Jawahir-ul-Quran - An-Noor : 23
اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ : جو لوگ تہمت لگاتے ہیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن (جمع) الْغٰفِلٰتِ : بھولی بھالی انجان الْمُؤْمِنٰتِ : مومن عورتیں لُعِنُوْا : لعنت ہے ان پر فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جو لوگ23 عیب لگاتے ہیں حفاظت والیوں بیخبر ایمان والیوں کو ان کو پھٹکار ہے دنیا میں اور آخرت میں اور ان کے لیے ہے بڑا عذاب
23:۔ ” ان الذین یرمون الخ “ یہ منافقین کے لیے تخویف دنیوی و اخروی ہے وہ دنیا اور آخرت میں خداوند تعالیٰ کی لعنت کا مورد ہیں اور آخرت میں انہیں ہولناک عذاب میں بھی مبتلا کیا جائیگا اس سے عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مراد ہے جو واقعہ افک کا سرغنہ تھا۔ قال مقاتل ھذا خاص فی عبداللہ ابن ابی المنافق (معالم ج 5 ص 64، خازن ص 65) ۔ ” یوم تشھد الخ “ ظرف لغو یا ” عذاب عظیم “ سے متعلق ہے قیامت کو جب یہ منافق اپنے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کے ارتکاب سے انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے گویائی کا اختیار سلب کرلے گا اور ان کے جوارح کو بولنے کی قوت عطاء فرما دے گا۔ چناچہ ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان ان کے اختیار کے بغیر بول کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ابن انطقھن اللہ من غیر اختیارھم (جامع ص 307) ۔ ” یومئذ یوفیھم اللہ الخ “ دینھم، دین کے معنی حساب اور جزاء کے ہیں یعنی قیامت کے دن اللہ عدل و انصاف کے ساتھ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان پر ظلم نہیں کرے گا ای حسابھم وجزاءھم (قرطبی) ومعنی الھق الثابت الذی ھوم اھلہ (مدارک) و یعلمون ان اللہ الخ دنیا میں منافقین اللہ کی توحید اور دین اسلام کی سچائی سے شک میں تھے لیکن قیامت کے دن ان کے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید حق ہے اور اس کا دین سچا ہے۔ عن ابن عباس انھا نزلت فی عبداللہ بن ابی کان یشک فی الدین فاذا کان یوم القیامۃ علم حیث لا ینفعہ (بحر ج 6 ص 440) ۔
Top