Al-Qurtubi - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا (حال بتانے کو) گواہ طلب کریں گے
آیت نمبر : 41۔ فاء کو التقاء ساکنین کی وجہ سے فتحہ دیا گیا ہے اور (اذا) ظرف زمان ہے اور اس میں عامل (آیت) ” جئنا “ ہے۔ ابو اللیث سمرقندی نے ذکر کیا ہے کہ ہمیں خلیل بن احمد نے بتایا فرمایا : ہمیں ابن منیع نے بتایا فرمایا : ہمیں ابو کامل نے بتایا فرمایا : ہمیں فضیل نے بتایا، انہوں نے یونس بن محمد بن فضالہ سے روایت کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس بنی ظفر میں تشریف لائے، آپ اس چٹان پر بیٹھ گئے جو بنی ظفر میں تھی اور آپ کے ساتھ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت معاذ ؓ اور دوسرے چند صحابہ تھے آپ نے ایک قاری کو قرآن پڑھنے کا حکم دیا حتی کہ جب وہ اس آیت پر پہنچا (آیت) ” فکیف اذا جئنا “۔ تو رسول اللہ ﷺ رونے لگے گئے حتی کہ آپ کے رخسار تر ہوگئے، آپ ﷺ نے عرض کی : یارب ! یہ ان پر ہے جن کے درمیان میں ہوں، ان کی کیا حالت ہوگی جن کو میں نے نہیں دیکھا ؟ بخاری نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا مجھے رسول اللہ ﷺ نین فرمایا : ” مجھ پر قرآن پڑھو، میں نے عرض کی : کیا میں آپ پر پڑھوں جب کہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : میں دوسرے سے سننا پسند کرتا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ پر سورة نساء پڑھی حتی کہ میں (آیت) ” فکیف اذا جئنا “۔ الخ پر پہنچا تو فرمایا : ٹھہر جا، جبکہ آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو تھے “۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 659) مسلم نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے لیکن اس میں امسک (ٹھہرجا) کے الفاظ کی جگہ رفعت راسی (میں نے اپنا سر اٹھایا) ہے یا فرمایا : عمزنی رجل الی جنبی “۔ میرے پہلو میں ایک شخص تھا جس نے مجھے اشارہ کیا تو میں نے اپنا سر اٹھایا اور میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے آنسو بہہ رہے تھے، ہمارے علماء نے فرمایا : نبی مکرم ﷺ کا رونا اس ہولناکی اور شدت کی وجہ سے تھا جس کا بیان اس آیت میں ہے، کیونکہ انبیاء کو اپنی اپنی امتوں پر تصدیق وتکذیب کے لیے بطور گواہ لایا جائے گا اور نبی کریم ﷺ کو قیامت کے روز بطور گواہ لایا جائے گا اور (آیت) ” علی ھؤلآء “ سے اشارہ قریش کے کفار اور دوسرے کفار کے طرف ہے، کفار قریش کو خصوصی طور پر ذکر فرمایا، کیونکہ دوسروں کی بنسبت ان پر عذاب شدید ہوگا کیونکہ معجزات کو دیکھنے کے وقت انکا انکار عناد کی بنا پر تھا، وہ معجزات جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے عادت کے خلاف ظاہر فرمائے تھے، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز ان کفار کا کیا حال ہوگا جب ہم لے آئیں گے ہر امت سے ایک گواہ اور (اے حبیب ! ) ہم لے آئیں گے آپ کو ان سب پر گواہ، کیا یہ عذاب دیئے جائیں یا انعام کیے جائیں ؟ یہ استفہام بمعنی توبیخ ہے، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” ھؤلآئ “ کا ارشادہ تمام امت کی طرف ہے، ابن المبارک نے ذکر کیا کہ ہمیں ایک انصاری شخص نے بتایا اس نے منہال بن عمرو سے روایت کیا، اس نے اس بتایا کہ اس نے سعید بن مسیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : لیس من یوم الا تعرض علی النبی ﷺ امتہ عدوۃ وعشیۃ فیعرفھم بسیماھم اعمالھم فذالک یشھد علیھم “۔ یعنی نبی مکرم ﷺ پر ہر صبح وشام آپ کی امت پیش کی جاتی ہے حضور ﷺ اپنے ہر امتی کے چہرہ اور اس کے اعمال کو پہچانتے ہیں اسی وجہ سے آپ ﷺ لوگوں کے متعلق گواہی دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید “۔ یعنی اس امت کے نبی کو ہم گواہ لائیں گے، (آیت) ” و جئنا من کل امۃ بشھید “۔ اور آپ کو ان پر گواہ لائیں گے، کیف مضمر فعل کی وجہ سے محل نصب میں ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے فکیف یکون حالھم جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور کبھی فعل مضمر کے قائم مقام اذا کو رکھا جاتا ہے اور اذا میں عامل جئنا ہے اور شہیدا حال ہے اور حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ طالب کا شیخ پر پڑھنا اور اس کتاب پیش کرنا جائز ہے اور اس کا برعکس بھی جائز ہے اس کا بیان سورة لم یکن میں حضرت ابی کی حدیث میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، (آیت) ” شھیدا “ حال کی بنا پر منصوب ہے۔
Top