Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر دبے پاؤں اور جب بات کرنے لگیں ان سے بےسمجھ لوگ تو کہیں صاحب سلامت
خلاصہ تفسیر
اور (حضرت) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں (مطلب یہ کہ ان کے مزاج میں تواضح ہے تمام امور میں اور اسی کا اثر چلنے میں بھی ظاہر ہوتا ہے اور خاص چال کی ہیئت بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ دماغ داری کے ساتھ نرم رفتاری موجب مدح نہیں اور یہ تواضح تو ان کا طرز خاص اپنے اعمال میں ہے) اور (دوسروں کے ساتھ ان کا طرز یہ ہے کہ) جب ان سے جہالت والے لوگ (جہالت کی) بات (چیت) کرتے ہیں تو وہ رفع شر کی بات کہتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ اپنے نفس کے لئے انتقام قولی یا فعلی نہیں لیتے اور جو خشونت تادیب و اصلاح و سیاست شرعیہ یا اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے ہو اس کی نفی مقصود نہیں) اور جو (اللہ کے ساتھ اپنا یہ طرز رکھتے ہیں کہ) راتوں کو اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام (یعنی نماز) میں لگے رہتے ہیں اور جو (باوجود ادائے حقوق اللہ و حقوق العباد کے اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرتے ہیں کہ) دعائیں مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھئے کیونکہ اس کا عذاب پوری تباہی ہے، بیشک وہ جہنم برا ٹھکانا اور برا مقام ہے (یہ تو ان کی حالت طاعات بدنیہ میں ہے) اور (طاعات مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے) وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں (کہ معصیت میں صرف کرنے لگیں) اور نہ تنگی کرتے ہیں (کہ اطاعت ضروریہ میں بھی خرچ کی کوتاہی کریں اور اسراف میں وہ خرچ بھی آ گیا کہ بلاضرورت استطاعت سے زیادہ مباحات میں یا طاعات غیر ضروریہ میں خرچ کریں جس کا انجام اخیر میں بےصبری اور حرص و بد نیتی ہو کیونکہ یہ امور معصیت ہیں اور جو چیز معصیت کا سبب بنے وہ بھی معصیت ہے اس لئے وہ بھی معصیت ہی میں خرچ کرنا انجام کار ہوگیا۔ اسی طرح طاعات ضروریہ میں بالکل خرچ نہ کرنے کی مذمت لَمْ يَـقْتُرُوْا سے مفہوم ہوگئی کیونکہ جب خرچ میں کمی کرنا جائز نہیں تو عدم انفاق تو بدرجہ اولی ناجائز ہوگا پس یہ شبہ نہ رہا کہ خرچ میں کمی کرنے کی تو نفی اور نہی ہوگئی لیکن عدم الانفاق بالکلیہ کی نفی اور نہی نہ ہوئی، غرض وہ انفاق میں افراط وتفریط دونوں سے مبرا ہیں) ان کا خرچ کرنا اس (افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے (اور یہ حالت مذکورہ تو طاعات کی ادائیگی سے متعلق تھی) اور جو (گناہ سے بچنے میں یہ شان رکھتے ہیں) کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے (جو معصیت متعلق عقائد کے ہے) اور جس شخص (کے قتل کرنے) کو اللہ تعالیٰ نے (قواعد شرعیہ کی رو سے) حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہیں مگر حق پر (یعنی جب قتل کے وجوب یا اباحت کا کوئی سبب شرعی پایا جاوے اس وقت اور بات ہے) اور وہ زنا نہیں کرتے (کہ یہ قتل و زنا اعمال کے متعلقہ گناہوں میں سے ہیں) اور جو شخص ایسے کام کرے گا (کہ شرک کرے یا شرک کے ساتھ قتل ناحق بھی کرے یا زنا بھی کرے جیسے مشرکین مکہ تھے) تو سزا سے اس کو سابقہ پڑے گا کہ قیامت کے روز اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا (جیسا کفار کے حق میں دوسری آیات میں آیا ہے زِدْنٰهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ) اور وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل (و خوار) ہو کر رہے گا (تاکہ عذاب جسمانی کے ساتھ ذلت کا عذاب روحانی بھی ہو اور شدت عذاب یعنی تضاعف کے ساتھ مقدار کی زیادتی یعنی خلود بھی ہو اور مراد اس وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ سے کفار و مشرکین ہیں بقرنیہ یضاعف و یخلد و