Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور (خدائے) رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں،73۔ اور جب ان سے جہالت والے لوگ بات چیت کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں خیر،74۔
73۔ یعنی بجائے فخر و غرور وتمکنت کے جو جاہلیت اور جاہلی قوموں کا شعار خاص ہے ان کے مزاج میں نرمی و تواضع غالب آگئی ہے۔ یہاں تک کہ چال میں اس کا اثر ظاہر ہونے لگا ہے۔ مقصود یہاں رفتار کی کوئی مخصوص ہئیت نہیں بلکہ محض تواضع و انکسار کا بیان ہے۔ المراد مدجسم بالسکینۃ والوقار فیہ (روح) رکوع میں اللہ کے بندگان خاص کے جو اوصاف بیان ہورہے ہیں گوعمومی رنگ میں ہیں تاہم براہ راست اس کے مصداق خود رسول کے معاصر مومنین یعنی صحابہ کرام ہیں جو ابھی ابھی شرک کے دین اور جہالت کے آئین کو چھوڑ کر داخل اسلام ہوئے ہیں رسول کی صحبت سے ان کی قلب ماہیت ہوچکی ہے۔ رکوع کی تفسیر مزید کے لیے ملاحظہ ہوراقم آثم کا ایک مقالہ ” مردوں کی مسیحائی “ کے عنوان سے بہ طور ضمیمہ کے سورت کے خاتمہ پر۔ (آیت) ” عباد الرحمن “۔ میں بندوں کی اضافت رحمن کی جانب ان کے اظہار خصوصیت وفضیلت کے لیے ہے۔ ورنہ تکوینی طور پر تو سارے انسان رحمن ہی کے بندے ہیں۔ ھذہ الاضافۃ للتخصیص والتفضیل والا فالخلق کلھما عباد اللہ (معالم) 74۔ (اور اپنے نفس کے لیے انتقام قولی وفعلی کے درپے نہیں ہوجاتے) (آیت) ” سلما “۔ ” خیر “ اردو محاورہ میں ایسے ہی موقع پر آتا ہے۔ جہاں بات کو ختم کردینا اور پی جانا منظور ہوتا ہے۔ یہ سلام ” تسلیم “ سے نہیں، ” تسلم “۔ سے ہے جو علیحدگی وبرأت کے موقع پر آتا ہے۔ لیس سلاما من التسلیم انما ھو من التسلم۔ تقول العرب سلاما اے تسلما منک اے براءۃ منک (قرطبی) یعنی یہ لوگ نہ صرف اپنے معاملات میں متواضع ومنکسر ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلہ کے وقت بھی ضبط و تحمل کے پیکر بنے رہتے ہیں اور از خود کسی پر زیادتی کرنا الگ رہا، جب دوسرے ان پر زیادتی کرنے لگتے ہیں، جب بھی اشتعال قبول کرکے آمادۂ جنگ نہیں ہوجاتے، غرض حقوق اللہ وحقوق العباد دونوں کی ادائی میں سرگرم رہتے ہیں۔ ” جو خشونت، تادیب واصلاح وسیاست شرعیہ یا اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ہو، اس کی نفی مقصود نہیں۔ “ (تھانوی (رح) (آیت) ” الجھلون “ جہالت والوں سے مراد ہر وہ شخص ہوتا ہے جو بات جہالت کی کرے، مگر جس طرح جاہلیت کا اطلاق خاص طور پر شرک قبل الاسلام پر ہوتا ہے (آیت) ” الجھلون “ سے بھی مراد خصوصیت کے ساتھ وہی دور قبل اسلام کے مشرکین ہیں۔
Top