Tafheem-ul-Quran - Al-Kahf : 38
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
سو اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک ایک گواہ حاضر کریں گے،136 ۔ اور ان لوگوں پر آپ کو بہ طور گواہ پیش کریں گے،137 ۔
136 ۔ (قیامت کے دن، اس امت سے متعلق اظہار دینے) یہ گواہ ہر امت کے مقابل اس امت کے رسول ہوں گے۔ جو اس کی شہادت دیں گے کہ وہ احکام کی پوری پوری تبلیغ کر آئے تھے۔ 137 ۔ (اے پیغمبر ! ) (آیت) ” ھولآء “۔ (ان لوگوں) کا اشارہ کس جانب ہے ؟ بہ ظاہر وہ لوگ مراد معلوم ہوتے ہیں۔ جو قرآن کے بر اہ راست یا بالواسطہ مخاطب تھے، اور جن سے رسول اللہ ﷺ کا سابقہ تھا۔ ای علی امتک (ابن جریر) یعنی قومہ المخاطبین بالقران (کبیر) دوسری تفسیر یہ ہے کہ اشارہ ان گواہوں کی جانب ہے، یعنی ان گواہوں کے صدق بیان پر گواہ ہوکر، نشھد علی صدق ھولآء الشھداء لعلمک بعقائدھم (بیضاوی) بہرصورت جب رسول اللہ ﷺ اس آیت پر پہنچے تھے تو اپنی ذمہ داری کے احساس اور فرط خشیت سے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ آنسو چشم مبارک سے ظاہر ہوجاتے تھے، کان النبی ﷺ اذا اتی علیھا فاضت عیناہ (ابن جریر) جن بیدردوں نے قرآن کو کلام محمد ٹھیرایا، وہ غور کریں، اپنے گھڑے ہوئے کلام سے بھی انسان کے آنسو جاری ہوسکتے ہیں ؟
Top