Mazhar-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور1 رحمن کے (خاص) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ یعنی عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے (جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں : (بس) سلام ہے۔
اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات کا ذکر۔ (ف 1) پہلے کی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جن کے روبرو اللہ کی صفت رحمن بنائی جاتی تھی تو وہ بدکتے تھے ایسے لوگوں کے قائل کرنے کے لیے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے رحمن کے بندوں کی یہ چند صفتیں بیان فرمائیں کہ وہ لوگ جب زمین پرچلتے پھرتے ہیں تو اترا کر نہیں چلتے اور رحمن کے بندوں میں یہ بھی اچھی عادت ہے کہ وہ رات کو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ اور قیام میں عاجزی کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں ۔ ابن عباس نے فرمایا کہ جس کسی نے بعد عشا دو رکعت یا زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والے میں داخل ہے ۔ مسلم میں حضرت عثمان غنی ؓ سے مروی ہے کہ جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اس نے نصف شب کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے فجر بھی باجماعت ادا کی وہ تمام شب کے عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔ آگے فرمایا کہ رحمن کے بندوں میں یہ عادت ہے کہ وہ دوزخ کے عذاب سے بچنے کی دعا مانگتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ دوزخ براٹھکانہ اور اس کا عذاب سخت ہے۔ اور حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص دوزخ کی آگ سے پناہ مانگتا رہے گا تو اللہ اسے دوزخ کی آگ سے نجات دے گا آگے فرمایا کہ رحمن کے بندوں میں یہ بھی عادت ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے وقت اور خرچ کرنے سے ہاتھ کو روکتے وقت شریعت کی حد سے نہیں بڑھتے۔ بخاری ومسلم میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اور معتبر سند سے مسند امام احمد میں ابن عباس سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ نیک کام میں خرچ کرنے والوں کے مال کے بڑھنے اور ایسے خرچ سے ہاتھ کو روکھنے والوں کے گھٹ جانے کے لیے ہر روز اللہ کے دوفرشتے دعامانگتے رہتے ہیں مگر جس شخص کے ذمہ کسی کا کچھ قرض ہو تو اس کو چاہیے کہ قرض کی ادائیگی کے موافق مال بچا کرخیرات کرے آیتوں کا مطلب میں اوپر یہ جو بیان کیا گیا ہے کہ خرچ کرنے میں اور خرچ سے ہاتھ کو روکنے میں شریعت کی حد سے نہ بڑھنا چاہیے ان کی تفسیر ان روایتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مثلا کوئی قرض دار ادائے قرض کا خیال نہ رکھے اور اپنا سارامال صدقہ خیرات میں خرچ کردے تو وہ اس خرچ میں گویا حد شریعت سے بڑھ گیا اسی طرح ہر طرح کی گنجائش کے ہوتے ہوئے جو شخص صدقہ خیرات سے ہاتھ روکے گا تو وہ بھی خرچ سے ہاتھ کو روکنے میں یہاں تک حد شریعت سے دورجاپڑا کہ ایسے شخص کے مال کے گھٹ جانے کی بددعا اللہ کے فرشتوں کی زبان سے نکلے گی۔
Top