مہاناً و آمن کیونکہ مومن گناہگار کے لئے عذاب میں زیادتی اور خلود نہ ہوگا بلکہ اس کا عذاب اس کو پاک صاف کرنے کے لئے ہوگا نہ کہ اہانت کے لئے اور اس کے لئے تجدید ایمان کی ضرورت نہیں صرف توبہ کافی ہے جس کا آگے بیان ہے وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ الخ نیز قرائن مذکورہ کے سوا صحیحین میں ابن عباس سے شان نزول بھی اس کا یہی منقول ہے کہ مشرکین کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی) مگر جو (شرک و معاصی سے) توبہ کرلے اور (اس توبہ کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ) ایمان (بھی) لے آوے اور نیک کام کرتا رہے (یعنی ضروری طاعات کو بجا لاتا رہے) تو (اس کو جہنم میں خلود تو کیا ہوتا جہنم سے ذرا بھی مس نہ ہوگا بلکہ) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے (گزشتہ) گناہوں (کو محو کر کے ان) کی جگہ (آئندہ) نیکیاں عنایت فرمائے گا (یعنی چونکہ گزشتہ کفر و گناہ زمانہ کفر کے بعد اسلام کی برکت سے معاف ہوجاویں گے اور آئندہ بوجہ اعمال صالحہ کے حسنات لکھی جاتی رہیں گی اور ان پر ثواب ملے گا اس لئے جہنم سے ان کا کچھ تعلق نہ ہوگا پس الا استثناء منقطع ہے اور مَنْ تَابَ کی خبر فَاُولٰۗىِٕكَ الخ ہے اور مقصود بالحکم تبدیل سیئات بالحسنات ہے جو مجموعہ ایمان و توبہ و عمل صالح پر مرتب ہے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رہنا اس کا لازمی اثر ہے اور جہنم میں دخول ہی نہیں تو خلود نہ ہونا ظاہر ہے، یا استثناء متصل ہو اور عدم خلود کے لئے مجموعہ ایمان و توبہ و عمل صالح شرط نہ ہو مگر مجموعہ کے ساتھ عدم خلود کا پایا جانا اس آیت میں مذکور ہوا اور صرف ایمان پر عدم خلود کا مرتب ہونا دوسرے دلائل سے ثابت ہو) اور (یہ محو سیئات و ثبت حسنات اس لئے ہوا کہ) اللہ تعالیٰ غفور ہے (اس لئے سیئات کو محو کردیا اور) رحیم ہے (اس لئے حسنات کو قائم فرمایا۔ یہ تو تائب عن الکفر کا بیان تھا۔) اور (آگے اس مومن کا ذکر ہے جو گناہ سے توبہ کرے تاکہ مضمون توبہ کا پورا ہوجائے و نیز مقبول بندوں کے بقیہ اوصاف کا بیان ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ طاعات کے پابند اور سیئات سے پرہیز کے عادی رہتے ہیں لیکن اگر احیاناً صدور معصیت ہوجائے تو توبہ کرلیتے ہیں اس لئے تائبین کا حال ارشاد فرمایا (یعنی) جو شخص (جس معصیت سے) توبہ کرتا ہے اور نیک کام کرتا ہے (یعنی آئندہ معصیت سے بچتا ہے) تو وہ (بھی عذاب سے بچا رہے گا کیونکہ وہ) اللہ تعالیٰ کی طرف خاص طور پر رجوع کر رہا ہے (یعنی خوف و اخلاص کے ساتھ کہ شرط توبہ ہے، آگے پھر عباد رحمٰن کے اوصاف بیان فرماتے ہیں یعنی) اور (ان میں یہ بات ہے کہ) وہ بیہودہ باتوں میں (جیسے لہو و لعب خلاف شرع) شامل نہیں ہوتے اور اگر (اتفاقاً بلاقصد) بیہودہ مشغلوں کے پاس کو ہو کر گزریں تو سنجیدگی (و شرافت) کے ساتھ گزر جاتے ہیں (یعنی نہ اس کی طرف مشغول ہوتے ہیں اور نہ ان کے آثار سے گناہگاروں کی تحقیر اور اپنا ترفع اور تکبر ظاہر ہوتا ہے) اور وہ ایسے ہیں کہ جس وقت ان کو اللہ کے احکام کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان (احکام) پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے (جس طرح کافر قرآن پر ایک نئی بات سمجھ کر تماشے کے طور پر اور نیز اس میں اعتراضات پیدا کرنے کے لئے اس کے حقائق و معارف سے اندھے بہرے ہو کر اندھا دھند بےترتیب ہجوم کرلیتے تھے جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کا ارشاد ہے کادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا (علی بعض التفاسیر) سو عباد مذکورین ایسا نہیں کرتے، بلکہ عقل و فہم کے ساتھ قرآن پر متوجہ اور اس کی طرف دوڑتے ہیں جس کا ثمرہ زیادہ ایمان و عمل بالاحکام ہے پس مقصود آیت میں اندھے بہرے ہونے کی نفی کرنا ہے نہ کہ قرآن کی طرف شوق کے ساتھ متوجہ ہونے اس پر گرنے کی، کیونکہ وہ عین مطلوب ہے۔ اور اس سے کافر کے لئے بھی قرآن پر گرنا تو ثابت ہوتا ہے مگر وہ مخالفت اور مزاحمت کے طور پر اور اندھے بہروں کی طرح تھا اس لئے وہ مذموم ہے) اور وہ ایسے ہیں کہ (خود جیسے دین کے عاشق ہیں اسی طرح اپنے اہل و عیال کے لئے بھی اس کے ساعی اور داعی ہیں، چناچہ عملی کوشش کے ساتھ حق تعالیٰ سے بھی) دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیبیوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی راحت) عطا فرما (یعنی ان کو دیندار بنا دے اور ہم کو ہماری اس سعی دینداری میں کامیاب فرما کر ان کو دینداری میں کامیاب فرما کہ ان کو دینداری کی حالت میں دیکھ کر راحت اور سرور ہو) اور (تو نے ہم کو ہمارے خاندان کا افسر تو بنایا ہی ہے مگر ہماری دعا یہ ہے کہ ان سب کو متقی کر کے) ہم کو متقیوں کا افسر بنا دے (تو اصل مقصود افسری مانگنا نہیں ہے گو اس میں بھی قباحت نہیں مگر مقام دلالت نہیں کرتا بلکہ اصل مقصود اپنے خاندان کے متقی ہونے کی درخواست ہے یعنی بجائے اس کے کہ ہم صرف خاندان کے افسر ہیں ہم کو متقی خاندان کا افسر بنا دیجئے، یہاں تک عباد رحمان کے اوصاف کا بیان تھا آگے ان کی جزا ہے یعنی) ایسے لوگوں کو (بہشت میں رہنے کو) بالاخانے ملیں گے بوجہ ان کے (دین و اطاعت پر) ثابت قدم رہنے کے اور ان کو اس (بہشت) میں (فرشتوں کی جانب سے) بقاء کی دعا اور سلام ملے گا (اور) اس (بہشت) میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، وہ کیسا اچھا ٹھکانا اور مقام ہے (جیسا جہنم کے بارے میں سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا فرمایا ہے، اے پیغمبر ﷺ آپ (عام طور پر لوگوں سے) کہہ دیجئے کہ میرا رب تمہاری ذرا بھی پروا نہ کرے گا اگر تم عبادت نہ کرو گے سو (اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ اے کفار) تم تم (احکام الہیہ کو) جھوٹا سمجھتے ہو تو عنقریب یہ (جھوٹا سمجھنا تمہارے لئے) وبال (جان) ہو (کر رہے) گا، (خواہ دنیا میں جیسے واقعہ بدر میں کفار پر مصیبت آئی یا آخرت میں اور وہ ظاہر ہے۔)

معارف و مسائل
سورة فرقان کے بیشتر مضامین رسول اللہ ﷺ کی رسالت و نبوت کے ثبوت اور کفار و مشرکین جو اس پر اعتراض کرتے تھے ان کے جوابات پر مشتمل تھے اور اس میں کفار و مشرکین اور احکام کی نافرمانی کرنے والوں پر عذاب و سزا کا بھی ذکر تھا۔ آخر سورت میں اپنے ان مخصوص اور مقبول بندوں کا ذکر فرماتے ہیں جن کا رسالت پر ایمان بھی مکمل ہے اور ان کے عقائد اعمال، اخلاق، عادات سب اللہ و رسول کی مرضی کے تابع احکام شرعیہ کے مطابق ہیں۔
قرآن کریم نے ایسے مخصوص بندوں کو عباد الرحمٰن کا لقب عطا فرمایا جو ان کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یوں تو ساری ہی مخلوق تکوینی اور جبری طور پر اللہ کی بندگی اور اس کی مشیت و ارادہ کے تابع ہے اس کے ارادے کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ مگر یہاں بندگی سے مراد تشریعی اور اختیاری بندگی ہے یعنی اپنے اختیار سے اپنے وجود اور اپنی تمام خواہشات اور تمام کاموں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع بنادینا ایسے مخصوص بندے جن کو حق تعالیٰ نے خود اپنا بند کہہ کر عزت بخشی ہے ان کے اوصاف آخر سورت تک بیان کئے گئے ہیں درمیان میں کفر و معصیت سے توبہ اور اس کے اثرات کا ذکر آیا ہے۔
یہاں ان مخصوص بندوں کو اپنا بندہ فرما کر ان کو اعزازی لقب دینا تھا مگر اپنی طرف نسبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے سب اسماء حسنی اور صفات کمال میں سے اس جگہ لفظ رحمن کا انتخاب شاید اس لئے کیا گیا کہ مقبولین کی عادات وصفات اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کی ترجمان اور مظہر ہونا چاہئیں اس کی طرف اشارہ کرنا منظور ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی مخصوص صفات و علامات
