Al-Qurtubi - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور وہ اپنے پروردگار کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرماں برداروں میں سے تھیں۔
ومریم ابنت عمران اذکر فعل محذوف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا عطف امراۃ فرعون پر ہے معنی ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم بنت عمران کی مثال بیان کی اور یہودیوں کی اذیتوں پر انہیں صبر عطا کیا۔ التی احصنت فرجھا یعنی جنہیں فحش اعمال سے محفوظ رکھا۔ مفسرین نے کہا : یہاں فرج سے مراد گریبان ہے (1) کیونکہ ارشاد فرمایا : فنفحنا فیہ من روحنا حضرت جبریل امین نے ان کے گریبان میں پھونک ماری ان کی شرمگاہ میں پھونک نہیں ماری۔ یہ حضرت ابی کی قرأت ہے فنفخنا فی جیبھا من روحنا کپڑے میں جو بھی پھٹن ہو اس کو جیب کا نام دیا جاتا ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ومالھا من فروج۔ (ق) ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت مریم نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا اور حضرت مریم کے گریبان میں حضرت جبریل نے پھونک ماری۔ فنفخنا کا معنی ہے ہم نے جبریل امین کو بھیجا تو حضرت جبریل امین نے ان کے گریبان میں پھونک ماری۔ من روحنا یعنی اپنی ارواح میں سے ایک روح۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح ہے اس کی وضاحت سورة نساء کے آخر میں گزر چکی ہے۔ الحمد للہ۔ وصدقت بکلمت ربھا عام قرات صدقت تشدید کے ساتھ ہے حمید اور اموی نے وصدقت تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ بکلمت ربھا سے مراد ہے کہ حضرت جبریل امین نے حضرت مریم سے کہا : انما انا رسول ربک (مریم : 19) میں تیرے رب کا رسول ہوں۔ مقاتل نے کہا : کلمات سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، یہ کہ وہ نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں یہ بحث بھی پہلے گزر چکی ہے۔ حضرت حسن بصری اور ابو العالیہ نے کہا : بکلمت ربھا و کتبہ ابو عمرو اور حفص نے عاصم سے و کتبہ جمع کا صیغہ پڑھا ہے۔ ابو رجاء سے وکتبہ تاء کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے (2) باقی قراء نے اسے واحد کتابہ پڑھا ہے مراد جنس ہے معنی ہوگا یہ کتاب جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا۔ وکانت من القنتین۔ یہ اطاعت گزاروں میں سے تھیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ان نمازیوں میں سے تھی جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں۔ قانتات نہیں فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ قوم تانتین میں سے تھی۔ یہ جائز ہے کہ القنتین سے مراد ان کے ” اہل بیت “ ہوں کیونکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا جبکہ ان کی روح پر از کر رہی تھی ” کیا تو اس بات کو ناپسند کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی میں خیر رکھ دی ہے جب تو اپنی سوکنوں کے پاس جائے تو میری طرف سے انہیں سلام کہنا وہ حضرت مریم بنت عمران، حضرت آسیہ بنت مزاحم، حضرت کلیمہ یا حضرت حکیمہ بنت عمران جو حضرت موسیٰ بن عمران کی بہن ہیں “۔ حضرت خدیجہ ؓ نے جواب دیا : یا رسول اللہ ! تمہارا جوڑا ملا رہے بیٹے پیدا ہوں۔ قتادہ نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تیرے لئے جہاں بھر کی عورتوں میں سے چار کافی ہیں حضرت مریم بنت عمران، حضرت خدیجہ بنت خویلد، حضرت فاطمہ بنت محمد ﷺ اور حضرت آسیہ بنت مزاحم ؓ “ (3) ۔ اس بارے میں مفصل گفتگو سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔
Top