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن اس آیت میں لفظ بیوتھن سے اشارہ کردیا کہ گھر میں عورت کا بھی حق سکونت ہے اور جب تک اس کی عدت ختم نہیں ہوجاتی عورت کا حق سکونت باقی رہتا ہے محض طلاق دینے سے سکنیٰ کا حق ساقط نہیں ہوجاتا، اور نہ وہ خود نکل سکتی ہے اگرچہ شوہر اس کی اجازت بھی دیدے، اس لئے کہ سکنیٰ محض حقوق العباد میں سے نہیں بلکہ حق اللہ بھی ہے۔ چوتھا حکم : الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ یہ ماقبل کی آیت کے مضمون سے مستثنیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ بیت سکنی سے نہ تو مرد کا معتدہ کو نکالنا جائز ہے اور نہ اس کا خود نکلنا جائز ہے مگر یہ کہ عورت کوئی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے، بےحیائی سے مراد مثلاً خود ہی گھر سے نکل بھاگے یا زنا کا ارتکاب کرے یا زبان درازی سے سب کو تنگ کر دے۔ وتلک حدود اللہ (الآیۃ) اس آیت سے احکام مذکورہ کی پابندی کی تاکید ہے کہ یہ شریعت کے مقرر کردہ حدود و قواعد ہیں جو شخص ان مقررہ حدود سے تجاوز کرے گا، تو اس نے گویا خود اپنے اوپر ظلم کیا۔ مطلقہ مدخولہ کی عدت تین حیض ہے، اگر رجوع کرنا ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرو، بصورت دیگر انہیں معروف طریقہ کے مطابق اپنے سے جدا کردو۔ اس رجعت یا طلاق پر گواہ بنا لو یہ امر استحباب کے لئے ہے، بعض حضرات کے نزدیک وجوب کے لئے ہے، نیز گواہوں کو تاکید کی گئی ہے کہ کسی کی رو رعایت کے بغیر گواہی دیں نہ کسی کو فائدہ پہنچانا مقصد ہو اور نہ نقصان پہنچانا۔ جن عورتوں کا حیض کبر سنی یا کسی اور وجہ سے منقطع ہوگیا ہو یا صغر سنی کی وجہ سے ابھی شروع نہ ہوا ہو تو ایسی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے۔ مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے خواہ دوسرے ہی دن وضع حمل ہوجائے، حاملہ متوفی عنھازوجھا کی عدت وضع حمل ہے اور غیر حاملہ کی چار ماہ دس دن، نیز مطلقہ رجعیہ اور بائنہ کے لئے سکنی ہے۔
Top