آیات مذکورہ میں اللہ کے مخصوص اور مقبول بندوں کی تیرہ صفات و علامات کا ذکر آیا ہے جن میں عقائد کی درستی اور اپنے ذاتی اعمال میں خواہ وہ بدن سے متعلق ہوں یا مال سے، سب میں اللہ و رسول کے احکام اور مرضی کی پابندی۔ دوسرے انسان کے ساتھ معاشرت اور تعلقات کی نوعیت، رات دن کی عبادت گزاری کے ساتھ خوف خدا۔ تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام اور اپنے ساتھ اپنی اولاد و ازواج کی اصلاح کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔
ان کا سب سے پھلا وصف عباد ہونا ہے۔ عباد عبد کی جمع ہے عبد کا ترجمہ ہے بندہ جو اپنے آقا کا مملوک ہو، اس کا وجود اور اس کے تمام اختیارات و اعمال آقا کے حکم ومرضی پر دائر ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا بندہ کہلانے کا مستحق وہی شخص ہوسکتا ہے جو اپنے عقائد و خیالات کو اور اپنے ہر ارادے اور خواہش کو اور اپنی ہر حرکت و سکون کو اپنے رب کے حکم اور مرضی کے تابع رکھے ہر وقت گوش برآواز رہے کہ جس کام کا حکم ہو وہ بجا لاؤں۔
دوسری صفتيَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا، یعنی چلتے ہیں وہ زمین پر تواضع کے ساتھ لفظ ہوں کا مفہوم اس جگہ سکینت و وقار اور تواضع ہے کہ اکڑ کر نہ چلے، قدم مکتبرانہ انداز سے نہ رکھے بہت آہستہ چلنا مراد نہیں، کیونکہ وہ بلا ضرورت ہو تو خلاف سنت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چلنے کی جو صفت شمائل نبویہ میں منقول ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا چلنا بہت آہستہ نہیں بلکہ کسی قدر تیزی کے ساتھ تھا۔ حدیث میں ہے کانما الارض تطوی لہ، یعنی آپ ایسا چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے لئے سمٹتی ہے (ابن کثیر) اسی لئے سلف صالحین نے بتکلف مریضوں کی طرح آہستہ چلتے کو علامت تکبر و تصنع ہونے کے سبب مکروہ قرار دیا ہے۔ فاروق اعظم نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ بہت آہستہ چل رہا ہے، پوچھاکیا تم بیمار ہو۔ اس نے کہا نہیں، تو آپ نے اس پر درہ اٹھایا اور حکم دیا کہ قوت کے ساتھ چلا کرو۔ (ابن کثیر)
حضرت حسن بصری نے اس آیت يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا کی تفسیر میں فرمایا کہ مومنین مخلصین کے تمام اعضاء وجوارح آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں سب اللہ کے سامنے ذلیل و عاجز ہوتے ہیں ناواقف ان کو دیکھ کر معذور عاجز سمجھتا ہے حالانکہ نہ وہ بیمار ہیں نہ معذور بلکہ تندرست قوی ہیں مگر ان پر حق تعالیٰ کا خوف ایسا طاری ہے جو دوسروں پر نہیں ہے۔ ان کو دنیا کے دھندوں سے آخرت کی فکر نے روکا ہوا ہے اور جو شخص اللہ پر بھروسہ نہیں کرتا اور اس کی ساری فکر دنیا ہی کے کاموں میں لگی رہتی ہے تو وہ ہمیشہ حسرت ہی حسرت میں رہتا ہے (کہ دنیا تو ساری ملتی نہیں اور آخرت میں اس نے حصہ نہیں لیا) اور جس شخص نے اللہ کی نعمت صرف کھانے پینے کی ہی چیزوں کو سمجھا ہے اور اعلی اخلاق کی طرف دھیان نہیں دیا، اس کا علم بہت تھوڑا ہے اور عذاب اس کے لئے تیار ہے۔ (از ابن کثیر ملخصاً)
تیسری صفتوَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا یعنی جب جہالت والے ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں، سلام۔ یہاں جاہلون کا ترجمہ جہالت والوں سے کر کے یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مراد اس سے بےعلم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو۔ اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گناہگار نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد، مقاتل وغیرہ سے منقول ہے۔ (مظہری)
حاصل یہ ہے کہ بیوقوف جاہلانہ باتیں کرنے والوں سے یہ حضرات انتقامی معاملہ نہیں کرتے بلکہ ان سے درگزر کرتے ہیں۔
Top