Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
63۔ 67:۔ اوپر ان لوگوں کا ذکر تھا ‘ جن کے روبرو اللہ کی صفت رحمن بیان کی جاتی تھی ‘ تو وہ بدکتے تھے ‘ ایسے لوگوں کے قائل کرنے کے لیے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمن کے بندوں کے پتے سے اپنے نیک بندوں کی یہ چند صفتیں بیان فرمائیں کہ وہ لوگ جب زمین پر چلتے پھرتے ہیں تو اترا کر نہیں چلتے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا پچھلی امتوں میں سے بعض اترا کر چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں دھنسا دیا ہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ زمین پر اترا کر چلنے پھرنے کی عادت اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے ‘ اسی واسطے جن لوگوں میں یہ عادت نہیں ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے ‘ پھر فرمایا ‘ ان رحمن کے بندوں میں یہ بھی اچھی عادت ہے کہ جب کوئی ناسمجھ آدمی ان سے سخت بات کہہ دے تو وہ نرم جواب سے اس کو ٹال دیتے ہیں ‘ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 1 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ درگزر کرنے والے شخص کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتا ہے ‘ اس حدیث سے درگزر کی عادت کا اچھا پن اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے پھر فرمایا ‘ ان رحمن کے بندوں میں یہ بھی اچھی عادت ہے کہ وہ رات کو نماز پڑھتے رہتے ہیں ‘ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت 2 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ‘ فرض نماز کے بعد رات کی نماز افضل ہے ‘ اس سے رات کی نماز کی فضیلت اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے ‘ پھر فرمایا ان رحمن کے بندوں میں یہ بھی عادت ہے کہ دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دوزخ برا ٹھکانہ ہے اور اس کا عذاب سخت ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت 3 ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتا رہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے دوزخ کی آگ سے بچاوے گا ‘ اس حدیث سے دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعا کا فائدہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے ‘ پھر فرمایا ان رحمن کے بندوں میں یہ بھی عادت ہے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے وقت اور خرچ کرنے سے ہاتھ روکتے وقت شریعت کی حد سے نہیں بڑھتے صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے 4 ؎ اور معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبداللہ بن عباس ؓ سے جو روایتیں 5 ؎ ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ نیک کام میں خرچ کرنے والوں کے مال بڑھتے اور ایسے خرچ سے ہاتھ روکنے والوں کے مال کے گھٹ جانے کے لیے ہر روز اللہ کے دو فرشتے دعا مانگتے رہتے ہیں مگر جس شخص کے ذمہ کسی کا کچھ قرض ہو تو اس کو چاہیے کہ قرض کی ادائیگی کے موافق مال بچا کر خیرات کرے ‘ آیتوں کے مطلب میں اوپر جو یہ بیان کیا گیا کہ خرچ کرنے میں اور خرچ سے ہاتھ روکنے میں شریعت کی حد سے نہ بڑھنا چاہیے ‘ اس کی تفسیر ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مثلا کوئی قرضدارا ادائے قرضہ کا خیال نہ رکھے اور اپنا سارا مال صدقہ و خیرات میں خرچ کردے تو وہ اس خرچ میں گویا حد شریعت سے بڑھ گیا ‘ اسی طرح ہر طرح کی گنجائش کے ہوتے ہوئے جو شخص صدقہ ‘ خیرات سے ہاتھ کو روکے گا تو وہ بھی خرچ سے ہاتھ کو روکنے میں یہاں تک حد شریعت سے دور جا پڑے گا کہ ایسے شخص کے مال کے گھٹ جانے کی بددعا اللہ کے فرشتوں کی زبان سے نکلے گی۔ (3 ؎ مشکوٰۃ باب الجلوس والنوم والمشی ) (1 ؎ مشکوٰۃ ص 419 باب البروالصلہ فصل اول کی آخری حدیث ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب صیام التطوع ) (3 ؎ مشکوٰۃ ص 192 باب ذکر اللہ والتقرب الیہ ) (4 ؎ مشکوٰۃ ص 164 باب الانفاق وکراہیۃ الامساک ) (5 ؎ مجمع الزوائد ص 133 ج 3 )
Top