Baseerat-e-Quran - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
پھر ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (خضر) کو پایا جنہیں ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی تھی اور اسے ہم نے اپنے پاس سے علم سے نوازا تھا۔
لغات القرآن آیت نمبر 65 تا 70 وجدا دونوں نے پایا۔ علمنا ہم نے سکھایا۔ علمت تجھے سکھایا گیا۔ رشد ہدایت۔ لن تستطیع تو ہرگز طاقت نہیں رکھتا۔ لم تحط گھیرتا نہیں ہے۔ لا اعصی میں نافرمانی نہیں کروں گا۔ لاتسئلنی مجھ سے نہ پوچھنا ۔ حتی احدث جب تک میں بیان نہ کردوں۔ ذکر ذکر، بات۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 70 جب حضرت موسیٰ اللہ کے حکم سے حضرت خضر (علیہ السلام) کی تلاش میں نکلے تو ان کی ملاقات ایک سنگم پر حضرت خضر سے ہوگئی۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو جو خصوصی علوم و معارف عطا کئے ہیں میں آپ کے پاس رہ کر انہیں سیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت خضر نے کہا اے موسیٰ آپ جہاں سے آئے ہیں وہیں لوٹ جائیے کیونکہ میں تو اللہ کے حکم سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں جنہیں دیکھ کر آپ صبر و برداشت نہ کرسکیں گے کیونکہ ایسی باتوں کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں جن کا سمجھنا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی ہر بات میں اطاعت کروں گا۔ حضرت خضر نے کہا میرے ساتھ چلنے کی شرط یہ ہے کہ جب تک میں کسی بات یا کام کی مصلحت خود نہ بتا دوں اس وقت تک مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا۔ حضرت موسیٰ نے وعدہ کرلیا اور اس طرح وہ حضرت خضر کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیلات تو اگلی آیات میں آجائیں گی۔ ان آیات میں چند باتوں کی وضاحت پیش ہے۔ حضرت موسیٰ نہ صرف کلیم اللہ ہیں، صاحب کتاب و شریعت ہیں بلکہ بنی اسرائیل کے عظیم پیغمبر ہیں اور قرآن کریم میں سب سے زیادہ ذکر حضرت موسیٰ ہی کا ہے۔ لہٰذا ایسے جلیل القدر پیغمبر کو جب حضرت خضر کے پاس بھیجا جا رہا ہے کہ وہ ان سے علم اور اس کی حکمتیں سیکھیں تو یقینا حضرت خضر کی بھی بڑی شان ہونا ظاہر ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خضر کون ہیں ؟ ان کے ذمے کیا کام ہیں ؟ وہ زندہ ہیں یا نہیں ؟ ذہن میں ابھرنے والے ان سوالات کے جوابات خود قرآن کریم نے دیئے ہیں۔ فرمایا کہ حضرت خضر (1) ہمارے بندوں میں سے ایک بندے ہیں ۔ (2) انہیں خصوصی رحمتوں سے نوازا گیا تھا۔ (3) ان کے پاس جو بھی علم تھا وہ صرف اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ (4) وہ جو کچھ کرتے تھے اس میں ان کا اختیار نہیں تھا بلکہ وہ سب کچھ اللہ کے حکم سے کرتے تھے۔ ان چاروں خصوصیات سے حضرت خضر کی عظمت سامنے آتی ہے یعنی جس طرح اللہ نے اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے بہت سے اپنے برگریدہ پیغمبروں کو بھیجا تھا اسی طرح اللہ نے کائنات میں ان کو خصوصی کاموں پر مقرر کیا تھا۔ وہ اللہ کے حکم سے ایسے کام کرتے ہیں جن کے کرنے کا اللہ نے ان کو حکم دیا ہے اور وہ کام بھی ایسے ہیں کہ نظر کچھ آتے ہیں مگر ان کی مصلحت اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتی جب تک اس کو بیان نہ کردیا جائے۔ اسی لئے حضرت نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ میں تو ایسے کام کرتا ہوں جن کی مصلحت آپ کی سمجھ میں نہ آئے گی اور آپ پر صبر نہ کرسکیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات کا نظام اللہ کے حکم سے چل رہا ہے۔ کس کام میں کیا حکمت اور مصلحت ہے ؟ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مثلاً آپ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ظالم و جابر ہے وہ اپنی حکومت اور طاقت کے گھمنڈ میں مظلوموں کو روندتا چلا جا رہا ہے۔ وہ بربریت اور ظلم کی انتہاؤں پر ہونے کے باوجود کامیاب ہے۔ خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس کے برخلاف نیک، پرہیز گار، متقی اور مظلوم تباہ و برباد ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ اللہ کا کیسا نظام ہے جس میں نیکی کرنے اور حق و صداقت پر چلنے والا تو ذلیل و خوار ہو رہا ہے اور ظالم اور کمینہ شخص کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ظالم کی رسی کو اتنا دراز کیوں کیا جا رہا ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ مظلوم ظالم کے ظلم کی بھینٹ چڑھتا رہا ہے لیکن اللہ نے ظالم و جابر لوگوں کو کس طرح تباہ و برباد کیا وہ بھی ایک داستان عبرت ہے۔ اللہ کی لاٹھی بےآواز ہے جب وہ ظالموں سے انتقام لیتا ہے تو اس قدر بھیانک انتقام ہوتا ہے جس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ ان آیات سے دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کائنات میں اللہ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہی غیب اور شھادۃ یعنی غائب اور موجود کا جاننے والا ہے۔ وہ انسانوں کو جتنا علم دینا چاہتا ہے وہ دیتا ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں انسان کا علم بہت محدود ہے۔ اسی لئے حضرت خضر نے اس چڑیا کو دیکھ کر جو سمندر سے پانی پی رہی تھی کہا تھا کہ اللہ کا علم اس سمندر جیسا ہے اور چڑیا کی چونچ میں جتنا پانی ہے وہ انسان کا علم ہے یعنی جو نسبت سمندر اور چڑیا کی چونچ میں پانی کی ہے وہی نسبت اللہ کے علم اور انسان کو دیئے گئے علم کی ہے۔ فرمایا کہ حضرت خضر کا جو بھی علم تھا وہ ان کو اللہ نے عطا فرمایا تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو جو علوم عطا فرمائے ہیں وہ ان کی ذات میں نہیں ہوتے بلکہ اللہ کے یدئے ہوئے علوم و معارف ہوا کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خضر اللہ کے ایک بندے ہیں جن پر اللہ کا خصوصی فضل و کرم ہے اور اللہ نے ان کو اپنے پاس سے علوم عطا فرمائے تھے اور وہ اللہ کے حکم سے ایسے کام کرتے ہیں جن کی حکمت اور مصلحت کو سمجھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس موقع پر اس بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ حضرت خضر زندہ ہیں یا نہیں ؟ اللہ بہتر جانتا ہے ہمیں نہیں بتایا گیا اور قرآن و سنت میں بھی اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی ہے۔
Top