Tafseer-e-Saadi - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
آیت 63 سے 77 اللہ تعالیٰ کی عبودیت کی دو اقسام ہیں : (1) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی بنا پر اس کی عبودیت : یہ عبودیت مسلمان اور کافر، نیک اور بدتمام مخلوق میں مشترک ہے تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلام، اس کی ربوبیت کی محتاج اور اس کے دست تدبیر کے تحت ہے۔ (ان کل من فی السموات والارض الی اتی الرحمن عبدا) (مریم : 19/93) ” آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں وہ سب رحمان کے حضور بندوں کی حیثیت سے حاضر ہوں گے۔ “ (2) اللہ تعالیٰ کی الوہیت اس کی عبادت اور اس کی رحمت کے سبب سے اس کی عبودیت : یہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء ومرسلین اور اس کے اولیاء کی عبودیت ہے اور یہاں عبودیت کی یہی قسم مراد ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی اضافت اپنے اسم مبارک (رحمن) کی طرف کی جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ ان کی صفات سب سے کامل اور ان کی نعت سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : (یمشون علی الارض ھونا) ” وہ زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے سامنے نہایت پر سکون متواضع ہوتے ہیں۔ وقار، سکون اور اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے تواضع اور انکسار ان کا وصف ہے۔ (واذا خاطبھم الجھلون) ” اور جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں۔ “ یعنی جہالت پر مبنی خطاب اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فعل کی اضافت اور اس کی نسبت اس وصف کی طرف ہے (قالو اسلما) ” تو سلام کہتے ہیں۔ “ یعنی وہ انہیں اس طریقے سے خطاب کرتے ہیں جس سے وہ گناہ اور جاہل کی جہالت کے مقابلہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ان کے حلم، برائی کے بدلے احسان، جائل سے عفو و درگزر اور ووفور عقل کی مدح ہے جس نے انہیں اس بلند مقام پر فائز کیا۔ (والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاما) ” اور وہ جو اپنے رب کے حضور سجدہ کرکے اور قیام کرکے راتیں بسر کرتے ہیں۔ “ یعنی راتوں کے وقت بہت کثرت سے نماز پڑھتے ہیں، اپنے رب کے سامنے اخلاص اور قیام کرکے راتین بسر کرتے ہیں۔ “ یعنی راتوں کے وقت بہت کثرت سے نماز پڑھتے ہیں، اپنے رب کے سامنے اخلاص اور تذلل کا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (تتجا فی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفا و طمعا ومما رزقنھم ینفقون۔ فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزاء بما کانو یعملون) (السجدۃ : 32/16، 18) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپن رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں۔ کسی متنفس کو خبر نہیں کہ کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کے لئے چھپا کرتے ہیں۔ کسی متنفس کو خبر نہیں کہ کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے۔ “ ) والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جھنم) ” اور وہ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھ۔ “ یعنی اسباب عصمت کے ذریعے سے اور ہمارے ان گناہوں کو بخش کر جو موجب عذاب ہیں، ہم سے جہنم کے عذاب کو دور فرمایا۔ (ان عذابھا کان غراما) ” بیشک اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔ “ یعنی جہنم کا عذاب جہنمیوں سے چپک جائے گا۔ جیسے قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے۔ (انھا ساءت مستقرا ومقاما) ” بلاشہ دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بری جگہ ہے۔ “ یہ ان کی طرف سے اپنے رب کے سامنے عاجزی اور شدت احتیاج کا اظہار ہے۔ نیز یہ کہ ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اس عذاب کو برداشت کرسکیں۔۔۔ نیز یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد رکھیں کیونکہ سختی کو دور کرنا بھی اس کی شدت اور برائی کے مطابق ہوتا ہے اور سختی جس قدر زیادہ شدت سے واقع ہوگی، اس کے ہٹائے جانے سے خوشی بھی اس قدر زیادہ ہوگی۔ (والذین اذ انفقوا) ” اور وہ جب خرچ کرتے ہیں۔ ” یعنی نفقات واجبہ و مستحبہ (لم یسرفوا) ” تو اسراف نہیں کرتے۔ “ یعنی وہ حد اعتدال سے آگے بڑھ کر تبذیر اور حقوق واجبہ سے بےاعتنائی کی حدود میں داخل نہیں ہوتے (ولم یفتروا) اور نہ نفقات میں تنگی کرکے بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں (وکان) ” اور ہوتا ہے “ یعنی ان کا خرچ کرنا۔ (بین ذلک) اسراف اور بخل کے بین بین (قواما) ” اعتدال کی راہ پر۔ “ وہ ان مقامات پر خرچ کرتے ہیں جہاں خرچ کرنا واجب ہے مثلاً زکوٰۃ، کفارہ اور نفقات واجبہ وغیرہ۔ نیز ان مقامات پر خرچ کرت ہیں جہاں خرچ کرنا مناسب ہو اور اس سے نقصان نہ پہنچتا ہو۔ یہ ان کے عدل و انصاف اور اعتدال کی دلیل ہے۔ (والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر) ” اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ “ بلکہ وہ دین کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرکے غیر اللہ سے منہ موڑ کر یکسوئی کے ساتھ اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے صرف اسی کی عیادت کرتے ہیں (ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ) ” اور جس جان کا مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے۔ “ اس سے مراد مسلمان اور معاہدہ کافر ہے (الا بالحق) ” مگر جائز طریق پر۔ ” مثلاً قتل کے قصاص میں قتل کرنا، شادی شدہ زانی کو زنا کی پاداش میں قتل کرنا اور اس کافر کو قتل کرنا جس کو قتل کرنا جائز ہو۔ (ولا یزنون) ” اور وہ زنا نہیں کرتے۔ “ بلکہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرت ہیں (الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم) (المومنون : 23/2) ” سوائے اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملکیت میں ہوں۔ “ (ومن یفعل ذلک) ” اور جو یہ کام کرے گا۔ “ یعنی جو کوئی شرک اور زنا کا ارتکاب کرے گا اور ناحق قتل کرے گا تو عن قریب (یلق اثاما) ” وہ گناہ کا بدلہ پائے گا۔ “ پھر اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : (یضعف لہ العذاب یوم القیمۃ ویخلد فیہ) ” قیامت کے دن اس کو دگنا عذاب ہوگا، اس میں ہیشہ رہے گا۔ “ یعنی وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا (مھانا) ” رسوائی کے ساتھ۔ “ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کوئی ان تمام افعال کا ارتکاب کرتا ہے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اسی طرح شرک کا مرتکب بھی ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اسی طرح ان تینوں گناہوں میں سے ہر گناہ کے ارتکاب پر سخت عذاب کی وعید ہے۔ کیونکہ یہ گناہ یا تو شرک ہے یا کبیرہ گناہ ہے۔ رہا قاتل اور زنا کار کا ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہنا تو قرآن اور سنت کی نصوص دلالت کرتی ہیں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ تمام اہل ایمان جہنم سے نکال لئے جائیں گے، کوئی مومن جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اس لئے کہ تمام اہل ایمان جہنم سے نکال لئے جائیں گے، کوئی مومن جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا خواہ اس نے کتنے ہی بڑے بڑے گناہ کیوں نہ کئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ انہیں اس لئے ذکر کیا ہے کہ یہ تینوں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ شرک فساد ادیان، قتل فسادا بدان اور زنا فساد و عزت و ناموس ہے۔ (الا من تاب) ” مگر جس نے توبہ کی۔ “ یعنی جس نے ان گناہوں اور دیگر گناہوں سے توبہ کی، اس نے فی الفور ان گناہوں کو ترک کردیا، ان گناہوں پر نادم ہوا اور پختہ عزم کرلیا کہ اب وہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا (وامن) ” اور ایمان لایا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ پر صحیح طور پر ایمان لایا جو گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیوں کے اکتساب کا تقاضا کرتا ہے (وعمل عملا صالحا) ” اور اچھے کام کیے۔ “ یعنی وہ ایسے نیک کام کرتا ہے جن کا شارع نے حکم دیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے۔ (فاولئک یبدل اللہ سیاتھم حسنت) ” تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔ “ یعنی ان کے وہ افعال اور اقوال جو برائی کی راہ میں سرانجام پانے کے لئے تیار تھے، نیکیوں میں بدل جاتے ہیں، چناچہ ان کا شرک ایمان میں بدل جاتا ہے، ان کی نافرمانی اطاعت میں، اور وہ برائیاں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، بدل جاتی ہیں۔ پھر ان کا وصف یہ بنا جاتا ہے کہ جو بھی گناہ ان سے صادر ہوتا ہے تو وہ اس کے بعد توبہ کرتے اور انابت و اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جس سے وہ گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجات ہیں، جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بعض گناہوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرے گا اور ان گناہوں کو اس کے سامنے شمار کرے گا پھر ہر برائی کو نیکی میں بدل دے گا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا ” اے میرے رب ! میری تو بہت سی برائیاں تھین جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دیتیں۔ “ واللہ اعلم۔ (وکان اللہ غفورا) ” اور اللہ تو بخشنے والا ہے۔ “ جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمام بڑے برے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (رحیما) وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے ان کو ان کے گناہ کرنے کے بعد توبہ کی طرف بلایا ہے، پھر انہیں توبہ کی توفیق عطا کی اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ (ومن تاب وعمل صالحا فانہ یتوب الی اللہ متابا) ” اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو بیشک وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ “ یعنی بندے کو معلوم ہونا چاہیے کہ توبہ کمال کا بلند ترین مقام ہے کیونکہ توبہ اس رات کی طرف رجوع ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور اس مقام پر پہنچے میں بندے کی عین سعادت اور فلاح ہے اس لئے اس چاہیے کہ وہ توبہ میں اخلاص سے کام لے اور توبہ کو اغراض فاسدہ کے تمام شائبوں سے پاک رکھے۔ اسے سے مقصود دراصل بندوں کو تکمیل توبہ نیز بہترین اور جلیل القدر انداز سے اس کی اتباع کی ترغیب دینا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کی طرف توجہ فرمائے اور ‘ توبہ کی تکمیل کے مطابق، پورا پورا اجر عطا کرے۔ (والذین لا یشھدون الزور) یعنی جو لوگ جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے (الزور) سے مراد حرام قول و فعل ہے۔ پس وہ ان تمام مجالس سے اجتناب کرتے ہیں جو اقوال محرمہ یا افعال محرمہ پر مشتمل ہوتی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی آیات میں باطل انداز سے گفتگو میں مشغول ہونا اور جھگڑنا، غیبت، چغلی، سب و شتم، قذف و استہزا، حرام گانا بجانا، شراب پینا، ریشم کے بچھونے اور تصاویر وغیرہ۔ جب وہ جھوٹ میں حاضر ہونے سے اجتناب کرتے ہیں تو جھوٹی بات کہنے اور جھوٹے فعل کے ارتکاب سے بدرجہ الٰہی بچتے ہوں گے۔ جھوٹی گواہی جھوٹی بات میں داخل ہے اور یہ بھی بدرجہ اولیٰ اس آیت کریمہ میں داخل ہے۔ (واذا مروا باللغو) ” اور جب وہ بےہودہ چیزوں کے پاس سے گزرتے ہیں۔ “ (مروا کراما) ” تو باوقار انداز سے گزر جاتے ہیں۔ “ یعنی وہ لغویات میں مشغول ہونے سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ لغویات میں مغشول ہونا خواہ ان میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو، سفاہت ہے جو انسانیت اور مروت کے منافی ہے بنا بریں وہ اپنے لئے اسے پسند نہیں کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد (واذا مروا باللغو) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان لغویات میں حاضر ہونا اور انہیں سننا، ان کا مقصد نہیں بلکہ اگر کسی لغوبات کا کہیں سامنا ہوجاتا ہے تو نہایت باوقار طریقے سے اپنے آپ کو وہاں سے بچالیتے ہیں۔ (والذین اذا ذکروا بایت ربھم) ” اور وہ لوگ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعے سے سمجھا جاتا ہے۔ “ جن کو سننے اور جن سے راہنمائی حاصل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (لم یخروا علیھا صما وعمیانا) ” تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے۔ “ یعنی ان سے روگردانی نہیں کرتے۔ وہ آیات الٰہی کو بہرے بن کر سنتے ہیں نہ اپنے قلب و نظر کی توجہ کو کسی دوسری طرف کرتے ہیں، جس طرح اس پر ایمان نہ لانے والوں اور اس کی تصدیق نہ کرنے والوں کا رویہ ہوتا ہے۔ ان کا آیات الٰہی کے سماع کے وقت یہ حال ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (انما یومن بایتنا الذین اذا ذکروا بھا خرو سجدا وسبھوا بحمد ربھم وھم لا یستکبرون) (السجدۃ : 32/15) ” ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں، جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ ریز ہو ہوجاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ “ وہ اپنے آپ کو آیات الٰہی کا محتاج سمجھتے ہوئے انہیں قبول کرتے ہیں اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ (والذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا) ” اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں عطا کر ہماری بیویوں کی طرف سے ” یعنی ہمارے ہم عصروں، ہمارے ساتھیوں اور ہماری بیویوں کی طرف سے (وذریتنا قرۃ اعین) ” اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔ “ یعنی ان کے ذریعے سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ جب ہم ان اللہ کے نیک بندوں کے احوال و اوصاف کا استقراء کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند ہمت اور عالی مرتبہ لوگ ہیں، اس لئے ان کی آنکھیں تب ہی ٹھنڈئی ہوں گی جب وہ انہیں اپنے رب کے حضور مطیع، اس کے متعلق جاننے والے اور نیک اعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ گویا کہ ان کی یہ دعا جو ان کی بیویوں اور ان کی اپنی اولاد کی اصلاح کے لئے ہے، در حقیقت وہ ان کے اپنے ہی لیے ہے۔ کیونکہ اس دعا کا فائدہ خود انہی کی طرف لوٹتا ہے، اس لئے انہوں نے اس کو اپنے لیے ہبہ قرار دیتے ہوئے یوں کہا : (ھب لنا) ” ہمیں عطا فرما۔ “ بلکہ ان کی دعا کا فائدہ عام مسلمانوں کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ مذکورہ لوگوں کی اصلاح سے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوگی جو ان سے متعلق ہیں اور جو ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ (واجعلنا للمتقین اماما) اور ہمیں پر یز گاروں کا امام بنا۔ “ یعنی، اے ہمارے رب ! ہمیں بلنددرجہ یعنی صدیقین اور اللہ کے صالح بندوں کے درجے پہ پہنچے دے اور وہ ہے امامت دینی کا درجہ، نیز یہ کہ وہ اپنے اقوال و افعال میں اہل تقویٰ کے لئے نمونہ بن جائیں لوگ ان کے افعال کی پیروی کریں اور ان کے اقوال پر مطمئن ہوں اور اہل خیر ان کے پیچھے چلیں اور ان سے راہنمائی حاصل کریں۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز تک پہنچے کی دعا ایسی چیز کی دعا ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ درجہ۔۔۔ امامت دین کا درجہ۔۔۔ صبر و یقین کے بغیر اس درجہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا و کانو بایتنا یوقیون) (السجدۃ : 32/24) ” جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین رکھتے رہے، تو ہم نے ان کے اندر راہنما پیدا کردئیے جو ہمارے حکم سے راہنمائی کرتے تھے۔ “ یہ دعا اعمال صالحہ، اطاعت الٰہی پر استقامت اور ثابت قدمی، معاصی سے باز رہنے، المناک تقدیر پر صبر کرنے، علم کامل۔۔۔ جو صاحب علم کو درجہء یقین پر فائز کرتا ہے۔۔۔ خیر کثیر اور عطائے جزیل کو مستلزم ہے۔ نیز یہ دعا اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ وہ انبیاء ومرسلین کے بعد مخلوق میں بلند ترین درجہ پر فائز ہوں۔ چونکہ وہ بلند ہمت اور بلند مقصد لوگ ہیں اس لئے ان کی جزا بھی ان کے عمل کی جنس سے ہوگی، اللہ تعالیٰ انہیں جزا کے طور پر بلند منازل عطا کرے گا، چناچہ فرمایا : (اولئک یجزون الغرفۃ بما صبروا) ” ان لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے۔ “ یعنی انہیں بلند منازل اور خوبصورت مساکن عطا کئے جائیں گے اور ان کے لئے ہر وہ چیز جمع ہوگی جس کی دل خواہش کرے گا اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ یہ سب کچھ انہیں ان کے صبر کی بنا پر عطا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (والملئکۃ ید خلون علیھم من کل باب۔ سلم علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار) (الرعد : 13/23، 24) ” فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ سب کچھ اس بنا پر عطا ہوا کہ تم نے صبر کیا تھا، کیا ہی اچھا ہے آخرت کا گھر۔ “ اس لئے یہاں فرمایا : (ویلقون فیھا تحیۃ وسلم ا) ” اور وہ ان سے دعا وسلام سے ملاقات کریں گے۔ “ یعنی ان کو ان کے رب کی طرف سے سلام بھیجا جائے گا، عالی قدر فرشتے ان کو سلام کہیں گے اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور وہ ہر قسم کے تکدر اور ناخوشگواری سے محفوظ ہوں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں وقار، سکنیت، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے لئے تواضع اور انکسار، حسن ادب، بردباری، وسعت اخلاق، جہلاء سے درگزر اور اعراض، ان کے برے سلوک کے مقابلے میں حسن سلوک، تہجد، اس میں اخلاص، جہنم سے خوف، اس (جہنم) سے اپنی نجات کے لئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑانے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں واجب اور مستحب نفقات میں سے خرچ کرنے اور اس میں اعتدال کی راہ اختیار کرنے جیسے اوصاف سے ان کو موصوف کیا ہے۔ جب خرچ کرنے میں، جس کے بارے میں عادۃًزافراط وتفریط سے کام لیا جاتا ہے، وہ اعتدال کو اختیار کرتے ہیں تو دیگر معاملات میں ان کی میانہ روی تو بدرجہ اولیٰ ہوگی۔ وہ کبائر سے محفوط ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص، جان اور ناموس کے معاملات میں عفت اور کسی گناہ کے صادر ہونے پر توجہ جیسی صفات سے متصف ہیں نیز وہ ایسی تقریبات اور مجالس میں حاضر نہیں ہوتے جن میں منکرات اور قوالی و فعلی فسق و فجور ہو اور نہ وہ خود اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ لغویات اور ایسے گھٹیا افعال سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں، جن میں کوئی فائدہ نہیں اور یہ چیز ان کی مروت، انسانیت اور ان کے کمال کو مستلزم ہے نیز اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ قولی و فعلی طور پر خسیس افعال سے بالا و بلند تر ہیں۔ وہ آیات الٰہی کا قبولیت کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ان کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان پر عمل کرتے ہیں، ان کے احکام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کو کامل ترین طریقے سے پکارتے ہیں جس سے وہ خود فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے متعلقین فائدہ اٹھاتے ہیں، اور ان کی اولاد اور ان کی بیویوں کی اصلاح سے تمام مسلمان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان تمام امور کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہیں، انہیں نصیحت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ رکھتے ہیں کیونکہ جو کوئی کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے وہ لازمیطور پر اس کے لئے اسباب بھی اختیار کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے بلند ترین درجات پر پہنچنے کی دعا کرتے ہیں جہاں تک پہنچنا ان کے لئے ممکن ہے اور وہ امامت اور صدیقیت کا درجہ ہے۔۔۔ اللہ کی قسم ! یہ کتنی بلند مرتبہ صفات ہیں، یہ کتنی بلند ہمتی ہے، یہ کتنے جلیل القدر مقاصد ہیں، یہ نفوس کتنے پاک اور یہ قلوب کتنے طاہر ہیں، یہ چنے ہوئے لوگ کتنے پاکیزہ اور یہ سادات کتنے متقی ہیں ! یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل، اس کی نعمت اور اس کی رحمت ہے جس نے ان کو ڈھانپ لیا ہے اور یہ اس کا لطف و کرم ہے جس نے ان کو بلند مقامات تک پہنچایا۔ اللہ کی قسم ! یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت ہے کہ اس نے ان کے سامنے اپنے ان بلند ہمت بندوں کے اوصاف بیان فرمائے، ان کی نشانیاں بیان کیں، ان کے سامنے ان کی ہمت اور عزائم آشکارا کئے اور ان کا اجرواضح کیا تاکہ ان میں بھی ان اوصاف سے متصف ہونے کا اشتیاق پیدا ہو اور یہ بھی اس راستے میں جدوجہد کریں اور وہ اس ہستی سے سوال کریں، جس نے اپنے ان بندوں پر احسان کیا، جس نے ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز فرمایا اور جس کا فضل و کرم ہر زمان و مکان میں ہر وقت اور ہر آن عام ہے۔۔۔ کہ وہ انہیں بھی ہدایت سے نوازے جیسے ان کو ہدایت سے نوازا یہ اور اپنی تربیت خاص کے ذریعے سے ان کی بھی سرپرستی فرمائے جیسے ان کی سرپرستی فرمائی ہے۔ اے اللہ ! ہر قسم کی ستائش کا صرف تو ہی مستحق ہے، میں صرف تیرے ہی پاس شکوہ کرتا ہوں، تجھ ہی سے اعانت طلب کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ مجھ میں گناہ سے بچنے کی طاقت اور نہ نیکی کرن کی مگر صرف تیری توفیق کے ساتھ۔ ہم خود اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں اور اگر تو ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا کرکے نیکی کو ہمارے لئے آسان نہ کرے تو ہم ذرہ برابر بھی نیکی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، ہم ہر لحاظ سے نہایت کمزور اور عاجز بندے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اگر تو ایک لمحے کے لئے بھی ہمیں ہمارے نفس کے حوالے کردے تو گویا تو نے ہمیں کمزوری، عجز اور گناہ کے حوالے کردیا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم صرف تیری رحمت پر بھروسہ کرتے ہیں جس کی بنا پر تو نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق عطا کیا، ہمیں ظاہری اور باطنی نعمتوں سے سرفراز کیا اور تکلیفوں اور سختیوں کو ہم سے دور کیا، ہم پر ایسی رحمت کا سایہ کر جو ہمیں تیری رحمت کے سوا ہر رحمت سے بےنیاز کردے۔ پس جو کوئی تجھ سے سوال کرتا ہے اور تجھ سے امیدیں باندھتا ہے وہ کبھی خائب و خاسر نہیں ہوتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کی اپنی رحمت کی طرف اضافت کی ہے اور ان کے فضل و شرف کی وجہ سے ان کو عبودیت سے مختص کیا ہے اس لئے کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا ہے کہ ان مذکورہ لوگوں کے سوا وہ بذات خود اور دوسرے لوگ عبودیت میں داخل کیوں نہیں ہوسکتے ؟ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ اس کو ان مذکورہ لوگوں کے سوا کسی کی پروا نہیں۔ اگر تم نے دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ میں اسے نہ پکارا ہوتا تو وہ تمہاری کبھی پروا کرتا نہ تم سے محبت کرتا، چناچہ فرمایا : (قل ما یعبوا بکم ربی لو لا دعاء کم فقد کذبتم فسوف یکون لزاما) ” کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ کو نہ پکارتے تو میرا رب بھی تمہاری کچھ پروا نہ کرتا۔ پس تم نے تکذیب کی ہے سو اس کی سزا لازم ہوگی۔ “ یعنی عذاب تم سے اس طرح چپک جائے گا جس طرح قرض خواہ مقروض سے چپک جاتا ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اور اپنے مومن بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔
Top