Tafseer-al-Kitaab - At-Tahrim : 12
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور (اے پیغمبر، ) یہ لوگ تم سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ تم (ان سے) کہو کہ میں اس کا حال (کلام الٰہی میں) پڑھ کر سنائے دیتا ہوں۔
[28] ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا ایک معنی قوت کے بھی لئے گئے ہیں۔ قرآن کی تصریحات سے اتنا تو بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی دیندار اور بڑی کشور کشا شخصیت تھی مگر اس سے زیادہ تعین قرآن میں نہیں۔ سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کا لقب تھا۔ عربی میں بھی اور عبرانی میں بھی '' قرن '' کے معنی سینگ کے ہیں۔ پس ذوالقرنین کا مطلب ہوا دو سینگوں والا۔ لیکن چونکہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملا جس کا ایسا لقب ہو پھر چونکہ فتوحات کی وسعت اور مشرق و مغرب کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی خصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے اس لئے ہمارے مفسرین کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں۔ چناچہ امام رازی نے سکندر ہی کو ذوالقرنین قرار دیا حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ذوالقرنین سکندر مقدونی نہیں ہوسکتا۔ نہ تو وہ توحید پرست تھا نہ عادل تھا نہ مفتوح قوموں کے لیے فیاض تھا اور نہ ہی اس نے کوئی دیوار بنائی۔ بہرحال مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا سکے لیکن سن 905 قبل از مسیح میں ایک غیر معمولی شخصیت غیر معمولی حالات کے اندر ابھری اور تمام دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ پارس کے ایک امیر نیز خاندان کا ایک نوجوان کو رش تھا جسے یونانیوں نے سائرس، عبرانیوں نے خورش اور عربوں نے کیخسرو کے نام سے پکارا۔ قرآن میں ذوالقرنین کے جو اوصاف بیان ہوئے ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائرس میں وہ تمام اوصاف تھے۔ وہ ایک مومن، موحد اور آخرت پر یقین رکھنے والا بادشاہ تھا۔ سائرس زردشت کا ہم عصر اور اس کا پیرو تھا۔ زردشت کی اصل تعلیمات میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا صحیح تصور ملتا ہے۔ اگرچہ بعد میں دوسرے مذاہب کی طرح یہ مذہب بھی تحریفات کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہا بلکہ ثنویت (یعنی اہرمن و یزداں) کے تصورات اس پر غالب آگئے۔ تخت نشینی کے بعد سب سے پہلی جنگ جو اسے پیش آئی وہ لیڈیا کے بادشاہ کروئسیس سے تھی۔ تمام مورخین اس پر متفق ہیں کہ حملہ کروئسیس کی طرف سے ہوا تھا اور اس نے سائرس کو دفاع پر مجبور کردیا تھا۔ لیڈیا سے مقصود ایشیائے کوچک کا مغربی اور شمالی حصہ ہے جو یونانی تمدن کا ایشیائی مرکز بن گیا تھا۔ اس جنگ میں سائرس فتح یاب رہا لیکن رعایا کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی البتہ کروئسیس کی نسبت یونانی روایت ہے کہ اس کے عزم و ہمت کی آزمائش کے لئے سائرس نے حکم دیا تھا کہ چتا تیار کی جائے اور اسے جلا دیا جائے لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ مردانہ وار چتا پر بیٹھ گیا ہے تو فوراً اس کی جاں بخشی کردی اور اس نے بقیہ زندگی عزت و احترام کے ساتھ بسر کی۔ اس پر سائرس کو مشرق کی طرف متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈر وسیا (مکران) اور بکڑیا (بلخ) کے وحشی قبائل نے سرکشی کی تھی۔ تقریباً یہی زمانہ تھا جب باشندگان بابل نے اس سے درخواست کی کہ بیل شازار کے مظالم سے انھیں نجات دلائے۔ نینوا کی تباہی نے ایک نئی بابلی شہنشاہی کی بنیادیں استوار کردی تھیں اور بخت نصر کی قاہرانہ فتوحات نے تمام مغربی ایشیا کو فتح کرلیا تھا۔ وہ قوموں کو غلام بناتا اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتا تھا۔ باشندگان شہر اس کے ظلم سے تنگ آگئے تھے اور سائرس کے لئے چشم براہ تھے اس لئے انہوں نے ہر طرح سے اس کا ساتھ دیا۔ سائرس کے پہنچنے سے پہلے اس کی فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ قبل اس کے کہ سائرس خود شہر میں پہنچے شہر فتح ہوچکا تھا۔ بابل کی فتح کے بعد سائرس کی عظمت تمام مغربی ایشیا میں مسلم ہوئی۔ 935 قبل مسیح میں صرف اسی کی تنہا شخصیت عظمت و حکمرانی کے عالمگیر تخت پر نمایاں نظر آتی ہے۔ فتح بابل کے بعد تقریباً دس برس زندہ رہا اور 925 قبل مسیح میں انتقال کر گیا۔ سائرس نے جب دنیا چھوڑی تو اس کی مملکت روز بروز وسیع ہوتی گئی۔ اس کی فتوحات میں صرف مصر کا خانہ خالی رہ گیا۔ اس کے فرزند کیقباد نے اسے بھی بھر دیا۔ سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دو سو برس تک نہ ہل سکیں۔ لیکن سکندر کے دم توڑتے ہی اس کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔
Top