Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 41
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًا٢ؕؐ
فَكَيْفَ : پھر کیسا۔ کیا اِذَا : جب جِئْنَا : ہم بلائیں گے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت بِشَهِيْدٍ : ایک گواہ وَّجِئْنَا : اور بلائیں گے بِكَ : آپ کو عَلٰي : پر هٰٓؤُلَآءِ : ان کے شَهِيْدًا : گواہ
اس دن ان کا کیا حال ہوگا ؟ جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تم کو ان لوگوں پر گواہ بناکرکھڑاکریں گے
فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ م بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓـؤُلَآ ئِ شَھِیْدًا ط یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْتُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ ط وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ع (اس دن ان کا کیا حال ہوگا ؟ جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے اور تم کو ان لوگوں پر گواہ بناکرکھڑاکریں گے اس دن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جنھوں نے رسول کی نافرمانی کی، تمنا کریں گے کہ کاش ! ان پر زمین برابر کردی جائے اور اس دن وہ اللہ سے کوئی بات بھی چھپا نہ سکیں گے) (النسآء : 41 تا 42) سابقہ آیات میں جہاں تک حقوق وفرائض، بنیادی اعتقادات اور اخلاقی اقدار کا تعلق ہے اس کی پوری طرح وضاحت کردی گئی اور مختلف اسالیب بیان سے کہیں زور دے کر کہیں دھمکی کی صورت میں اور کہیں نفسیاتی اور افادی پہلوئوں سے پوری طرح اتمامِ حجت کردیا گیا۔ اس کے بعد بھی اگر آنحضرت ﷺ کی دعوت کے مخاطب اپنی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں اور ان کا انکار وجحود برابر اپنی جگہ پر قائم ہے اور انھیں اپنے انجام کے بارے میں کوئی فکر لاحق نہیں تو ان دونوں آیات کریمہ میں ان سے آخری بات کہی جارہی ہے کہ تم دنیا میں اپنے رویے کے بارے میں کیسے ہی دلائل ڈھونڈ لو اور اس کی کیسی ہی توجیہات کرلو لیکن کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت نہ کرو کہ جب تمہاری اللہ کے دربار میں حاضری ہوگی تو وہ قیامت کی گھڑیاں کس قدر ہولناک ہوں گی اور تمہیں کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ ہر رسول اپنی امت پر گواہی دے گا اگر تم نے اب تک غور نہیں کیا تو ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ میدانِ حشر میں بیشمار امتوں کا ہجوم ہوگا، اس میں تمہاری طرح نافرمانوں اور کافروں کے گروہ بھی ہوں گے، ہر امت کے سامنے ان کے رسول کو بلاکریہ پوچھا جائے گا کہ بتائیے ان امتوں نے آپ کی دعوت کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ وہ رسول بتائیں گے کہ یا اللہ ہم نے خون کے گھونٹ پی پی کر اپنی امت کے لوگوں تک تیرے دین کی دعوت پہنچائی، ان کی طرف سے بےپناہ مخالفتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ افہام و تفہیم کے جتنے ممکن ذرائع ہوسکتے تھے ان میں سے ایک ایک سے کام لیا، ان کی طرف سے جو تکالیف اور دکھ پہنچائے گئے ان پر کبھی شکوہ نہ کیا بلکہ ان کی گالیوں پر بھی انھیں دعائیں دیں۔ لیکن ان بدبختوں نے ہماری دعوت پر کان نہ دھرا اور آج یہ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ہمارے رسول پاک ﷺ ہم پر گواہی دیں گے پھر یہ ہولناک منظر اپنی ہولناکی اور ہیبت ناکی میں انتہا کو پہنچ جائے گا، جب رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے سامنے گواہی کے لیے تشریف لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نہایت برہمی کے ساتھ کفار مکہ سے پوچھے گا کہ غور سے دیکھو ! یہ وہی آخری رسول ہیں جنھیں ہم نے تمہاری طرف مبعوث کیا تھا ؟ تم ان کے خاندان سے واقف تھے ؟ ان کا بچپن، لڑکپن، جوانی، چالیس سالہ عمر کا ایک ایک لمحہ تمہارے سامنے گزرا تھا ؟ انھوں نے نبوت کے اعلان سے پہلے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر تم سے پوچھا تھا کہ بتائو تم میری زندگی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو ؟ دیانت وامانت کے حوالے سے تمہارا میرے بارے میں کیا تجربہ ہے ؟ تم میری شخصیت کے ایک ایک پہلو سے واقف ہو بتائو اس بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ اس سوال و جواب کو مولانا حالی نے نظم کالباس پہنایا ؎ کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو باور کروگے اگر میں کہوں گا کہ فوجِ گراں پشت کوہ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پا کر کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امین ہے اس طرح سے آنحضرت ﷺ نے اپنی قوم سے اعتماد کا ووٹ لیا اور ایسا خطرناک ووٹ جسے حاصل کرنے کے لیے چالیس سالہ ریاضت ضروی ہے۔ اس دن پوچھا جائے گا کہ یہ اللہ کے وہ رسول ہیں جن پر تم نے غیرمشروط اور غیرمعمولی اعتماد کا اظہار کیا اور ان کی زندگی کے بارے میں تم نے غیرمعمولی شہادت دی اور یہ شہادت سچی شہادت تھی کیونکہ اس کے پیچھے کوئی دبائو یا کوئی لالچ نہ تھا۔ لیکن اسی رسول نے جب اللہ کے دین کی دعوت تمہارے سامنے پیش کی اور تمہیں دین کے بنیادی تصورات، اقدار اور احکام و فرائض سے آگاہ کیا تو تم نے نہ صرف ماننے سے انکار کیا بلکہ اس کی پاداش میں تم نے اس رسول کے لیے زندگی دشوار کردی اس کے ایمان لانے والوں کے لیے جینا دوبھر کردیا۔ کل تک جسے تم ہمیشہ الصادق اور الامین کہہ کر پکارتے تھے اور جس کے راستے میں تم آنکھیں بچھاتے تھے اب تمہاری آنکھوں سے اس کے لیے نفرت کے تیر نکلنے لگے اور تمہاری زبانیں اس کے لیے زہر اگلنے لگیں۔ کوئی ایسا الزام اور اتہام نہیں جو تم نے اس پر نہ باندھا ہو اور کوئی ایسی اذیت نہیں جو تم نے اسے نہ پہنچائی ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس نے تمہیں محبت کا پیغام دیا تمہاری جفائوں کے مقابلے میں اس نے تمہیں دعائوں سے نوازا، تم اسے پتھر مارتے تھے، وہ تمہاری ہدایت کے لیے اللہ کے سامنے جھولیاں پھیلاتا تھا۔ اس کی بےپناہ استقامت نے تمہارے ہر تیر ونشتر کو کند کرکے رکھ دیا۔ لیکن اس کی مروت رحمت اور مؤدت کے باوجود تم نے اس کے لیے وطن کی زمین تنگ کردی۔ بالآخر وہ اپنے مخلص ایمان لانے والوں کے ساتھ ہجرت کرگیا لیکن تم نے اس کا پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا، تم اس کی ذات کو جو تمہارے لیے رحمت بن کر آئی تھی، باربار جنگوں میں کھینچتے رہے۔ اس کشمکش کا بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ تمہارا کفر شکست کھا گیا، تمہاری طاقت کا مرکز سرنگوں ہوگیا۔ اب تم اس کے سامنے مجرموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے تھے لیکن اس نے پھر تم سے عفو و درگذر سے کام لیا۔ ایک طرف اس کا یہ رویہ اور دوسری طرف تمہارا کفر اور تمہاری ناشکری۔ بتائو تم نے یہ سب کچھ کیوں کیا ؟ تم دنیا میں تو اس رسول کا انکار کرتے رہے آج وہ رسول گواہی دے رہا ہے کہ کس طرح اس نے تمہیں اللہ کے دین سے آگاہ کیا اور تم نے کیا رویہ اختیار کیا۔ اب بتائو ہم تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں ؟ کہا اگر اس منظر کو آج اپنی آنکھوں میں سما سکو تو شائد تمہیں کل کی ندامت اور ہولناکی سے بچالے ورنہ تم اپنے سارے انکار اور جحود کے باوجود کل جس طرح شرم اور شرمندگی سے اللہ کے سامنے گڑگڑائو گے ہم تمہیں آج اس کی اس لیے خبر دے رہے ہیں کہ شاید تم اس سے ہی کچھ سبق سیکھ سکو۔ فرمایا اس دن یہ بڑے بڑے جغادری کافر اور یہ بڑے بڑے منافق جو نام اسلام کا لیتے ہیں لیکن رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اس دن تمنا کریں گے کہ اے کاش ! زمین ہم پر برابر کردی جائے۔ یعنی زمین ہمیں نگل لے اور پھر زمین کو ہموار کردیا جائے تاکہ ہمارا نام ونشان نہ رہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں پائیں گے کہ اس منظر کا دیر تک سامنا کرسکیں اور آج جس طرح یہ بڑھ چڑھ کر دین کی مخالفت میں بولتے ہیں اور جس طرح پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ان سے پوچھنے والانھیں کل جب پکڑے جائیں گے تو ان کی بےبسی کا عالم یہ ہوگا کہ کوئی بات اپنے اللہ سے چھپانہ سکیں گے۔ وہ چھپانا ضرور چاہیں گے لیکن ہر چیز ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گی۔ وہ بےکسی اور بےبسی کی اس طرح تصویر بن جائیں گے جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے۔ حَتّٰی اِذَا مَاجَآئُ وْھَاشَھِدَ عَلَیْھِمْ سَمْعُھُُمْ وَاَبْصَارُھُمْ وَجُلُوْدُھُمْ (یہاں تک کہ وہ جب حاضر ہوں گے تو ان کے خلاف گواہی دیں گے ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں) یعنی ان کارونگٹارونگٹا ان کے خلاف گواہی دے گا۔ وہ حیران ہو کر اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تمہیں قوت گویائی کیسے مل گئی ؟ اور کس نے تمہیں ہمارے خلاف گواہی دینے پر لگا دیا ؟ تو وہ جواب میں کہیں گی : اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ (ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی بخشی ہے جس نے ہر چیز کو بولنا سکھایا ہے) مزید ایک جگہ فرمایا : اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی اَفْوَاھِھِمْ وَتُـکَلِّمُنَـآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (آج ہم مہر کردیں گے ان کے مونہوں پر اور ہم سے بات کریں گے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان کے پائوں ان کے تمام اعمال اور کرتوتوں کی) امتوں کی بد اعمالیاں ان کے رسولوں کے لیے جواب دہی کا باعث ہوں گی اس سلسلے میں قرآن کریم کی وضاحتوں کو دیکھتے ہوئے ایک اور تکلیف دہ صورتحال کا علم ہوتا ہے، وہ یہ کہ نافرمان اور بد اطوار امتیں اپنی بداعمالیوں کے سبب خود ہی احتساب کے شکنجے میں نہیں آئیں گی بلکہ ان کی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں کو بھی ان کی وجہ سے عدالت کے کٹہرے میں آنا پڑے گا۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ آپ کی امتیں عقیدے کے جس فساد اور اعمال کی جس انحطاط کا شکار ہوئیں کیا آپ نے انھیں اس بات کی تعلیم دی تھی ؟ انھوں نے اللہ کے ساتھ جن جن قوتوں کو شریک کیا تھا کیا آپ نے ان کو بتایا تھا ؟ اس کی سب سے نمایاں مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات گرامی ہے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے آخری رسول ہیں اور جو اپنی ذاتی خصائص اور غیر معمولی معجزات کی وجہ سے بہت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے پوری تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح اپنی امت کے مشرکانہ اعتقادات کی وجہ سے اللہ کے سامنے انھیں جوابدہی کرنا پڑے گی۔ سورة المائدہ میں اس کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے۔ وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط قَالَ سُبْحٰنَـکَ مَایَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَالَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ ط اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّـکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّـکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادُمْتُ فِیْھِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ ط وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَھِیْدٌ (جب کہ اللہ پوچھے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی معبود ٹھہرائو ؟ وہ جواب دیں گے کہ تو پاک ہے یہ مجھ سے کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوگی تو تجھے تو اس کا علم ہوگا۔ تو میرے دل کی باتوں کو جانتا ہے میں تیرے دل کی باتوں کو نہیں جانتا۔ غیب کی باتوں کو جاننے والاتو ہی ہے میں نے ان سے نہیں کہی مگر وہی بات جس کا تو نے مجھے حکم دیا یہ کہ اللہ ہی کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ میں جب تک ان کے اندر رہا اسی بات کی گواہی دینے والا رہا، پھر جب تو نے مجھے وفات دی تو ان کا نگرانِ حال تو رہا اور تو ہر چیز پر حاضر وناظر ہے) (المآئدہ : 116 تا 117) ان آیات میں غو رکیجیے ! کس طرح عیسائی امت کی بداعتقادیوں کی وجہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی عدالت میں جواب دہی کے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور کس طرح وہ بار بار اللہ سے معافی طلب کریں گے اندازہ کیجیے ! اس وقت ان کے دل پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی کہ میں نے اس امت کو اللہ کے خالص دین کی دعوت دی، اس کی ذات وصفات سے انھیں آگاہ کیا، انھیں ہر طرح کے شرک سے بچنے کی ہدایت کی اور ان کی ہر طرح کی مخالفت کے باوجود میں نے ان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن آج ان کے رویے کے باعث مجھے اللہ کی عدالت میں شرمسار ہونا پڑا۔ ایک اذیت ناک احساس اس سے نہایت تشویشناک اور اذیتناک جس صورتحال کا احساس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر عیسائی امت کی بد اطواریوں کے باعث سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو حشر کے دن جواب دہی کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے تو کیا یہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام جس کی ذمہ داریاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت کی نسبت بہت زیادہ ہیں اور جس کے سر پر قیامت تک کے لیے امامت و سیادت کا تاج رکھا گیا ہے اور صدیوں تک جس نے انسانیت کی خدمت انجام دی ہے آج وہ جس برے طریقے سے اپنے فرض منصبی سے تقریباً دست کش ہوچکی ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کفر کی منہ زور طاقتیں صرف مسلمانوں کے خون سے ہی ہولی نہیں کھیل رہیں بلکہ اسلامی اعتقادات تک خطرے میں ہیں۔ اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو چیلنج کردیا گیا ہے اللہ ہی کی اطاعت اور محبت کو بنیاد پرستی اور اس کے دین کی سربلندی اور مسلمانوں کی ہدایت کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ہے۔ مسلمان اس حد تک کفر کی طاقتوں ان کی تہذیب، سیاست اور ثقافت سے مرعوب ہوچکے ہیں ( آج تو جو قیامت گزررہی ہے اس کا تو ایک خاص سبب سہی) لیکن چند سال پہلے پاکستان سے مسلمانوں کا ایک وفد ایک مسلمان ریاست میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے گیا تھا اس مسلمان ریاست کے سربراہ کو جب انھوں نے قرآن کریم کا ایک نسخہ بطور تحفہ پیش کرنے کی اجازت چاہی تو انھوں نے یہ کہہ کرلینے سے انکار کردیا کہ اس کی وجہ سے یہاں کی عیسائی اقلیت کو شکایت پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر اس بےحمیتی اور بےغیرتی کا جواب قیامت کے دن آنحضرت ﷺ سے مانگ لیا گیا تو میں شرمساری کی وجہ سے اس تصور سے ہی خوف زدہ ہوں کہ حضور کے دل پر کیا گزرے گی ؟ اور اگر کہیں یہ سوال کرلیا گیا کہ آپ کی امت کو ہم نے دنیا میں تقریباً ساٹھ 60 ملکوں کی حکومتوں سے نوازا، ان کو تمام مذاہب سے زیادہ افرادی قوت عطا کی، دنیا کے تمام قابل ذکر ساحل ان کے قبضے میں دے دئیے اور زمین کے نیچے بہنے والا زرِ سیال ان کے حوالے کردیا، کتنی بیش قیمت دھاتوں کی کانیں ان کے ملکوں میں موجود ہیں، کوئی اللہ کی نعمت ایسی نہیں جس سے مسلمان ملک مالامال نہیں ہیں۔ باایں ہمہ ! مسلمانوں کا کوئی ایک ملک ایسانھیں ہے جس میں اللہ کا قانون نافذ ہو۔ ہر جگہ اللہ کے ساتھ شرک کیا جارہا ہے، شرک صرف یہی تو نہیں کہ کسی کو رب یا الٰہ کہہ کر پکارا جائے یا اس کو خدا کا بیٹا بنالیا جائے۔ یقینایہ بھی شرک ہے کہ اللہ کے قانون کے مقابلے میں اس کی شریعت کے توڑ پر وضعی قوانین نافذ کیے جائیں۔ حلت و حرمت کا حق اللہ سے چھین کرپارلیمنٹ کو دے دیاجائے۔ کہیں الوہیت کی پوجاہو اور کہیں فوجی ڈکٹیٹر اسلامی شریعت، اسلامی اقدار اور اسلامی تاریخ پر خنجر چلا رہے ہوں۔ اگر آنحضرت ﷺ سے یہ پوچھ لیا گیا کہ کیا آپ نے اپنی امت کو یہی تعلیم دی تھی کہ وہ میری بجائے اقتدار کی پوجا کریں، میرے قانون کی جگہ وضعی قانون نافذ کریں، میری بجائے غیر اللہ سے امیدیں باندھیں میں سوچتا ہوں کہ اگر آنحضرت ﷺ سے اس طرح کے سوالات کیے گئے اور ہماری وجہ سے سرکارِ دوعالم ﷺ کو شرمندگی اٹھانا پڑی تو کیا ہم آنحضرت ﷺ کی شفاعت کے مستحق ہوسکیں گے ؟ یہ وہ مرحلہ ہے جس پر اس امت کو رک کردیانت داری سے سوچنا چاہیے اور اگر آج ہم نے نہ سوچا اور کوئی صحیح فیصلہ نہ کیا تو ہم بھی قیامت کے دن شائد یہ آرزو کرنے پر مجبور ہوجائیں کہ کاش ! ہم پر زمین برابر کردی جائے۔ میرا گمان یہ ہے کہ یہی وہ احساس ہے اور یہی وہ اندیشے ہیں جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ اس آیت کریمہ کو سن کر اشکبار ہوگئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) سے فرمایا کہ تم مجھے قرآن پاک پڑھ کرسنائو، حضرت عبداللہ ( رض) نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا۔ آپ نے فرمایا : ہاں پڑھو ! حضرت عبداللہ ( رض) نے سورة النساء کی تلاوت شروع کردی جب اس آیت کریمہ پر پہنچے تو آپ نے فرمایا : اب بس کرو۔ حضرت عبداللہ ( رض) نے جب نگاہ اٹھاکر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ غور فرمائیے ! یہ کس بات کا احساس تھا جس نے آپ کو اشکبار کردیا۔
Top